بادل کیوں پھٹتے ہیں؟

سرور یوسف

کردار

محمد فیصل : لڑکا

شیلی آفتاب : لڑکی (فیصل کی کزن)

ڈیڈی : فیصل کے والد

امی : فیصل کی والدہ

(غروب آفتاب کا وقت)

ڈیڈی :ارے شیلی بیٹی یہ فیصل کہاں ہیں؟ اذان ہونے والی ہے اب انھیں بلاؤ۔ (تبھی اذان کی آواز آتی ہے۔ اللہ اکبر اللہ اکبر)

شیلی :فیصل تو کمرے میں ہیں۔ شام سے سائنس کی کتابوںمیں پتہ نہیں کیا کیا تلاش کررہے ہیں؟

ڈیڈی :سائنس کی کتابوں میں؟ بچوں کے ساتھ کرکٹ کھیلنے نہیں گئے تھے کیا؟

شیلی :کھیلنے تو گئے تھے لیکن لڑکوں سے معلوم نہیں کس بات پر بحث ہوگئی اور کمرے میں آکر کتابوں میں کچھ تلاش کرنے لگے۔ آپ کی الماری بھی دیکھ رہے تھے۔

ڈیڈی :اچھا تو یہ اب میری الماری میں بھی کتابیں خراب کریں گے۔ فیصل (ڈیڈی نے آواز دی)

فیصل :جی ڈیڈی! آیا۔

ڈیڈی :کیا بات ہے، کیا تلاش کررہے ہیں؟

فیصل :کچھ نہیں ڈیڈی۔ ایسے ہی۔

ڈیڈی :بتائیے بیٹے۔ کیا بات ہے۔ ڈیڈی نے فیصل کو پچکارہ۔

فیصل :کل رات دور درشن کی خبروں میں بتایا گیا تھا کہ ہماچل پردیش میں بادل پھٹنے سے ۲۷ لوگ مرگئے۔ آج شام کو کرکٹ کھیلنے گیا تو عامر، بشن اور عادل وغیرہ نے میرا مذاق اڑایا کہ یہ فیصل بہت سائنس کا پڑھاکو بنتا ہے۔ اس سے پوچھو کہ بادل کیوں پھٹتے ہیں۔ میں نے کہا، ہاں ہاں کل بتادوں گا کہ بادل کیوں پھٹتے ہیں اور غصے میں وہاں سے چلا آیا۔ وہ مجھے چڑا رہے تھے۔

ڈیڈی :نہیں بیٹا، غصہ کرنے کی کیا بات ہے۔ اگر وہ لڑکے آپ کو چڑاتے ہیں تو چڑانے دیجیے۔ آپ کو سائنس سے دلچسپی ہے، آپ پڑھتے رہیے۔ میں تو آپ کے لیے چھوٹی چھوٹی سائنسی معلومات کی کہانیاں لاتا ہی ہوں، ان میں تلاش کیجیے۔ بادل کے بارے میں کہیں نہ کہیں ذکر ضرور ہوگا نہیں تو شیلی اپی سے پوچھ لیجیے۔

فیصل :ارے اپیّ کو کچھ نہیں آتا۔ میں تواپی کو ہوائی جہاز پر بٹھا کے لے جاؤں گا اور اوپر لے جاکر دھکا دے دوں گا۔

امی :(دیر سے خاموشی سے سب سن رہی تھیں غصے سے بولیں) بدتمیزی نہ کیا کرو، تمہاری بڑی بہن ہے۔ ہر کام تمہارا کرتی ہے اور تم کو ذرا بھی خیال نہیں ہے کہ تم چھوٹے ہو، اور وہ بڑی، کسی دن تمہاری پٹائی ہوجائے گی۔

فیصل :بڑی وڑی کچھ نہیں ہیں، آئیں میرے ساتھ کھڑے ہوکر ناپ لیں۔

ڈیڈی :بیٹے آپ قد میں لمبے ہوگئے تو کیا ہوا، شیلی سے عمر میں چھوٹے ہیں۔ہیں نا؟ اپی کو ایسے نہیں کہتے، کوئی سنے گا تو کیا کہے گا۔

فیصل :اچھا ڈیڈی، اب نہیں کہو ںگا۔

ڈیڈی :میرا بیٹا بہت اچھا ہے، کہہ کر فیصل کو پیار کرتے ہیں۔

امّی :کچھ نہیں اچھا ہے،جیسے جیسے بڑا ہورہا ہے، بدتمیز ہورہا ہے۔

ڈیڈی : ارے بھئی جانے دیں، غصہ کرکے تھوڑے ہی بچوں کو سمجھایا جاتا ہے۔ ذرا پیار سے کہیں۔ دیکھئے تو مان گیا۔

شیلی : ہاں ماموں، فیصل ہیں تو سمجھدار، کوئی بات ٹھیک سے بتائی جائے تو سمجھ جاتے ہیں۔ لیکن غصہ ناک پر رہتا ہے۔

فیصل : تمہاری ناک پر غصہ نہیں رہتا۔

ڈیڈی : بس بھئی بس۔ اب پھر لڑائی ہونے لگی۔ اب جائیے آپ دونوں، رات کو سوتے وقت بتاؤں گا کہ بادل کیوں پھٹتے ہیں۔

فیصل : ڈیڈی پلیز ابھی بتائیے۔

ڈیڈی :ابھی تو آپ لوگ جائیے ہوم ورک کیجیے پھر جو آج کلاس میں پڑھایا گیا ہے، وہ دیکھئے پھراس کے بعد کھانا اور تب بادل پھٹنے کی کہانی … (تین گھنٹے بعد)

ڈیڈی : (آواز دے کر) شیلی بیٹی آئیے، یہ فیصل کہاں چلے گئے، کھانا کھاکر؟ کیا کررہی ہیں آپ؟

