بابا جی

ایم اے ملک

شام کے سائے گہرے ہورہے تھے۔ اور میرے گرد و پیش اندھیرا دبے پاؤں آگے بڑھتا جارہا تھا۔ میری نظریں سامنے رکھے ہوئے ایک کاغذ پر جمی ہوئی تھیں۔ جس پر ایک لڑکی کے ہاتھ کی لکیروں کے نقوش ابھرے ہوئے تھے۔ یکایک مجھے اندھیرے کا احساس ہوا، کیونکہ ان لکیروں کے نقوش رفتہ رفتہ مدّھم پڑتے جارہے تھے۔ میں نے اپنے ملازم کو آواز دی اور اس سے کہا کہ ٹیبل لیمپ کمرے سے نکال کر باہر صحن میں لگادے اور اندر میز پر رکھا ہوا محدّب شیشہ اٹھا لائے تاکہ لکیریں صاف اور بڑی بڑی دکھائی دیں۔ ان لکیروں کا بغور مطالعہ کرتے وقت میرے ذہن میں شاہ صاحب کی بیان کردہ داستان گھوم رہی تھی۔ اس انتہائی اور پُر اسرار داستان کو سننے کے بعد سب سے پہلا خیال جو میرے دل میں آیا وہ یہ تھا کہ لڑکی یقینا پاگل ہے۔ لفظ ’’پاگل‘‘ ابھی ذہن کی لوح پر ابھرا ہی تھا کہ دفعتاً مجھے اپنی پشت پر ایک شوخ نسوانی قہقہے کی آواز سنائی دی اور اس سے پیشتر کہ میرے منہ سے کچھ نکلتا۔ اس نسوانی آواز نے نہایت طنزیہ انداز میں کہا:

’’نجومی صاحب، لڑکی پاگل نہیں — آپ کا قیاس قطعاً غلط ہے۔‘‘

یہ چند الفاظ معمولی نہیں تھے۔ ایک وزنی ہتھوڑا تھا جو میرے ذہن کے اوپر یک لخت پوری قوت سے برس گیا۔ میں نے بدحواس ہوکر پیچھے دیکھا تو ششدر رہ گیا۔ کیا دیکھتا ہوں کہ میرے سامنے ایک حسین و جمیل نوجوان لڑکی سرتا پا سفید لباس پہنے نہایت وقار اور تمکنت سے کھڑی مسکرارہی ہے۔ اس کی آنکھوں پر نہایت قیمتی سیاہ چشمہ چڑھا ہوا تھا اور اس سیاہ چشمے نے لڑکی کی شخصیت اور چہرے کا وقار اور شان بڑھانے میں بڑی مدد کی تھی۔ میرا ذہن اس لڑکی کو اس پُر اثرار انداز میں وہاں کھڑے دیکھ کر ماؤف ہوگیا۔ کچھ سمجھ میں نہ آتا تھا کہ یہ لڑکی کون ہے اور ایک دم کہاں سے آگئی۔ پھر اسے میرے دل کی بات کیسے معلوم ہوگئی۔ یقین کیجیے، ذہن کی اتنی صحیح اور بروقت ریڈنگ بے مثال اور حیرت انگیز تھی۔

ابھی میں اسی الجھن سے دوچار تھا کہ شاہ صاحب جو اوپر میرے کمرے میں کسی کام سے گئے تھے۔ باہر نکل آئے اور لڑکی کو دیکھتے ہی ان کا چہرہ متغیر ہوگیا اور وہ ٹھٹھک کر رہ گئے۔ لڑکی نے شاہ صاحب سے مخاطب ہوکر نہایت بے تکلفی سے کہا:

’’السلام علیکم شاہ صاحب! کہیے مزاج کیسے ہیں؟ ہمیں معلوم ہوا تھا کہ آپ تشریف لائے ہیں، اس لیے آپ سے ملاقات کو جی چاہا، خیریت تو ہے؟‘‘

میں حیران و سراسیمہ کبھی نوجوان لڑکی جانب دیکھتا اور کبھی شاہ کی طرف — شاہ صاحب کے چہرے پر ایک رنگ آتا تھا اور ایک رنگ جاتا تھا۔ انھوں نے کچھ کہنے کی کوشش کی۔ لیکن الفاظ حلق میں اٹک کر رہ گئے۔ پھر وہ سنبھل کر چند قدم آگے بڑھے اور میرے پاس پہنچ گئے اور آہستہ آہستہ سے کہا:

’’بابا جی آگئے ہیں …‘‘

ایک لمحے کے لیے خوف کی ایک ہلکی سے لہر میرے بدن میں دوڑ گئی اور میں سمجھ گیا کہ یہ ’’بابا جی‘‘ کون ہیں جو آگئے ہیں۔ کیونکہ تھوڑی دیر پیشتر شاہ صاحب نے مجھے جو داستان سنائی تھی وہ انہی پُر اسرار، نادیدہ ’’باباجی‘‘ کے بارے میں تھی جو شاہ صاحب کی صاحبزادی کے جسم میں حلول کرگئے تھے۔

شاہ صاحب سے میرا تعارف ان کے ایک مرید کی معروفت ہوا۔ یہ مرید میرے مکان کے زیریں حصے میں مقیم تھا۔ شاہ صاحب کی شخصیت بھی عجیب و غریب تھی۔ پچاس پچپن کا سن، چہرہ سرخ و سفید اور اس پر زہدو اتقا کے آثار نمایاں، بھری بھری سفید براق داڑھی، گفتگو نہایت سلجھی ہوئی، بامعنی اور پراز معلومات— مزاج سادہ اور نہایت خاکساری و فروتنی کے پیکر تھے۔ میں نے اس سے پیشتر بے شمار پیروں کو دیکھا تھا اور ان پیروں کے بارے میں جو نفرت انگیز احساسات میرے دل میں تھے، وہی احساسات میں نے ان شاہ صاحب کے بارے میں قائم کرلیے، لیکن جب ان کو دیکھا اور ان سے بات چیت ہوئی تو مجھے یہ منفی خیال دل سے نکال دینا پرا۔ پیری مریدی کے کاروبار سے شاہ صاحب سخت کراہت و نفرت کا اظہار کرتے تھے۔ شہر میں ان کی آمد، بقول ان کے شدید پریشانی کا باعث تھی — میرا ہمسایہ ان کے گاؤں کا رہنے والا تھا۔ کوئی متبادل انتظام نہ ہونے کے باعث انہیں مجبوراً اس کے ہاں ٹھہرنا پڑا۔

