باراک اوباما کا قاہرہ خطاب

شمشاد حسین فلاحی

ریاست ہائے متحدہ امریکہ کے صدر باراک اوباما نے قاہرہ سے عالم اسلام کو خطاب کرکے امریکہ، اسلام اور عالمِ اسلام کے ساتھ اپنے نئے تعلقات کے آغاز کا اعلان کرکے ایک طرف تو عالمِ اسلام کے لیے گویا تسلی کا سامان فراہم کیادوسری طرف امریکہ اور اس کی پالیسیوں کے لیے عالم اسلام کی روز بروز بڑھتی نفرت کے سامنے بند باندھنے کی کوشش کی۔ان کا یہ خطاب یقینا بہت سوچا سمجھا اور منصوبہ بند رہا ہوگا۔ تبھی وہ عالمِ اسلام کے ثقافتی مرکز قاہرہ میں وہ بہت سی باتیں کہہ گئے جن کی امریکی صدر سے توقع نہیں کی جاسکتی تھی۔ ان کی گفتگو سے جو کئی روز تک عالمی میڈیا میں زیرِ بحث رہی اندازہ ہوتا ہے کہ وہ سابقہ امریکی صدور بش جونیر اور سنیئر کی ان پالیسیوں کے دلدل سے امریکہ کو نکالنا چاہتے ہیں۔ چنانچہ انھوں نے اپنے خطاب میں جہاں مسلمانوں کے دل جیتنے کی بھر پور کوشش کی وہیں عراق افغانستان اور فلسطین پر بھی اپنی پالیسی کی وضاحت کی۔ اور واضح طور پر اعلان کیا کہ وہ اسلام، عالم اسلام اور امریکہ کے درمیان نئے رشتوں کا سلسلہ شروع کرنے کے لیے آئے ہیں۔ انھوں نے مشرقِ وسطیٰ کے اپنے اس دورے کے ذریعہ ہر جگہ عالمِ اسلام کے ساتھ مفاہمت کی بات کہہ کر ’تہذیبوں کے ٹکراؤ‘ کی تھیوری کو رد کرنے کی بھی پوری کوشش کی۔اس سارے دورے اور صدر امریکہ کے خطاب کو سن کر اور پڑھ کراندازہ ہوتا ہے کہ انھوں نے اپنے لیے ایک بڑا چیلنج کھڑا کیا ہے اور وہ یہ ہے کہ آئندہ دنوں میں امریکی پالیسی کا موجودہ رخ موڑتے ہوئے عالمِ اسلام کے ساتھ دشمنانہ و معاندانہ تعلقات کے بجائے دوستانہ روابط کی تشکیل وہ کس طرح کرسکیں گے۔اور یہ کہ انھوں نے جو کچھ کہا ہے اس پر اپنی پوری خواہش کے باوجود کس حد تک عمل کر پائیں گے۔
صدر امریکہ کا یہ خطاب جہاں منطقی تھا وہیں جذباتی بھی تھا۔ اس لیے عالم اسلام کا ایک بڑا طبقہ اس خطاب کے بعد صدر امریکہ سے کافی توقعات لگا بیٹھا ہے اس نے ایسا محسوس کیا ہے کہ اب امریکہ کی سابقہ پالیسیوں کی بساط لپیٹ کر رکھ دی جائے گی۔ حالانکہ ایسا تصور کرنا جلد بازی ہی کہا جائے گا۔ باراک اوباما کا یہ خطاب حقیقت میں بڑے اہم ڈپلومیٹک نتائج کا حامل اور امریکہ کی موجودہ سیاسی ومعاشی صورتِ حال کے تناظر میں اہم ترین اہداف کے حصول کی کوشش تصور کیا جانا چاہیے۔ جو لوگ عراق اور افغانستان میں امریکہ کو حاصل ہورہی ناکامی، فضیحت اور بدنامی کا اندازہ کرسکتے ہیں وہ امریکی صدر کے اس خطاب کی ضرورت و اہمیت کو بھی سمجھ سکتے ہیں۔ معاشی دیوالیہ پن کے سخت حالات اور کئی ممالک میں جنگ کے دلدل میں پھنسے امریکہ کو اس وقت نجات دہندوں یا’ریسکیو آپریشن‘ میں مددگار اقوام و ممالک کی سخت ضرورت ہے۔ اور ظاہر ہے یہ معاون و مددگار دولت سے مالا مال عرب ممالک ہی ہوسکتے ہیں جن کے عوام کے اندر امریکہ کے لیے نفرت بڑھتی جاتی تھی۔
