بالفاظِ دیگر، مشرکین

اعجاز احمد فاروقی

’’یک در بگیرو محکم بگیر‘‘
(ایک در پکڑلو اور مضبوطی سے پکڑلو)
یہ اس کتاب کے ایک ذیلی باب کا عنوان تھا جو رشیداحمد پڑھ رہاتھا اور اس کا ذہن پرت در پرت متاثر اور روشن ہورہا تھا۔مصنف کا زور کلام،اسلوب اور تاثیر سب کو اپنا ہم خیال بنا رہے تھے۔ اور رشید مصنف کا ہم خیال ہوتا جارہا تھا۔
خزاں کا موسم تھا، اکتوبر کا مہینہ تھا، سردی ابھی خنکی کے مراحل میں تھی، رات ہوچکی تھی، سڑکوں پر آمدورفت بھی کم تو ہوتی جارہی تھی، گلی کوچوں میں اندھیرا پھیلا ہوا تھا، بجلی کے کھمبوں میں لگے بلب فیوز ہوئے پڑے تھے، گلی کوچوں میں جو کہیں کہیں روشنی تھی تو یہ ان مکانوں کی وجہ سے تھی جن کے برآمدوں میں بلب روشن تھے۔
رشید احمد اپنے مکان کی دوسری منزل کے برآمدے میں چارپائی پر لیٹا ہوا کتاب پڑھ رہا تھا۔اچانک ایک بے وقت اور بے ہنگم کھڑکھڑاہٹ نے اسے چونکا دیا۔ اس نے گلی کی طرف دیکھا تو ایک لاٹھی بردار نظر آیا جس نے ایک مکان کادروازہ اپنی لاٹھی سے کھٹکھٹایا تھا۔ اس کو دستک دینے کا یہ اوچھا اسلوب خاصا غیر مناسب لگا۔ وہ لاٹھی بردار گھنٹی بھی تو بجاسکتا تھا۔
اندھیرے کی وجہ سے رشید پہچان نہیں سکا کہ وہ لاٹھی بردار کون ہے اور کیا چاہتا ہے۔
رشید احمد دیکھ رہا تھا کہ وہ لاٹھی بردار اس مکان کے دروازے کے قریب کھڑا تھا اور قریب تھا کہ وہ ایک بار پھر اپنی لاٹھی سے دروازے پر دستک دے کہ اس مکان سے ذرا آگے ایک کارآکر رکی۔ اس کے چاروں شیشے بند تھے۔ اس کا ر کو دیکھتے ہی اس لاٹھی بردار کو آناً فاناً کچھ ہوگیا اور وہ فوراً کار کی جانب لپکا اور یکے بعد دیگرے اس کے شیشے تھپتھپانے لگا اور تھپتھپاتے ہوئے کار کے گرد ایک چکر کاٹا اور پھر دوسرا چکر شروع کیا۔ وہ لاٹھی بردار کچھ اکھڑا ہوا تھا، کچھ مضطرب تھا اور کچھ بڑبڑا رہا تھا۔
دوسرے چکر میں ابھی وہ کار کے عقبی حصے کے قریب تھا کہ اس نے سڑک پر ایک عورت کو دیکھا جو اپنے گھر جارہی تھی اس کا جسم ایک چادر میں لپٹا ہوا تھا وہ ہموار رفتار سے چل رہی تھی۔ اس کو دیکھتے ہی وہ پارہ مزاج لاٹھی بردار کار کو بھول گیا او ربیتابانہ اس خاتون کے پیچھے بھاگا اور تیز تیز چلنے لگا۔ وہ کچھ بڑبڑا بھی رہا تھا۔
لاٹھی بردار اور کار میں فاصلہ بڑھتا گیا، لاٹھی بردار اور مکان کا فاصلہ بڑھتا گیا، لاٹھی بردار اور خاتون کا درمیانی فاصلہ کم سے کم ہورہا تھا۔
اب رشید احمد بھانپ گیا کہ وہ لاٹھی بردار کون تھا اور کیا چاہتا تھا۔ معلوم نہیں کیسے رشید کے ذہن میں یہ خیال آیاکہ وہ لاٹھی بردار نامراد ہی رہے گا۔ اس کو لاٹھی بردار کی مضطرب روش بچکانہ لگی اور افسوس ناک بھی۔
رشید احمد نے دیکھا کہ جس مکان کا دروازہ اس لاٹھی بردار نے کھٹکھٹایا تھا، اس کے برآمدے کا بلب روشن ہوا، ایک معمر خاتون برآمدے میں آئی اور دروازے کی جانب دیکھا کہ معلوم کرے کہ دستک دینے والا کون ہے، کوئی مہمان ہے، یا کوئی ملاقاتی ہے یا کوئی اجنبی ہے جو کسی کاپتہ پوچھنا چاہتا ہے یا دستک کسی شرارتی لڑکے کی کارروائی ہے۔ جب اس نے دیکھا کہ دروازے پر کوئی نہیں ہے تو وہ واپس چلی گئی۔