اپنی پریشانیوں کی وضاحت کرتے ہوئے شاہ صاحب نے بتایا تھا کہ وہ کسی قابل ڈاکٹر کی تلاش میں ہیں جس سے وہ اپنی جواں سال بیٹی کے بارے میں مشورہ کرسکیں جو کسی پراسرار عارضے میں مبتلا ہے۔ شاہ صاحب نے بتایا کہ لڑکی کی عمر بیس، بائیس کے لگ بھگ ہے۔ وہ بالکل ان پڑھ ہے۔ اس کی زبان میں لکنت ہے، لیکن کچھ دن ادھر کی بات ہے کہ اس پر اچانک دورہ پڑا اور کچھ عرصہ بے ہوش رہنے کے بعد جب وہ ہوش میں آئی تو وہ اس سے بیسیوں کرشموں کا ظہور ہونے لگا۔ مثلاً اردو تعلیم سے وہ بالکل بے بہرہ ہے، لیکن اس پُر اسرار حالت میں اس کی گفتگو کی فصاحت و بلاغت دیکھ کر بڑے بڑے اہل زبان دنگ رہ جاتے ہیں۔ لڑکی نے پردے کو خیر باد کہہ دیا اور مردوں کی محفلوں میں اٹھنے بیٹھنے لگی۔ وہ ہر موضوع پر عالمانہ انداز میں بحث کرتی اور ایک حیرت انگیز بات یہ ہوئی کہ اس کا لب و لہجہ بھی مردانہ ہوگیا۔ وہ اپنا نام بھی مردانہ بتاتی۔

چند روز تک اسی حالت میں رہنے کے بعد وہ اپنی سابقہ حالت میں لوٹ آئی۔ لیکن اسے کچھ پتا نہ تھا کہ وہ گزشتہ دنوں میں کتنی بدل چکی تھی— اس دن کے بعد سے لڑکی پر وقتاً فوقتاً دورے پڑنے لگے، جن لوگوں نے اسے اس کیفیت میں دیکھا ہے، ان کاخیال ہے کہ یہ سب کچھ کسی نیک روح یا جن کا اثر ہے جو لڑکی کے جسم پر مسلط ہے۔ لوگ اسے ولی اللہ سمجھتے اور ’’باباجی‘‘ کے نام سے پکارتے ہیں۔ شاہ صاحب نے میرے بارے میں سن لیا تھا کہ مجھے فنِ دست شناسی سے دلچسپی ہے اور محض تفریحاً لوگوں کے ہاتھ دیکھا کرتا ہوں، اس لیے وہ شام سے کچھ پہلے اپنی صاحبزادی کو میرے پاس ہاتھ دکھانے لائے تھے۔ لڑکی دیہاتی وضع کاسفید برقع اوڑھے ہوئے تھی۔ میں نے اس کے ہاتھوں کے نقوش کاغذ پر اتار لیے۔ کیونکہ خیال تھا کہ ان کا تفصیلی جائزہ لے کر ہی کوئی فیصلہ کرسکوں گا۔ پرنٹس لینے کے دوران میری جو گفتگو اس لڑکی سے ہوئی۔ اس سے شاہ صاحب کے بیان کی تصدیق ہوتی تھی کہ لڑکی نہایت معمولی سوجھ بوجھ کی مالک ہے اور ہکلا کر بولتی ہے۔ جب لڑکی نیچے چلی گئی اور شاہ صاحب بھی کسی کام سے کمرے میں چلے گئے تو میں نے ان نقوش کا مطالعہ شروع کیا اور ابھی چند منٹ ہی گزرے تھے کہ وہی لڑکی نئے لباس اور نئی وضع قطع کے ساتھ ’’باباجی‘‘ کے روپ میں میرے سامنے آن دھمکی اور جب شاہ صاحب نے اسے دیکھا تو چپکے سے کہا کہ ’’باباجی آگئے‘‘ اس سے میں سمجھ گیا تھا کہ وہی صورتِ حال درپیش ہے جس کے بارے میں وہ مجھے بتاچکے تھے۔

’’باباجی‘‘ نے شاہ صاحب کے منہ سے نکلے ہوئے یہ الفاظ سن لیے۔ اس نے ہلکا سا قہقہہ لگایا اور کہا: ’’آپ ٹھیک کہتے ہیں شاہ جی — میں آگیا ہوں۔‘‘ یہ کہہ کر بابا جی نے میری جانب دیکھا اور نہایت سنجیدہ لہجے میں فرمایا:

’’کہیے نجومی صاحب! لڑکی کے ہاتھ کی لکیریں آپ نے ملاحظہ فرمائیں؟‘‘

’’جی ہاں‘‘ میں نے جواب دیا۔ ’’ابھی ابھی ایک محترمہ برقع اوڑھے میرے پاس آئی تھیں اور مجھے اپنے ہاتھوں کے نقوش دے گئی ہیں۔ کیا وہ خاتون آپ ہی ہیں؟‘‘

’’باباجی‘‘ کے لبوں پر ایک خندئہ استہزاء نمودار ہوا اور انھوں نے فرمایا: ’’اس سے پہلے کہ میں آپ سے مزید گفتگو کروں، یہ بات واضح کردینا بہتر ہے کہ آپ کسی ’’جنسِ لطیف‘‘ سے مخاطب نہیں ہیں۔ بلاشبہ جو کچھ آپ کی ظاہری آنکھیں دیکھ رہی ہیں، وہ ایک لڑکی ہی ہے،لیکن یہ محض نظر کا دھوکا ہے۔ آپ اس ’’شئے لطیف‘‘ کو اپنی ان بشری آنکھوں سے نہیں دیکھ پائیں گے جو اس لڑکی کے جسم میں موجود ہے۔ میرا نام ’’جرار حیدر‘‘ ہے اور میں قوم جنات میں سے ہوں اور اس لڑکی کے جسم پر قابض ہوں۔ کیا آپ کو اس بارے میں کچھ شک ہے؟‘‘

