آج میرا پہلا دن تھا، میں ٹیوشن پڑھانے جارہا تھا۔ سوچ رہا تھا کہ بچے ذہین ہونے چاہئیں، باقی سب خیر ہے۔ گھر آگیا، میں نے گھنٹی بجائی تو بچے منتظر تھے۔ انھوںنے ہی دروازہ کھولا۔ دونوں بچیاں تھیں، چھوٹی عمروں کی۔ کمرے میں جاکر بیٹھا ہی تھا کہ ان کی دادی آگئیں، میں نے انہیں سلام کیا۔ سلام کا جواب دے کر بولیں:
’’یہ چھوٹی بچی بہت ذہین ہے، شاندار نمبروں سے پاس ہوتی ہے، یہ بڑی بچی بڑی کند ذہن ہے، لگتا ہے اس کا دماغ ہی کام نہیں کرتا۔‘‘
میں خاموش رہا اور سمجھ میں آگیا کہ یہاں شعوری ماں کی کمی ہے۔ نفسیاتی علاج بھی کرنا پڑے گا۔ دوسرے دن بچیوں کو پڑھانے کے بعد میں نے ان کی امی کو بلایا اور کہا:
’’دیکھئے! اگر ہم تھوڑی حکمت سے کام لیں تو یہ کند ذہنی بچی ذہین ہوسکتی ہے۔ چونکہ وہ پہلے ہی ذہنی کمزوری کا شکار ہے، اور ہماری زبانیں اس کے ذہنی دباؤ میں مزید اضافہ کردیتی ہیں۔ ہم کہیں کہ بچی بہت سمجھ دار ہے، پڑھائیں گے تو ان شاء اللہ بہت اچھا پڑھے گی اور اچھے نمبروں سے پاس ہوگی تو اس کے حوصلے میں اضافہ ہوگا اور بچی منفی سوچ کے بجائے مثبت سوچ رکھے گی تو نتیجہ اچھا ظاہر ہوگا۔ بچی کو خوشی ہوگی کہ میں تنہا نہیں ہوں۔ میرا پورا گھر میرا مدد گار ہے تو اپنے آپ کو وہ محفوظ تصور کرے گی اور ذہنی معذوری ختم ہوگی۔ اس کی پڑھائی میں دلچسپی بڑھے گی۔ دونوں بچیوں کا مقابلہ نہ کروائیں۔ کمزور بچی کو زیادہ تعریف اور توجہ کی ضرورت ہے۔ آپ لوگ میرا ساتھ دیں تو مجھے آسانی ہوگی۔ لہٰذا آج ہی سے شروع کرتے ہیں۔‘‘
مختصر یہ کہ تھوڑے ہی دنوں میں تبدیلی رونما ہونے لگی۔ وہ بچی خوش رہنے لگی اور پڑھائی میں دلچسپی لینے لگی۔ پہلے وہ گھر والوں کی عدم توجہی کا شکار تھی تو سہمی سہمی رہتی تھی۔ آہستہ آہستہ اس کا رزلٹ اچھا آنا شروع ہوگیا۔ الحمدللہ ہم سب کی حکمت اور توجہ سے اب کی کند ذہنی ختم ہوگئی اور وہ اچھے نمبروں سے پاس ہونے لگی۔
دیکھئے ہمارے منفی اور مثبت رویے بچوں پر کس قدر اثر انداز ہوتے ہیں۔ شروع ہی میں جو میں نے شعوری ماں کا لفظ استعمال کیا ہے وہ میں اب تحریر کررہا ہوں۔
امیر المؤمنین حضرت عمر فاروقؓ کا معمول تھا کہ دن بھر امورِ سلطنت میں مصروف رہتے اور رات کو بھیس بدل کر رعایا کی خبر گیری کرتے اور امور خلافت کے کارکنان کی تعلیم و تربیت کے لیے ایک نشست کا اہتمام بھی کرتے تھے۔ ایک بار اس نشست میں حضرت عمر فاروقؓ نے ایک سوال کیا کہ ’’بچے کا دنیا میں آنے کے بعد پہلا حق کیا ہے؟ ‘‘ سب نے اپنی بصیرت کے مطابق جواب دیا کہ بچے کا پہلا حق ماں کا دودھ ہے، بچے کا پہلا حق اذان ہے، وغیرہ وغیرہ۔ حضرت علیؓ خاموش بیٹھے تھے جو اس مجلس میں شریک تھے۔ ان کی خاموشی پر حضرت عمر فاروقؓ نے کہا: علیؓ آپ خاموش ہیں؟ جواب دیجیے۔
