اشرف کو تصوف سے نہ کوئی خاص دِلچسپی تھی اورنہ ہی وہ اس میدان کاشہسوار تھاوہ تو سیدھا سادا مسلمان،نمازروزے کا پابند۔کیفیات ووجدانیات کے مقابلے میںعمل اوراطاعت حق کا زیادہ قائل تھا۔اس کی زِندگی ایک کھلی ہوئی کتاب تھی جس میںکوئی بندلفافہ رکھاہوانہیںتھا۔اس کا ایمان یہ تھاکہ اللہ سے ڈرکررہواوراپنی اُمیدیں بھی اسی سے وابستہ رکھو۔ رسولِ خداؐسے گہری محبت رکھواوراُن کی اطاعت پر کمربستہ رہو۔آخرت کی جواب دہی کا ہروقت خیال رکھو اورہرکام کرتے ہوئے پہلے یہ سوچ لوکہ اس کا جواب خدا کے ہاں کیا ہوگا۔بس اتنے سے سادہ فارمولے پر اس کے کردار کی ساری اُٹھان تھی—— نہ اُس نے کبھی مال کا لالچ کیانہ عزت ومنصب بڑھانے کے لیے کبھی ہاتھ پائوں مارے۔نہ مجالس میں لمبی چوڑی باتوںاوربحثوںکو کبھی اپناشغل بنایا۔ تصوف کے کوچے سے تو وہ اِتنانابلد تھاکہ شایداُسے تصوف کے معنی بھی معلوم نہ ہوں۔معمولی تعلیم یافتہ چھوٹی سی ایک بستی میںمعمولی کھیتی باڑی پراس کی گزر بسرتھی۔اوراس بستی میںاس نے ایک چھوٹی سی دُکان کھول رکھی تھی۔
اس کی شرافت،کم گوئی،دیانت،دین داری اورشرم وحیاکے سبب بستی بھرمیںاس کی عزت تھی۔جو اُس کے مقابلے میںبستی کے بااثراورمال دار لوگ تھے وہ بھی اس کا احترام کرتے اوراس کی بات کو رد نہ کرتے تھے۔اورجو اس کے برابریااس سے غریب تھے وہ تو اس کے شریفانہ اوربرادرانہ برتائو کے سبب اس کے بے حد مداح تھے۔وہ نمازروزے کے اِہتمام میںبڑی شدت کرتاتھا۔اذان کی آواز سنتے ہی بے تاب ہوکر اُٹھ کھڑاہوتا۔دُکان کے فارغ اوقات میں قرآن اور دوسری دینی کتب کا مطالعہ اس کا خصوصی مشغلہ تھا۔ روزانہ اخباربھی بذریعہ ڈاک اس کے پاس آتا تھا۔ اور خبروںکے لیے ایک ٹرانسسٹربھی اس نے لے رکھا تھا۔ اوراب کچھ عرصہ سے لیٹربکس بھی اس کی دُکان کے سامنے لگ گیاتھا۔بستی بھرمیںاس کی دین دارانہ زِندگی اورشریفانہ معاملات کا شہرہ تھا۔تصوف کی زبان میںاِبلیس اُس سے بہت ناراض تھا۔
شریفاں کاشوہرملازم ہوکرفوج میںگیاہوا تھا۔چھ مہینے، سال سے پہلے اُسے کبھی چھٹی نہ ملتی تھی۔ اشرف کی دُکان سے چندقدم کے فاصلے پر ہی اس کا مکان تھا۔اوروہ کبھی چھوٹی چھوٹی چیزیں خریدنے،کبھی اپنے پردیسی شوہرکے نام خط لکھوانے، کبھی اس کا خط پڑھوانے اورکبھی منی آرڈرپرگواہی دِلوانے کے لیے اشرف کی دُکان پراکثرآتی رہتی تھی۔گائوں کی فضا میں ایک سادہ سی دیہاتی عورت کا کسی دُکان پر اکثروبیشتر آتے جاتے رہناایک معمولی بات تھی۔ دیہاتوں میں گھریلوسطح کے بیشتر کام توخود عورتیں ہی انجام دیتی رہتی ہیں۔مرد توزیادہ ترکھیتی باڑی سے غرض رکھتے ہیں یا مقدمہ بازی سے یا مقدمات اور مویشیوں کے تذکرے کرنے کے لیے چوپالوںمیں محفل جماتے ہیں۔ہمارے دیہی معاشرے میںمحنت کام کرتے اوروقت ضائع کرتے رہتے ہیں۔چوںکہ سرکارنہ ان کو متبادل روزگارفراہم کرکے دے سکتی ہے اورنہ زمین دے سکتی ہے۔اس لیے دیہاتوںمیںخالی دماغ اور فارغ اوقات لوگ زیادہ ترلڑائیوں، مقدموں اور دیہاتی سازِشوںمیںہی مصروف رہتے ہیں۔
بہرحال شریفاںایک سادہ سی دیہاتی نوجوان عورت تھی اوراشرف سے اس کا روزمرہ کا واسطہ تھا۔وہ ایک شریف ہمسایہ دُکان دار تھااوروہ ایک شریف اورسادہ لوح ہمسایہ عورت تھی۔ اور ہمسائے توبقول کسے ماںجائے ہوتے ہیں۔اوردُکھ سکھ میںایک دوسرے کے شریک ہوتے ہیں۔معمولی بات تھی اورمعمول کی زندگی برسوںسے گزررہی تھی۔
ایک روزشریفاںاپنے شوہرکے نام اشرف سے خط لکھوارہی تھی۔اشرف نے خط لکھتے لکھتے آگے کی بات معلوم کرنے کے لیے اچانک حسب معمول شریفاں کی طرف دیکھایہ توایک معمولی روزمرہ کی نظرتھی۔جس نظرسے وہ بالعموم روزاُسے دیکھتا تھا۔ جس نظرمیںشریفاں ہمسائے کی ایک سنجیدہ،شریف اورشوہرکے لیے فکرمندرہنے والی جوان عورت تھی اور بس اُس سے زیادہ اورکچھ نہ تھی لیکن اچانک اس نے کیا دیکھا۔یہ اُس کے لیے ناقابل بیان تھا،کوئی دوسرا قریب بیٹھاہوتا۔کوئی گاہک ہوتاتوشایدوہ بھی نہ سمجھ سکتاکہ ایسی کون سی غیرمعمولی بات اچانک ہوگئی تھی۔ لیکن حقیقت یہ ہے کہ وہ بڑی غیرمعمولی بات تھی۔وہ غیرمعمولی بات یہ تھی کہ روزمرہ کی نظرسے بالکل ایک دوسری ہی گہری دل میںاُترجانے والی اورمسحور کن نظرسے شریفاں اس کی طرف ٹکٹکی لگائے دیکھ رہی تھی۔وہ نظراشرف کے صرف چہرے پرہی نہیں رہ گئی تھی بلکہ اس کی آنکھوں میںسے اُترکراس کے وجود میںگھسی چلی جارہی تھی۔اوروہاں جاکر سیدھی اس کے دل کو ٹٹول رہی تھی،اُکسارہی تھی پوچھ رہی تھی کہ کیاتم میںعمررفتہ کی آواز دینے کی ہمت ہے۔یہ معلوم کررہی تھی کہ پچاس فیصدی رضامندی کامفہوم پوری رضامندی ہوتاہے یانارضامندی ہوتاہے۔معلوم کر رہی تھی کہ ایک ہاتھ اگرتالی بجانے سے انکارکرے تو کیادوسراہاتھ ایساہی بے درد ہوسکتاہے کہ تالی بجانے کے لیے حرکت میںنہ آئے۔اشرف نے محسوس کیاکہ وہ نگاہیں نہیںتھیں بلکہ وہ غیرمرئی ہاتھ تھے جنھوںنے اُس کی آنکھوںکے راستے سے اُترکراس کے دل کو اپنی گرفت میںلے لیاتھا،مٹھی میںبھینچ لیاتھا۔وہ سٹپٹاسا گیا۔پریشان ساہوگیا۔ایک بوکھلاہٹ اورتوحش اس پر طاری ہوگیا۔اسے کچھ بھی سوجھ نہ سکا۔
’’شریفاں!سنوشریفاں کوئی اورکام ہوتو وہ بھی مجھے بتادینا۔‘‘ایک گھبراہٹ اورسراسیمگی کے عالم میں اشرف نے کہا۔اس کی بوکھلاہٹ اس کے چہرے پر بکھری ہوئی تھی اوراس کی آنکھوں میں تحریر تھی۔ شریفاں اشرف کی اس بے تکی بات پر مسکرائی۔یہ مسکراہٹ اس شکاری جیسی تھی جس نے حربہ پھینکا ہو اور شکارزخمی ہوکر شکاری کے سامنے تڑپ رہاہو۔ایک فاتحانہ مسکراہٹ معنی خیزمسکراہٹ۔زہرخند۔اس مسکراہٹ میںبے نیازی،مسرت،اِطمینان وسکون اور احساسِ محرومی کی بجائے احساسِ کامیابی کی جھلک موجودتھی۔
’’ہاں ہاں ضروربتائوںگی۔‘‘شریفاںنے تھوڑے سے توقف کے ساتھ کہااورپھراپنادوپٹہ سنبھال کرچلی گئی۔اشرف کو محسوس ہواجیسے شریفاں کی قدم بہ قدم دوری اُسے اپنی طرف کھینچ رہی تھی۔جیسے شریفاںکووہ پہلی باراب ملاتھا۔جیسے اتنی تھوڑی سی بات چیت سے وہ مطمئن نہ تھا۔پہلے کبھی اسے اس بات کا احساس بھی نہ ہواتھا کہ اس کے آس پاس ہمسائے میںرہنے والے کون کون،کس کس حال میں، کیاکیاکرتے ہیں۔وہ ایک بے نیاز اورشریف آدمی تھا جو دوسروںکے معاملات میںخواہ مخواہ دخل اندازی پسندنہ کرتاتھا۔لیکن اب وہ اپنی دکان کے قریب ایک مکان اوراس کے ایک دروازے کے بارے میںایک خصوصی کشش محسوس کرنے لگا تھا۔ وہاں سے نکلتے ہوئے،داخل ہوتے ہوئے، جھانکتے ہوئے ایک چہرے کا وہ ضرور منتظر رہتا تھا۔ اور شریفاں بھی جب آتی اوراکثرآتی تواپنے ساتھ کئی ایک کام لاتی۔ سودا سلف لینا،خط لکھوانا، گھریلو مسائل پر مشورہ کرنا،ملکی حالات معلوم کرنا،جنگ کی خبریںسننا اور خود ٹرانسسٹر سننا۔ویسے ٹرانسسٹر تو اس کے شوہر نے بھی اُسے خرید کر بھیج دیا تھا۔لیکن وہ اکثر خراب رہنے لگاتھا۔اس کی بیٹریاں ختم ہوگئی تھیں۔اوراشرف کا ٹرانسسٹر بہت عمدہ تھا۔
’’اشرف کبھی شہرجائوتومیراٹرانسسٹر بھی لے جانا ذرااسے مرمت کی ضرورت ہے۔‘‘وہ کہتی۔
’’کیامرمت کروائوگی۔یہی میرا ٹرانسسٹر لے جائو۔‘‘اشرف کہتا۔
’’نہ بابا۔نہ۔’’دُنیابڑی خراب ہے۔‘‘وہ کہتی اوربلاشبہ دُنیابڑی خراب تھی لیکن دُنیا کی خرابی کے سہارے کو اُس نے اپنی خرابی کے لیے ہی تو پکڑرکھاتھا۔
اورپھرایک نگاہِ غلط انداز—وہ نگاہِ خاص جس کی جھلک اشرف نے پہلی بار اچانک خط لکھتے لکھتے دیکھی تھی۔جو اس کی ساری مزاحمتیں توڑکراس کے اندرسینے میںاُتر گئی تھی اورجاکردل کو پکڑلیاتھا اوراب اس دل کے لیے وہ ضرورت کی چیزبن گئی تھی۔اس عام نگاہ کے ساتھ ساتھ وہ اس خاص نگاہ کا بھی منتظررہتا جس کی مدد سے عام دُکان داراشرف کی بجائے وہ محبوب اشرف،مطلوب اشرف اوردِل نواز اشرف بن جاتاتھا۔جس طرح ساری غزل کا حاصل ایک شعر ہوتا ہے اسی طرح اشرف کے لیے شریفاں کی ساری ملاقات کا حاصل وہ نگاہ خاص بنتی جارہی تھی— شریفاں کی آمدورفت دُکان پر پہلے سے ذرازیادہ ہوگئی تھی۔ اوراشرف ہرگھڑی منتظررہنے لگا تھاکہ ابھی وہ آرہی ہوگی۔اِٹھلاتی نیم مسکراتی اورنیم عدم توجہ کا انداز لیے ہوئے۔گویااس کی آمد کوئی خاص بات ہی نہ تھی۔ اس لیے کہ خاص بات تواب خود اس کے اندر تھی۔
