اے بنت حرم جاگ!

شمشاد حسین فلاحی

۸؍مارچ کو عالمی یومِ خواتین ہے۔ دنیا خواتین کے حقوق و فرائض پر ایک بار پھر فائیو اسٹار کلچر میں آنسو بہائے گی اور منصوبے بنائے گی۔ خواتین کی بے کسی ۸؍مارچ سے کیسے وابستہ کردی گئی یہ تو نہیں معلوم لیکن اتنا ضروری ہے کہ روز روز خواتین کے مسائل پر بحث کرانے کے بجائے ایک دن مناکر دنیا کو بے وقوف بنایا جارہا ہے۔

دوسری طرف اسلامی دنیا سے کچھ خوشگوار خبریں لگاتار آرہی ہیں۔ ان خبروں نے مسلم خواتین کو اپنے حقوق کی بھیک مانگنے کے لیے نہیں بلکہ دوسروں کے حقوق کی حفاظت کے لیے جدوجہد کے دروازے کھولے ہیں۔ محسوس ہوتا ہے کہ یہ واقعات مسلمان خواتین کے اسلامی مزاج کو تحریکی رخ دینے میں معاون ہوں گے۔

پہلی خبر فلسطین کی ہے جہاں ابھی ابھی حرکۃ المقاومۃ الاسلامیہ کے سیاسی گروپ نے بازی مار کر مغرب کو بے چین کردیا ہے۔ اس فتح کا جشن دنیا کے تمام محروموں نے منایا۔ اور وہ جن پر استعماری قوتوں نے سیاسی، معاشرتی اور ثقافتی قبضہ کررکھا ہے انھوں نے اس فتح پر ایک درجہ سکون محسوس کیا ہے۔ استعمار کی سیاسی شکست ایک واقعہ ہے۔ ایک ایسی شکست جو اسی کے بنائے ہوئے نظام میں داخل ہوکر دی گئی ہے۔ اس فتح کو روکنے کے لیے امریکہ اور یوروپ نے لاکھوں ڈالر پانی کی طرح بہائے تھے۔ لیکن یہ فتح ہوئی۔ اس عظیم الشان فتح کے راز سے پردہ اٹھاتے ہوئے نیویارک ٹائمس کی رپورٹر ایان قشر نے لکھا ہے:

’’حماس کو صرف اس کی فوجی قوت اور خود کش بمباروں کے لیے جانا جاتا ہے لیکن پارلیمانی انتخاب میں زبردست فتح کے پیچھے اس کا خفیہ ہتھیار اس کی خواتین تھیں۔ ۷۴ ممبران پارلیمنٹ کے فتح یاب گروپ میں ۶ خواتین بھی شامل ہیں۔ اس فتح نے خواتین کے لیے اسلامی نمونہ طے کردیا ہے۔‘‘

(ڈیکن کرانیکل، ۴؍فروری)

حماس کی اس فتح میں مسلم خواتین نے آخری مرحلے تک گھروں میں خواتین کو بیدار کرنے اور اپنی تحریک کے حق میں ووٹ دینے کے لیے آمادہ کیا۔ جب مغربی تجزیہ نگار اور الفتح کے سیاسی ماہرین اپنی جیت کے امکانات پر اعداد و شمار تیار کررہے تھے، ٹھیک اسی وقت یہ خواتین ان کی امیدوں کے ایک ایک ووٹ کو اپنے حق میں کرنے میں مصروف تھیں۔

ہندوستان کے جنوبی حصے مدارس (چنئی) سے ایک خبر حجاب میں بھی شائع ہوچکی ہے، معاشرتی برائیوں کو روکنے کے لیے ایک بڑی برائی کو اختیار کرنے کی مغربی تکنیک ہمارے حکمرانوں کو بہت پسند آتی ہے۔ لیکن اسلام پسند حلقے سے تعلق رکھنے والی ان خواتین نے ایڈس کے خاتمے کے لیے کنڈوم کے استعمال کے خلاف احتجاج کیا۔ حکومت اور میڈیا کو یہ سوچنے پر مجبور کیا کہ ایڈس کے خاتمے کے لیے ان کی سوچ میں کہیں نہ کہیں نقص ضرور ہے۔ اس احتجاج سے یہ نتیجہ نکالا جاتا ہے کہ:

(۱) ایڈس کی خطرناک بیماری کا اصل سبب ناجائز اور آوارہ جنسی بے راہ روی ہے۔ اس لیے بیماری کے خاتمے کا سب سے بنیادی راستہ یہی ہے کہ جنسی آوارگی کو جائز اور پاکیزہ رشتوں میں تبدیل کریں۔ اور آوارگی کے ہر راستے کو بند کریں۔

(۲) حکومت اور بین الاقوامی ایجنسیاں ایڈس کے خاتمے کے لیے سارا زور محفوظ جنسی تعلقات پر دے رہی ہیں۔ اور اس کے لیے گلی گلی کنڈوم مشینیں لگائی جارہی ہیں۔ یہ علاج اپنے آپ میں ایڈس جیسے خطرناک مرض کو پھیلانے کا سبب ہے۔