حضرت علیؓ نے جواب دیا: جناب بچے کا پہلا حق باشعور ماں ہے۔
حضرت علیؓ نے یہ جواب اپنی علمی بصیرت اور اپنی محترمہ زوجہ حضرت سیدہ فاطمہ الزہراؓ کی اولاد کی شاندار تعلیم وتربیت کی بنا پر دیاتھا۔ ایک بار حضرت امام حسنؓ اور حضرت امام حسینؓ مسجدِ نبویؐ میں داخل ہوئے تو انھوںنے ایک صحابیؓ کو غلط وضو کرتے ہوئے دیکھا۔ جب وہ وضو سے فارغ ہوگئے تو دونوں نے حکمت سے کہا: ’’جناب ہمیں دیکھئے کہ ہم میں سے کوئی غلط وضو تو نہیں کررہا ہوں؟‘‘ دونوں وضو کرنے لگے۔ جب وضو کرچکے تو صحابیؓ نے کہا: آپ دونوں نے صحیح وضو فرمایا ہے۔ ان دونوں کے جانے کے بعد پشیمان ہوئے کہ میں تو غلط وضو کررہا تھا۔ پھر انھوںنے صحیح وضو کیا۔
اب آپ یہ کہہ کر بری الذمہ نہ ہوجائیے گا کہ وہ تو پیارے نبی ﷺ کی بیٹی خاتونِ جنت ہیں، وہ کہاں اور ہم کہاں؟ ہم تو ان کے پاؤں کی دھول ہیں وغیرہ وغیرہ۔ یہ ہمارا عمومی رویہ ہوتا ہے۔ جب کہ آج بھی شعوری مائیں ہیں۔ آپ بھی شعوری ماں بن سکتی ہیں۔ اس ضمن کا ایک واقعہ ہمارے اپنے سماج کا ملاحظہ فرمائیں:
سراج حسین صاحب معروف سول سرونٹ تھے جو اب ریٹائرڈ ہیں۔ جب وہ ہمدرد یونیورسٹی کے وی سی تھے تو ایک روز مختلف شعبوں کے جائزے کے لیے نکلے۔ ایک آفس میں ایک خاتون کلرک غائب تھیں اور پہلے سے کوئی چھٹی کی درخواست بھی نہیں تھی۔ اگلے روز ان خاتون کو طلب کرکے وضاحت چاہی۔ ان خاتون نے جواب دیا کہ کل میرے بیٹے کا CBSEکا ایگزام تھا۔ وہ رات بھر پڑھتا رہا اور میں اسے پڑھتا دیکھ کر جاگتی رہی کہ اس کوکوئی ضرورت ہو تو میں فراہم کروں اور اس کی پڑھائی میں خلل نہ ہو۔ اس کو چائے بناکر پلاتی رہی، بیچ بیچ میں کھانے کے لیے کچھ دیتی رہی اور میرا بچہ رات بھر پرسکون طور پر پڑھتا رہا۔ کیونکہ میں رات بھر جاگی تھی اس لیے آفس کیسے آتی؟ سراج حسین صاحب دنگ رہ گئے۔ وہ خاتون غیر مسلم تھی مگر اس کا رویہ قابلِ رشک تھا۔ یہ تو تعلیم کی بات ہے۔ تربیت کے بارے میں باشعور ماں کے رول پر غور کریں گے تو دنیا بدل جائے گی۔
یاد رکھئے، یہ بچے اللہ تعالیٰ کی امانت ہیں، اس کی پوچھ گچھ ہوگی۔ یہ آپ کی جاگیر نہیں ہیں کہ بری طرح ان کی پٹائی کردی یا بہت زیادہ ڈانٹ ڈپٹ کردی۔ اس کی جواب دہی کے لیے ہر وقت تیار رہیں۔ رہنمائی کے لیے ’’آدابِ زندگی‘‘ ہر گھر میں ہونی چاہئیے۔ اس میں اولاد کی شاندار تعلیم و تربیت قرآن و سنت کی روشنی میں مددگار ثابت ہوگی، بلکہ پوری زندگی کے آداب ہم اور ہمارے بچے ان شاء اللہ سیکھ لیں گے۔