تصوف کی اِصطلاح میںبادۂ وساغرکے تذکرے نے بات یہاں تک پہنچادی تھی اوراشرف اورشریفاں کے لیے اوپرکی سطح پر فضابڑی پرلطف اوررنگین بن گئی تھی۔
ابلیس خوش تھا کہ اس نے ایک نیامورچہ لگایا تھا۔ ایک نیانخچیراس فتراک میںآگیاتھا۔لیکن یہ تو صرف اوپری سطح تھی۔زِندگی کادرخت جس طرز پر نشوو نما پاتاہے اس کی شاخوں کو قطع وبرید کربھی ڈالاجائے یا توڑ موڑبھی لیاجائے تواس کی جڑیں توزمین کے سینے میںپیوست اپنی اصلیت نہیں چھوڑتیں۔اس کی شاخوں کا پیوند اس کی جڑوںکی ماہیت بدلنے پر تو قادر نہیںہوتا۔اورانسان توبڑا مضبوط اوربڑی طویل جڑوں والاکائناتی درخت ہے۔ جو موت کے تھپیڑوں سے بھی نہیںمرجھاتا۔اورایک بارپیوندزمین ہو کر پھر اُٹھ کھڑاہوتاہے۔
اِسلام اپنی مابعدالطبیعاتی تعلیمات میں سعید اور شقی انسانوں کی تقسیم کرتاہے۔ یہ ایک غیرمرئی۔شعور سے ماوراء اورسرحد اِدارک سے بالا ایک تصورہے جس تک انسان کا شعور رسائی حاصل نہیںکرسکتا۔لیکن آخر انسانوں کا مالک جوحیاتِ اِنسانی اورنفس اِنسانی کی شہ رگ سے بھی زیادہ قریب اوراپنے بندوں سے ان کی مائوں سے بھی زیادہ محبت رکھتاہے۔آخروہ تواپنی طرف جھکنے والے سب بندوں کا سہاراہے جوگرتے ہوئوں کوتھامتاہے۔ ڈگمگانے والوں کے قدم مضبوط کرتا ہے۔بے سہارابندوںکے ہاتھ میںعصائے دست گیری بنتاہے اورسردی میںٹھٹھرتے آگ کے متلاشی راہ گیرکو کوہِ طورسے جلوہ نمائی کرادیتاہے۔ اپنی تلاش کرنے والوں کو ان کے دلوں کے اندرسے پکارتاہے اوراپنی طرف چل کر آنے والوں کی دست گیری کے لیے دوڑ کر خود دست گیری فرماتاہے۔ جو رحیم وکریم ہے۔اور رحمان وغفار وستارہے۔ وہ اپنی طرف آنے والوںکو ان کے دلوں کی کیفیت اوران کی نیتوں کا خلوص دیکھ کر کبھی ضائع نہیںہونے دیتا۔ ابلیس اگر چھاپہ مار دستوں سے انسانوں کا شکارکرتاہے توبندوں کامالک بھی اپنے بندوں کا پشت پناہ ان کا سہارااوران کا پشتیبان بن کر ان کی اِمداد کے لیے غیرمرئی لشکر بھیجتاہے۔
اشرف اورشریفاں کے خارجی حالات کا تذکرہ یہاں ختم ہوا۔اورتصوف کی اِصطلاح میںبادہ وساغر کی کرامات کے بعد اب مشاہدۂ حق کا سلسلہ شروع ہوتاہے۔اب ہم اشرف کی داخلی دُنیاکا سفرنامہ پیش کرتے ہیں۔
اشرف شریفاں کی اس نگاہِ بے پناہ سے مسحورتوہوگیا اوراوپری سطح پر اس نگاہ کے لیے اس میںطلب وجستجو بھی پیداہوگئی۔ لیکن اس کے دل کی دنیا میںایک طوفان آگیا۔جس سے دنیاوالے توکیا خود شریفاں بھی بے خبرتھی۔ ایک عظیم الشان کش مکش اس کے داخلی عالم وجودمیںشروع ہوگئی۔اس کے اندر شریفاں کے لیے کشش کی ایک رواُٹھتی توساتھ ہی اس کے اندرسے ایک زوردارآواز اسے روکتی اور ٹوکتی۔
’’اشرف تمھیں کیاہوگیاہے تم نے اپنے آپ کو خطرے میں ڈال دیا ہے، تم اپنے آپ کو تباہ کر رہے ہو۔ تم اورایک غیرمحرم عورت سے دلچسپی اور قربت کی آرزوئے ناپاک! تم اورناپاک خیالات کے بھنور میںصیدزبوں۔یہ تمہاری شان سے بعید ہے۔ یہ تمہاری شان سے بعید ہے۔!‘‘
یہ باتیں الفاظ کی پوری صفائی کے ساتھ کوئی اس کے دل میںپکارپکارکرکہتااوروہ سرجھکائے ہوئے ان الفاظ کی آوازیں اپنے اندرگونجتی ہوئی محسوس کرتارہتا۔
’’نہیں نہیں تمہارے ارادے ناپاک نہیں ہیں۔ وہ توایک بے سہاراغریب عورت ہے جس کی مدد تمہارااخلاقی فرض ہے!دوسری داخلی آواز اُسے کہتی۔
’’یہ اخلاقی فریضہ نہیں ہوسناکی ہے۔‘‘جوابی آواز آئی۔
’’تم ایک شریف آدمی ہوتمھیں کوئی خطرہ نہیں۔اپنی ہمدردی سے تم ایک اِنسان کو بچالوگے۔ آخر کہنے والے نے ٹھیک ہی توکہاہے کہ ع ’’دل بدست آورکہ حج اکبر است‘‘دوسرامکالمہ وہ سنتا۔