’’باباجی‘‘ نے یہ جملے جس ڈرامائی انداز میں کہے، اس سے میرا دل لرزگیا، میں نے دیکھا کہ شاہ صاحب کے ہاتھ بھی کانپ رہے تھے۔ ہمارے قریب ہی کھڑا ہوا ملازم، جو ’’باباجی‘‘ کی باتیں سن رہا تھا، جنات کالفظ سنتے ہیں ایسا حواس باختہ ہوا کہ الٹے قدموں بھاگ گیا۔

ادھر میری کیفیت یہ تھی کہ دل زور زور سے دھڑک رہا تھا اور پسینے کے قطرے میری پیشانی پر نمودار ہوچکے تھے۔ جسم کا ایک ایک رونگٹا کھڑا تھا۔ میں نے منہ ہی منہ میں قرآنی آیات کا ورد شروع کردیا۔ ’’باباجی‘‘چند ثانیے تک میری جانب دیکھتے رہے۔ شاید وہ میری حالت کا اندازہ کررہے تھے۔ یکایک انھوں نے فرمایا: ’’آپ کچھ تلاوت کررہے ہیں؟‘‘

یہ سن کر میں دنگ رہ گیااور واقعی مجھے یقین ہوگیا کہ اس لڑکی کے جسم پر کوئی فوق الفطرت قوت قابض ہے، ورنہ دل کی بات اس طرح بوجھ لینا انسان کا کام نہ تھا۔ میں نے اعتراف کیا کہ ’’جی ہاں، تلاوت کررہا ہوں۔‘‘

یہ سن کر ’’بابا جی‘‘ ہنسے اور کہا: ’’نجومی صاحب! آپ کو شاید علم نہیں کے سورئہ الناس دافع شر ہے اور میں ان جنات میں سے نہیں ہوں جو شریر ہوتے ہیں۔ میں اصحاب خیر میں سے ہوں اور بحمدللہ مسلمان ہوں، پس آپ مجھ سے خائف نہ ہوں۔‘‘

میرے ذہن کا یہ دوسری بار حیرت انگیز اور درست مطالعہ مجھے یہ یقین دلانے میں مزید موثر ثابت ہوا کہ میں واقعی سورئہ الناس کی تلاوت کررہا تھا، تاہم ’’باباجی‘‘ کے الفاظ سن کر میری جان میں جان آئی اور اب میں نے یہی مناسب سمجھا کہ جرأت مندانہ طرزِ عمل اختیار کیا جائے اور مزید افہام و تفہیم کی غرض سے کچھ سوالات کیے جائیں۔

میں نے کہا ’’اگر آپ اصحابِ خیر میں سے ہیں اور مسلمان بھی، تو آپ اس بے قصور اور معصوم لڑکی پر کیوں مسلط ہیں؟‘‘

’’اس میں ہماری خواہش اور رضا کو دخل نہیں۔ ہم کسی اور کے تابع ہیں؟‘‘ جواب ملا۔

’’وہ کون ہے جس کی متابعت آپ کررہے ہیں؟‘‘ میرا اگلا سوال تھا۔

’’یہ ایک کائناتی راز ہے اور اس ربِّ قدیر کے علم میں ہے جس نے مجھے اور تمہیں پیدا کیا۔‘‘ باباجی نے نہایت عالمانہ، مگر مبہم جواب دیا۔

چند لمحے تک ہم خاموش رہے، پھر بابا جی نے کہا: ’’یہ تو بتائیے کہ اس بارے میں آپ کا فنِ دست شناسی کیا کہتا ہے؟‘‘

’’میں ابھی لڑکی کے ہاتھ کی لکیروں کا مطالعہ کررہا ہوں تفصیلی مطالعے کے بعد کچھ عرض کرسکوں گا۔‘‘ میں نے جواب دیا۔

’’ٹھیک ہے۔ لیکن مجھے بتائیے کہ آپ کا یہ علم کہاں تک سچا ہے؟‘‘

’’جناب! اس علم کا انحصار بہت کچھ دست شناس کی اپنی قابلیت، فہم و فراست اور مسلسل ریاض پر ہے۔ ویسے ہاتھ ایک ذریعہ ہے انسان کے فطری رجحانات، خواہشات اور آرزوؤں کے مطالعے اور ان کے امکانی نتائج کا۔‘‘

’’کیا آپ کو اس سے پہلے بھی کسی ایسی ہی لڑکی کے ہاتھ کی لکیریں دیکھنے کا اتفاق ہوا ہے؟‘‘ باباجی نے پوچھا۔

’’جی نہیں، میرے لیے یہ ایک انوکھا تجربہ ہے۔‘‘ میں نے جواب دیا۔

’’لیکن آپ کے نزدیک تو یہ سب کچھ ایک دیوانگی ، ایک پاگل پن تھا۔ آپ سے پہلے بھی بہت سے لوگوں نے اس لڑکی کو پاگل ہی سمجھا۔ سچ ہے کہ خاکی انسان ہر اس شے کے بارے میں شک و شبہ کرتا ہے جس شے کا اسے عینی مشاہدہ نہ ہو…‘‘ پھر کچھ توقف کے بعد فرمایا: ’’لیکن ایک مسلمان کے نزدیک قرآن مجید سے بالاتر کونسی شہادت ہوسکتی ہے جو وہ جنات کے بارے میں بیان کرتا ہے۔‘‘

اس کے بعد ’’بابا جی‘‘ جرار حیدر جن نے نہایت شرح و بسط کے ساتھ جناب کی تخلیق و پیدائش اور ان کی اصلیت و ماہیت کے بارے میں تقریر فرمائی۔ گفتگو کی روانی کا یہ عالم تھا کہ فصاحت و بلاغت بلائیں لے رہی تھی۔ اتنی صاف، شستہ اور پاکیزہ اردو بولی جارہی تھی کہ میں عش عش کراٹھا۔ تقریر کے دوران میں جابجا قرآنی آیات و احادیث رسولؐ کے حوالے اور عربی و فارسی شعراء کے اشعار نگینے کی مانند جڑتے چلے جارہے تھے۔ ایک لڑکی کی زبان سے اردو زبان میں جنات کے بارے میں یہ پُر از معلومات اور فصیح و بلیغ تقریر سن کر شک و شبے کی وہ معمولی سی رمق جو میرے دل میں تھی مطلق باقی نہ رہی۔ اب ادب و احترام سے سرجھکائے میں بابا جی کی باتیں سن رہا تھا اور شاہ جی بھی دست بستہ نظریں جھکائے کھڑے تھے۔