لاٹھی بردار تو اس خاتون کے پیچھے جارہا تھا۔
اسی اثنا میں کار کا ایک شیشہ نیچے ہوا تو ایک ہاتھ باہر آیا اور شیشے تھپتھپانے والے کو کچھ دینا چاہا لیکن اس گھڑی تو وہاں کوئی بھی نہیں تھا۔ کار سے ایک آدمی نکلا اور ایک چھوٹی گلی کی جانب چلنے لگا۔ اس کے ساتھ ہی کاربھی چل پڑی۔
لاٹھی بردار کو علم نہیں ہوسکا کہ اس کی عدم موجودگی میں کیا ہوا اورکیا نہیں ہوا۔ فصل تیار ہوئی تو اسے کاٹنے والا کوئی نہیں تھا۔
ا س ہموار رفتار سے چلنے والی خاتون کو بھی یکبارگی احساس ہوا کہ کوئی لاٹھی بردار ایک بھونڈے انداز میں اس کا پیچھا کررہا ہے تو وہ چونک گئی اور اچانک اپنی رفتار تیز کردی اور ایک ذیلی گلی میں داخل ہوگئی اور چشمِ زدن میں آنکھ سے اوجھل ہوگئی۔
وہ لاٹھی بردار بھی مایوس ہوکر واپس آگیا۔
اتنے میں وہاں ایک مال بردار ٹرک گزرا۔ اس کے عقبی حصے میں بوریاں لدی ہوئی تھیں۔ وہ لاٹھی بردار ایک بار پھر پرجوش ہوکر اس ٹرک کے پیچھے دوڑا۔ رشید کو اس کی یہ دوڑ بالکل ہی بے تکی اور بے ڈھنگی لگی۔
کہاں ٹرک کی رفتار اور کہاں آدمی کی رفتار، وہ ٹرک بھی پل دو پل میں آنکھ سے اوجھل ہوگیا اور لاٹھی بردار بھی رک کر واپس آگیا۔ اب اس کا سر جھکا ہوا تھا، اور وہ جھلایا ہوا تھا اور بھنایا ہوا تھا اورزیرِ لب بڑبڑا رہا تھا۔ شاید وہ اپنی قسمت کو کوس رہا تھا۔
رشید احمد اپنے دل ہی دل میں اس کی قسمت کو نہیں بلکہ اس کی بچکانہ حرکت کو کوس رہا تھا اور جو کچھ وہ ابھی ابھی پڑھ رہا تھا، اس کی معنویت اور صداقت اس کے ذہن میں مستحکم اور تابندہ ہورہی تھی اب کتاب کے بجائے وہ لاٹھی بردار اس کی توجہ کا مرکز بنا ہوا تھا۔
اتنے میں رشید احمد نے دیکھا کہ اس کے پڑوسی کے بچے سامنے والے گھر سے باہر آئے۔ دونوں پرائمری اسکول کے طالب علم تھے اور اپنی پھوپھی کے گھر اپنے پھوپھی زاد بھائیوں کے ساتھ مل کر ہوم ورک کرنے گئے تھے اور اب اپنے گھر جارہے تھے۔
رشید احمد یہ دیکھ کر تو تڑپ گیا کہ وہ لاٹھی بردار ان کمسن بچوں کی طرف بڑھا۔ بچوں کی پھوپھی جو دروازے پر کھڑی تھی، یہ منظر دیکھ کر پریشان ہواٹھی اس نے اس لاٹھی بردار کو بے عقل، بے شرم اور بونگا قرار دیتے ہوئے بے نقط سنائیں۔ اس سے وہ بونگا بچوں سے دور ہوگیا۔
رشید احمد نے محسوس کیا کہ اس خاتون نے جیسے اس کی بھی ترجمانی کردی ہے۔ وہ بونگا وہیں کھڑا تھا اور چاروں طرف دیکھ رہا تھا۔
اتنے میں ایک گھنٹی کی آواز نے اور اس کے ساتھ ایک ریڑھی والے کی آمد نے پھر منظر نامہ بدل دیا۔
ایک گلی سے ایک ریڑھی والا نکل کر سڑک پر آیا۔ ریڑھی پر ایک گیس لیمپ روشن تھا۔ اس کی تیز اور براق روشنی سے سڑک کا کچھ حصہ بھی روشن ہوگیا۔ ریڑھی پر بادام، اخروٹ، انجیر، کشمش، چلغوزے، پستے، مونگ پھلیاں اور ریوڑیاں رکھی ہوئی تھیں۔