اوریہ مکالمے اس کے وجودِ معنوی کے اندر چلتے رہتے اوروہ سرجھکائے حیران وپریشان اُنھیں سنتا رہتا،اوراپنے کام کاج میںکھویاکھویاپھرتارہتا۔ لوگ اس سے پوچھتے تھے کہ وہ خاموش خاموش اورکھویاکھویا سا کیوں تھا لیکن اس کا جواب یہی تھاکہ وہ بالکل ٹھیک ٹھاک تھا۔ لیکن حقیقت یہ ہے کہ اشرف بالکل ٹھیک ٹھاک نہیںتھا۔ اس کے اندرمکالمے گونجتے رہتے۔ اس کے اندر دو مختلف آوازیں ایک دوسرے سے سوال و جواب کرتی رہتیں۔اس کے اندردوکردارباہم کش مکش کرتے رہتے اوروہ تنہائی میںچپ چاپ ان کی گفتگوئیں سناکرتا۔ جب شریفاں آتی تو وہ اس کی نگاہِ خاص کاضرورمنتظررہتا۔اوریہ بھی ہربار کم سے کم ایک باروہ نگاہِ خاص اسے ضروردے کرجاتی۔جیسے وہ اس کی ضرورت اورطلب کوخوب سمجھتی تھی۔وہ اکثرحیران ہوتاکہ وہ اس کی طلب سے کیسے آگاہ تھی۔وہ کس طرح جانتی تھی کہ وہ اس کی نگاہِ خاص کاپیاساہے۔اس نے توآگے بڑھ کر اپنے اِشتیاق کا کوئی اِظہار نہ کیاتھا۔اس نے توکھل کر اس سے بات تک نہ کی تھی۔ان میں تو اب بھی دوسری دوسری اوپری سطح کی باتیں ہوتی تھیں۔ پھراس نے کس طرح جان لیاتھاکہی وہ جو ایک نگاہ دل میںاُترجانے والی اسے دے گئی تھی وہ اب اس کی طلب بن گئی تھی۔اوراس کااسے اِنتظاررہنے لگا تھا۔ایک باربھی توایسانہ ہواکہ وہ آئی ہواوراس نے اس کی یہ ضرورت بے مانگے پوری نہ کی ہو۔ گاہکوں کے ہجوم میںبھی۔لوگوںکی موجودگی میں بھی،تنہائی میںبھی۔چلتے پھرتے بھی۔آتے جاتے بھی ۔کم ازکم ہرملاقات میںشریفاں کا یہ معمول سابن گیاتھا۔وہ خود حیران تھا کہ اس کی وہی نگاہِ خاص جو سب کے لیے عام تھی۔عام معمولات کے دوران اچانک اُنہی آنکھوں میںسے اچانک ایک جادو کا ہاتھ برآمد ہوتاتھا۔ غیرمرئی آتشیں،مسحورکن اوراِضطراب انگیز ہاتھ جو خاموشی سے پلکوں سے اُترتا۔وجودمیںگھستااورجاکر اشرف کے دل کو اپنی گرفت میں لے لیتا۔اس گرفت میںاس کے لیے ایک طرف لذت تھی اوردوسری طرف سخت اِضطراب۔اس گرفت کے ہوتے ہی پہلے وہ اپنے اندرایک سناٹا سامحسوس کرتا۔ایک لذت آمیز سناٹا۔ ایک سحر انگیز سناٹا۔ ایک دِل دوز سناٹا جیسے اژدھے نے چڑیاپرنظریںگاڑدی ہوںاوراب اژدہا آہستہ آہستہ چڑیاکی طرف بڑھ رہاہو۔اوراب وہ چڑیا اژدھے کی نظرکے سحر سے نہ اُڑسکتی ہو،نہ چیخ سکتی ہو، نہ جان بچاسکتی ہو اوراژدہااپنی خاموش مہیب اور دہشت ناک پراسراررفتارسے اس کی طرف بڑھ رہا ہو۔لیکن جب اس نگاہ کا چند لمحاتی دورختم ہوجاتا۔ اورشریفاں کی نظراپنی اصلی حالت عام پرآجاتی تو اشرف کے اندروہ مکالماتی آوازیں سخت اِضطراب انگیزشوربرپاکردیتیں۔خصوصاًاس سحر کی مخالفت کرنے والی آواز کا اِضطراب توبہت ہی نمایاں ہوتا۔اس میں دکھ ہوتا۔تکلیف ہوتی۔حسرت ہوتی۔شرم وحمیت کو اُبھارنے والے کلمات ہوتے۔
نصیحت اوربچائو اوراس خطرے سے آگاہی کا اندازہ ہوتاجو اس کی طرف بڑھتا چلا آرہا تھا۔ اور جس نے تقریباًاسے مٹھی میںلے لیاتھا۔
اشرف اس داخلی کشمکش سے دوچار تھا۔ اور سخت پریشان تھا۔اِضطراب واِضطرار اس کی حرکات سے نمایاں ہونے لگاتھا۔وہ گاہکوں کو چیزیں دیتے ہوئے بھول بھول جاتا۔ایک ہی چیزدودوباردے دیتا۔ ایک ہی بات دودوبار کرجاتا۔ایک ہی شخص کی بات اسی مجلس میںبھول جاتا۔اس کے اندرکی مکالماتی جنگ نے اس کے سارے وجود معنوی کو ہلاکر رکھ دیاتھا۔وہ جھنجھلاتا پریشان ہوتا۔ارادے باندھتا۔ سرجھٹک کرآوازوں کو روکنے کی کوشش کرتا۔اوروہ رُک جاتیں۔لیکن رُکنے کے بعد ان کی مکالماتی فلم پھرچل پڑتی۔اب وہ ٹرانسسٹر زیادہ سننے لگ گیاتھا تاکہ یہ آوازیں ذرادب جائیں۔اوروہ کچھ سوچ سکے۔داخلی طورپر سوچ بچار کی کیفیت اس پر ہر وقت طاری رہتی تھی۔لیکن وہ سوچ نہ سکتاتھا۔وہ اپنے اندرہونے والے داخلی ڈرامے کا تنہاتماشائی تھا۔اس طوفان سے شریفاں بھی بے خبرتھی۔
دوسری مصیبت اورنازل ہوئی تھی۔اس کے لیے نمازمیںبڑاسکون ہواکرتاتھا۔اذان سننے کے بعد اس کے لیے دکان کا کام مشکل ہوجایاکرتا۔وہ دُکان بندکرتااورقریبی مسجد میںنماز کے لیے چلا جاتا۔ نماز پڑھتے ہوئے اس کے سارے افکار اوراُلجھنیں دھل جایاکرتے۔صف میںکھڑا ہوکر وہ محسوس کرتا تھا کہ ایک عظیم قوت اس کی پشت پر تھی جو اس کے کام بناتی اوراس کی ہروقت مدد کرتی تھی۔لیکن اب وہ کیفیت زایل ہوگئی تھی۔اب اس کی نماز رکعتوں کی گنتی تھی۔جسے وہ تنہائی میںاکثربھولتارہتا۔خاموشی سے تلاوت کرتے ہوئے اچانک وہ محسوس کرتاکہ وہ کسی جگہ رُک گیاتھااوراس نگاہِ خاص کے بارے میں سوچ رہاتھا۔وہ سرجھٹک کر پھر تلاوت شروع کردیتا۔ اور تھوڑی دیر بعد اچانک اپنے آپ کو پھر ان دوداخلی مکالماتی آوازوں کے درمیان گم صم کھڑا ہوا پاتااوروہ سرجھٹک کر پھر پڑھنے لگتا۔یہ کیفیت اس کے لیے سخت اِضطراب انگیز تھی۔ اس نے مدت سے جو کیفیت نمازوں میں پیداکی تھی وہ برباد ہوگئی تھی۔ داخلی طورپر وہ جانتاتھا کہ نماز اس کے افکار وآلام کے ہجوم کو کم کرنے کا ذریعہ نہیں رہ گئی تھی۔وہ اب دکان پر ہویا نماز میں دونوں حالتیں اس کے لیے یکساں سی بن گئی تھیں۔