گفتگو کا یہ سلسکہ ابھی جاری تھا کہ شومیٔ قسمت سے مجھ سے ایک غلطی سرزد ہوگئی۔ بات یوں ہوئی کہ جب میں باباجی سے محو تکلم تھا تو حقیقت خواہ کچھ بھی تھی، میرے سامنے بہرحال ایک حسین نسوانی چہرہ تھا۔ مجھے اعتراف ہے کہ بہ تقاضائے بشری کبھی کبھی میری نگاہیں بہک کر اس کے حسن و شباب کا جائزہ لینے لگتی تھیں۔ یکایک ’’باباجی‘‘ نے مجھے تنبیہ کرتے ہوئے کہا:

’’نگاہوں کو پہلے صاف کیجیے اور پھر ان کی طرف دیکھیے اچھا ہم جاتے ہیں، پھر ملاقات ہوگی۔‘‘

’’باباجی‘‘ کے اس اعلان کے ساتھ ہی لڑکی چاروں شانے چت فرش پر گر پڑی اور لوٹ پوٹ ہوگئی اور شاہ صاحب حواس باختہ ہوکر پانی کا گلاس لینے دوڑے۔ کچھ دیر بعد لڑکی ہوش میں آئی اور شاہ صاحب اسے سہارا دے کر مکان کی نچلی منزل میں لے گئے جہاں ان کے سونے کا انتظام کیا گیا تھا۔

یہ پُر اسرار تماشا جب ختم ہوا، تو رات بھیگ چکی تھی۔ غالباً ایک بجے کا عمل تھا۔ میری حالت یہ تھی کہ بھوک پیاس سب اڑگئی تھی۔ میرا ملازم خوف زدہ ہوکر ایسا بھاگا کہ چولہے پر ہنڈیا پکتی ہوئی چھوڑ گیا اور سالن سب جل کر سیاہ ہوگیا۔ میں جب اپنے بستر پر لیٹا، تو نیند کا کوسوں پتہ نہ تھا۔ بار بار اس لڑکی کی تصویر میرے سامنے آجاتی اور کانوں میں جرار حیدر جن کی باتیں گونجنے لگتیں۔ بلاشبہ میں نے اس قسم کے واقعات پہلے بھی دیکھے اور سنے تھے، لیکن ایسے عالم فاضل اور مسلمان جن سے کبھی آمنا سامنا نہیں ہوا تھا۔ پھر شاہ صاحب کی بیان کردہ داستان کے الفاظ میرے ذہن میں تازہ ہونے لگے اور میں ان واقعات کا عقلی تجزیہ کرنے کی کوشش کرنے لگا۔

انہی خیالات کے گرداب میں غوطے کھاتے کھاتے میں نہ جانے کب نیند کی آغوش میں پہنچ گیا۔ ابھی مجھے سوئے ہوئے بمشکل دس پندرہ منٹ ہی ہوئے ہوں گے کہ مجھے یوں محسوس ہوا جیسے زلزلہ آگیا ہے۔ ہر شے کانپ رہی ہے۔ میں نے اپنے آپ کو زمین پر پڑے پایا اور چارپائی میرے اوپر سوار تھی۔ یہ حادثہ تو اتنا فوری اور اچانک پیش آیا کہ میرا ذہن مفلوج ہوگیا۔ چاروں طرف مہیب سناٹا طاری تھا۔ لیمپ میں پہلے ہی بجھا کر سویا تھا، ہر طرف گھپ اندھیرا ہی اندھیرا۔ میرا اندازہ تھا کہ رات کے تین بج رہے ہیں۔ یکایک گلی میں سے کسی کتے کے بھو نکنے کی آواز آئی اور میں جیسے یک دم ہوش میں آگیا مجھے فوراً ’’باباجی‘‘ کا خیال آیا جنھوں نے میری چارپائی الٹ دی تھی۔ بے شک یہ کام جنوں کے سوا اور کسی کا نہیں ہوسکتا۔ یہ خیال آتے ہی دہشت سے میرے بدن میں تھرتھری چھوٹ گئی۔ میں نے پوری قوت سے چارپائی کو پرے پھینکا اور بے تحاشا دوڑتا ہوا گھر سے باہر نکل آیا اور سیدھا اپنے ایک دوست کے گھر پہنچا اور دروازے پر دستک دی۔ رات کے اس غیر متوقع لمحات میں جب میرے دوست نے مجھے دروازے پر کھڑے پایا، تو حیرت کے آثار ان کے چہرے پر نمودار ہوئے۔ وہ مجھے اپنے کمرے میں لے گئے اور جلدی سے پانی کا گلاس لے کر آئے۔ پانی پی کر اوسان کچھ بحال ہوئے تو وہ سوالیہ نظروں سے میری طرف دیکھنے لگے۔

ان سے میں نے جب اس واقعے کا تفصیلاً ذکر کیا تو وہ چپ چاپ سنتے رہے اور ٹکٹکی باندھے میری طرف دیکھا کیے جیسے میں حواس باختہ ہوں یا شب خرامی کا مریض۔ انھوں نے میری کہانی ختم ہونے کے بعد میرے شانے پکڑ کر مجھے جھنجھوڑا اور کہنے لگے:

’’کچھ سمجھ میں نہیں آتا کہ تم کیا کہہ رہے ہو؟ میرے خیال میں تم نے کوئی ڈراؤنا خواب دیکھا ہے، یہ اس کا اثر ہے۔ بہر حال اب یہیں آرام کرو، صبح تمہارا قصہ اطمینان سے سنیں گے۔