رشید احمد نے اب کھل کر پہچان لیا کہ وہ لاٹھی بردار ایک بھکاری ہی تھا جس نے اب ریڑھی والے کے سامنے ہاتھ پھیلایا تھا۔ ریڑھی والا اسے مٹھی بھر مونگ پھلیاں دینے کی کوشش کررہا تھا لیکن سائل کشمش اور بادام مانگ رہا تھا اور ان کے لیے بے صبرا ہورہا تھا۔ ریڑھی والے نے اس کو دوچار سنائیں، مونگ پھلیاں واپس ریڑھی میں ڈالیں اور گھنٹی بجاتا ہوا آگے بڑھ گیا۔
سائل کو جو کچھ مل رہا تھا وہ اس نے لیا نہیں اور جوکچھ وہ مانگ رہا تھا وہ اس کو ملا نہیں اور نہ ہی ملنے کی کوئی گنجائش تھی۔ خالی ہاتھ ملتے ہوئے بھکاری نے بڑی بلند اور درد بھری آواز میں کہا:
’’یہ دنیا تو اللہ والوں سے خالی ہوگئی ہے۔‘‘
اس جملے نے رشید احمد کے ذہن میں ہل چل مچادی، اور اس کے ذہن میں بہت کچھ جمع تفریق ہونے لگا، اس کو بھکاریوں کی ایسی روش کا خوب تجربہ تھا کہ جب انہیں کچھ نہیں ملتا تھا تو وہ اس قسم کے چٹ پٹے جملے چست کیے بغیر نہیں رہتے تھے۔ اس قسم کے جملے انہیں خوب یاد ہوتے تھے، اور وہ نہ دینے والے کو بھی بے رحم، بے دین، سنگ دل، تنگ دل، اور عاقبت نا اندیش کہنے سے باز نہیں آتے تھے۔ اس بھکاری کا یہ جملہ بھی رشید احمد کو ایک ایسا ہی جتن لگا۔ اس کے جی میں آیا کہ اس گدا گر سے کچھ کہے سنے، اس خیال کے تحت وہ اٹھ کھڑا ہوا۔
رشید: ’’بابا یہ بات تم نے کہی ہے کہ دنیا اللہ والوں سے خالی ہوگئی ہے۔‘‘
گداگر: ’’ہاں جی، یہ میں نے کہی ہے۔‘‘
رشید: ’’جب دنیا اللہ والوں سے خالی ہوگئی ہے تو پھر کیا ہوا ہے؟‘‘
گداگر: ’’جی سرکار میں روٹی کے لیے دربدر ہورہا ہوں۔‘‘
رشید: ’’اس کے علاوہ اور کیا ہوا ہے؟‘‘
گداگر:’’ پتہ نہیں، سرکار اور کیا ہوا ہے۔‘‘
رشید:’’دنیا اللہ والوں سے خالی ہوکر ایمان اور عقل والوں سے بھی خالی ہوگئی اور تیرے جیسے لوگوں سے بھر گئی ہے۔‘‘
گداگر:’’سرکار، یہ آپ کیسے کہہ رہے ہیں؟‘‘
رشید:’’تم کو پرکھ کر یہ بات کہہ رہا ہوں۔‘‘
گداگر:’’سرکار آپ کی بات میری سمجھ میں نہیں آئی۔‘‘
رشید:’’ان ایمان اور عقل دشمنوں میں ایک تم بھی ہو۔‘‘
گداگر:’’سرکار، میں!‘‘
رشید: ’’جی ہاں، تم۔‘‘
گداگر:’’سرکار،وہ کیسے؟‘‘
اب سرکار نے اس گداگر کونکتہ بہ نکتہ بتانا شروع کیا۔ پہلی بات تو یہ ہے کہ تم کو مانگنے کا فن آتا ہے لیکن پانے کا فن نہیں آتا۔ دوسری بات یہ ہے کہ تم پانے کی شرائط پوری نہیں کرتے اس لیے محروم اور مایوس ہوتے ہو۔تیسری بات یہ ہے کہ تمہیں اس بات کا لالچ ہے کہ بیک وقت ہر جگہ سے کچھ مل جائے جو ممکن ہی نہیں ہے۔ چوتھی بات یہ ہے کہ تم نے مکان کے دروازے پر دستک دی اور دستک کا جواب پائے بغیر ہی موٹر کے چکر کاٹے۔ پھر موٹر کو نظر انداز کرکے ایک خاتون کے پیچھے بھاگے اور اس کو سراسیمہ کرکے خود بھی بھنا گئے، پھر ٹرک کے پیچھے بھاگے جو بے عقلی تھی ، اس کے بعد تم نے کمسن بچوں کے آگے ہاتھ پھیلایا یہ بھی بے عقلی کی ہی حرکت تھی۔ ریڑھی والے نے تم کو مونگ پھلیاں دینے کی کوشش کی تو تم نے بادام اور پستے مانگے۔ جو مل رہا تھا وہ لیا نہیں۔ جو نہیں مل سکتا تھا اس کے لیے چیں چیں کرتے رہے۔ تمہاری عدم موجودگی میں مکان اور کار سے ایسے آثار نمودار ہوئے کہ تمہاری جھولی بھرسکتی تھی لیکن تم وہاں نہیں تھے اس لیے محروم رہے۔ اگر تم صبر اور استقلال کے ساتھ ایک در پر جم کر رکھتے تو محروم نہ رہتے۔ اب بتاؤ کہ دنیا عقل اور ایمان کے دشمنوں سے بھر گئی ہے یا نہیں؟
