بابو جی صاحیب

ذکیہ بلگرامی

میں جس شخص کی کہانی لکھ رہی ہوں، اس کا نام مجھے معلوم نہیں۔ بس وہ ایک غریب آدمی تھا۔ پیشے کے لحاظ سے نائی تھا۔ کسی زمانے میں اس کی چھوٹی سی دکان تھی جہاں کبھی کبھار کوئی بال کٹوانے یا داڑھی بنوانے آجاتا تھا، مگر پھر غربت کے ہاتھوں مجبور ہوکر اس نے دکان فروخت کردی اور بائیں ہاتھ میں صندوقچہ پکڑے گلی گلی، محلے محلے پھرنے لگا۔ گھر گھر جاتا، دروازہ کھٹکھٹاتا اور آواز لگاتا: ’’بابو جی صاحیب!‘‘
محلے کے سبھی لوگ اس آواز کو بخوبی پہچانتے تھے۔ وہ سب اسے جان گئے تھے اور اس کا ذکر اسی نام سے کرتے تھے۔ مثلاً جب کبھی وہ میرے گھر کی گھنٹی بجاتا تو میرا بیٹا باہر سے آکر کہتا: ’’امی! بابو جی صاحیب آیا ہے۔ پوچھتا ہے بال تو نہیں کٹوانے۔‘‘
’’ابھی پچھلے ہفتے تو کاٹ کر گیا ہے۔ آج پھر آگیا ہے۔ عجیب آدمی ہے۔ جاؤ کہہ دو نہیں کٹوانے۔‘‘ میں جھنجھلا کر کہتی۔
پھر وہ منع کرتے ہی لوٹ جاتا۔
اس کی عمر اس وقت زیادہ سے زیادہ چالیس یا بیالیس سال ہوگی مگر شکل سے بہت بوڑھا لگتا تھا۔ چہرے پر لاتعداد جھریاں تھیں۔ بال سفید تھے۔ بیچ میں کہیں کہیں کوئی سیاہ بال بھی جھانکتا نظر آجاتا۔ کمر جھکی ہوئی، پاؤں کی چپل پھٹی ہوئی، لیکن چپل سے زیادہ اس کے پاؤں پھٹے ہوتے تھے، گرد میں اٹے ہوئے۔
میں نے ہمیشہ اس کی یہی وضع دیکھی۔ اس کی آواز میں عجیب طرح کی مسکنت تھی، یا وہ خود طاری کرلیتا تھا، میں یہ کبھی نہ سمجھ پائی… مگر ایک بات ہے کہ جب وہ اپنی مسکین سی آواز لگاتا ’’بابوجی صاحیب!‘‘ تو میرا موڈ آف ہوجاتا۔ وقت دیکھتا نہ گھڑی، جب دیکھو منہ اٹھائے چلا آرہا ہے۔ اس کی ایک عجیب و غریب عادت تھی۔ اگر تاکید کردو کہ فلاں دن آکر بچوں کے بال کاٹ جانا تو کیا مجال ہے کہ آئے۔ دس بارہ دن گزر جاتے لیکن وہ نہ آتا۔ یہاں تک کہ بچے کسی دکان سے بال کٹوالیتے۔ اور پھر کسی روز اچانک آن ٹپکتا اور شکایت کرتا کہ بابو نے اس کا انتظار نہیں کیا۔ اب جبکہ اسے معلوم ہوچکا تھا کہ بچوں کے بال کٹ گئے ہیں اور ایک ماہ سے پہلے دوبارہ کٹنے کا سوال ہی نہیں تو وہ ہر تیسرے چوتھے دن دروازہ کھٹکھٹاتا یا گھنٹی بجاتا۔ میں گھر میں تنہا کام میں مصروف ہوتی۔ اپنا کام چھوڑ کر باہر بھاگتی تو وہی صدا کانوں میں پڑتی: ’’بابو جی صاحیب!‘‘
میرے تن بدن میں آگ لگ جاتی۔ ایک دن ایسا ہی ہوا تھا۔ میں نے اس سے کہا: ’’تمہیں علم ہے بچے اس وقت اسکول گئے ہوئے ہیں اور صاحب دفتر… پھر اس وقت کیوں آتے ہو؟ کون بال کٹوائے گا؟‘‘