صبح ہونے میں دیر ہی کتنی رہ گئی ہے۔ وہ تو مجھے آرام کرنے کی تلقین کرکے اپنے کمرے میں چلے گئے۔ لیکن میرا یہ حال کہ اب تک ’’باباجی‘‘ کی ہیبت طاری تھی۔ خدا جانے وہ مجھ سے کیوں ناراض ہوگئے اور میری چارپائی الٹ دی۔ کہیں ایسا نہ ہوکہ وہ یہاں بھی تشریف لے آئیں۔ یہ خیال میرے لیے اور بھی سوہانِ روح تھا۔ جوں توں کرکے رات کا پچھلا پہر ختم ہوا اور صبحِ صادق کے وقت آنکھ تھوڑی دیر کے لیے جھپکی ہی تھی کہ میرے دوست نے آکر بیدار کردیا۔

ناشتے کے بعد انہیں دوبارہ ساری داستان سنائی۔ وہ نہایت متعجب اور حیرت میں تھے۔ بعد ازاں میرے ہمراہ میرے گھر تک گئے۔ دستک دی، تو شاہ صاحب ہی دروازہ کھولنے آئے۔ مجھے اتنی سویرے گلی میں پاکر حیرت سے پوچھنے لگے: ’’آپ کہاں سے آرہے ہیں؟‘‘

میں نے چارپائی الٹنے کا واقعہ بیان کیا۔ وہ خاموشی سے سنتے رہے، پھر کہنے لگے: ’’ایسا حادثہ میرے ساتھ بھی کئی مرتبہ ہوچکا ہے۔شاید ’’باباجی‘‘ آپ سے ناراض ہوگئے ہیں۔‘‘

میں نے ان سے دریافت کیا کہ کیا ’’باباجی‘‘ رات کو دوبارہ آئے تھے، تو شاہ صاحب نے بتایا کہ انہیں اس بات کا کچھ علم نہیں، بابا جی کے آنے جانے کا کوئی وقت معین نہیں۔

میں نے شاہ صاحب سے کہا: ’’جب بھی بابا جی تشریف لائیں، تو مجھے فوراً بتادیجیے، کیونکہ میرے دوست ان سے ملنے کے خواہش مند ہیں۔ شاہ صاحب نے وعدہ کرلیا۔ میں نہا دھوکر کپڑے پہن کر دفتر چلا گیا، لیکن وہاں بھی کام میں جی نہ لگا۔ بار بار ’’باباجی‘‘ کا خیال مجھے پریشان کرتا رہا۔ سہ پہر کو جب گھر پہنچا، تو دیکھا کہ گھر اچھی خاصی زیارت گاہ بنا ہوا ہے اور مرد عورتوں کا ہجوم مکان کو گھیرے ہوئے ہے۔ معلوم ہوا کہ لڑکی پر جن سوار ہونے کی خبر جنگل کی آگ کی مانند پورے شہر میں پھیل چکی ہے اور اب مشتاقانِ دید کا ایک تانتا بندھا ہوا ہے۔ یہ بھی پتہ چلا کہ میری غیر موجودگی میں بابا جرار حیدر لڑکی میں تھوڑی دیر کے لیے آئے تھے اور حاجت مندوںکو دم کیے ہوئے بتاشے اور ریوڑیاں بانٹ کرچلے گئے ہیں۔ شاہ صاحب نے بتایا کہ انھوں نے ’’باباجی‘‘ سے میری خواہش کا ذکر کیا تھا، لیکن انھوں نے یہ جواب دیا: ’’نجومی صاحب کا ایمان کمزور ہے اور وہ اپنے دوستوں سے میری غیبت کے مرتکب ہورہے ہیں۔‘‘

یہ بات سن کر میں پھر دانتوں میں انگلی داب کر رہ گیا۔’’باباجی‘‘ کی یہ بات حرف بحرف درست تھی۔ حقیقت یہ ہے کہ رات کے تحیر خیز واقعات کے باوجود دن بھر مجھ پر شک اور گمان کے دورے پڑتے رہے تھے اور اس خدشے کا اظہار میں نے اپنے دوست سے بھی کیا تھا کہ مجھے تو یہ کوئی اور ہی چکر معلوم ہوتا ہے۔ عقلی طور پر جب میں اس واقعے کا تجزیہ کرتا، تو میرے ذہن کو آسودگی نہ ملتی اور بار بار ایک کانٹا سا دل میں کھٹکتا۔ میرے دوست احباب بھی یہی کہتے تھے کہ ’’باباجی‘‘ کے پس پردہ کوئی راز ہے، مگر وہ راز کیا تھا؟ اس کی نشان دہی یا کوئی تسلی بخش واضح توجیہ کرنے سے وہ یکسر قاصر اور عاجز تھے۔ میرے لیے حقیقتِ حال کو تمام تر جزئیات کے ساتھ معلوم کرنا اور اس راز کا پس منظر سمجھنا ضروری تھا۔ تاہم ایسا کرنے کے لیے کوئی موثر و مناسب بلکہ بے ضرر طریقہ اس وقت تک مجھے نہیں سوجھا تھا۔ یقین و گمان اور شک کی اس زبردست کش مکش میں بری طرح الجھ کر رہ گیا تھا۔ ذہنی و فکری یکسوئی کی جگہ اندوہ و پریشانی نے لے لی تھی۔

ایک روز میرے وہی دوست، جن کے ہاں میں نے رات کو گھر سے بھاگ کر پناہ لی تھی، تشریف فرما تھے اور ہم دونوں ’’باباجی‘‘ کے مسئلے پر سر جوڑے غور کررہے تھے۔ ادھر ادھر کی باتوں کے بعد دفعتاً انھوں نے مجھ سے پوچھا:

’’کیا تم نے لڑکی کے ہاتھ کی لکیروں کے مطالعے سے کچھ نتائج اخذ کیے ہیں؟‘‘

ان کا یہ سوال سن کر میں یک لخت چونک پڑا اور ذہن کے آگے سے گویا ایک پردہ سا اٹھ گیا اور مجھے کچھ کچھ روشنی دکھائی دی۔ واقعہ یہ تھا کہ میں اس حادثے میں پڑکر ایسا بدحواس ہوا کہ پامسٹری وامسٹری سب بھول چکا تھا۔ ایک آدھ مرتبہ خیال بھی آیا کہ ان لکیروں کو دیکھوں، مگر پھر یہ سوچا کہ جن کی موجودگی میں، جو نہ جانے کس عمر کا ہے، میرے اس فن دست شناسی کی کیا حقیقت ہے اور ویسے بھی مجھ پر اس کا کافی دبدبہ بیٹھ چکا تھا۔ میں نے اپنے دوست کے سامنے اقرار کیاکہ لڑکی کے ہاتھوں کے نقوش میں ابھی تک اچھی طرح دیکھ نہیں پایا۔ یہ سن کر میرے دوست کہنے لگے:

’’تم عجیب آدمی ہو، تم نے اپنا اصل کام ترک کردیا اور لایعنی باتوں کے تعاقب میں روانہ ہوگئے۔ بندئہ خدا ابھی میرے سامنے ان نقوش کا معائینہ کرو اور دیکھو کہ وہ کیا بتاتے ہیں۔‘‘

ان کے اصرار پر میں بادلِ نخواستہ اٹھا اور میز کی دراز میں سے شاہ صاحب کی لڑکی کے ہاتھوں کے پرنٹس نکال لایا اور نہایت توجہ اور غور سے انہیں دیکھنے لگا۔ مجھے یوں محسوس ہورہا تھا جیسے ہاتھ کی ان لکیروں میں آہستہ آہستہ جان پڑرہی ہے اور وہ مجھ سے مخاطب ہیں۔ ان لکیروں نے مجھ سے جو کچھ کہا وہ میرے لیے مزید حیرت کا باعث تھا، لکیریں کہتی تھیں:

’’لڑکی کے والدین وفات پاچکے ہیں، وہ مغویہ ہے، شادی شدہ ہے، اس کے بطن سے اولاد ہوئی ہے، اسے طلاق ہوئی، وہ بیرونِ ملک جاچکی ہے، غیر معمولی ذہانت و فطانت کی مالک ہے اور باقاعدہ تعلیم یافتہ ہے، اسے پر اسرار علوم حاصل کرنے کا شوق ہے۔ فطرتاً عیش پسند اور ڈرامائی صفات رکھتی ہے، اسے کچھ خطرے درپیش ہیں۔ کسی قتل و تل کا معاملہ بھی ہے، کوئی قانونی الجھن گرفتاری وغیرہ۔‘‘

میں نے لکیروں کی یہ باتیں جب اپنے دوست کو بتائیں، تو فرطِ حیرت سے وہ اچھل پڑے وہ نہ صرف میرے فنِ دست شناسی کے مجھ سے بھی کہیں زیادہ معترف تھے، بلکہ پامسٹری کے خود بھی رسیا تھے۔ انھوں نے خود ان نقوش کا مطالعہ کیا، تو میرے اخذ کیے ہوئے نتائج کی تائید کی۔ اب سوال یہ تھا کہ اس ریڈنگ کی تصدیق کیسے ممکن ہے۔ دوست مصر ہوئے کہ براہِ راست بات شاہ صاحب سے کی جائے، لیکن میں بضد تھا کہ لڑکی ہی سے علیحدگی میں بات ہو تو زیادہ مناسب ہے۔ بہر حال ہمارے پیشِ نظر وہ خدشے بے حد قوی تھے: پہلا خدشہ غیر معمولی اخفا سے تھا جس کی وجہ سے شاید کسی ایک بات کی بھی تصدیق ناممکن ہوتی دوسرا خدشہ غلط ریڈنگ سے تھا جو بابا جی یا جرار حیدر جن کے انتقام کی صورت میں مجھ پر نمودار ہوتا۔ ظاہر ہے کہ جن جب انتقام لیتے ہیں تو جان بچنے کا سوال ہی باقی نہیں رہتا، بہر حال جان پر کھیل کر میں یہ خطرہ مول لینے پر تیار ہوگیا اور طے ہوا کہ لڑکی سے علیحدگی میں بات کی جائے گی۔ چنانچہ میں موقعے کی تلاش میں لگا رہا۔ آخر ایک روز خوش قسمتی سے یہ موقع مل ہی گیا۔ شاہ صاحب ایک ضروری کام سے اپنے گاؤں جارہے تھے، لڑکی کو وہ اپنے مرید کے گھر، یعنی میرے مکان میں رہنے والے کرایہ دار کے ہاں چھوڑ گئے۔ میں نے جرأت کی، لڑکی کے ہاتھ کی لکیروں والا کاغذ اٹھایا اور اس کے کمرے میں داخل ہوگیا۔ وہ ایک پلنگ پر بیٹھی کچھ سوچ رہی تھی۔ میرے قدموں کی آہٹ پاکر چونکی اور میری طرف حیرت سے دیکھنے لگی۔ میں نے اس کی نظروں میں ابھرتے ہوئے خوف کی واضح علامات دیکھ لیں۔

’’معاف کیجیے، میں آپ کا ہاتھ ایک بار پھر دیکھنا چاہتا ہوں۔‘‘ میں نے اسے کاغذ دکھایا۔ ’’تاکہ مجھے اطمینان ہو جائے کہ یہ نقوش آپ کے ہاتھوں ہی کے ہیں۔‘‘ اور اس کی اجازت کے بغیر ہی میں نے آگے بڑھ کر اس کے دونوں ہاتھ باری باری دیکھے۔ اس کے ہاتھ کی ایک ایک علامت اور ایک ایک لکیر کاغذ پر ابھرے ہوئے نقوش اور لکیروں سے ملتی تھی۔ میں نے اس کے ہاتھ چھوڑدیے۔ ایک قدم پیچھے ہٹا اور اپنے لہجے میں ڈرامائی انداز پیدا کرتے ہوئے کہا:

’’کاش! میں یہ ہاتھ اسی دن دیکھ لیتا۔ بات کتنی واضح اور صاف تھی اور لکیریں کس قدر سچی ہیں۔ محترمہ آپ ایک زبردست خطرے میں ہیں۔‘‘