اس صورتِ حال پر وہ کڑھتاتھا۔لیکن کچھ نہ کرسکتاتھا۔دکان کھولنے کے بعد ایک نامعلوم اِنتظار اس کے وجود میںگھس آتااورجب وہ عین حالت اِنتظار میںہوتاتو واقعی شریفاں آجاتی۔اوراس کے آنے سے واقعی مسرت ہوتی۔لیکن اب یہ ایک غم انگیز حسرت ہوتی جیسے کوئی شخص بہت کچھ کھوکرکوئی شے پارہاہو۔جیسے کوئی شخص قیمتی شے کھوکر کم قیمت شے پارہاہو۔جیسے کسی بھوکے کے سامنے سے اعلیٰ غذائیں اُٹھالی جائیں اورسوکھی روٹی رکھ دی جائے۔جیسے کسی شخص نے قماربازی میںساری جایدادہاردی ہو اور آخری دائوں میںچندسکے اس کے حصے میں آگئے ہوں۔ بس ایسی ہی کچھ حسرت تھی جو اس کے اندر شریفاں کو دیکھ کر پیداہوتی۔وہ وقتی اورہنگامی طورپر اس سے مل کر بے خود ہوجاتالیکن عین اسی وقت اس کا دل بھنچ کر رہ جاتاجیسے اژدھے نے اس کے سینے پر اپنی کنڈلی سخت کرلی تھی اور دل کا شکارتڑپ رہاتھا۔
اب ایک قلبی اورذہنی اِضطراب ہر وقت اس پر رہنے لگا۔جو اس کی داخلی کیفیات اوروجدانیات سے تعلق رکھتاتھا۔خارجی طورپرکوئی نہ جانتاتھاکہ اشرف پر کیابیت رہی تھی۔ بس بظاہر وہ کچھ کھویا کھویا،حیران حیران اورگریزاں گریزاں سارہنے لگا۔ ایسی کیفیت میںجب کبھی شریفاں آجاتی تووہ ذرا کھل اُٹھتالیکن اگروہ بھی یونہی سرسری سی باتیں کرکے چلی جاتی تواسے مزید دُکھ ہوتا۔
وہ کاروبار میںایک نہایت دیانت دار آدمی تھا۔اگرکسی کا ایک پیسہ بھی سودے میںاس کے ذمے بھول سے رہ جاتاتووہ نکال کر علاحدہ کرلیتااوراس تک پہنچاتا۔لیکن اس داخلی حالت اِضطرار واِضطراب نے اسے یوں غلطاں وحیراں کررکھاتھا کہ اب اس میں دیانت کا یہ قوی احساس بھی کند ساہونے لگا۔اس کے دل کی کیفیت ایسی تھی جیسے کوئی شرابی نشہ کی حالت میں سربازار پڑاہواہو۔
تنہائی ہی نہیںبلکہ کبھی کبھی تولوگوں کی موجودگی میںبھی وہ کھوجاتااورسوچنے لگتا۔اوراپنے اندرداخلی کشمکش کو تسکین دینے کے لیے اپنے خارجی ماحول سے نکل کر داخلی دُنیا میںچلاجاتا۔رات کو لیٹتے ہوئے کبھی اسے یہ غم پریشان کرتاکہ وہ دکان کے معاملات پرتوجہ نہیںدے رہاتھا۔کبھی یہ غم ہلکان کرتاکہ اخلاقی نقطۂ نظرسے وہ کس تباہی کے کنارے پر آکھڑا ہواتھااورکبھی وہ شریفاں کے خیالات میںکھوجاتا۔اس کا لباس،اس کا چہرہ،اس کے خدوخال،اس کی باتیں اور اس کی نگاہِ خاص!
ایک روزوہ صرف اس بات پر سوچتارہاکہ وہ سعیداورشقی اِنسانوں کی ازلی فہرست میںسے کس فہرست میںشامل تھا۔اورسوچ سوچ کر لرزتارہا۔پھر اسے انسانوں کے بارے میں کسی جگہ پڑھاہواحضورکا یہ اِرشادیادآیاکہ جواسے کچھ اس طرح یادتھاکہ بعض لوگ ہیں جو عمربھربرائی کرتے رہتے ہیںاورپھر یک بیک نیکی کی طرف جھک جاتے ہیں۔اوربالاخر اسی حالت میں اپنے رب کے پاس پہنچ جاتے ہیں۔ان کا انجام بخیرہوتاہے۔اوربعض لوگ ہیں جو عمربھر نیکی کرتے رہتے ہیں اوریک بیک وہ برائی کی طرف مائل ہوجاتے ہیںاورپھر ان کا انجام بدہوتاہے۔ یہ بات اس کے ذہن میںآئی توایک دہشت سی اس کے وجود میںاُترآئی۔یہ اس کے ساتھ کیاہورہاتھا۔دن بھر اس کے دل پردوسری باتوں کے ساتھ ساتھ اس چیز کابہت غلبہ رہا۔سعیداورشقی۔انجام خیر،انجام بد۔بس یہ الفاظ اس کے دل میںگونجتے رہے۔وہ نمازوں میںدُعائیں کرتاتھالیکن وہ خود محسوس کرتاتھاکہ دعائیں تواس کے لبوں سے اوپر نہ جاتی تھیں۔اس کے سینے میں دل گویاپتھرکا ٹکڑابن گیاتھا۔اورکوئی دعااس پر لرزش کا نقش نہ بناتی تھی۔پھر وہ آسمان کی بلندیوں میںاوپر کیسے اُٹھ سکتی تھی۔لیکن ہر نماز کے بعد وہ اپنی ہدایت کے لیے اورترغیباتِ نفس سے بچائو کے لیے دعائیں ضرورکرتارہتاتھا۔لیکن جس روزاسے سعید اورشقی انجام بداورانجام خیرکی بات یادآئی تو وہ اس کے ذہن پر رائی کے پلاسٹر کی طرح چپک کر رہ گئی جو شریفاں کے خیال پر بھی غالب سی آگئی۔وہ خوف کھانے لگاکہ واقعی وہ کہیں ان ازلی بدبختوں میںسے نہ ہو جونیکی سے بدی کی طرف لڑھک جاتے ہیں جو روشنی سے تاریکی کی طرف چلے جاتے ہیں جو بلندی سے پستی کی طرف گرجاتے ہیں۔
