ڈاکٹر احمد کا شمار شہر کے قابل ترین ڈاکٹروں میں کیا جاتا تھا۔شہر کے بڑے چوراہے پر اُن کا کلینک تھا۔
لگ بھگ سارا شہر ہی اُن کی طبی خدمات سے مستفید ہو رہا تھا۔ایک روز کہیں جانے کے لیے جیسے ہی اُنہوں نے چوراہے پر قدم رکھا،ایک تیز رفتار گاڑی نے اُنہیں ٹکر ماردی اورگھسیٹتے ہوئے چوراہے کے درمیان موت و زیست کی کیفیت میں مبتلا کر دیا۔
حادثہ پیش آتے ہی اچھی خاصی بھیڑ اُن کے گرد جمع ہوگئی۔ لوگوں نے جلدی سے اُنہیںگاڑی میں ڈالا اور نزدیکی اسپتال پہنچا دیا۔
اسپتال میں اُنہیں فوراً ایمرجنسی میں لے لیا گیااور ڈاکٹروں کی ایک ٹیم نے معائینہ شروع کر دیا۔
حادثے کی خبر پورے شہر میں جنگل کی آگ کی طرح پھیل گئی۔ایمرجنسی کے باہر لوگوں کی بھیڑ جمع ہونے لگی۔ڈاکٹر احمد کے دونوں بیٹوں کو خبر ہوئی تو وہ بھی آناًفاناً اسپتال پہنچ گئے۔ ڈاکٹر احمد کی حالت دیکھتے ہوئے ڈاکٹروں نے اُنہیں آپریشن تھیٹر منتقل کر دیا۔ڈاکٹر نے ویہیں کھڑے کھڑے ڈاکٹر احمد کے بیٹے سے کہا’’دیکھیے، ایکسڈینٹ میں ان کے گردوں کو نقصان پہنچا ہے ۔ اُن کو ایک کڈنی مہیا نہ کی گئی تو اُن کی جان کو خطرہ ہے۔‘‘
یہ سُن کر سبھی لوگ چہ میگوئیاں کرنے لگے ۔ڈاکٹر نے اُن کے بیٹے کو جلدی کی ہدایت کی اور آپریشن تھیٹر کے اندر چلا گیا۔
دونوں بیٹے ایک دوسرے کا منہ دیکھنے لگے ۔کچھ دیر کے بعد وہ فون پر کسی سے بات کرنے لگے۔
بڑے بیٹے نے لوگوں کی طرف دیکھتے ہوئے کہا ’’پاپا کی حالت تو آپ سب کو پتا ہے،اگر آپ میں سے کوئی شخص پاپا کو کڈنی دے دے تو ہم اُس کا احسان زندگی بھر نہیں بھولیں گے بلکہ ہم اُس کو روپیہ بھی دیں گے۔‘‘
مگر لوگوں میں سے کسی نے حامی نہ بھری بلکہ طرح طرح کی باتیں ہونے لگیں۔ایک منہ پھٹ ّ آدمی نے تو قدرے اونچی آواز میں کہہ دیا’’ اِتنی ہی محبت ہے باپ سے تو خود کیوں نہیں دے دیتے کڈنی۔۔بڑے آئے پیسے والے۔‘‘
دوسری طرف سے ایک صاحب بولے’’ آج کل کی اولاد تو بس۔۔نام کی ہے‘‘ لوگوں میں ابھی یہ باتیں ہو ہی رہیں تھیں کہ اچانک ایک شخص بھیڑ میں سے نکل کر سامنے آیا اور بولا ’’ میں تیار ہوں ‘‘ بھیڑ میں سناٹا چھا گیا۔وہ شخص فوراً آپریشن تھیٹر میں چلا گیا باہر کھڑے لوگ یہ اندازہ لگانے کی کوشش کر رہے تھے کہ کہیں وہ شخص ڈاکٹر احمد کا کوئی غریب رشتہ دار تو نہیں۔
کچھ دِنوں کے بعد ڈاکٹر احمد علاج کے بعد اسپتال سے گھر منتقل ہو گئے۔گھر پہنچتے ہی وہ یہ جاننے کے لیے بے چین ہوگئے کہ وہ فرشتہ صفت انسان کون تھا،جس نے اُن کی خاطر اپنی جان کو خطرے میں ڈالا۔ڈاکٹر احمد کے مجبور کرنے پر اُن کے بیٹوں نے اُس شخص کو اُس کے سامنے لا کھڑا کیا۔ڈاکٹر احمد نے جب اُس شخص سے پوچھا کہ اُس نے یہ کام کیوں کیا تو اُس نے ایک لمبی آہ بھرتے ہوئے کہا’’ ڈاکٹر صاحب۔۔میں وہ بد نصیب باپ ہوں جس کی بیٹی کے کینسر کا علاج پچھلے چھے ماہ سے آپ کے پاس چل رہا ہے۔
۔۔۔۔خدا نہ کرے۔۔۔اگر آپ کو کچھ ہو جاتا تو۔۔۔میری بیٹی کا کیا بنتا۔‘‘ll