جنت سال بھر سے سجائی جارہی ہے، کچھ بہت ہی معزز مہمانوں کے استقبال کی تیاریاں ہورہی ہیں۔ یہ کون سا موقع ہے کہ جنت کے سارے دروازے کھول دیے گئے ہیں اور فرشتے آواز لگا رہے ہیں: ’’اے خیر کے طالب! آگے بڑھ اور برائی کے طالب رک جا۔‘‘ (ترمذی، ابن ماجہ)
یہ کون سے دن ہیں کہ رحمت، مغفرت اور جنت کی سیل لگی ہے، آوازیں دے دے کر بلایا جارہا ہے کہ آؤ اپنے گناہ معاف کرالو۔ آؤ! کہ رب مہربان ہے، اس سے جو کچھ مانگو گے عطا کرے گا، رحمت کی موسلا دھار بارش برسنے کو ہے۔ اپنے اپنے دامن پھیلالو جتنی جتنی رحمت اور برکت سمیٹ سکتے ہو سمیٹ لو!
آؤ کہ شیاطین باندھ دیے گئے ہیں۔ ’’دوزخ کے سارے دروازے بند کردیے ہیں۔‘‘ (متفق علیہ)
رمضان المبارک آیاہی چاہتا ہے۔ آئیے کچھ سوچیں، کچھ طے کرلیں کہ رحمت و برکت کے اس بہتے دریا سے ہم کس طرح زیادہ سے زیادہ جھولیاں بھرسکتے ہیں۔ کیسے زیادہ نیکیاں سمیٹ سکتے ہیں اور تیس دن کی اس مشق سے ہم کس طرح اپنی شخصیت کے اندر ایک نکھار پیدا کرسکتے ہیں۔ اپنے جسم و روح کی بیماریوں اور آلودگیوں کو کس طرح دھو کرپاک صاف کردار کی تعمیر کرسکتے ہیں۔
آئیے سوچیں! مالک نے اپنے بندوں پر یہ روزے کیوں اور کس مقصد سے فرض کیے؟ ہم وہ مقصد کس طرح بہترین طریقے سے حاصل کرسکتے ہیں؟
یہ جاننا بھی ضروری ہے کہ کون بدنصیب ہوتے ہیں، جو ماہ رمضان المبارک پاتے ہیں، لیکن نہ رحمتیں سمیٹتے ہیں نہ کردار کی تعمیر کرپاتے ہیں، نہ رب کو راضی کرتے ہیں اور ہلاکت کا شکار ہوجاتے ہیں۔
رمضان خیروبرکت کا مہینہ
جب ہمارے رب کی رحمت پورے جوش میں ہوتی ہے۔ وہ رب جو ہر حال میں رحمن ورحیم ہے۔ جس کی رحمت ہر وقت ساری دنیا پر چھائی ہوئی ہے۔ لیکن اس خاص ماہ میں خاص رحمتوں کا نزول ہوتا ہے۔ رمضان کی ہر صبح اور ہر رات فرشتوں کو مقرر کردیتا ہے جو آواز لگاتے ہیں:
’’اے خیر کی تلاش کرنے والے متوجہ ہو اور آگے بڑھ، اے برائی کے طالب رک جا، اس کے بعد فرشتہ کہتا ہے، ہے کوئی مغفرت چاہنے والا کہ اس کی مغفرت کی جائے، ہے کوئی توبہ کرنے والا کہ اس کی توبہ قبول کی جائے، ہے کوئی دعا کرنے والا کہ اس کی دعا قبول کی جائے، ہے کوئی سائل کہ اس کا سوال پورا کیا جائے۔‘‘
تصور کریں، کوئی بہت بڑا بادشاہ، بڑا سخی، بڑا مہربان، منادی کررہا ہے، بہت کچھ دینے کو بے تاب ہے، محل و دربار سجا کر بیٹھا ہے، جنت مغفرت ہر چیز سستی کردی ہے۔رحمت اور محبت سے منتظر ہے کہ اس کے غلام، اس کے بندے، عباد الرحمن اس کی طرف رخ کریں، ادھر متوجہ ہوں، ہیرے، جواہرات، تخت پوش، اطلس و دیبا کے لباس، سونے چاندی کے مکانات، پھلوں سے لدے باغات، دودھ اور شہد کی نہریں ہیں اور حوریں اور غلمان، طرح طرح کے کھانے ، خوان سجائے، ساغر و جام تھامے، قطاروں میں استقبال کے لیے کھڑے ہیں۔ ہے کوئی جو اس پکار پر کان دھرے؟
’’رمضان میں اللہ جل شانہ متوجہ ہوتا ہے، اپنی رحمتِ خاصہ نازل فرماتا ہے، خطاؤں کو معاف فرماتا ہے، دعاؤں کو قبول فرماتا ہے۔ تمہارے تنافس کو دیکھتا ہے اور فرشتوں پر فخر کرتا ہے، پس اللہ کو اپنی نیکی دکھاؤ، بدنصیب ہے وہ شخص جو اس مہینے میں اللہ کی رحمت سے محروم رہ جائے۔‘‘ (طبرانی)