اس دن اس کے ذہنی اورقلبی افق پر غم واندوہ کے بادل چھائے رہے۔شریفاں اس خاص لباس میں بھی آئی جو اسے بہت پسند تھا۔لیکن اس کا دل بجھابجھا سارہا۔اورحدیہ ہے کہ اس روز اس نے وہ خاص حربہ بھی کئی دِنوں کے بعد استعمال کیاجو اشرف کے لیے بے پناہ تھا اورجس کا وہ نخچیرتھا۔لیکن حیرت تھی کہ وہ نگاہِ خاص بھی اسے کسی کیفیت خاص میںمبتلاکرنے کی بجائے عجیب ٹیڑھی سی نظرمحسوس ہوئی۔بس یوں کہ جیسے وہ عجیب سی نظرتھی۔جسے وہ زیادہ برداشت نہ کرسکا اور اس نے نظریں پھیرلیں۔اورمنہ بھی دوسری طرف پھیرلیا۔اس روزعشاکی نماز میں اسے پھر پرانی کیفیت کا خفیف احساس ہوااورپھروہ اسی غم آلود دل ودماغ کے ساتھ سوگیا۔
یک بیک اس کی آنکھ ساڑھے چاربجے سحر کھل گئی اوروہ اُٹھ کر بیٹھ گیاوہ گاہے گاہے سحرخیزی کرتاتھا۔وہ تیار ہوکر نوافل پڑھنے لگا۔بس کھڑے ہوتے ہی اس کے اندرمکالماتی آوازوں میںسے ایک آوازآئی جو خود اُسے ہی مخاطب کررہی تھی۔
’’اشرف کیااب شقی بن کر ہی رہوگے۔ افسوس تمہارا یہی انجام ہوناتھا۔‘‘یہ آواز اس نے اتنی صفائی سے سنی جیسے کوئی شخص اس کے دل میں لائوڈاِسپیکر لگاکراپنی بات کہہ رہاتھا۔
’’میرے مالک مجھ پر رحم فرما۔مجھے بچا لے۔میری دست گیری فرما۔‘‘اس کے دل میںسے دوسری دُعانکلی جو اس کے دل کو چور چورکرتی ہوئی چلی گئی اورواقعی اس کا دل چورچور ہوگیا۔وہ سجدے میں چلاگیااوربلک بلک کر رونے لگا۔پھر توہچکیاںہی بندھ گئیں۔
’’مالک مجھے بچالے۔مجھے بچالے۔‘‘بس اس کے دل کی گہرائی سے ہی ایک آواز تھی جو اس کے اپنے کانوں میںگونج رہی تھی۔
اس نے دعا کے لیے ہاتھ اُٹھائے تواس کا قلب پگھل کر بہہ رہاتھا۔
رَبَّنَا لَا تُزِغْ قُلُوْبنا بَعْدَ اِذْ ہَدَیْتَنَا وَہَبْ لَنَا مِنْ لَّدُنَّکَ رَحْمَۃ اِنَّکَ اَنْتَ الْوَھَّاب۔
دیرتک کبھی وہ اپنے نفس کے ظلم سے پناہ مانگتا رہااورکبھی ہدایت پر اِستقامت کی دُعائیں طلب کرتا رہا۔غرض کتنی ہی دیر وہ بلک بلک کر دعائیں کرتا رہا۔ یہاں تک کہ چڑھاہوادریااُترکیا۔طوفان تھم گیا۔ اور اس کے دل میںکسی نے پکارکہاکہ اشرف تمہاری یہ دعا ضرور سنی جائے گی۔
وہ دن اس کا سکون وبے سکونی کے درمیان گزرا۔اس کی خوش قسمتی سے شریفاں نے بھی اس کی دکان کا رُخ نہ کیا اورعجیب بات یہ کہ آج اسے بھی اس شدت کا انتظار نہ تھا۔جیسے ہر روزہواکرتاتھا۔نمازوں میںبھی اُس نے ذہن کی وہ غیرحاضری محسوس نہ کی جو پہلے ہوتی تھی بس ملی جلی کیفیات کا عالم تھا۔رات کی آخری نماز کے بعد وہ سویاتو اس کا دل پکاررہاتھا۔
’’اِلٰہی!راہِ راست پر اِستقامت عطافرما۔ اورمجھے تباہی سے بچالے۔‘‘اوروہ سو گیا۔لیٹتے ہوئے پہلے کی سی پریشان خیالی اورشریفاں کے مختلف ہیولوں کی آمدورفت کے چکرسے بھی وہ بہت کچھ محفوظ رہا۔
پھر اس نے ایک خواب دیکھا۔
’’ایک حسین وجمیل اوربے اِنتہاپرفضاباغ میںوہ جارہاہے جس کی ساری فضا میںمسرت خوشبو اور کیفیت جمال بسی ہوئی ہے۔پھر اس نے دیکھاکہ اس سے تھوڑے ہی فاصلے پر ایک پھول دار درخت کے پاس کھڑی ہوئی ایک خاتون ہے جسے دیکھ کر وہ ششدررہ گیا۔حسن وخوبی اورجمال وکمال کاایسامجسمہ اس نے اس سے پہلے زِندگی میںکبھی نہ دیکھا تھا۔ گلاب کے پھولوں کو گوندھ کر بنائی ہوئی رنگت اور چاندنی کی دلفریب چمک کی صباحت۔وہ سب سے زیادہ اس بات پر حیران تھا کہ اس کی شکل وشباہت بالکل شریفاں سے ملتی جلتی تھی۔وہی خدوخال۔وہی چاہِ زنخداں وہی لمبے سیاہ بال،وہی گدازجسم،وہی قد، وہی سراپا،وہی پیشانی کابھورانشان۔وہی گالوں کے دلفریب بھنور جنھیں دیکھ کر اس کاسفینۂ دل ڈولنے لگتا تھا۔