وہ مسکین آواز میں بولا: ’’میں نے سوچا پوچھ لوں شاید ایک دو روز میں بال کاٹنا ہوں۔‘‘ یہ بات کہتے وقت اس کے پیلے پیلے دانت اپنی جھلک ضرور دکھا گئے جن سے مجھے گھن آتی تھی۔
’’تم جانتے ہو بال کٹ چکے ہیں۔‘‘ یہ کہہ کر میں نے غصے میں دروازہ بند کیا اور اندر چلی آئی۔ وہ بھی لوٹ گیا۔
وہ بہت دور لانڈھی میں رہتا تھا اور لوکل ریل گاڑی میں بیٹھ کر پی ای سی ایچ سوسائٹی آتا تھا۔ اس کے کئی بچے تھے جن کی صحیح تعداد مجھے کبھی معلوم نہ ہوسکی۔ بس اتنا ہی پتا تھا کہ بہت سے ہیں۔
جن جن گھروں میں وہ بال کاٹنے جاتا، وہ لوگ اس کی روپے پیسے سے اکثر مدد کردیا کرتے۔ پرانے کپڑے، پرانے جوتے بھی وہ باندھ لے جاتا۔ میرے خیال میں اس کی ضروریات اچھی طرح پوری ہورہی تھیں۔ اسے کافی کچھ مل جاتا تھا مگر میں نے کبھی اس کے چہرے پر کوئی اطمینان نہیں دیکھا۔ وہی روکھا چہرہ، وہی جھکی ہوئی کمر، وہی خستہ پاؤں اور منمناتی مسکین آواز… ’’بابو جی صاحیب!‘‘
میں دل ہی دل میں اس شخص سے نفرت سی کرنے لگی تھی۔ اس نے ہماری شرافت سے ناجائز فائدہ اٹھانا شروع کردیا تھا۔ پہلے تو مجھے معلوم نہ تھا مگر بعد میں پتہ چلا کہ اگر میرے بچے اس کے بجائے کسی دوکان سے بال کٹواتے تو بھی میرے میاں اس کو بال کٹوائی کی رقم ضرور دیتے تھے جیسے انھوں نے کوئی جرم کیا ہو اور اس کا جرمانہ بھر رہے ہوں۔ اسے پتہ چل گیا تھا کہ بال کٹیں نہ کٹیں، پیسے تو مل ہی جائیں گے، لہٰذا اب وہ من مانی کرتا تھا۔ جب کہہ دو آجانا، آتا نہیں تھا اور جب ضرورت نہ ہو تو دس دس چکر لگاتا۔
خیر، میں اس کی ان حرکتوں سے نالاں تھی۔ مجھے اس کا وجود ناگوار لگنے لگا تھا۔ مگر میرے شوہر کو نہ جانے اس شخص سے کیا ہمدردی تھی کہ میرے منع کرنے کے باوجود اس کی مٹھی ضرور گرم کرتے تھے۔
میں نے پہلے کہا ہے کہ وہ کبھی خوش نہیں ہوتا تھا لیکن ایک بار میں نے اسے خوش دیکھا۔ وہ ہنس رہا تھا۔ پیلے پیلے دانت نکلے ہوئے تھے۔
پوچھنے پر معلوم ہوا کہ اس کا بڑا لڑکا جوان تھا اور کوئی کام نہیں کرتا تھا۔ دو لڑکے چھوٹے تھے۔ باقی سب لڑکیاں تھیں۔ میرے جیٹھ نے اس کے حالات سے متاثر ہوکر اس کے بیٹے کو اپنے دفتر میں چپراسی لگوادیا، چار سو روپے ماہوار تنخواہ پر۔ بابو جی صاحیب کی باچھیں کھل گئیں۔ وہ خاصا خوش ہوا مگر اس کی خوشی چند روزہ تھی۔ اس کا بیٹا نوکری پر نہیں جاتا تھا، کہتا تھا دفتر دور ہے۔ یہ سب کام نہ کرنے کا بہانہ تھا۔ یہ بات اس لڑکے کا باپ بھی جانتا تھا اور ہم سب بھی جانتے تھے۔ دراصل اسے بیٹھے بٹھائے کھانے کی عادت پڑگئی تھی۔ لڑکا، باپ کے قابو میں نہ تھا۔ جانے اس کے گھریلو حالات کیا ہوں، مجھے خبر نہیں۔ مگر یہ حقیقت تھی کہ اس کے جوان بیٹے نے نوکری چند روز کرکے چھوڑ دی۔ باپ کی عارضی خوش چھن گئی اور پھر اب وہی معمول تھا۔ گھر گھر جانا اور بابو جی صاحیب کی آواز لگاکر روزی کمانا۔ جس دن سے لڑکے نے نوکری چھوڑی مجھے اس شخص پر اور بھی غصہ آنے لگا۔ آخر یہ لڑکے کو مجبور کیوں نہیں کرتا؟ کم از کم بال کاٹنا ہی سکھا دے، وہ کچھ تو کرے۔
دن معمول کے مطابق گزر رہے تھے۔ میرے دل میں اس شخص کے لیے کبھی کوئی نرم گوشہ نہ پیدا ہوسکا۔ پھر اچانک رمضان المبارک کی آمد ہوئی۔ اس ماہ کا اپنا ایک تقدس ہوتا ہے۔ اہتمام سے روزے رکھے جاتے ہیں۔ تلاوت بھی ہوتی ہے۔ ایک دن ’’بابوجی صاحیب‘‘ کی آواز سنائی دی تو میں نے اس سے جاکر بات کی: ’’دیکھو، پرسوں جمعہ ہے۔ تم ضرور آنا۔ دونوں لڑکوں کے بال کٹیں گے بلکہ شاید صاحب بھی کٹوائیں۔ اس سے اگلا جمعۃ الوداع ہے۔ پھر دو دن بعد عید ہوگی۔ ناغہ مت کرنا۔ آنا ضرور۔‘‘
’’جی بیگم صاحب! جرور (ضرور) آؤں گا۔‘‘
’’تم اکثر وعدہ کرکے غائب ہوجاتے ہو۔ دیکھو، میرے بیٹوں کا خیال کرنا۔ یہ چھوٹے ہیں، اسکول جاتے ہیں، لیکن روزہ رکھتے ہیں۔ دکان پر لائن لگی ہوتی ہے۔ انہیں مشکل ہوگی۔ آنا ضرور۔‘‘
’’بالکل جی، جرور آؤں گا۔ کیوں نہیں آؤں گا۔‘‘ یہ کہہ کر وہ گیٹ سے نکل گیا۔
مجھے بھی اطمینان تھا کہ اس بار یہ تنگ نہیں کرے گا کیونکہ عید سر پر تھی اور اسے عیدی بھی تو لینی تھی۔ مجھے بھلا کیوں کر خفا کرسکتا تھا؟ مگر ایسا نہ ہوا۔ جمعہ آیا اور گزرگیا۔ وہ شخص نہیں آیا۔ مجبوراً بچے اور ان کے ابو دکان سے بال کٹوا کے آگئے کیونکہ انتظار کا وقت نہیں تھا۔
اس واقعے نے میرے دل میں اس کے خلاف نفرت اور تیز کردی۔ مجھے یقین تھا کہ وہ دو تین روز بعد ضرور آئے گا اور حسبِ عادت بال کٹوائی کی رقم صاحب سے بٹور لے جائے گا۔ صاحب رحم دل ہیں، ہمیشہ اس کی باتوں میں آجاتے ہیں۔
غالباً بدھ کا دن تھا۔ صبح کے دس بجے تھے۔ میں قرآن شریف پڑھ رہی تھی کہ جالی کے دروازے کے پاس سے وہی آواز ابھری : ’’بابو جی صاحیب‘‘۔
بس مجھے اچانک غصہ آگیا۔ میں کلام پاک کھلا چھوڑ کر دروازے پر آئی اور فوراً ہی کہا: ’’دیکھا، میں نہ کہتی تھی کہ تم نہیں آؤگے اور تم نے یہی کیا۔ تم جان بوجھ کر نہیں آئے اور اب آگئے ہو۔ آخر کیوں آئے ہو؟ بچے بال کٹواچکے اور پھر اس وقت آنے کا مطلب؟ بچے اسکول میں ہیں اور صاحب دفتر میں۔‘‘