یعنی وہ مالک ارض والسماوات عطا کرنے کو بے تاب ہے، فرشتوں سے بھی یہ کہتا ہے کہ دیکھو میرے بندوں کا تنافس، یعنی میرے بندے ایک دوسرے سے آگے بڑھنے کی کوشش کررہے ہیں۔ وہ میرے قرب کے لیے بے تاب ہیں، وہ میرے دامن سے چمٹ جانے کے لیے ایک دوسرے سے مسابقت کررہے ہیں۔ اور ایسا ہوتا ہے کہ
٭ کوئی زیادہ قرآن پڑھ لیتا ہے۔
٭ کوئی زیادہ ذکر و دعا کرلیتا ہے۔
٭ کوئی انفاق میں آگے بڑھ جاتا ہے۔
٭ کوئی دوسروں کو دین سکھانے میں رات دن لگادیتا ہے۔
٭ کوئی خدمتِ خلق میں بازی لے جانے کی کوشش کرتا ہے۔
٭ جنت کے سارے دروازے کھلے ہیں۔ ہر دروازے کی طرف مومنین کی دوڑ لگی ہے، اور اپنے بندوں سے بے انتہا محبت کرنے والا اللہ پیار، محبت، شوق سے بے حد و حساب نعمتیں آگے رکھے اپنے پیارے بندوں کو دیکھ رہا ہے۔ کون کس دروازے سے اس کی طرف ان نعمتوں اور انعامات کی طرف آتا ہے! بھلا کوئی اس سے بدنصیب بھی ہوگا جو منہ دوسری طرف پھیر کر کھڑا ہو۔ جو دنیا کی چند روزہ زندگی کی طرف مگن ہو اور اس کے کان اس کی پکار سے محروم ہوں، اس کے دل کے سوتے بند ہوں۔ اس کی آنکھیں اس محدود زندگی سے آگے نہ دیکھ سکتی ہوں۔ نہ رمضان کی حقیقت سمجھے نہ قدر کرے، نہ محنت کرے۔ دنیا میں اس بچے سے زیادہ بدنصیب کون ہوتا ہے جس کی ماں اس کے لیے باہیں پھیلا کر بیٹھی ہو مگر اسے صرف کھلونے مطلوب ہوں اور ماں کی طرف آنکھ اٹھا کر بھی نہ دیکھے… بہت کوشش کے بعد ماں کہے گی دفع ہوجا! اب میری طرف نہ آنا۔ دکھی ہوجائے گی، ناراض ہوجائے گی۔
لیکن اللہ تو بار بار بلاتا ہے۔ ہر سال بلاتا ہے۔ طرح طرح سے ترغیبات دیتا ہے۔ شاید بندوں کے دل میں کوئی بات اترجائے، اجر اتنا بڑھا دیا کہ ’’نفل کا اجر فرض کے برابر اور فرض کا اجر ستر فرضوں کے برابر۔‘‘ (متفق علیہ)
آج کی دنیا میں لوگ ’سیل‘ کے لفظ سے اچھی طرح واقف ہیں۔ جہاں دکاندار مال کی قیمتیں کم کردیتے ہیں۔ بہت بڑی سیل ہو تو ایک کی قیمت میں دو اشیاء دے کر کہتے ہیں ’’لوٹ سیل‘‘۔
کسی نے سوچا ایک کے بدلے ستر؟ کوئی تصور کرسکتا ہے؟
ایک ہزار کا صدقہ دو، ستر ہزار کا اجر لو۔
ایک نیکی کرو، ستر کا بدلہ پاؤ۔
چار رکعت فرض نماز ادا کرو، ۲۸۰ رکعتوں کا اجر پاؤ۔
ایک تسبیح (۱۰۰) کلمہ طیبہ کرو سات ہزار کا اجر پاؤ۔
اور خود روزہ، اس کے اجر کی تو کوئی حد ہی نہیں۔
حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ’’ابنِ آدم کا ہر عمل اس کے لیے کئی گنا بڑھایا جاتا ہے، یہاں تک کہ ایک نیکی دس سے سات سو گنا تک بڑھائی جاتی ہے۔ لیکن اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ روزے کا معاملہ اس سے جدا ہے، کیونکہ وہ میرے لیے ہے اور میں ہی اس کی جزا دوں گا۔‘‘ (متفق علیہ)
اس سے مراد یہ ہے کہ روزے کے اجر کی کوئی حد مقرر نہیں ہے اور اللہ تعالیٰ جس قدر چاہے گا روزہ دار کو اس کا اجر دے گا۔ مراد یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ روزے کی بے حد وحساب جزا دے گا، جتنے گہرے جذبے اور اخلاص کے ساتھ روزہ رکھیں، اللہ تعالیٰ کا جتنا تقویٰ اختیار کریں گے، روزے سے جتنے کچھ روحانی و دینی فوائد حاصل کریں گے اور پھر بعد کے دنوں میں بھی ان کے فوائد کو برقرار رکھنے کی کوشش کریں۔ اللہ تعالیٰ کے ہاں اس کی جزا بڑھتی چلی جائے گی۔
(کتاب الصوم: ص ۳۲)
——