دراصل امریکہ کو اس مصالحتی ابتدا کی ضرورت اس لیے پیش آئی کہ اتنے ظلم و جبر کے باوجود وہ متوقع نتائج حاصل نہ کرسکا اور اپنا معاشی نظام، قومی وقار اور اپنا تحفظ تک گنواں بیٹھا اور اب حقیقت میں اس کے لیے کوئی چارہ اس کے سوا باقی نہیں رہا کہ جن لوگوں کو وہ کل تک دشمنوں کی فہرست میں رکھتا تھا ان کی طرف خیر خواہانہ انداز میں دوستی کا ہاتھ بڑھائے۔
عالمِ اسلام کو امریکہ سے کوئی پیدائشی یا دینی دشمنی نہیں ہے۔ اس کے خلاف جوناپسندیدگی کے جذبات کا بہاؤ ہے وہ خود اس کی کرتوتوں اور زیادتیوں کا پیدا کردہ ہے۔ عالمِ اسلام کو امریکہ سے صرف دو شکایتیں ہیں اگر امریکہ ان دونوں شکایتوں کو رفع کردے تو کوئی وجہ نہیں کہ عالم اسلام اس کی طرف نفرت بھری نگاہ سے دیکھے اس لیے کہ اسلام تو دشمنوں کے ساتھ بھی اچھے جذبات رکھنے کی تلقین کرتا ہے۔
عالمِ اسلام کی امریکہ سے نفرت کی پہلی وجہ اس کا اسرائیل کے لیے پدرانہ شفقت کا وہ رویہ ہے جسے وہ گذشتہ ساٹھ ستر سالوں سے عرب ممالک کا گلا کاٹتے ہوئے جاری رکھے ہوئے ہے۔ اگر امریکہ فلسطین کے معاملے میں عدل و انصاف پر قائم رہنے کی کوشش کرتا اور اسرائیل کو فلسطینیوں کے قتلِ عام کا مرتکب ہونے سے روکتا اور ان کو جائز حقوق دلانے کی کوشش کرتا تو عالم اسلام کے اندر اس کے لیے یہ جذبات نہ ہوتے جن سے مجبور ہوکر اب مصالحتی انداز اختیار کیا گیا ہے۔
دوسری وجہ امریکہ کی وہ پالیسیاں ہیں جو وہ عالمِ اسلام کے مختلف النوع وسائل پر قبضے کی خاطر گذشتہ تقریباً نصف صدی سے جاری رکھے ہوئے ہے۔ عالمِ اسلام میں اپنے ایجنٹوں کی سرگرمیوں سے لے کر قیادت کی تبدیلیوں ، بدامنی کی صورت حال اور بالآخر براہِ راست فوجی کارروائیوں تک میں یہی عنصر کارفرما نظر آتا ہے۔ اور چونکہ ان تمام پالیسیوں میں نظریاتی رنگ غالب ہے اس لیے تہذیبوں کے تصادم جیسی تھیوری بھی وجود میں آئی ہے۔
چنانچہ اگر امریکہ عالم اسلام سے اپنے استعماری عزائم کو ترک کرکے لوٹ جاتا ہے اور عالمِ اسلام اور اس کے معاملات کو انہی پر چھوڑدیتا ہے تو یہ ایک طرف تو ان کی شکایتوں کے خاتمہ کا ذریعہ بنے گا دوسری طرف خود امریکہ کی بھلائی، فلاح اور اس کی قوت کی بقاء کا ذریعہ بھی ثابت ہوگا۔
ہمیں یہ بات بھی نہیں بھولنی چاہیے کہ امریکی معاشرہ ایک مضبوط جمہوری اقدار کا حامل معاشرہ ہے۔ وہاں کوئی بھی تبدیلی راتوں رات محض سیاسی قائدین کے بیان سے عملاً واقع نہیں ہوجاتی۔ بلکہ قومی بحث و مباحثہ کے بعد طے پاتی ہے۔ اس لیے ہمیں صدر امریکہ کے خطاب کو کسی بڑی پالیسی تبدیلی کے بجائے امریکہ میں ’عالم اسلام اور امریکی تعلقات‘ کے موضوع ایک قومی بحث کے آغاز کی صورت میں دیکھنا چاہیے۔ البتہ اس بات کے امکانات سے بھی انکار نہیں کیا جاسکتا کہ امریکی قوم واقعی بحث و مباحثہ کے بعد اسی نتیجہ پر پہنچے جس کے آغاز کا باراک اوباما دعویٰ کرکے قاہرہ سے گئے ہیں۔
پارلیمانی انتخابات اور نئی حکومت