میری جھنجھلائی ہوئی غصے بھری آواز نے اس کے چہرے کے تاثرات ذرا بھی تبدیل نہ کیے۔ وہ اسی منمناتی آواز میں بولا: ’’ناراج نہ ہوں بیگم صاحب! میں مجبور تھا۔ آتا جرور مگر کیا کروں؟ میرا چھوٹا لڑکا گجر (فوت) گیا تھا۔‘‘
’’کیا کہا! لڑکا گزرگیا؟ کب؟‘‘ میرے ذہن کو اچانک جھٹکا لگا۔ (یہ جھٹکا میں آج بھی محسوس کرتی ہوں)۔
’’اسی روج سویرے کے ٹیم… (اسی روز صبح کے وقت) بس کیا کریں بیگم صاحب، اپنی تو تقدیر ہی ایسی ہے۔ ایک لڑکا پچھلے رمضان میں گجر گیا تھا ایک اس رمجان میں۔‘‘
یہ ایک اور جھٹکا تھا۔ زبردست جھٹکا۔ اس کا مطلب صاف ظاہر تھا۔ دونوں چھوٹے لڑکے یکے بعد دیگرے گزر گئے۔ بڑا تو تھا ہی نافرمان۔ باقی سب لڑکیاں تھیں۔
شاید وہ کچھ اور بھی کہتا مگر میری حالت ناگفتہ بہ تھی۔ ہاتھ پاؤں میں سنسناہٹ شروع ہوگئی۔ اس سے تسلی کا ایک حرف کہے بغیر واپس آگئی۔ میں نے آہستگی سے کلام پاک بند کیا اور پھوٹ پھوٹ کر رونے لگی۔
میں نے اس شخص کے لیے نہ جانے کتنے آنسو بہائے جس سے میں ہمیشہ نفرت کرتی آئی تھی۔ اس وقت گھر میں کوئی بھی نہ تھا۔ تھوڑی دیر بعد جالی کے دروازے کے پاس گئی تو وہ جاچکا تھا۔
یہ اور بات ہے کہ اس شخص کی مالی امداد کی گئی مگر اس سے کیا ہوتا ہے! اس کے بیٹے تو چلے گئے نا! میں نے معلوم کیے بغیر اسے ڈانٹا تھا۔ اس گناہ کا بوجھ میرے ذہن پر ہمیشہ رہا اور رہے گا بھی۔
کئی بار قلم ہاتھ میں لے کر اس کی کہانی لکھ کر یہ بوجھ اتارنا چاہا مگر ٹھیک طرح سے لکھ ہی نہ سکی۔ اب بھی یوں محسوس ہوتا ہے بات ادھوری سی ہے۔ پر کیا کروں مجھے اس کے بارے میں کچھ زیادہ معلوم نہیں۔ میں تو اس کا نام بھی نہیں جانتی۔ پھر اب تو عرصہ ہوا، میں وہ محلہ چھوڑ چکی ہوں۔ میرا اپنا گھر بن گیا ہے۔ کچھ عرصے پہلے پرانے محلے سے معلوم ہوا تھا وہ نائی جو ’’بابو جی صاحیب‘‘ کی آواز لگاتا تھا اب وہاں نہیں آتا۔ کون جانے وہ زندہ بھی ہے یا نہیں!
——

مزید

حالیہ شمارے

ماہنامہ حجاب اسلامی ستمبر 2024

شمارہ پڑھیں

ماہنامہ حجاب اسلامی شمارہ ستمبر 2023

شمارہ پڑھیں

درج بالا کیو آر کوڈ کو کسی بھی یو پی آئی ایپ سے اسکین کرکے حجاب اسلامی کو عطیہ دیجیے۔ رسید حاصل کرنے کے لیے، ادائیگی کے بعد پیمنٹ کا اسکرین شاٹ نیچے دیے گئے  وہاٹس ایپ پر بھیجیے۔ خریدار حضرات بھی اسی طریقے کا استعمال کرتے ہوئے سالانہ زرِ تعاون مبلغ 600 روپے ادا کرسکتے ہیں۔ اس صورت میں پیمنٹ کا اسکرین شاٹ اور اپنا پورا پتہ انگریزی میں لکھ کر بذریعہ وہاٹس ایپ ہمیں بھیجیے۔

Whatsapp: 9810957146