ایک تین منزلہ عمارت کی سیڑھیوں کے سائے میں برسوں برس سے بابا اپنا ٹھکانہ بنائے ہوئے تھے – میلے کچیلے بابا -گرداور دھول میں لپٹے لپٹائے بابا -جن کے لمبے بے ترتیب بال ان کے شانوں پر جھولتے رہتے -پیال اُن کا بستر تھا اور ایک پھٹے پرانے کمبل میں ان کا وجود سمٹ کر رہ گیا تھا -کسی روز وہ بالکل خاموش، انتہائی فکر مند -کسی گہری سوچ میں ڈوبے دکھائی دیتے -اورکسی روز اپنے ٹھکانے کے سامنے چہل قدمی کرتے ہوئے آسمان کی طرف انگلیاں اٹھا کر ایک ہی بات کی گردان کرتے نظر آتے۔
’’آدمی کب بنے گا؟‘‘
اس عمارت کے ٹھیک سامنے ایک بڑا ہی شاندار بنگلہ تھا۔ اس بنگلہ میں کوئی ہری ہرجی رہا کرتے تھے جو بڑے دیالو تھے۔ جب تک اس بنگلہ میں ان کا قیام رہا ان کے یہاں سے بابا کو بلاناغہ رات کا کھانا ملتا رہا تھا۔ ایک بار ایسا ہوا کہ ان کاملازم بھول سے بابا کو کھانا نہیں دے سکا۔ اس بات کاعلم جب ہری ہرجی کو ہوا تھا تو وہ اپنے ملازم پر انتہائی برہم ہوئے تھے اور پھر انہوں نے اپنے سامنے ہی بابا کو کھانا بھجوانے کا معمول بنالیا تھا۔
ہری ہرجی کا پھر کہیں تبادلہ ہوگیا اور جب وہ بنگلہ خالی کرکے چلے گئے تو کئی دنوں تک بابا کی نگاہیں اس بنگلے پر ٹکی رہی تھیں۔
ان لوگوں سے آس لگائے جو اس بنگلے میں آکر مقیم ہوئے تھے -وہ تھے دیانند شرما جی – ان کی بیوی اور ایک چھوٹا لڑکا۔ دیا ان کے نام کے ساتھ ان کے بزرگوں نے جوڑا تھا۔ مقصد تھا دیا کے جذبے سے ان کے دل کو بھڑکانے کا لیکن وہ دیا تو اگلے وقتوں کی کوئی چیز تھی -رام کے دور کی -مسیح کے زمانے کی -محمدؐ کے عہد کی -اب وہ رہا ہے کہاں؟ ایک ہری ہرجی کے ہونے سے کیا ہوتا ہے؟ اب تو دیا کا صرف نام باقی رہ گیا ہے -اورجو دیا اس زمانے میں مروج ہے اس کے نام پر ریا کاریاں پلتی ہیں – ، جبرو تشدد اس سے جنم لیتے ہیں، اس کے سہارے دھن بٹورے جاتے ہیں۔ اس طرح کی دیا کا سرور شرما جی کے نام نے ان کے دل و دماغ کوعطا کیا تھا۔ امارت کا گہرا نشہ اُن کے چہرے پر رعب بن کر چھایا رہتا تھا اور جو عورت بیوی بن کر ان کے جیون میں داخل ہوتی تھی وہ نفاست پسندی خود سری اور سخت مزاجی میں ان سے بھی دوہاتھ آگے تھی۔ کسی ملازم کی معمولی غلطی پر وہ اپنی زبان کے خنجرسے اس طرح وار کرتی کہ ملازم بظاہر اپنے جسم پر کوئی زخم نہ کھاکر بھی زخم کے درد کے احساس سے کراہ اٹھتا تھا۔
پہلے ہی دن جب شرما جی کی بیوی کی نگاہ بابا پر پڑی تو اس کی پیشانی کی ساری رگیں تن گئیں- اس نے ناک بھوؤں کو سکوڑتے ہوئے شرما جی سے کہا۔
تمہاری پسند کا بھی جواب نہیں -یہ جو بابا سامنے گندگی پھیلائے ہوئے ہیں تو کیا ہمارے یہاں آنے جانے والوں پر اس کی موجودگی گراں نہ گزرے گی -؟‘‘
شرما جی نے اپنی بیوی کو سمجھاتے ہوئے کہا۔ ’’ہے کوئی ہری ہرجی، ہم سے پہلے جو اس بنگلے میں رہتے تھے۔ انہوں نے یہ وبال پال رکھا تھا مگر اب دیکھنا کہ یہ بہت جلد اپنا ٹھکانہ بدل دے گا۔‘‘