شیلی : (دوسرے کمرے سے) جی ماموں آئے۔ فیصل باہر ریلنگ پر جوتے کا فیتہ ڈھونڈ رہے ہیں۔ بارش میں جوتا لت پت ہوگیا تھا۔ امی نے فیتے بھی دھوکر ڈالے تھے شاید وہ ادھر ادھر ہوگئے۔

فیصل : (آکر) میں آگیا ڈیڈی

شیلی : میں بھی آگئی ماموں، نوٹس بنارہی تھی۔ اب بتائیے بادل کیوں پھٹتے ہیں؟

ڈیڈی : اچھا بھئی سنئے۔ بادل کب اور کہاں پھٹ جائے یہ کہنا تو مشکل ہے۔ ہاں بادل پھٹتا کیسے ہے یہ بات آسانی سے تو نہیں لیکن غور سے آپ لوگ سنیں تو یقینا سمجھ میں آئے گی۔ جب خاص طرح کے بادل کسی مقام پر گھر جاتے ہیں اور ایک طرف سے گرم ہوا اور دوسری طرف سے ٹھنڈی ہوا آتی ہے تو دھماکے کے ساتھ ان بادلوں میں سے گرج کے ساتھ زبردست بارش ہوجاتی ہے۔ جسے عام طور پر آسمان سے آئی باڑھ یا بادل کا پھٹنا کہتے ہیں۔

ماہرِ موسمیات عام طور پر یہی کہتے ہیں کہ بادل پھٹنے کے دو ران بارش اتنی زیادہ ہوتی ہے کہ اسے ناپنا مشکل ہوجاتا ہے لیکن ایک گھنٹے میں بارش اگر ۱۰۰ ملی میٹر یا چار انچ سے زیادہ ہو تو وہ حالت بادل پھٹنے والی ہوتی ہے۔

ویسے بادل پھٹنے کا حادثہ اکور مانسون کے دنوں میں ہوتا ہے۔ کیونکہ اس موسم میں گرم اور ٹھنڈی دونوں طرح کی ہوائیں خاص طرح کے بادلوں کو گھیر کر اس عمل کو پورا کراتی ہیں۔ بادل پھٹنے پر بوندوں کا حجم پانچ ملی میٹر یعنی 0.2انچ سے بھی بڑا ہوسکتا ہے۔ یہ بڑے سائز کی بوندیں ۱۰ میٹر فی سیکنڈ یعنی ۳۲ فٹ فی سیکنڈ کی رفتار سے برس سکتی ہیں یعنی بادل کا پھٹنا۔ بس ایسا ہی ہے جیسے گڑگڑاہٹ کے ساتھ آسمان سے سیلاب آگیا ہو ایسی حالت میں جہا ںبھی بادل پھٹتا ہے وہاں پیڑ، چھوٹی موٹی چٹانیں اس سیلاب میں تنکے کی طرح بہہ جاتے ہیں اور اس سے جان و مال کا کافی نقصان ہوتا ہے۔ ابھی تک سائنسداں یہ نہیں معلوم کرپائے ہیں کہ آیا بادل کے پھٹنے کی کوئی خاص جگہ یا وقت مقرر ہے۔ مگر عام طور پر بادل پھٹنے کے واقعات و حادثات ایسی جگہوں پر ہوتے ہیں جہاں ایک طرف پہاڑ ہو اور گرم ہوائیں وہاں سے اٹھتی ہوں، اور دوسری طرف میدان یا نالہ ہو یا چھوٹی پتلی ندی ہو جہاں سے ٹھنڈی ہوائیں گزرتی ہوں۔ اکثر شام کے وقت یا پہلے کافی دیر تک گھٹن والے گم سم موسم کے بعد ہی بادل کے پھٹنے کے واقعات ہوتے سنے گئے ہیں۔ ویسے ان کے پھٹنے کے دوسرے حالات بھی ہوسکتے ہیں کیونکہ بادل بننے اور بادلوں سے زبردست بارش ہونے میں قدرتی حالات کا جو ہاتھ ہے وہ ابھی سائنسدانوں کی سمجھ میں پوری طرح نہیں آیا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ماہرین موسمیات یہ نہیں بتا پاتے کہ بادل کہاں اور کب پھٹے گا۔

فیصل : ڈیڈی، ڈیڈی! آپ نے یہ تو بتایا ہی نہیں کہ اس کے پھٹنے سے لوگ مر کیسے جاتے ہیں؟

شیلی : ارے عقلمند! ابھی ماموں نے بتایا نہ کہ بادل پھٹنے سے ہونے والی زبردست بارش سے پیڑ، چٹانیں تنکے کی طرح بہہ جاتی ہیں اور جب اس بارش میں بوندوں کا سائز0.2انچ سے بھی زیادہ ہوگا تو ظاہر ہے کھلے میں جن لوگوں پر تیز بارش کی شکل میں یہ بوندیں گریں گی وہ بری طرح زخمی ہوںگے یا مرجائیں گے۔ ہیں نا ماموں!

فیصل : (درمیان میں) دیکھئے ڈیڈی دیکھے! عقلمند کہہ کر میرا مذاق اڑا رہی ہیں۔

ڈیڈی : بیٹے! اب آپ لڑئیے نہیں، سونے کے لیے جائیے صبح اسکول کے وقت اٹھنا ہے۔ شیلی آپ بھی جاکر سوجائیے۔ بیٹی شب بخیر۔

شیلی، فیصل: شب بخیر

مزید

حالیہ شمارے

ماہنامہ حجاب اسلامی شمارہ ستمبر 2023

شمارہ پڑھیں

ماہنامہ حجاب اسلامی شمارہ اگست 2023

شمارہ پڑھیں