ایک پیکٹ زندگی

مجیر احمد آزاد (دربھنگہ)

بارش تھی کہ رکنے کا نام نہیں لے رہی تھی جیسے آسمان میں سوراخ ہوگیا ہو ندیاں ابلنے لگی تھیں۔ دیکھتے ہی دیکھتے تارا لاہی گاؤں، چہار سمت پانی سے گھر گیا۔ قریب چالیس کنبوں پر مشتمل آبادی کی اس چھوٹی بستی کے لوگ پریشان ہو اٹھے۔ پہلے تو گھروں میں تخت پر تخت ڈال کر بال بچوں سمیت پانی سے بچنے کی ترکیب کی گئی۔ اس سے بھی نجات نہیں ملی تو محلے کے نو تعمیر شدہ چھت دار پختہ مکانوں کی طرف رجوع کرنے لگے۔ گنپتی نے بھی بہ دقت تمام اپنی بوڑھی ماں اور تلے اوپر سات سال کی عمر تک کے چار بچوں کو کمل ناتھ کے مکان کی چھت پر پہنچادیا جہاں پہلے سے ہی دو خاندان کھلے آسمان کے نیچے بسیرا لیے ہوئے تھے۔ اب پوری بستی جزیرہ کی شکل اختیار کرچکی تھی۔ ہائی وے سے بستی تک آنے والی سڑک کا پتہ نہیں تھا۔ آبادی سے نکلنے والے سارے راستے بند ہوگئے تھے جس طرف نگاہ جاتی پانی ہی پانی نظر آتا تھا۔

تارا لاہی میں بسنے والی آبادی نے سیلاب تو دیکھا تھا مگر سیلاب کی اس خطرناک صورت سے سبھی انجان تھے۔ بوڑھے، جوان اور بچے سبھی خوف سے ایک دوسرے کا چہرہ تک رہے تھے۔ گاؤں میں سب سے اونچی جگہ پر کمر تک پانی تھا۔ گھنٹہ دو گھنٹہ، چار گھنٹہ، پھر آدھا دن توبچوں نے صبر کیا پھر کلبلانے لگے۔ اپنی ماؤں سے کھانے کی ضد کرنے لگے۔ پوٹلیاں کھلنے لگیں اور بچے چاول پھانکنے لگے۔ چند کنبے ایسے بھی تھے جن کے پاس کچھ بھی نہ تھا۔ ان کی بھی مدارات سوکھے چاول سے کی گئی۔ ہر طرف پانی تھا، لیکن پینے کے لیے نہیں۔ بچے کچھ دیر شوق سے چاول چباتے رہے پھر پانی کی ضرورت آن پڑی۔ آبادی میں موجود تمام نل ڈوبے ہوئے تھے۔ یہ ایسی آفت تھی کہ سب لاچار، بے بس، مجبور و بے کس تھے۔

جوانوں نے ہمت دکھائی۔ پرانی کشتی کو کھینچ کر چھت پر پہنچایا۔ پرانے کپڑے اور تارکول سے اس کی مرمت ہوئی اور پانی میں ڈال کر سیلاب زدہ بستی کی راحت رسانی میں جٹ گئے۔ انھیں اپھنتی ندی کا اندازہ تھا مگر طغیانی ایسی تھی کہ کشتی کا سنبھالنا مشکل تھا لیکن بستی کے لوگوں کی حالت اور کسمپرسی ہمت بن کر سامنے آگئی تھی۔ اس طرح ہائی وے تک کا سفر پورا ہوا اوردوسرے گاؤں کے حالات معلوم ہوئے۔ تارا لاہی کے نوجوان دستے میں گنپتی بھی شامل تھا۔ اس نے سڑک کے اس پار نیم شہری آبادی میں چند نیتا ٹائپ کے لوگوں سے ملاقات کی۔ جو الیکشن کے وقت تارا لاہی میں آیا کرتے تھے۔ ان لوگوں نے انتظامیہ کو تو کوسا اور حکومت کے رویے پر افسوس بھی کیا مگر ان سے فوری مدد نہ ہوسکی۔ ملنے ملانے میں وقت لگ رہا تھا اور نوجوان ضروری سامان خرید کر واپس ہونا چاہتے تھے۔ انہیں گھر کے باقی افراد کی یاد جو آرہی تھی۔ گنپتی کو اپنے چھوٹے بچوں کا خیال آرہا تھا۔ اسے پلاسٹک خریدنی تھی ورنہ دھوپ اور بارش میں کھلے آسمان تلے بچوں کی حالت ناگفتہ بہ ہوسکتی تھی۔ اس لیے ان سے جلد ہی رخصت ہولیے۔