اسلام پسند خواتین نے ان باتوں کو زور و شور سے اٹھایا۔ بات میڈیا تک پہنچی، حکومت تک پہنچی، ابھی یہ نہیں معلوم کہ حکومت ان خواتین کی آواز کو کس قدر سنجیدگی سے لے رہی ہے۔ لیکن اگر خواتین کی طرف سے ایسے احتجاج شدید ہوجائیں تو معاشرتی نظام پر ایک نئی بحث شروع ہوسکتی ہے۔ اسی طرح گذشتہ ماہ کی ۲۸؍۲۹؍تاریخ کو اورنگ آباد شہر میں جماعت اسلامی مہاراشٹر نے ایک کانفرنس منعقد کی جس کا مرکزی موضوع ’’انصاف کے علمبردار بنو‘‘ تھا۔ اس کانفرنس میں آخری دن محتاط اندازے کے مطابق پچیس ہزار خواتین نے شرکت کرکے یہ ثابت کیا کہ ہندوستان کی مسلم خواتین بھی دینی، سماجی و معاشرتی اور سیاسی اعتبار سے بیدار ہورہی ہیں۔ وقت کے تقاضوں اور حالات کی نبض کو سمجھنا انھوں نے بھی سیکھ لیا ہے۔ اور وہ بھی باشعور خواتین کی طرح سماج کی تعمیر جدید میں اپنا کردار ادا کرنے کے لیے تیاری کررہی ہیں۔

آخری خبر یہ ہے کہ آندھرا پردیش کے دارالحکومت حیدرآباد میں ایک ریاستی کانفرنس خواتین کے لیے منعقد کی گئی ہے۔ خواتین کے لیے خصوصی طور پر ہونے والی یہ ملک میں پہلی کانفرنس ہے۔ اس سے پہلے کی دیگر کانفرنسیں دوسری تحریکوں کی جانب سے کی جاتی رہی ہیں لیکن اس کانفرنس نے اپنے موضوعات میں خواتین کو وقتی مسائل سے بھی آگے نکلنے کی دعوت دی ہے۔ مسلم خواتین میں کام کرنے کے لیے یہ کانفرنس ایک رخ طے کرے گی اور خصوصاً دکن کے علاقے میں خواتین حالات کا دھارا بدلنے کے لیے اپنی تحریک مضبوط کریں گی۔ اس کانفرنس میں پچاس ہزار خواتین نے شرکت کی۔ ملکی اور غیر ملکی مہمانوں نے خواتین کے اہم مسائل پر گفتگو کی۔

یہ خبریں خواتین بیداری کی علامت ہیں۔ یہ خبریں تین شعبوں کی نمائندہ ہیں۔ ایک طرف حماس کی خواتین نے سیاسی سرگرمیوں کے لیے ایک نمونہ پیش کیا ہے، وہیں مدراس کی خواتین نے معاشرتی برائیوں کے خلاف اپنی آواز بلند کرنے کی کوشش کی ہے اسی طرح پہلے اورنگ آباد ار پھر حیدرآباد کی یہ کانفرنسیں منظم جدوجہد کا نقطہ آغاز ہوںگی۔ یہ ثابت ہوگیا ہے کہ مسلم خواتین غلبہ اسلام کی جدوجہد سے الگ نہیں رکھی جاسکتیں۔ فرد، معاشرے اور ریاست کی تبدیلی کے لیے خواتین کی شرکت اتنی ہی لازمی ہے جتنی خود مردوں کی۔

کیا خواتین اپنی جدوجہد کا راستہ خود طے کریں گی، کیا پالیسی اور رہنما خطوط طے کرنے میں خواتین کا رول ہوگا۔ کیا اہم فیصلے لینے کے لیے خواتین اپنے اختیارات اور صلاحیت کا استعمال کرنے کی ذمہ داری قبول کریں گی؟ ان سوالوں کے جوابات ابھی باقی ہیں۔اب یہ خواتین کو طے کرنا ہے کہ وہ اس جدوجہد میں کہاں تک اور کب تک حق اور عدل کا ساتھ دیں گی۔ حالات ان کے حق میں تیزی سے بدل رہے ہیں لیکن ان بدلتے حالات کو وہ اپنے فرائض کی ادائیگی کے لیے کتنا استعمال کرتی ہیں۔ احساس ذمہ داری، حق کے لیے آواز بلند کرنے کا جذبہ اور آنے والے تنظیمی، تحریکی، ملکی و ملی مسائل کا شعور اس جدوجہد کے تقاضے ہیں۔

روایتی موضوعات کی جگہ ان کانفرنسوں میں مغرب کے درآمد کردہ تصور آزادی نسواں، مساوات مرد و زن اور عورت کی مظلومیت پر ماہرین نے گفتگو کی۔ یہ اس بات کی علامت ہے کہ ہندوستان میں مسلم خواتین صرف اپنے ہی نہیں بلکہ پورے ملک کے مسائل حل کرنے کا عزم بھی رکھتی ہیں اور صلاحیت بھی۔ ان کے سامنے صالح معاشرے کی تشکیل کا نقشہ بھی ہے اور جدوجہد کا جذبہ بھی۔

بنت حرم کے جاگنے اور انصاف کی علمبردار بننے کے لیے یہ سب سے مناسب وقت ہے۔ آج کے مسائل اور تقاضے بنت حرم کی بیداری کے بغیر نہیں پورے کیے جاسکتے۔ اگر آج بنت حرم نہیں بیدار ہوئی تو صرف ملت اسلامیہ ہی نہیں بلکہ اس ملک میں رہنے والی دوسری آبادیاں بھی حق و صداقت کے روحانی اور ظاہری فائدوں سے محروم رہ جائیں گی۔ اخلاقی گراوٹ کا شکار یہ معاشرہ پورے ملک کو لے ڈوبے گا۔کیونکہ صرف ملت اسلامیہ کو ہی یہ معلوم ہے کہ اس ملک کو کیسے بچایا جاسکتا ہے۔ اسی لیے ملک اور ملت دونوں کو بچانے کے لیے بنت حرم کا بیدار ہونا خوش آئند بات ہے۔

شمشاد حسین فلاحی

مزید

حالیہ شمارے

ماہنامہ حجاب اسلامی شمارہ ستمبر 2023

شمارہ پڑھیں

ماہنامہ حجاب اسلامی شمارہ اگست 2023

شمارہ پڑھیں