لوک سبھا انتخابات مکمل ہونے کے بعد ایک مرتبہ پھر یوپی اے کو نئی دہلی میں حکومت سازی کا موقع ملا۔ اور فسطائی طاقتوں کو اپنے عزائم میں ناکامی دیکھنے کو ملی۔ لال کرشن اڈوانی کا بھی جادو نہ چل سکا جو بھارتیہ جنتا پارٹی کے سب سے قد آور لیڈر تصور کیے جاتے ہیں۔ یہ انتخاب اس حیثیت سے اہم ہے کہ عوام نے اس الیکشن میں فرقہ واریت سے اوپر اٹھ کر ووٹ دیا اور سیکولر نظریہ کی بھر پور تائید کی۔ اس الیکشن میں عوام نے جہاں سخت گیر ہندو توادی نظریات رکھنے والی خاص پارٹی کو رد کردیا وہیں کمیونسٹ نظریات کے حامل لوگوں کو بھی حاشیہ پر پہنچا دیا۔ اسی طرح کا سبق ان لوگوں کو بھی حاصل ہوا جو مسلم بنیادوں پر سیاست کرنے کے خواہش مند تھے۔ ان میں آسام کی یوڈی ایف خاص ہے جو گذشتہ آسام اسمبلی انتخابات میں اچھی کارکردگی کا مظاہرہ کرچکی تھی۔ علماء کونسل جو حقیقت میں ایک خاص خطے کے افراد پر زیادتیوں کے ردِ عمل کا نتیجہ تھی جو وہاں کے عوام کے ساتھ حکومتی مشینری گزشتہ کئی ماہ سے روا رکھے ہوئے تھی، اسے بھی مکمل طور پر ناکامی ہوئی اور آٹھ سیٹوں میں سے کسی ایک پر بھی اس کا امیدوار کامیاب نہ ہوسکا۔ اس کا صاف مطلب یہ ہے کہ ہندوستانی عوام جو پہلے ہی سے سیکولر نظریے کے حامی رہے ہیں غیر سیکولر نظریات والی پارٹیوں کو برتنے کے بعد اس نتیجہ پر پہنچے ہیں مذہب کی بنیاد پر سیاست کرنے والوں کو رد کردیا جائے۔ ان انتخابات سے یہ نتیجہ نکالا جاسکتا ہے کہ ملک کے عوام نے مذہب پر سیاست کرنے والے تمام عناصر کو رد کردیا ہے اور وہی لوگ سیاست میں عوام کی توجہ حاصل کرسکیں گے جو عوام کے مسائل اور قومی مسائل میں حقیقی دلچسپی رکھتے ہوں اور ملک کو ایک مضبوط اور مستحکم حکومت دے سکتے ہوں۔
٭٭
یوپی اے کی نئی حکومت بن جانے کے بعد کابینہ کی تشکیل سے لے کر پارلیمنٹ کے اسپیکر اور ڈپٹی اسپیکر کے انتخابات کے مراحل مکمل ہوچکے ہیں اور پارلیمنٹ کا ابتدائی سیشن بھی ہوچکا جس میں من موہن سنگھ کی قیادت میں بننے والی حکومت نے خود اپنے لیے بڑے نشانے اور چیلنج سے بھر پور اہداف متعین کیے ہیں۔جمہوریہ کے خطاب سے ظاہر ہونے والے حکومت کے وعدے یا اس کے اہداف کو دیکھ کر اندازہ ہوتا ہے کہ خود حکومت عوام کی توقعات پر پورا اترنے کے لیے تیاری کررہی ہے۔
موجودہ معاشی بحران پر حکومت کی خاص نظر ہے اور اس نے اس بحران کی زد میں آنے والے شعبوں مثلاً چھوٹی اور درمیانی درجہ کی صنعتوں، ایکسپورٹ اور ہاؤسنگ و انفراسٹرکچر کو بہتر بنانے کی کوششوں کا وعدہ کیا ہے۔ اسی طرح اسے دیہی علاقوں کی ترقی اور گاؤں میں رہنے والے لوگوں کے لیے ایک کروڑ بیس لاکھ گھر بنانے کا ہدف آئندہ پانچ سالوں میں مکمل کرنا ہے اور آئندہ ڈھائی سال کی مدت میں پینے کے صاف پانی کی فراہمی کو یقینی بنانا ہے۔ اسی طرح نئی حکومت نے نیشنل لٹریسی مشن کے تحت ملک کی تمام خواتین کو پانچ سالوں کے اندر اندر پوری طرح تعلیم یافتہ اور خواندہ بنانے کا ہدف بھی اپنے سامنے رکھا ہے جو ایک بڑا ہدف اور اہم کام ہے۔ موجودہ حکومت کی ترجیحات میں سرکاری افسران کی ’’بابوگیری‘‘پر بھی لگام کسنے اور انہیں عوام کے سامنے جواب دہ بنانے کی بات شامل ہے جو آج کرپشن زدہ سماج کے لیے بڑا سخت معرکہ ہے اور اس سے ہر شخص پریشان بھی ہے۔