جوانوں کا دستہ بستی کی طرف روانہ ہوا اور شہری آبادی میں خبر گشت کرنے لگی۔ ہائی وے سے گاؤں دکھائی تو ضرور دیتا تھا لیکن پہنچنے میں اس کی مسافت تین کلو میٹر سے کم نہ تھی۔ تارا لاہی کے بے یارومددگار ہونے کی خبر سیاسی حلقے میں سنی گئی تو اچھے برے دونوں ردعمل ہونے لگے۔ ایک پارٹی لیڈر نے وہاں سے ووٹ نہ ملنے کا جواز لے کر اس طرف توجہ نہ دینے کا اشارہ دیا۔ برسراقتدار جماعت کے سفید پوشوں کی باچھیں کھل اٹھیں، سیلاب سے متاثرہ گاؤں کی باز آبادکاری کے نام پر ان کو فائدہ جو ہونا تھا۔ ان کی بھاگ دوڑ انتظامیہ تک ہونے لگی۔ جہاں سے گاؤں کا راستہ جاتا تھا وہاں تک گاڑیاں دوڑنے لگیں۔ دور سے نظارے ہوئے، پھر بوٹ کا انتظام ہوا۔ جلدی جلدی انتظامیہ نے بے مزہ کھچڑی کی دیگ وہاں تک پہنچائی نوجوانوں نے بھوک سے تڑپتے ہوئے بچوں کو بڑی مشکل سے ابلے چاول پروسے تو زندگی کی رمق ان کے چہرے پر لوٹ آئی۔ وہاں سے سیلاب زدہ آبادی کو نکالنے پر غوروخوض ہونے لگا، لیکن سرکاری بوٹ پھر آنے کا وعدہ کرکے واپس مڑ گئی۔

حزب اختلاف کے لیڈر کو اس سے بہتر موقع اورکیا مل سکتا تھا۔ اس نے نشانہ سادھنا شروع کیا۔ سرکار کی نااہلی اور انتظامیہ کی چشم پوشی پر لمبی لمبی تقریریں ہونے لگیں۔ آکاشوانی پر سیلاب میں پھنسے لوگوں کے لیے مشورے دیے جانے لگے۔ دن بھر میں ایک آدھ بار فلاحی تنظیموں کی کشتیاں اونچے مکان کے سائے میں کھڑی ہوتیں اور غذا کے ساتھ کچھ ضروری دوائیاں دے کر خالی کشتی میں دعائیں بٹور کر لے جاتیں۔ سرکاری راحت کے لیے اعداد و شمار اکٹھا کیے جاتے رہے مگر راحت ندارد رہی۔ ایسے میں رات کے سناٹے میں نیلم دائی کے پیٹ میں درد شروع ہوا۔ وہاں موجود کچھ دوائیاں انہیں دی گئیں مگر بیماری نے اپنا رنگ دکھانا شروع کیا۔ جب تک اٹھا کر کشتی میں ڈالا جاتا اس نے زندگی تیاگ دی۔ لوگوں میں کہرام مچ گیا۔ پانی میں گھری آبادی اور ناگہانی موت سے سب سکتے میں آگئے۔ رک رک کر رات بھر بلکنے اور رونے کی آوازیں سناٹے کو چیرتی ہوئی شاہراہ تک آتی رہیں۔ سب کو دکھ تھا نیلم کے جانے کا۔ وہ عورت تھی بڑی ہمت والی۔ چھتوں پر موجود بچوں کا خاص خیال رکھتی تھی وہ۔ اس کا اپنا کوئی بچہ نہیں تھا لیکن اسنے بستی کے سبھی بچوں کو اپنا مان لیا تھا۔ کوئی روتا ملا،گود میں اٹھالیا، گوئی بیمار ہوا، ساتھ میں اسپتال چل پڑی۔ وہ پورے گاؤں کی ماں تھی۔ اس لیے بچے سب ششدر تھے۔ جو تھوڑے بڑے تھے ان کی آنکھوں میں آنسو رواں تھے اور جو بے شعور تھے ٹکٹکی باندھے کچھ سمجھنے کی کوشش میں لگے تھے۔ اب آخری رسوم کی ادائیگی ہونی تھی کہ بارش نے زور پکڑلیا۔ منڈل کی چھت پر پلاسٹک کے نیچے نیلم کی لاش پڑی رہی اور سب سر جوڑ کر سوچتے رہے۔ آخرش مدن مشرا کو تدبیر سوجھی ’’بدھی کا لکھا کون ٹال سکتا ہے۔ ببوا سب نیلم دائی کو جل میں ارپت کردیا جائے۔ بھگوان اس کی آتما کو شانتی دے۔ اس کے الاوا (علاوہ) اب کونوں اپائے نہیں ہے‘‘۔ ’’کیابولت ہو مسرا جی۔ ہوس میں تو ہو۔‘‘ گنپتی کو ناگوار گزرا۔