شرما جی کے خیال کے برعکس کئی دنوں کے بعد بھی جب بابا نے اپنا ٹھکانہ نہیں بدلا تو ان کی بیوی نے جھنجھلاتے ہوئے کہا۔
’’یہ بابا خود سے یہاں سے ٹلنے والا نہیں -کوئی راہ نکالو کہ یہ چلتا بنے -‘‘
شرما جی انتہائی شاطر آدمی تھے -داؤںپینچ کے فن میں بڑے ماہر -وہ اپنے ملازم نتھوا سے بولے۔
’’نتھوا تم کافی سمجھدار آدمی ہو -اپناکوئی کمال دکھاؤ کہ یہ بابا یہاں سے بھاگ کھڑا ہو-‘‘
’’ہاں نتھو اتم کرنا چاہو تو یہ کام تمہارے لئے کوئی مشکل نہیں -‘‘ نتھوانے پہلی بار شرما جی کی بیوی کی زبان سے اتنے میٹھے بول سنے تھے -ملازم جو جھڑکیوں کی آگ میں سلگتے اور جلتے رہنے پر مجبور ہیںمیٹھے بول کے جادو سے ہر کام سرآنکھوں پر اٹھالیتے ہیں -نتھوانے فوراً یہ کام اپنے ذمہ لے لیا اور شرما جی کی بیوی کے اشارے پر رات کے اندھیرے میں چپکے سے سیڑھیوں پر چڑھ گیا اور پانی سے بھرا ایک ڈول بابا پر انڈیل دیا ،لیکن صبح بابا کو اسی پرانے کمبل میں سکڑے اور کانپتے ہوئے دیکھ کر نتھوا سہم گیا -اسے اپنے جرم کا احساس پورے وجود میں پھیلتا ہوا محسوس ہوا۔ اسے یاد آنے لگا کہ جب وہ چھوٹا سا تھا اور اس کے اپاہج باپ کو جس کا جسم جگہ جگہ سے خارش زدہ ہوگیاتھا لوگ طرح طرح سے تنگ کیا کرتے تھے – کہیںبھی ٹھکانہ لینے نہیں دیتے تھے -تب اس کے جی میں آیا تھا کہ وہ ان تمام لوگوں کا گلا گھونٹ دے جو ظالم اور بے رحم تھے،لیکن اس وقت اس کے بازوؤں میں اتنی طاقت نہ تھی – وہ ایک ننھا سا وجود کس کس کا مقابلہ کرتا ،لیکن آج جب کہ وہ جوان تھا، طاقتور تھاخود اس ظلم کا مرتکب ہوچکا تھا جس سے اُسے نفرت تھی -یہ سوچتے ہی وہ کپکپا سا گیا ۔دوڑا ہوا بابا کے پاس پہنچا اور ہاتھ جوڑتے ہوئے بولا-میں نے ہی رات آپ پر پانی انڈیلا تھا بابا -مجھے معاف کردیجئے۔ جواب میں بابا نے سراٹھاکر آسمان کی طرف دیکھا ، پھر سرجھکالیا۔ ادھر شرماجی کی بیوی بابا کے اس طرح جمے رہنے پر بری طرح تلملائی ہوئی تھی۔ اسے جب بابا سے نتھوا کے معافی مانگنے کا علم ہوا تو مارے غصے کے اس کا دماغ پھٹ پڑا- ڈرپوک بزدل ، تو ہم پرست اور نہ جانے کیا -وہ نتھوا کو کہتی رہی -باباکی موجودگی اس کے ذہنی ہیجان کا باعث بنی ہوئی تھی۔ اس ہیجان سے نجات حاصل کرنے کیلئے اس نے ایک شوفر کی خدمات لیں جو اس علاقے کا رہنے والا تھا۔ شرماجی کی بیوی کامدعاسن کر وہ بولا۔
بہت دنوں کی بات ہے بی بی جی کہ اس محلے میں ایک مالدار عورت رہتی تھی ایک روز نہایت ہی پراسرار طریقے پر اس عورت کا قتل ہوگیا۔ مجرم کی تلاش جاری ہی تھی کہ ان ہی دنوں بابا نے یہاں آکر سیڑھیوں کے سائے میں اپنا ٹھکانا بنایا۔ پہلے پہل تو لوگوں نے بابا کو دیکھ کر یہ سمجھا تھا کہ یہ پولیس کے خفیہ محکمہ کا کوئی آدمی ہے اور آج بھی بہت سے لوگ ایسا ہی سمجھتے ہیں کیونکہ وہ مجرم اب تک گرفتار نہیں ہوسکا -‘‘
