اوٹاوا: ماہرین کی جدید تحقیق کے مطابق باحجاب خواتین دیگر کے مقابلے میں اپنی جسمانی شبیہہ سے زیادہ مطمئن ہوتی ہیں۔
بین الاقوامی جریدے ’’جرنل باڈی امیج‘‘ میں شائع ہونے والی تحقیق کے مطابق کینیڈا میں بسنے والے مسلم تارکین وطن کی دوسری نسل سے تعلق رکھنے والی 143 خواتین کے روز مرہ معمولات اوران کے لباس کا جائزہ لیا اور اس کے ذریعے ان کی ظاہری شبیہہ پر اطمینان اورمغربی ثقافت کی قبولیت کے درمیان تعلق سمجھنے کی کوشش کی۔ تحقیق میں یہ بات سامنے آئی کہ وہ مسلم خواتین کو روزمرہ زندگی میں حجاب لیتی تھی ان پرمغرب میں رائج خوبصورتی کے معیار کے لیے دباؤ کم تھا۔ اس کے علاوہ ایسی خواتین جنہوں نے مغربی اقدار کو زیادہ اپنایا تھا ان پر خوب صورتی کے معیار کے حوالے سے زیادہ دباؤ تھا۔
اسی طرح برطانوی ماہرین نفسیات کی ایک ٹیم نے بھی 600 مسلمان خواتین سے سوالات کئے۔ جس سے ظاہر ہوا کہ باحجاب طرز زندگی اپنانے والی خواتین اپنی جسمانی شبیہہ سے مطمئن تھیں۔ ان میں دبلے ہونے یا موٹا ہونے کا خوف کم تھا۔ تحقیق کی رو سے ماہرین نفسیات اس نتیجے پر پہنچے کہ خوبصورتی سے زیادہ اخلاقی اعتقادات اور روحانی نظریات پردھیان دینے سے انسان کو ممکنہ طورپرسطحی خدشات کو کم کرنے میں مدد مل سکتی ہے۔
عجیب و غریب روایت
بینن: افریقی ملک بینن میں فوت ہوجانے والے مردہ بچوں سے مشابہہ پْتلے بناکر ان کے لیے کھانا کھلانے، کپڑے پہنانے اور اسکول بھیجنے سمیت تمام روزمرہ کام کئے جاتے ہیں۔
پسماندہ اور غریب اس افریقی ملک میں بچوں کی وفات عام ہے اور لوگ اپنے جڑواں بچوں کی موت کا غم دور کرنے کے لیے ان کی مورتیاں بناکرزندہ بچوں کی طرح ان کا خیال رکھتے ہیں۔ اس ضمن میں فون قبیلے کے افراد کا عقیدہ ہے کہ مرنے کے بعد ان کے بچوں کی روح پتلیوں میں چلی جاتی ہے اور اگر ان کا خیال رکھا جائے تو وہ خاندان کو خوشی یا غم دے سکتے ہیں۔
ہر روز ان گڈے اور گڑیوں کو لوری دے کر سلایا اور صبح کو اٹھایا جاتاہے۔ زندہ بچوں کی طرح ان کا خیال رکھتے ہوئے انہیں کھانا دیا جاتا ہے اور نئے کپڑے پہنائے جاتے ہیں یہاں تک کہ انہیں اسکول بھی بھیجا جاتا ہے۔ اگر ان کے والدین مصروف ہوں تو گاؤں کے دیگر بزرگ ان بچوں کا خیال رکھتے ہیں۔ لیکن ہر بچے کا پتلا نہیں بنایا جاتا بلکہ صرف جڑواں بچوں کی شبیہیں بنائی جاتی ہیں کیونکہ اس علاقے میں جڑواں بچوں کی شرح دنیا میں سب سے زیادہ ہے اور 20 بچوں میں سے ایک جڑواں ولادت ہوتی ہے۔
بچوں کی وفات کے بعد ان کا گڈا بہت توجہ سے بناکر باہر رکھ دیا جاتا ہے تاکہ باقی لوگ بھی اسے دیکھ سکیں۔ بچوں کے ان پتلوں پر بد اثرات اتارنے کے لیے انہیں ہفتے میں ایک دفعہ ندی میں نہلایا جاتا ہے۔ عقیدے کے مطابق اگر ان کا درست طورپر خیال نہیں کیا جائے تو روحیں ناراض ہوجاتی ہیں اور گھر میں مسائل آجاتے ہیں اور اسی طرح یہ پتلیاں انہیں بیرونی مصائب سے بھی بچاتی ہیں۔
قبیلے کے افراد کے مطابق روحوں والی پتلیوں کے لیے چھوٹا فرنیچر اور دیگر چھوٹا سامان بھی تیار کیا جاتا ہے۔
دماغی امراض میں اضافہ
پیرس: اس وقت دنیا میں ڈیمنشیا کے 4 کروڑ 70 لاکھ مریض ہیں اور سال 2050 تک ان کی تعداد بڑھ کر 13 کروڑ 20 لاکھ سے تجاوز کرجائے گی۔
امریکی ادارے کی جانب سے الزائیمر پر 2015 میں جاری ایک رپورٹ کے مطابق جیسے جیسے آبادی بڑھتی جائے گی ویسے ویسے دماغی امراض بڑھتے جائیں گے۔ رپورٹ کے مطابق اس وقت دنیا میں 90 کروڑ افراد کی عمر 60 سال یا اس سے زائد ہے اور اگلے 35 برس میں امیر ممالک میں ان کی تعداد 65 فیصد بڑھے گی جب کہ اوسط آمدنی والے ممالک میں 185 فیصد اور غریب ترین ممالک میں 239 فیصد اضافہ ہوگا، جس کا مطلب ہے کہ غریب ممالک پر ان کا بوجھ سب سے زیادہ پڑے گا۔ رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ سال 2010 کے مقابلے میں اس سال ڈیمنشیا اور دوسرے دماغی مریضوں کی تعداد میں 30 فیصد اضافہ دیکھا گیا ہے اور سال 2050 تک اس طرح مجموعی طور پر ذہنی مریضوں کی تعداد میں 3 گنا تک اضافہ ہوجائے گا۔
ماہرین کے مطابق بزرگوں میں دماغی امراض سے ان کی دواؤں کا خرچ یکلخت بڑھ جاتا ہے اور ان کے لیے مسلسل نگہداشت کی ضرورت بھی ہوتی ہے۔ رپورٹ میں یہ بھی کہا گیا ہے کہ دماغی امراض کے بڑھنے سے ماہرین اورخاص اسپتالوں کی ضرورت بھی بڑھے گی جس کے لیے منصوبہ بندی کی ضرورت ہے۔
واضح رہے کہ ڈیمنشیا بہت سے دماغی عارضوں کے مجموعے کو کہتے ہیں جس میں سوچنے ، تجزیہ کرنے اور یاد رکھنے کی صلاحیتیں رفتہ رفتہ کم ہوتی جاتی ہیں جب کہ ڈیمنشیا کے نصف کیسز میں الزائیمر کا مرض سرِفہرست ہے۔lll