کہتے ہیں کہ کسی زمانے میں ایک بہت مالدار اور نیک شخص تھا۔ اس کاایک باغ تھا، بہت بڑا باغ، خوب پھل دینے والا۔ باغ میں جب پھلوں کی فصل تیار ہوتی تو یہ نیک آدمی اس میں سے غریبوں کو بھی دیتا۔ اس کی بستی کے غریب لوگ فصل پکنے کی آس لگائے رہتے، جب پھل تیار ہوجاتے تو سب باغ میں جاتے، نیک آدمی سب کو تھوڑا تھوڑا دیتا، سب خوش ہوتے، اسے دعائیں دیتے۔
نیک آدمی کا یہ کام اللہ تعالیٰ کو بہت پسند تھا۔ اللہ کے فضل سے باغ میں خوب پھل لگتے اور باغ والا ہر سال مالا مال ہوجاتا۔ سچ ہے، اللہ کی خوشی کے لیے مال خرچ کرنے سے گھٹتا نہیں ہے بلکہ اس میں اور زیادہ برکت ہوتی ہے۔
باغ والے کے کئی لڑکے تھے۔ جب باغ والے کا انتقال ہوگیا تو یہی لڑکے اس باغ کے وارث ہوئے۔ یہ لڑکے اتنے نیک نہیں تھے جتنا ان کا باپ تھا۔ باپ کے مرنے کے بعد جب باغ میں پھل آئے تو ان لڑکوں نے آپس میں کہا:
’’ابا جان تو کچھ زیادہ سمجھد ار آدمی نہیں تھے۔ انہیں اس بات کا ذرا خیال نہیں تھا کہ مال کس محنت سے حاصل ہوتا ہے، بھلا یہ بھی کوئی بات ہے کہ باغ میں سال بھر محنت تو ہم کریں اور جب فصل تیار ہوتو بہت سے ننگے بھوکے آکر حصہ بٹانے کے لیے جمع ہوجائیں۔ اس طرح مال لٹانا تو ٹھیک نہیں۔ اس کا مطلب تو یہ ہے کہ آج تو ہمارے پاس دولت ہے، لیکن کل ہم بھی دوسروں کی طرح غریب ہوجائیں گے، اپنا سب مال دوسروں کو بانٹ کر بیٹھ جائیں گے۔‘‘
ان میں سے ایک بولا:
’’مگر بھئی اس کا کیا علاج کروگے۔ تم جانتے ہو کہ بستی کے غریب غربا تو آس لگائے بیٹھے ہیں، جس دن ہم پھل توڑنے جائیں گے سب کے سب آکر موجود ہوجائیں گے، کس کس کو منع کروگے؟‘‘
یہ بات بڑی اہم تھی۔ بہت سے خیرخیرات کرنے والے اپنے بدنامی کے ڈر سے بھی غریبوں کو کچھ دے دیا کرتے ہیں۔ ایسے لوگوں کے دلوں میں خدا کو خوش کرنے کا خیال تو نہیں ہوتا لیکن ان میں اتنی ہمت نہیں ہوتی کہ وہ مانگنے والوں کو دھتکاردیں۔ کچھ ایسا ہی حال ان لڑکوں بھی تھا۔ ان کے دلوں میں خدا کا ڈر اور اس کو خوش کرنے کا خیال تو تھا نہیں، لیکن وہ اپنی بدنامی سے ضرور ڈرتے تھے۔ اس لیے انہیں اس کی فکر پیدا ہوئی کہ جب پھل توڑتے وقت غریب مسکین لوگ جمع ہوجائیں گے تو ہم کیا کریں گے۔ دنیا کی بدنامی کے ڈر سے انہیں کچھ نہ کچھ دینا ہی پڑے گا۔
کچھ دیر سوچنے کے بعد ان میں سے ایک نے ایک تدبیر بتائی، وہ بولا:
’’ہم پچھلی رات میں آکر سارے پھل توڑ لیں گے۔ صبح ہوتے ہوتے باغ بالکل صاف کردیں گے۔ اُس وقت نہ کوئی فقیر آئے گا نہ مسکین، سارے پھل ہم چپکے سے گھر لے آئیں گے۔‘‘
یہ بات سب کو پسند آئی۔ سب خوش ہوگئے۔ سب نے وعدہ کیا کہ کل ہی سویرے یہ کام کرڈالیں گے۔ یہ سب بھائی خدا کو اتنا بھولے ہوئے تھے کہ انھوں نے اس موقع پر ’’انشاء اللہ‘‘ بھی نہیں کہا۔
