مسلمہ! تو ہماری عزت و ناموس کی چادر ہے تیری پاک طینت ہمارے لیے باعث رحمت ہے۔ تیری بدولت ہمارا دین اور ہماری ملت کی بنیادیں مستحکم ہیں۔ ہماری نئی پود تیری ہی آغوش میں لا الٰہ الا اللہ کا سبق سیکھتی ہے۔ تیری تربیت ہی ان کے فکر و کردار کو دین کے سانچے میں ڈھالتی ہے۔ دراصل مسلمان میں اسلام کی محبت اور دین پر فدا ہونے کا جذبہ تیرے ہی جذبہ دین داری اور عفت سے پیدا ہوتا ہے۔ تیری ذمہ داریاں نہایت عظیم ہیں اور تو دین کی محافظ ہے۔ اے ملت اسلام کی بیٹی تو اس دورِ جدید کی مکاری و عیاری و فریب کاری سے دھوکہ نہ کھانا اس میں پھنسنے والا اپنے کو آزاد اور خوش نصیب خیال کرتا ہے اس طلسم میں گرفتار نہ ہونا۔ بدویت کی سادگی رکھنے والی دیہاتی عورت، وہ دہقان زادی جو پست قامت بد صورت کم زبان سی ہے مگر اس کا دل اپنی اولاد میں لگا ہوا ہے۔ وہ ملت میں ایک غیرت مند اور حق پرست مسلمان کا اضافہ کرتی ہے۔ دورِ جدید کی مغربی معاشرت میں ڈوبی ہوئی اس عورت سے ہزار درجہ بہتر ہے، جس کو تعلیم و تہذیب جدید نے خالی گود رہنا سکھایا ہے۔ جس کے سبب اس کی نگاہ حیا سے اس کا دل فکر و خیال کی پاکیزگی سے محروم ہوگیا ہے۔ اس کے علم و تمدن نے مامتا کا بوجھ اٹھانے سے انکار کردیا ہے۔ اُم، ماں کو کہتے ہیں جو اولاد کو بناتی ہے۔ امت قوم کو کہتے ہیں جس کو پیغمبر بناتے ہیں۔
اے مشرق کی عورت! یورپ کی عورت کی پیروی کرنے کے بجائے تو حضرت فاطمہ زہرا کے نقش قدم پر چل تاکہ تیری شاخ سے بھی حسنین جیسے پھول کھلیں اور ہمارے چمن میں پھر سے بہار آئے۔ سرسید احمد مرحوم کے پوتے ڈاکٹر راس معود کی اہلیہ صاحب کو حمل تھا۔ علامہ اقبال مرحوم کا قیام اس وقت ان کے یہاں تھا۔ ڈاکٹر صاحب نے ایک خوش الحان قاری کو مقرر کیا کہ جو روزانہ آدھے گھنٹے بیگم صاحب کو قرآن پاک سنایا کرے۔ علامہ نے فرمایا زمانہ حمل میں عورت کو قرآن پاک سنانے سے بچہ کی نشو ونما پر خاص اثر مرتب ہوتا ہے۔ تبلیغی جماعت کے بانی مولانا محمد الیاس کاندھلویؒ کی والدہ گرامی مولانا کے زمانہ حمل و رضاعت میں ایک پورا قرآن روزانہ پڑھتی تھیں۔ (حافظہ تھیں)
علم اللسان کی رو سے امت کا مصدر ام ہے عربی زبان میں ’اُم ‘ ماں کو کہتے ہیں۔ امت قوم کو۔ اگر مائیں نہ ہوں یا ان میں مامتا کی آگ نہ ہو تو زندگیوں کا بہتا ہوا دھارا تھم جائے۔ حضورﷺ کا ارشاد ہے جنت ماں کے قدموں میں ہے۔ حضورؐ نے عورت کو دنیا کی تین بہترین نعمتوں میں شمار فرمایا (نماز، خوشبو، عورت) نسل انسانی کی بقا کا انحصار ماں کی مامتا کے جذبہ پر ہے۔ عورت ماں کی حیثیت سے جو دکھ اٹھاتی ہے زندگی کے ارتقا کا منصوبہ اسی کے سہارے پروان چڑھتا ہے۔
عورت کے حسن ظاہری سے زیادہ اس کی فطرت کی گہرائیوں میں سوز و تپش، عفت و ایثار کے جوہر مخفی ہیں، چوں کہ نسل انسانی کی بقا امومت کی بدولت ہے۔ اس لیے امومت کی حفاظت اور احترام عین اسلام ہے۔ عورت کی اصل بڑائی یہی ہے کہ وہ ایک کامیاب اور اعلیٰ درجے کی ماںثابت ہو۔ عورت مرد کی عریانی کا پردہ اس کے جذباتِ عشق کا پیراہن ہے سچائی کی لگن جو انسانی زندگی کا سرچشمہ ہے مرد کے اندر عورت ہی کی بدولت پیدا ہوتا ہے ماں ہی کی آغوش اس کو پیدا کرتی ہے۔ اس کی بہترین مثال فاطمہ زہرا حضرت حسنؓ، حسینؓ کی والدہ گرامی ہیں۔ علامہ اقبال مرحوم کی مجلس میں ایک روز یہ واقعہ نقل کیا گیا کہ مسجد نبوی مدینہ منورہ میں بلی نے بچے بیاہ دیے، صحابہ نے مسجد میں گندگی کی احتیاط کے خیال سے بلی کو مار کر نکالنا چاہا، حضورؐ نے فرمایا اسے مارو نہیں ،اب یہ ماں ہوگئی ہے۔ علامہ اس کو سن کر دیر تک روتے رہے اور بار بار دریافت کرتے حضورؐ نے کیا فرمایا اور پھر دہراتے کہ مارو نہیں یہ ماں ہوگئی ہے اورپھر روتے رہے۔ تقریباً پون گھنٹے رقت طاری رہی فرماتے اللہ اللہ! امومت کا یہ شرف۔
علامہ نے ڈاکٹر راس مسعود کے یہاں صاحبزادی کی پیدائش کی خبر سن کر مندرجہ ذیل شعر فرمایا:
خاندان میں ایک لڑکی کا وجود
باعثِ برکات لا محدود ہے