گداگر نے اس بات کا جواب نہیں دیا۔
رشید کے دل میں ایک ترنگ اور آئی کہ اس سے کہے کہ وہ شاید عقیدتاً تو نہیںتاہم ذہناً مشرکین میں سے ہے اور اس کا یہی شرک اسے دردر کے دھکے دلواتا رہتا ہے اور وہ کبھی اس اصول کی پابندی نہیں کرتا کہ ’’یک در بگیر و محکم بگیر۔‘‘ کامیابی اور محرومی سے نجات تو اسی میں ہے۔
تاہم یہ باتیں اس نے اس لیے نہیں کیں کہ وہ شاید فقیر کی عقل سے اوپر کی ہوں۔ ایک اور بات بھی اس نے اسی وجہ سے نہیں کہی جو اس کے ذہن میں مچل رہی تھی وہ بات کچھ اس قسم کی تھی:’’بابا تم کسی فرد کی نہیں بلکہ ایک مخصوص روش اور وتیرے کی علامت ہو۔ ایک طرز احساس کا نوشتہ ہو۔ یہ روش کسی کی بھی ہو، خریدار کی یادکاندار کی ہو، سیاست داں کی یا سائنس داں کی ہو، افسر کی ہو یا ماتحت کی ہو، دیہاتی کی یاشہری کی ہو، تعلیم یافتہ یا غیر تعلیم یافتہ کی ہو، میزبان یا مہمان کی ہو، پیر کی ہو یا مرید کی ہو، معلم کی ہو یا متعلم کی ہو، جوان کی ہو یا بوڑھے کی ہو، اس کا اول و آخر دربدی اور محرومی سے ہی گندھا ہوا ہے۔ اس سے سرفرازی کی توقع عبث ہے۔‘‘
رشید احمد اس بات کو کہنے کی حسرت لیے واپس ہوگیا۔ وہ گداگر بھی اس کی باتیں شوق سے نہیں بلکہ بیزاری کے ساتھ سن رہا تھا۔
رشید احمد خوش تھا کہ اس نے یہ جو پڑھا تھا کہ یک در بگیر محکم بگیر وہ کتنا صحیح، سچا اور عملی تجربہ تھا۔ اس نے اس کی عملی تفسیر بھی دیکھ لی تھی۔
اس کے واپس جاتے جاتے بھی کچھ اور ہوگیا۔ایک شخص وہاں سے گزرا، تو گداگر نے ہانک لگائی:
’’سخی کچھ دے جا، اللہ کے نام پر۔
اللہ ہی دے گا، مولا ہی دے گا۔‘‘
وہ شخص اس بھکاری پربرس پڑا : ’’اوئے یہ کون سا وقت ہے بھیک مانگنے کا۔ رات کا وقت تو سونے کا ہوتا ہے کیا تو سوتا نہیں ہے یا ابھی رات بھر بھی یہی دھندا کرنا ہے۔ تیرے دھندے کی حد بھی ہے یا نہیں۔ چل ہٹ۔‘‘
گداگر یہ سن کر بڑا ناراض ہوا اور بڑبڑانے لگا اور ایک طرف ہوگیا۔
اتنے میں اس نے دیکھا کہ دو آدمی اور آرہے ہیں۔ ایک سڑک کی دائیں طرف اور دوسرا سڑک کی بائیں طرف تھا۔ گداگر پھر حرکت میں آیا لیکن بے دم ہوکر رہ گیا۔ اس کی سمجھ میں نہیں آیا کہ وہ کس کی طرف جائے۔ وہ حسب سابق دونوں سے کچھ لینا چاہتا تھا اور لینے کے لیے کنفیوژ ہوگیا تھا۔
اتنے میں وہ دونوں بھی نکل گئے۔ گداگر سٹپٹا کر رہ گیا۔ یہ دیکھ کر رشید کے ذہن میں وہ قول پھر روشن ہوگیا: ’’یک در بگیرو محکم بگیر۔‘‘
——

مزید

حالیہ شمارے

ماہنامہ حجاب اسلامی ستمبر 2024

شمارہ پڑھیں

ماہنامہ حجاب اسلامی شمارہ ستمبر 2023

شمارہ پڑھیں