میں نے صرف اتنا کہا اور کمرے سے باہر آگیا اور ایک دوسرے کمرے میں آرام کرسی پر بیٹھ گیا۔ کمرے کے کواڑ میں نے بند کردیے تھے، لیکن چٹخنی نہیں لگائی۔ میرے دل کی دھڑکن آہستہ آہستہ تیز ہوتی جارہی تھی۔ میں اپنی اس حرکت کا ردِّ عمل دیکھنا چاہتا تھا۔ میں نے چند ہی منٹ بعد کمرے کے باہر قدموں کی چاپ سنی، پھر دروازے پر ہلکی سی دستک ہوئی۔ میں سنبھل کر بیٹھ گیا اور ذرا سخت لہجے میں کہا: ’’اندر آجائیے۔‘‘ دروازہ کھلا اور لڑکی داخل ہوئی۔ خاموش اور اداس۔ اس کا چہرہ جھکا ہوا تھا اور خوبصورت چہرہ کسی انجانے خوف کے باعث زرد پڑگیا تھا۔ دبے پاؤں چلتی ہوئی وہ میرے بالکل قریب آن کر کھڑی ہوگئی۔ اور بھرائی ہوئی آواز میں بولی: ’’میرے ہاتھ میں کیا ہے؟‘‘

’’وہی جو آپ کو اچھی طرح معلوم ہے۔‘‘ میں نے بے پروائی کا اظہار کرتے ہوئے کہا۔

’’مجھے کچھ معلوم نہیں … میں … ‘‘ اس نے ہکلا کر کچھ کہنا چاہا۔ اس کی آواز کانپ رہی تھی۔ میرے لیے بس اتنا ہی اشارہ کافی تھا۔ اب سارا خوف میرے دل سے نکل چکا تھا اور پورا معاملہ روزِ روشن کی طرح میرے سامنے ظاہر تھا۔ میں نے ترکش کا آخری تیر چلایا اور اس کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر کہا:

’’محترمہ! مجھے اس بات سے کوئی دلچسپی نہیں کہ ماضی میں تم نے کیا کیا ہے، میری نگاہ تمہارے مستقبل پر ہے۔‘‘

وہ بغیر اجازت سامنے رکھی ہوئی کرسی پر بیٹھ گئی اور پھر یکایک ’’باباجی‘‘ کی آواز میں بولنے لگی۔ اس کا لہجہ نہایت صاف اور شستہ تھا اور زبان کی لکنت دور ہوچکی تھی۔ اس نے سرگوشی کے سے انداز میں کہا: ’’آپ مجھے کچھ بتانایا مجھ سے کچھ پوچھنا چاہتے ہیں؟‘‘ میں نے جواب دیا کہ میں بتانا بھی چاہتا ہوں اور پوچھنا بھی بشرطیکہ تم دیانت اور جرأت کا ثبوت دیتے ہوئے بلاکم و کاست سب حقیقت بیان کردو۔

اس نے وعدہ کیا تو میں نے اس کے ہاتھ کی لکیروں سے جو نتائج اخذ کیے تھے۔ وہ تفصیل سے بیان کیے۔ وہ آنکھیں پھاڑے میری جانب تکتی رہی۔ ایسا معلوم ہوتا تھا کہ اس کے بدن میں لہو کی ایک بوند بھی باقی نہ رہی۔ جب میں نے اسے بتایا کہ وہ قتل کے جرم کا ارتکاب بھی کرچکی ہے تو اس کا چہرہ دھلے ہوئے کپڑے کی مانند سفید پڑگیا اور ہونٹ خشک ہوگئے۔ اس کی بڑی بڑی سرمگیں آنکھوں میں آنسو چھلکنے لگے۔ اس نے میری بیان کردہ سب باتوں کا اقرار کیا اور بولی: ’’آپ کا علم سچا ہے اور آپ نے جو کچھ میرے بارے میں بتایا، اس کا ایک ایک حرف صحیح ہے۔‘‘

اس نے بعد ازاں رو رو کر اپنی زندگی کے حالات تفصیل سے بیان کیے جن کاخلاصہ یہ ہے:

وہ دہلی کے ایک معزز گھرانے میں پیدا ہوئی۔ اس کی عمر اس وقت چھبیس ستائیس برس ہے۔ اس کے والدین بچپن ہی میں فوت ہوگئے تھے اور اس کی پرورش انہی شاہ صاحب نے کی جو رشتے میں اس کے چچا لگتے ہیں اور اب اسے اپنی بیٹی کہتے ہیں۔ اس کی تعلیم میٹرک تک ہے۔ سولہ سترہ برس کی عمر میں اسے ایک نوجوان ڈاکٹر سے محبت ہوگئی اور اس نے ڈاکٹر صاحب سے شاہ صاحب کی مرضی کے خلاف شادی کرلی۔ ڈاکٹر کی پہلی بیوی موجود تھی جو ایک امیر گھرانے سے تعلق رکھتی تھی اور اس کے پاس کافی نقد روپیہ اور زیور تھا۔ ڈاکٹر کی شہ پر اس لڑکی نے ڈاکٹر کی بیوی کو زہر دے کر ہلاک کردیا اور بعد ازاں ڈاکٹر کے ساتھ مشرقِ وسطیٰ چلی گئی جہاں ان کا قیام چار پانچ برس رہا۔ وطن واپس آئے، تو اس کے تعلقات ڈاکٹر سے بھی کشیدہ ہوگئے۔ اور اس نے ڈاکٹر سے طلاق لے لی۔ پیٹ بھرنے کے لیے اس نے دو برس تک ایک پرائیویٹ علمی ادارے میں لائبریرین کی حیثیت سے کام کیا جہاں اسے بہت سی علمی ادبی اور مذہبی کتابیں پڑھنے کا موقع ملااور اس طرح اس کا علم و فضل بڑھتا گیا۔ حافظہ خداداد تھا، جو کتاب پڑھتی، اس کے مطالب ازبر ہوجاتے۔ اسے جنوں، بھوتوں کی کہانیوں اور مسمریزم کے کمالات سے بڑی دلچسپی تھی۔ اتفاق سے علمی ادارے کا مالک اس کو بری نیت سے دیکھنے لگا، وہ ملازمت چھوڑ دینے پر مجبور ہوگئی۔ اب بے یارومددگار تھی۔ اس نے اپنے چچا شاہ صاحب کو ڈھونڈ نکالا۔ ان دنوں وہ تارک الوطن ہوکر ایک گاؤں میں نہایت عسرت کی زندگی بسر کررہے تھے۔ سوچتے سوچتے انھوں نے لوگوں کو بیوقوف بناکر روپیہ پیدا کرنے کا یہ ڈھونگ رچالیا۔ ’’باباجی‘‘ کا پلاٹ شاہ صاحب کی اختراع ہے اور انھوں نے لڑکی کو اس کی خوب مشق کرائی۔ دراصل شاہ صاحب پہلے ہی سے تعویذ گنڈے کا معمولی کاروبار کرتے تھے۔ اب انہیں ایک ساتھی ایسا مل گیا جو ان کی دکان داری کو اپنے علم اور جرأت سے اوجِ کمال پر پہنچا سکتا تھا۔ اول اول ’’باباجی‘‘ کے کردار کی ریہرسل سادہ لوح اور جاہل دیہاتی عوام کے سامنے ہوئی جو حسبِ معمول بہت جلد مرعوب ہوگئے اور نذرانوں کے ڈھیر شاہ صاحب کے قدموں پر لگنے لگے۔دیہاتیوں سے اکتا کر یہ لوگ بڑے بڑے شہروں میں پہنچے اور ہزاروں پڑھے لکھے اور ان پڑھ افراد کو یہ ڈرامہ دکھا کر اپنا مرید بنالینے میںکامیاب ہوگئے۔