تم جانتے ہو ’’انشاء اللہ‘‘ کا کیا مطلب ہے؟ ’’انشاء اللہ کا مطلب ہے ’’اگر خدا نے چاہا‘‘۔ مسلمان کو چاہیے کہ جب وہ یہ کہے کہ میں یہ کام کل کروں گا تو اسے انشاء اللہ ضرور کہنا چاہیے، کیوں کہ کوئی آدمی کوئی کام اس وقت نہیں کرسکتا جب تک اللہ نہ چاہے۔ مسلمان کا یہی عقیدہ ہے۔ اسے یہ بات ہر وقت یاد رکھنا چاہیے۔ تم جب کسی کام کو کرنے کا فیصلہ یا ارادہ کرو تو ضرور انشاء اللہ کہو۔ جو لوگ خدا کو بھول جاتے ہیں، وہی یہ سمجھتے ہیں کہ سب کچھ ہم کرتے ہیں اور کرسکتے ہیں۔ یہ ان کی بڑی بھول ہے۔ مسلمان کو ایسی غلطی نہیں کرنا چاہیے۔
باغ والے اُس وقت خدا کو بھولے ہوئے تھے۔ انہیں اپنی سوچی ہوئی تدبیر پر بڑا بھروسہ تھا، اسی لیے وہ یہ کہنا بھی بھول گئے کہ ’’اگر خدا نے چاہا۔‘‘
اب اُدھر کی سنو۔ رات کو یہ سب بھائی ابھی اپنے گھر پڑے سو ہی رہے تھے کہ باغ میں آگ لگ گئی۔ آگ کیا تھی، خدا کا عذاب تھا۔ دیکھتے ہی دیکھتے سارا باغ جل گیا، نہ پھل رہے نہ درخت، ایسا معلوم ہوتا تھا کہ کسی نے سارے درختوں کو جڑ سے کاٹ کر پھینک دیا ہے۔ سارا باغ اجڑ گیا۔
جب پچھلی رات ہوئی تو ایک بھائی نے دوسرے کو جگایا، بولا:
’’اگر پھل توڑنے ہیں تو جلدی سے چلو۔‘‘
سب بھائی اٹھ کر چل دئیے۔ وہ راستے میں چپکے چپکے باتیں کرتے جاتے تھے اور کہتے تھے ’’کہیں ایسا نہ ہو کہ پھل توڑتے وقت فقیر آکر گھیر لیں اور ان کو بھی کچھ دینا پڑے۔‘‘
جب یہ اپنے باغ کے پاس پہنچے تو دیکھا کہ ایک اجڑا ہوا میدان پڑا ہے۔ بولے: ’’یہ ہمارا باغ نہیں ہے، ضرور ہم راستہ بھول گئے، کہیں اور نکل آئے۔‘‘لیکن جب غور کیا اور ادھر ادھر دیکھا تو سمجھ میں آیا کہ نہیں راستہ نہیں بھولے ہیں۔ اب تو سب چلا اٹھے ’’ہائے! ہم لٹ گئے، یہ کیا ہوگیا؟‘‘
ان بھائیوں میں ایک کچھ نیک تھا، وہ پہلے بھی ان کے مشوروں کو پسند نہیںکررہا تھا لیکن یہ دیکھ کر کہ اس کی بات نہ چلے گی، چپ تھا۔ اب اس موقع پر وہ بولا:
’’دیکھونا! میں تو پہلے ہی کہتا تھا کہ اللہ کی اس نعمت کا شکر ادا کرو، فقیروں اور مسکینوں کو دینے سے مال گھٹتا نہیں ہے۔ دینے والا تو اللہ ہے، وہ جس کو جتنا چاہتا ہے دیتا ہے، لیکن تم نے میری ایک نہ سنی… آخر دیکھ لیا ناں کہ سب ختم ہوگیا اور تم خالی ہاتھ رہ گئے۔‘‘
اب سب کی آنکھیں کھلیں۔ ہر ایک دوسرے پر الزام رکھنے لگا۔ آخر میں بولے: ’’اللہ پاک ہے۔ سچ تو یہ ہے کہ ہم نے خوداپنے اوپر ظلم کیا، اپنے ہاتھوں اپنے پیر میں کلہاڑی ماری۔‘‘
سب کی سمجھ میں یہ بات آگئی کہ یہ ہماری بری نیت کا پھل ہے۔ ہم نے غریبوں کا حق کاٹنا چاہا اور یہ نہ سوچا کہ اصل مالک تو اللہ ہے، اسی نے دیا ہے، وہی جب چاہے چھین بھی سکتا ہے۔ اس کے نام پر خرچ کرنا ہمیں اچھا نہ معلوم ہوا اورہم کو اس کا یہ پھل ملا۔‘‘
سب بھائیوں نے توبہ کی، اللہ سے معافی مانگی، بولے: ’’اے مالک ہم سے غلطی ہوگئی، اب ہم تیری طرف جھکتے ہیں۔ ہمیں امید ہے کہ تو ہمیں معاف فرمادے گا اور اس باغ سے اچھا بدلہ ہم کو دے گا۔‘‘
(ایک چھوٹا سا قصہ ہے۔ اللہ تعالیٰ نے یہ قصہ قرآن پاک میں انتیسویں پارے کی سورئہ ’’قلم‘‘ میں بیان کیا ہے۔)