ناممکن تو نہیں لیکن حکومت کے سامنے اس وقت بہت بڑا چیلنج خواتین رزرویشن بل کو اس کی موجودہ صورت میں ہی پاس کرانا ہے اور اس کی تکمیل کے لیے محض سو دنوں کا مختصر عرصہ ہے اندیشہ ہے کہ کہیں یہ کام نئی حکومت کے لیے پہلی آزمائش ثابت نہ ہو اس لیے کہ موجودہ صورت میں اس بل کو پاس کیے جانے پر مختلف علاقائی اور دلت سیاسی گروپوں کی جانب سے سخت تنقید کا سامنا ہے اور وہ خواتین رزرویشن میں دلت خواتین کے لیے بھی تحفظ چاہتے ہیں۔ اگر کوٹہ در کوٹہ خواتین رزرویشن میں دلت خواتین کا حصہ مقرر نہیں کیا جاتا تو سماج کا ایک بڑا طبقہ اس کی مخالفت کرے گا۔ جیسا کہ شرد یادو نے صاف کہہ دیا ہے کہ اگر اس بل کوموجودہ صورت میں پاس کیا گیا تو وہ خود کشی کرلیں گے۔ اس مسئلہ کی جڑ سے ایک مزید مسئلہ یہ پیدا ہوسکتا ہے کہ دلتوں کی طرح مسلمان بھی اس میں شمولیت کا مطالبہ کرسکتے ہیں جو حکومت کے لیے بڑی آزمائش ہوسکتی ہے۔ حالانکہ اس خواتین رزرویشن سے مسلم خواتین کا کچھ ’بھلا‘ ہونے کی توقع کرنا مشکل ہے لیکن یہ مطالبہ بظاہر عقل کی کسوٹی پر کھرا اترتا ہے کہ اگر پسماندہ اور دبے کچلے طبقات کی خواتین کے لیے کوٹہ مقرر ہوتا ہے تو مسلمانوں کو بھی اس میں حصہ ملنا چاہیے۔
ہمارے نزدیک حکومت اگر خواتین کی خواندگی اور ان کی تعلیم پر کما حقہ توجہ دیتی ہے اور آئندہ پانچ سالوں میں اپنا یہ ہدف حقیقی اندازمیں حاصل کرلیتی ہے تو ملک کے حق میں بڑی خدمت ہوگی۔ اسی طرح ایسے ماحول میں جہاں کرپشن کیگھناؤنے اثرات وزراء سے لے کر چھوٹے چھوٹے کلرکوں تک میں اترچکے ہیں اگر بابو لوگوں کو جواب دہ بنایاجائے اور ملک سے رشوت ستانی اور کرپشن کے خاتمے کی ٹھوس کوششیں ہوں تو یقینا ہندوستانی قوم کے لیے ایک بڑی کامیابی ہوگی۔
یہ چیزیں اگرچہ ابھی تک صرف وعدے ہی ہیں اور ہر حکومت اقتدار میں آنے کے بعد عوام سے کچھ وعدے ضرور کرتی ہے۔ منموہن سرکار اگر اپنے ان وعدوں میں پچاس فیصد بھی عملی ثبوت فراہم کردے تو آئندہ دنوں میں عوام اسے سر آنکھوں پر بٹھائیں گے۔ بہرحال یہ وعدے اور اہداف حکومت کی جانب سے سنجیدہ عملی کوششوں کے طالب ہیں اور ان محاذوں پر سنجیدہ کوششوں کی ضرورت ہر ہندوستانی محسوس کرتا ہے۔
شمشاد حسین فلاحی

مزید

حالیہ شمارے

ماہنامہ حجاب اسلامی ستمبر 2024

شمارہ پڑھیں

ماہنامہ حجاب اسلامی شمارہ ستمبر 2023

شمارہ پڑھیں

درج بالا کیو آر کوڈ کو کسی بھی یو پی آئی ایپ سے اسکین کرکے حجاب اسلامی کو عطیہ دیجیے۔ رسید حاصل کرنے کے لیے، ادائیگی کے بعد پیمنٹ کا اسکرین شاٹ نیچے دیے گئے  وہاٹس ایپ پر بھیجیے۔ خریدار حضرات بھی اسی طریقے کا استعمال کرتے ہوئے سالانہ زرِ تعاون مبلغ 600 روپے ادا کرسکتے ہیں۔ اس صورت میں پیمنٹ کا اسکرین شاٹ اور اپنا پورا پتہ انگریزی میں لکھ کر بذریعہ وہاٹس ایپ ہمیں بھیجیے۔

Whatsapp: 9810957146