سب چپ تھے اور جانتے تھے کہ اس کے علاوہ اور کوئی دوسرا راستہ نہیںہے۔ یہاں تک کہ نیلم کا شوہر بھی خاموش رم جھم بارش کی بوندوں کو بے پلک مارے تکے جارہا تھا۔ سبھی جانتے تھے کہ گنپتی نیلم کو بہن سے زیادہ عزیز رکھتا تھا اور وہ بھی گنپتی کے بچے کی پرورش میں دن رات لگی رہتی تھی۔ پھر مدن مشرا نے قریب جاکر گنپتی کے کندھے پر ہاتھ رکھا تو وہ اپنے جذبات پر قابو نہ رکھ سکا اور زارو قطار رونے لگا۔ نیلم کی لاش کو جب کمل ناتھ کی چھت سے نیچے تیز دھارا میں اتارا گیا تو پل بھر کے لیے بارش کی بوندیں ٹھہر گئیں۔ جیسے فلک نے آنسو روک لیے ہوں۔ پورا گاؤں سکتے میں تھا۔ اس دن کسی نے کچھ نہیں کھایا۔ پتہ نہیں کیوں بچوں نے بھی کٹورے میں رکھے دانے پانی میں بہادیے۔

سیاسی روٹیاں سینکنے والے تیار ہوکر نکلے۔ فضا میں گڑگڑاہٹ ہوئی۔ ہوائی دورے شروع ہوئے۔ گاؤں کا پانی تھوڑا کم ہوا مگر راستے اب بھی مسدود رہے۔ اس قدرتی آفت میں پوری بستی نے جو ایکتا کا ثبوت دیا اس کی مثال مشکل تھی۔ یہاں تک کہ مدن مشرا نے اپنے حصے کا آدھا کھانا ہلّر پاسوان کو کھلانا معمول بنالیا۔ سب ایک ہوگئے تھے۔ شاید پانی کے خوف سے یا ان کے اندر کی انسانیت جاگ گئی تھی یا کوئی جذبہ تھا جس نے ساری تفریق مٹا دی تھی۔ اب شہر جانے میں پہلے جیسی پریشانی نہیں تھی۔ گنپتی کی طرح دوسرے جوان بھی دن میں ایک بار ہائی وے پر جاکر حال چال لے آتے تھے۔ آج جب جوانوں کا جتھا لوٹا تو ساتھ یہ خبر بھی آئی کہ کل ہیلی کاپٹر سے پیکٹ گرائے جائیں گے۔

بستی کے جوانوں نے طے کیا کہ دس بیس کی تعداد میں سڑک پر جائیں گے اور راحت پیکٹ جمع کرلیں گے۔ اس کام کے لیے صبح سے کشتی تین بار آچکی تھی۔ اب انتظار تھا ہیلی کاپٹر کے آنے کا۔ دور سے چڑیا نما طیارہ آتا دکھائی دیا۔ نزدیک آتے آتے اس کی گڑگڑاہٹ نے شور سا برپا کردیا۔ ہیلی کاپٹر نے چکر لگایا اور سڑک پر کھڑے لوگوں کے پاس سے اوپر گزرگیا۔ تارا لاہی گاؤں کے بچے چھتوں پر کھڑے چلاّرہے تھے۔ ہیلی کاپٹر اتنا نزدیک آگیا کہ تیز ہوائیں بچوں کو ہلانے لگیں۔ پھر وہ ذرا اوپر ہوا تو بچوں نے ایک ساتھ آواز لگائی۔ کمل ناتھ کی چھت پر ایک پیکٹ گرتا ہوا دکھائی پڑا۔ بچے خوشی سے تالیاں بجانے لگے اور پیکٹ پکڑنے کو دوڑ پڑے۔

ہائی وے سے ریلیف پیکٹ لے کر پہلا قافلہ تارالاہی واپس ہوا تو یہاں کہرام مچا ہوا تھا۔ گنپتی نے پہلے تو کچھ نہ سمجھا مگر حقیقت سنگلاخ ہوتی ہے سادہ اور واضح بھی۔

ہوا میں نیچے آتے ہوئے اشیائے خوردونوش کے پیکٹ حاصل کرنے کے لیے بچوں نے دوڑ لگائی تو وہ سب پانی میں جاگرے جہاں طغیانی زیادہ تھی، مدد کے لیے وہاں کوئی نہ تھا کیونکہ مدد کرنے والے بستی کے نوجوان ایک پیکٹ زندگی کی تلاش میں نکلے ہوئے تھے۔

مزید

حالیہ شمارے

ماہنامہ حجاب اسلامی ستمبر 2024

شمارہ پڑھیں

ماہنامہ حجاب اسلامی شمارہ ستمبر 2023

شمارہ پڑھیں

درج بالا کیو آر کوڈ کو کسی بھی یو پی آئی ایپ سے اسکین کرکے حجاب اسلامی کو عطیہ دیجیے۔ رسید حاصل کرنے کے لیے، ادائیگی کے بعد پیمنٹ کا اسکرین شاٹ نیچے دیے گئے  وہاٹس ایپ پر بھیجیے۔ خریدار حضرات بھی اسی طریقے کا استعمال کرتے ہوئے سالانہ زرِ تعاون مبلغ 600 روپے ادا کرسکتے ہیں۔ اس صورت میں پیمنٹ کا اسکرین شاٹ اور اپنا پورا پتہ انگریزی میں لکھ کر بذریعہ وہاٹس ایپ ہمیں بھیجیے۔

Whatsapp: 9810957146