اورکندھوںکی وہی خفیف سی اُٹھان۔سر سے پیر تک وہ شریفاں تھی۔لیکن اس کا دل کہہ رہاتھاکہ یہ کوئی بہت ہی اعلیٰ وارفع شریفاں تھی۔اس لیے کہ اس کی جانی بوجھی شریفاں تواس مجسمہ وکیف ورعنائی کے مقابلے میں ہیرے کے سامنے کنکرکی سی حیثیت رکھتی تھی۔اس کا لباس باوقار۔خوبصورت نہایت قیمتی اور شاہی شان وشوکت لیے ہوئے تھا اورحیرانی کی بات یہ کہ اس کے لباس کا رنگ بھی وہی تھا جو رنگ اُسے سب سے زیادہ پسندتھا۔اسے دل میںاحساس ہواکہ وہ وہاں اسی کے لیے کھڑی تھی۔ہمت کرکے وہ اس کے قریب جاکھڑاہوااوراُسے سلام کیالیکن اس نے عالم افسردگی میںزیرلب اس طرح جواب دیا،جیسے رنج وغم سے وہ سخت دل گرفتہ اوررنجیدہ تھی۔اس افسردگی نے اس کی دلفریبی کو اشرف کے لیے اوربھی بڑھادیاتھا۔اس نے اس کی طرف آگے بڑھنے کی کوشش کی لیکن اس نے محسوس کیاکہ اس کے اوراس خاتون کے درمیان کوئی رُکاوٹ تھی۔وہ آگے نہ بڑھ سکا۔وہ اس کے سامنے دل گرفتہ اوربے حس وحرکت کھڑی رہی۔اشرف اس کے ساتھ بڑی اپنائیت محسوس کررہاتھا۔لیکن اسے اپنالینے کی اسے ہمت نہ تھی۔وہ ایک پھول کو حسرت سے شاخ پر دیکھ رہاتھا۔لیکن اسے توڑنہ سکتاتھانہ چھوسکتاتھاپھر اس نے نگاہیں یک بیک اوپر اُٹھائیں۔ اس کی نظروں میںگلہ شکوہ اورمحرومی کی سی شکایت تھی۔ وہ کچھ نہ بولی لیکن اس کی نگاہیں کہہ رہی تھیں۔
’’آپ سے یہ اُمیدنہ تھی۔آپ کا اِنتظار تھا لیکن آپ یہ کیاکررہے ہیں؟‘‘بس یہ بے آواز سی بات اس کے دل میںیوں اِلقاء ہوئی جیسے اس نے بول کر کہہ دی تھی۔حالاںکہ اس نے اشرف سے ایک بات بھی نہ کی تھی۔صرف حسرت ویاس اور حد درجے کی اپنائیت سے اس کی طرف دیکھا تھا۔ پھر اشرف کی آنکھ کھل گئی۔اورساراخواب اس کے دماغ کے کینوس پر اس طرح نقش تھاجیسے کسی چابک دست مصور نے تصویرکھینچ دی ہو۔جس کے ایک ایک خدوخال سے وہ مانوس ومسحورہو۔
چند منٹ وہ بسترپرپڑاخواب کے اس پر لطف سحر کو قائم رکھنے کی کوشش کرتارہاجو اس کے دل و دماغ پر طاری تھا۔لیکن آہستہ آہستہ خواب کی کیفیت صبح کی اذانوں کی پکار سے تحلیل ہوتی چلی گئی۔اوروہ نماز کی تیاریوں میںمصروف ہوگیا۔
’’وہ کون تھی۔‘‘یہ سوال بارباراس کے ذہن میںگونج رہاتھا۔
’’وہ تیری آخرت تھی۔اس کے اورتمہارے درمیان رُکاوٹ اورحجاب ہے۔وہ افسردہ اس لیے تھی کہ تمہاری آوارہ فکری نے اسے مایوس کردیاہے اورتمہاری اپنی کمائی ہے جسے تم کھورہے ہو۔جو تمھیں اپناسمجھتی ہے لیکن تم اسے مایوس،پریشان اوردل گرفتہ کررہے ہو۔جو حسن ورعنائی تمہارے لیے دُنیا میں کسی درجہ میں بھی پسندیدہ اورمطلوب ہے۔وہ سب کچھ آخرت میںہوبہواعلیٰ ترین شکل میںتمہاری منتظر ہے۔اگرتم راہِ راست پر قائم ہو۔‘‘
اس کے دل میںخواب کی یہ تعبیرآکرٹک گئی اوراس نے اسے مان لیا۔صبح وہ دُکان پرگیاتواس کے دل کی عجیب سی کیفیت تھی۔کبھی وہ خواب کی شریفاں کے بارے میں سوچتاتھااورکبھی اس شریفاں کے بارے میں۔اوروہ محسوس کرتاتھاکہ ایک گلاب کا پھول تھاتودوسرادھتورے کاپھول تھا۔لیکن پھربھی اسے شریفاں کا موہوم سااِنتظاررہا۔شایداس لیے کہ وہ رات خواب کے حسین ترین چہرے اورشریفاں کے چہرے کا موازنہ کرسکے۔لیکن شریفاں اس روزبھی نہ آئی۔وہ گائوں سے باہر کہیں گئی ہوئی تھی۔
اس کا وہ دن پہلے کے مقابلے میں زیادہ قلبی اورذہنی سکون کے ساتھ گزرا۔اس کی غائب دماغی کچھ کچھ غائب ہوگئی۔اس روز اس کی نمازوں کی کیفیت میں بھی اِضافہ ہوا۔خواب کا سراپا بھی بارباراس کے ذہن کے کینوس پر طلوع ہوہوکر حسرت و یاس سے اس کی طرف دیکھتارہا۔
دوسری رات پھر اس نے ایک اورخواب دیکھا۔