حقیقت یہ ہے کہ وہ ایک ذہین ترین خاتون تھی۔ فنِ دست شناسی کے سولہ سالہ تجربے کے دوران یہ پہلا موقع تھا کہ ایسی خوبصورت اور ذہین عورت میرے مشاہدے میں آئی۔ میرے دل میں اس کی کہانی سن لینے کے بعد بھی ایک تقدس اور رعب کی کیفیت طاری رہی اور استعجاب مجھے اس امر پر تھا کہ وہ میرے نہاں خانۂ دل کی گہرائیوں میں کیسے اتر گئی اور مائنڈ ریڈنگ کا جو حیرت انگیز مظاہرہ اس نے کیا، وہ کیا تھا؟ میں نے اس سے جب اس کا راز پوچھا توایک پھیکی سی مسکراہٹ اس کے لبوں پر آئی اور اس نے کہا:

’’میں جب سے اس پیشے میں داخل ہوئی ہوں بلامبالغہ ہزار ہا ذہین اور اعلیٰ تعلیم یافتہ افراد کو بیوقوف بناچکی ہوں اور اس معاملے میں میرا تجربہ اور مشق بہت وسیع ہے۔ ایک پڑھے لکھے آدمی کا جنات زدہ خاتون کو ’’پاگل‘‘ سمجھنا، خوف کی حالت میں قرآنی آیات کا ورد کرنا، عورت کے حسن و جمال سے بہک جانا اور فوق الفطرت باتوں پر وہم و گمان اور شک میں مبتلا ہوجانا، یہ سب کامن سنس میں آنے والی باتیں تھیں جس کا جائزہ لینا میرے لیے بڑا سہل تھا۔‘‘

اس کی ذہانت اور علمی استعداد کی بے پناہ داد دینے کے بعد ایک مخلصانہ مشورہ اسے میں نے یہ دیا کہ وہ اس ناپسندیدہ روش کو ترک کرکے کوئی آبرومندانہ طرزِ معاش اختیار کرے۔ تو شاید ان خطروں سے محفوظ رہے جس کی گواہی اس کے ہاتھ کی لکیریں دے رہی تھیں۔ اس نے کہا کہ وہ خود اس دھندے سے تنگ آچکی ہے، لیکن شاہ صاحب کے بس میں ہے، جونہی اسے موقع ملا، وہ الگ ہوجائے گی۔ میں نے اس سے پوچھا کہ کیا آدھی رات کو میری چارپائی تم ہی نے الٹی تھی؟ تو وہ ہنسی اور کہنے لگی: ’’وہ حرکت شاہ صاحب کی تھی۔‘‘

اس واقعے کو بیتے ایک سال سے زائد عرصہ ہوگیا۔ اچانک ایک روز اخبار میں ایک خبر پر نظر پڑی۔ واقعات یوں بیان کیے گئے تھے کہ فلاں مقام پر مقامی پولیس نے ایک شاہ صاحب اور ان کی صاحبزادی کو قتل کے الزام میں گرفتار کرلیا ہے۔ واقعہ یہ تھا کہ صاحبزادی نے اپنے اوپر ایک فرضی جن سوار کررکھا تھا جس کے ذریعہ اس نے ایک مالدار مرید سے بہت بڑی رقم اور زیورات ہتھیالیے اور بعدازاں افشائے راز کے ڈر سے اپنے خاص دو تین مریدوں کی معرفت اسے ٹھکانے لگادیا۔ میں سمجھ گیا کہ یہ وہی شاہ صاحب اور ان کی صاحبزادی ’’باباجی‘‘ ہیں۔ اس کے بعد ان مجرموں پر کیا بیتی؟ اس کا مجھے علم نہ ہوسکا، کیونکہ تھوڑے دن بعد ہی مجھے ملک سے باہر جانا پڑا۔ اب بھی تنہائی کے لمحات میں جب مجھے اس خاتون کا خیال آتا ہے تو میں سوچتا ہوں کہ قدرت نے اسے حسن و جمال کے علاوہ کتنی فیاضی سے ذہانت اور علم کا خزانہ عطا کیا تھا، لیکن اسے گندہ ماحول اور اچھی تربیت نہ ملنے کے باعث وہ غلط راستے پر چل نکلی اور کون کہہ سکتا ہے کہ اب بھی ہمارے معاشرے میں ایسی کتنی ہی عورتیں اور شاہ صاحبان موجود ہیں جو شب و روز ایسے ہی کھیل کھیلنے میں مصروف ہیں۔

مزید

حالیہ شمارے

ماہنامہ حجاب اسلامی شمارہ ستمبر 2023

شمارہ پڑھیں

ماہنامہ حجاب اسلامی شمارہ اگست 2023

شمارہ پڑھیں