شرماجی کی بیوی نے جب شوفر کی باتوں سے اپنے شوہر کو باخبر کیا تو وہ ہنس پڑے -پھر سنجیدہ ہوکر بولے۔
’’تم بھی جاہلوں کی باتوں میں آگئیں -ارے یہ بابا اپنے برے اعمال سے اپنا ذہنی توازن کھو بیٹھا ہے۔ کیا پتہ چرس کا عادی ہو -‘‘ یا پھر دولت بٹورنے کی خاطر جادو وغیرہ سیکھ لیا ہو-‘‘
’’کچھ بھی ہو ہمیں کیا -ہم تو اس کی موجودگی سے نجات چاہتے ہیں -دیکھونا۔ کل میری سہیلیاں آئی تھیں۔ مسزٹنڈن، مسز گوپی ، -مسزاحمدرضا ۔کیرم کاانتہائی سیریس گیم چل رہا تھا کہ یکایک بابا زور زور سے بڑبڑانے لگا۔
’’آدمی کب بنے گا ۔‘‘
سب ہنس پڑیں۔مسز احمد نے کہاتھا۔
بڑا ہی شاندار بنگلہ تمہارے پتی نے انتخاب کیا ہے -جلدہی تم بھی کچھ نہ کچھ بڑبڑانے لگوگی -‘‘ مسز احمد کی بات پر میری تمام سہیلیاں مجھ پر ہنس دی تھیں -میں تو دل ہی دل میں کٹ کر رہ گئی تھی۔ اب ایک پل بھی یہاں رہنے کو میرا جی نہیں چاہتا۔ تم اگر اس بابا کو یہاں سے ہٹا نہیں سکتے تو کسی دوسرے بنگلے کا انتظام کرو۔‘‘
کئی مہینے کی بھاگ دوڑ کے بعد ڈھنگ کا یہ ایک بنگلہ حاصل کرسکا ہوں اب وہ محض ایک پاگل بابا کی وجہ سے چھوڑدوں تو کیا یہ میرا پاگل پن نہیں ہوگا -؟ -‘‘
اور پاگل کی باتیں سن سن کر ہم خود بھی پاگل ہوگئے تو کیا ہوگا؟ -‘‘ شرما جی کی بیوی نے کہا۔
’’ہم اتنے ہلکے دماغ کے نہیں ہیں -ویسے اپنے بنگلے کے سامنے اس بابا کی موجودگی میں بھی پسند نہیں کرتا بہرحال میں کوئی نہ کوئی ایسا انتظام نہیں کرتا۔ بہرحال میں کوئی نہ کوئی ایسا انتظام ضرور کروں گا کہ یہ بابا پھر یہاں دکھائی نہ دے -‘‘
اس وقت شرما جی کاچھوٹا لڑکا منٹو سویا ہوا تھا -نوکر سوداسلف لانے بازار گیا ہوا تھا۔ سامنے پیال کے اپنے ٹھکانے پر بابا بھی موجود تھے – موقع اچھا تھا -گلی بھی سنسان تھی -شرما جی نے جلد سے پیال پر پٹرول چھڑک دیا اور اس پر ماچس کی جلتی ہوئی تیلی پھینک دی۔ پھر اپنی بیوی کے ساتھ کار میں بیٹھ کر چلتے بنے۔ نصف گھنٹے تک یہاں وہاں چکرکاٹنے کے بعد جب وہ واپس لوٹے تو منظر ہی کچھ اور تھا۔ ان کا بنگلہ شعلوں کی لپیٹ میں گھرا ہوا تھا -شاید یہ بابا کے جلتے ہوئے ٹھکانوں سے ہوانے پیال کو اُڑا کر بنگلے تک پہنچادیا تھا -بنگلے کے سامنے لوگوں کی بھیڑ لگی ہوئی تھی -آگ پر قابو پانے کا جتن کیا جارہا تھا۔ کھڑکیوں اور کواڑوں کی لکڑیاں چٹْخ چٹخ کر اڑ رہی تھیں -فضا میں دھواں ہی دھواں پھیل گیا تھا۔ شرما جی اور ان کی بیوی پاگلوں کی طرح چیختے ہوئے کار سے اترے اور بنگلہ کی طرف دوڑپڑے۔
’’میرا منا -میرا بچہ -‘‘
ٹھیک اسی وقت جلتے ہوئے بنگلے سے دھوئیں کو چیرتا پھاڑتا -کمبل اوڑھے ہوئے ایک شخص نمودار ہوا۔ اس کی گود میں شرما جی کاچھوٹا بچہ انتہائی خوف زدہ حالت میں رورہا تھا۔
’’آدمی کب بنے گا؟‘‘
اور وہ شرما جی کے قریب پہنچ کر کمبل پھینکتا ہوا گرپڑا۔