’’ایک اُجاڑسنسان اورویران جگہ سے وہ گزر رہاہے۔اس کے چاروں طرف ہیبت ناک سی چٹانیں تھوہرکے پودے اوراونچے نیچے ٹیلے اور گھاٹیاں ہیں۔شام کا سامنظرہے۔اس کے دل میں گھبراہٹ اورپریشانی ہے۔اورسناٹا اس کے چاروں طرف گونج رہاہے۔اچانک اس کی پشت پر ایک قہقہہ آمیزچیخ سی سنائی دیتی ہے اوروہ دہشت زدگی سے مڑکر دیکھتا ہے۔ شریفاں بال بکھرائے قہقہے لگاتی اس کے پیچھے بھاگی چلی آرہی ہے۔وہ ہوبہو شریفاں جیسی تو نہیں ہے لیکن اس کا دل کہہ رہاہے کہ وہ شریفاں ہی ہے۔ وہی خدوخال،وہ ٹھوڑی کاگڑھا۔وہی لمبے لمبے پریشان بکھرے بکھرے بال،وہی پیشانی کا داغ،وہی سانولی سی رنگت اورکشادہ پیشانی۔وہی گالوں کے گہرے گہرے خوفناک بھنورجواس کے دل کو خوفزدہ کررہے تھے اوروہی کندھوں کا خفیف سااُٹھان اس نے دیکھاکہ اس کی آنکھوں میںسے شرارت کے شرارے اُبل رہے ہیں۔اس کے ناخن بڑھے ہوئے ہیںلباس سیاہ اورخوف ناک ہے۔سفید سفید دانت نمایاںہیں۔ ننگے پائوں،ننگے سر،بدہیئت سا ہیولا جس میں شریفاں کے خدوخال سارے موجود ہیں۔ لیکن اس کے مقابلے میں وہ ہیولاہزارگنابدتر،خوف ناک اورمکروہ ہے۔وہ قہقہے لگاتی اوردانت کچکچاتی اس کی طرف دوڑی چلی آرہی ہے۔اشرف پہلے تو ذرا ٹھٹکا اس لیے کہ اسے شریفاں کا شبہ ساہوا،لیکن اس کا دل اس کی صورت دیکھ کر خوف سے کانپ اُٹھا۔ اور اس پر خوف زدگی سی طاری ہوگئی۔اس شریفاں کی نہ وہ نگاہ خاص ہے اورنہ وہ لوچ وگداز ہے۔وہ توپتہ نہیں کیا شے ہے؟یہ دیکھ کر وہ بھاگ کھڑاہوا۔لیکن وہ اسے پیچھے سے پکاررہی ہے۔آوازیں دے رہی ہے۔ اورپناہ بخدا۔ اس کی آوازوںمیںکتنی دہشت ہے۔ وہ کانپ رہاہے۔‘‘
’’اس کی آنکھ کھل گئی۔اوراس نے محسوس کیا کہ اس کا جسم پسینہ پسینہ ہورہاتھا۔کمرے کی تاریکی میںاسے خوف ودہشت کی سی فضامحسوس ہوئی۔اس نے سکوتِ خوف کو توڑنے کے لیے کھانسنے کی کوشش کی۔لیکن اس کا حلق خشک تھا۔اس نے سرہانے سے ڈبیہ نکال کر تیلی جلائی اورکمرے کی تاریکی میں نور کا شگاف پڑگیا۔دھیمی لالٹین جلی توایک چمگادڑکمرے کی وسعت پر غیرہموار گردش کھانے لگاجس نے ماحول کو اوربھی خوف ناک بنادیا۔
’’وہ کون تھی؟‘‘اس کے ذہن نے خوفزدگی کے عالم میں اس سے سوال کیا۔
’’وہ تیری مطلوب دُنیاکی اصل حقیقت تھی۔ جس کے ظاہر پرتم اِتنا ریجھتے اوراس کی نگاہِ خاص کے طالب ہوتے ہو، اس کے باطن کے حقیقی خدوخال یہ ہیںجو تم نے دیکھ لیے ہیں۔ظاہرکی شریفاں اور باطن کی شریفاں میںیہی فرق ہے۔شیطان اِنسانوں کو انسانوں کے ذریعے شکار کرتا ہے۔ اور اشرف کو شریفاں کے ذریعے شکار کرنا چاہتا ہے۔ شکارہوگئے تو آخرت کی اس رعنائی وخوبی سے محروم ہوکر رہو گے۔ جسے تمہاری اب تک کی بے احتیاطیوں نے اس قدر مایوس اوردل گرفتہ کررکھاہے۔اس کی دل گرفتگی اور مایوسی کا باعث تمہاری یہی بے احتیاطیاں اور ناخدا ترسیاں ہیں ؎
خداکے چاہنے والے، جو کچھ کاغذ کے پھولوں سے، بہل جائیں زمانے میں
تو گل اندام حوروں کے حنائی دست نازک میںمہکتے ہار کیا ہوں گے
اشرف کا دل مطمئن تھاکہ اس کے سوال کایہ صحیح جواب تھا۔
اس روزاشرف دُکان میںپہنچاتوتھوڑی دیر بعدشریفاں بھی آتی نظرآئی۔وہ تین دن غائب رہ کر آئی تھی۔لیکن اس کے دل میںاس کی نگاہِ خاص کے لیے کوئی طلب پیدانہ ہوئی۔اس نے اس کی طرف دیکھ کر منہ پھیرلیا۔اوردُکان کی ترتیب وصفائی میںلگ گیا۔اس نے دل ودماغ پرعزم وارادے کی مددسے شدید قابوپاکراس کی طرف سے اپنی توجہ بالکل ہٹالی اورساتھ ہی شیطانی وسوسے سے بچنے کے لیے دل ہی دل میںپڑھتارہا۔
حَسْبُنَا اللّٰہ وَنِعْمَ الْوَکِیْلٌ۔نِعْمَ الْمَوْلیٰ ونِعْمَ النَّصِیْرٌ۔
کیوںچودھری اشرف جی کیاحال ہے؟‘‘ شریفاں نے اپنے مخصوص انداز میںلوچ کے ساتھ کہا۔
اشرف خاموش رہا۔اس نے کوئی جواب نہ دیا—وہ قریب آکرکھڑی ہوگئی۔
’’چودھری جی۔میں نے عرض کیاکیاحال ہے؟‘‘وہ پھر کھسیانی سی ہوکربولی۔
’’بہن شریفاں بی بی۔اللہ کا کرم ہے۔ دیکھو جوان عورتوں کا اکیلے مردوں کے پاس کام کے بغیرجانا بڑاخطرناک ہے۔زمانہ بڑاخراب ہے اورلوگ باتیں بناتے ہیں۔‘‘
اشرف نے یہ کہااوردُکان کے اندرچلاگیا۔
اس نے دیکھاکہ شریفاں کا رنگ فق ہوگیا۔ اس کی آنکھوں کے دئیے بجھ گئے۔اس کی نگاہِ خاص مرگئی۔وہ غیرمرئی ہاتھ جو غیرمحسوس اندازمیں اس کی آنکھوں کے راستے اُترکراس کے دل کو مٹھی میںلے لیتے تھے۔مکڑی کے ستاروں کی طرح ٹوٹ کرگرگئے۔
وہ تھوڑی دیرحیران وششدرسی کھڑی رہی اورپھرخاموشی سے واپس چلی گئی۔
ابلیس کا طلسم ٹوٹ گیاتھااورساغر ومینا مشاہدہ حق سے ٹکراکر چورچورہوگئے تھے۔
——