[wpdreams_ajaxsearchpro id=1]

باپ کی بددعا

فرزانہ امین

یہ واقعہ میرے نانا جان نے تین چار سال پہلے سنایا تھا۔ عبرت کے لیے میں اسے قارئین حجاب کو بھی سناتی ہوں۔ پچاس سال سے زیادہ عرصہ پہلے کی بات ہے۔ میرا ایک بچپن کا ساتھی تھا۔ بڑا غصہ والا اور جلالی۔ ہم لوگ ساتھ آتے جاتے کیونکہ ہمارے اور اس کے کھیت پاس پاس تھے، اچھی خاصی زمین اور اکلوتی اولاد، اس چیز نے بچپن ہی سے اس کے اندر ایک خاص قسم کا احساس فخر پیدا کردیا تھا۔ جس کا وہ موقع موقع سے اظہار کیا کرتا۔

اکلوتی اولاد کی شادی کے سلسلے میں عام طور پر والدین بڑے جذباتی ہوتے ہیں۔ اس کے والدین نے بھی اس کی شادی میں ’’تمام شوق پورے کیے‘‘ اور بڑی ’’دھوم دھام‘‘ سے شادی ہوئی۔ عام لوگوں کی دعوت، مہمانوں کی خاطر مدارات اور بارات میں باجا گاجا، باپ کی ناک علاقے بھر میں اونچی ہوگئی۔

شادی ہوئی دلہن آنی جانی ہوگئی۔ چند ماہ بھی نہ گزر پائے تھے کہ ساس سسرسے بہو کی نوک جھونک شروع ہوگئی۔ ماں انتہائی شریف اورسادہ طبیعت خاتون تھی بس اسی غم میںگھٹ گھٹ کر سال بھر کے اندر اندر پیوند خاک ہوگئی۔ آخری عمر میں بیوی کی جدائی نے باپ کو بھی نڈھال کردیا۔ اور ایسی صورت میں جب اکلوتی اولاد بھی نفرت کرتی ہو تو جینے سے کیا فائدہ۔ یہی احساس باپ کے اندر پرورش پانے لگا۔

ساس کی موت کے بعد بھی بہو کو اس بات کا خیال نہ آیا کہ وہ بوڑھے سسر کو وقت پر کم از کم کھانا ہی دے دیا کرے۔ ایک روز بوڑھا باپ اپنے کسی ملنے والے سے بات چیت میں مصروف تھا۔ بہو پیچھے کھڑی کان لگائے سن رہی تھی کہ دیکھوں ’’بڈھا‘‘ میری کیا کیا شکایت کرتا ہے؟

مجبور اور دل جلا باپ اپنے ملنے جلنے والے سے یہ کہہ بیٹھا ’’بھیا اکلوتی اولاد خدا کسی کو نہ دے۔ جب سے بہو آئی ہے بیٹا بالکل بدل گیا ہے، روز روز کے لڑائی جھگڑے سے تنگ آکر وہ تو چل بسی اب دیکھو میں کب تک بھوکا پیاسا زندہ رہتا ہوں۔‘‘

یہ سننا تھا کہ بہو نے آسمان سر پر اٹھا لیا۔ گالیاں، لعن طعن اور گلی سڑی تک سناڈالیں۔ مجبوراً بوڑھا باپ وہاں سے اٹھ کر کہیں اور چلا گیا، مگر جاتا کہاں، گھنٹے دو گھنٹے گھوم گھام کر اور لوگوں میں اٹھ بیٹھ کر واپس آگیا۔ گرمیوں کے دن تھے۔ ابھی نہاکر بیٹھا ہی تھا کہ اس کا بیٹا آگیا۔ بیٹا گھر میں گیا۔ ابھی اس کا دھوپ سے تپتا دماغ ٹھنڈا بھی نہیں ہوا تھا کہ بیوی نے پھر سے آسمان سر پر اٹھالیا۔ ’’کب تک میری بے عزتی ہوتی رہے گی؟ دنیا بھر سے میری شکایت کی جاتی ہے۔ میں زہر کھالوںگی۔ یا تو یہ بڈھا رہے گا یا میں رہوں گی۔‘‘

سخت دھوپ کی تپش، شدت کی گرمی اور اس پر بیوی کی جلی بھنی شکایتیں، بیٹے نے آؤ دیکھا نہ تاؤ بیل ہانکنے کی چھڑیاں باپ کو رسید کرنا شروع کردیں۔ لوگوں نے دیکھا تو دوڑ پڑے اور بیٹے کو ڈانٹا: ’’بدبخت! باپ پر ہاتھ اٹھاتا ہے، ڈوب جائے گا، برباد ہوجائے گا۔‘‘

بوڑھا باپ اس بے عزتی پر کیا کرسکتا تھا، زہر کا گھونٹ پی گیا اور ذلت کو برداشت کرلیا۔ مگر سب کے سامنے بڑے درد بھرے انداز میں کہا: ’’بیٹے! میں خوش قسمت ہوں کہ مجھے مارنے والا بیٹا تو ہے، مگر یاد رکھ کہ تجھے کوئی مارنے والا بھی پیدا نہ ہوگا۔‘‘

اس ذلت آمیز واقعہ کے بعد باپ چند مہینے زندہ رہا اور آخر کار اپنے رب سے جاملا۔ بات ختم ہوگئی۔ اکلوتی اولاد تمام زمین جائیداد کی بلاشرکت غیرے وارث بن گئی اور دس سال سے بھی زیادہ عرصہ گزر گیا مگر اس کا کوئی وارث پیدا نہ ہوا۔ تشویش شروع ہوگئی، علاج و معالجہ پہلے دیسی ویدوں اور حکمیوں سے کرایا گیا۔ مگر کچھ حاصل نہ ہوا۔ لوگوں نے مشورہ دیا کہ ویدوں حکیموں کو چھوڑو اور ماہر ڈاکٹروں کا علاج کراؤ۔

بڑے بڑے ڈاکٹروں اور ماہرین جنسیات سے علاج کرایا۔ درجنوں بار کئی کئی ٹسٹ اس کے بھی کرائے گئے اور اس کی بیوی کے بھی۔ لاکھوں روپیہ خرچ کر ڈالا۔ ڈاکٹر حیران تھے دونوں طرف سے سب کچھ ٹھیک ہے۔ پھر اولاد کیوں نہیں ہوتی؟

اب فقیروں اور تانترکوں کی باری آئی۔ بہتوں سے ملا اور ان کی ہدایات پر عمل شروع کیا۔ کھیتی باڑی جاتی رہی۔ اب زمین بکنے کانمبر آگیا۔ دھیرے دھیرے زمینیں بکتی رہیں اور پیروں فقیروں اور تانترکوں کی تجوری میں پہنچتی رہیں، مگر نہ کچھ ہونا تھا اور نہ ہوا۔

گاؤں کے چند افراد جو باپ کی اس بددعا کے گواہ تھے، جنھوں نے اپنے کانوں سے باپ کے الفاظ سنے تھے اور اپنی آنکھوں سے باپ کی پٹائی بیٹے کے ہاتھوں دیکھی تھی یقین رکھتے تھے کہ اگر پوری دنیا کی دولت بھی اسے مل جائے اور وہ اسے حکیموں، ڈاکٹروں پیروں فقیروں اور تانترکوں کو دے دے تب بھی اولاد سے محروم ہی رہے گا۔ کیونکہ اس نے باپ کا دل دکھا کر اس کی بد دعا لی ہے۔

آخر کار ابھی چند سال پہلے بڑی کسمپرسی کی عبرتناک زندگی گزار کر وہ بھی وہیں چلا گیا جہاں اس کا باپ لگ بھگ چالیس سال پہلے جاچکا ہے۔

گھریلو نسخے

مزید

حالیہ شمارے

ماہنامہ حجاب اسلامی ستمبر 2024

شمارہ پڑھیں

ماہنامہ حجاب اسلامی شمارہ ستمبر 2023

شمارہ پڑھیں