باہمی تعاون

خورشید فرزانہ ورنگلی، حیدرآباد

انسان معاشرہ میں لوگوں کے ساتھ مل جل کر رہتا ہے اور زندگی کے ہر مرحلے میں باہمی امداد و تعاون، صلاح و مشورے کے ذریعے اپنی ضروریات کی تکمیل اور مسائل کو حل کرتا ہے اور یہی سماجی ارتقاء اور مضبوط و مستحکم معاشرتی زندگی کی بنیا دہے۔ یہ اصول خاندانوں، تحریکوں، تنظیموں اور اداروں سب کے لیے یکساں ہے۔ کوئی خاندان ہو یا تنظیم و تحریک معاشرہ ہو یا کسی بھی قسم کا ادارہ اس کے بغیر نہ وجود میں آتے ہیں اور نہ قائم رہ سکتے ہیں۔ صالح معاشرہ کے قیام و بقا اور اچھی قدروں کے فروغ کے لیے تو باہمی تعاون بنیاد ہے۔ چنانچہ قرآن میں فرمایا گیا:

تعاونوا علی البر والتقویٰ ولا تعاونوا علی الاثم والعدوان۔

’’نیکی اور بھلائی کے کاموں میں ایک دوسرے کا تعاون کرو، گناہ اور زیادتی کے کاموں میں تعاون نہ کرو۔‘‘

اللہ تعالیٰ نے جہاں باہمی تعاون کا حکم اہلِ ایمان کو دیا ہے وہیں تعاون کی حدیں بھی واضح کردی ہیں کہ اہلِ ایمان آپس میں تعاون و مددگار ہونے کا رول صرف اور صرف نیکی اور خیر کے معاملوں میں کریں گے۔ لیکن جہاں برائی اور معاشرے اور سماج کو نقصان پہنچانے والے کام کا معاملہ آئے گا، وہاں کسی کی بھی مدد نہیں کی جائے گی۔

انسانی زندگی اگرچہ قائم ہی باہمی تعاون کی بنیاد پر ہے مگر پھر بھی بعض بعض امور و معاملات ایسے ہیں جہاںاہلِ ایمان کو خصوصی نظر رکھنے کی تاکید کی گئی ہے۔ اگر ہم اللہ کے رسول کے بتائے ہوئے مثالی معاشرہ پر نظر ڈالیں تو اچھی طرح اندازہ ہوگا کہ ان کا معاملہ کیا تھا اور ان کے درمیان تعاون اور امداد باہمی کا رشتہ کس قدر مضبوط تھا۔ اللہ کے رسول کی تو زندگی ہی انسانوں کی خدمت اور لوگوں کے ساتھ تعاون میں گزری۔ کمزوروں کی خدمت، ضرورت مندوں اور حاجت مندوں کے کام آنا اور ان کے کاموں کو انجام دینا، عام انسانی تصور ہے، جو تعاون سمجھا جاتا ہے۔ لیکن اللہ کے رسول نے اس تصور کو پوری انسانی زندگی پر اس طرح پھیلا یا کہ پورے معاشرے کے افراد ایک ایسی مضبوط دیوار بن گئے جو چھوٹی چھوٹی اینٹوں سے مل کر بنتی ہے اور ایک دوسرے کے لیے سہارا دے کر مضبوطی فراہم کرتے ہیں۔

ہم اپنی عام گھریلو زندگی میں ایک دوسرے کے ساتھ تعاون کرتے ہیں اور اس کی ضرورت و اہمیت کو خوب سمجھتے ہیں۔ بڑا بھائی اپنی محنت و مشقت کے ذریعہ چھوٹے بھائیوں کی کفالت کرتا ہے اور ان کی تعلیم و تربیت پر محنت کرتا ہے حالانکہ اگر وہ چاہے تو ایسا نہ کرے، مگر کرتا ہے۔ باپ بیٹے سے اور بیٹا باپ سے تعاون کرتا ہے۔ شوہر بیوی عملی زندگی میں ایک دوسرے کے معاون بنتے ہیں۔ مرد باہر کی ذمہ داریاں انجام دیتا ہے اور عورت گھر کے کاموں کو سنبھالتی ہے۔ اگر عورت مرد کے درمیان باہمی تعاون کی فضا نہ ہو تو زندگی کس طرح تنگ ہوجاتی ہے اس کا تصور ہم معاشرتی زندگی میں اچھی طرح کرسکتے ہیں۔

جس طرح عام معاشرتی زندگی میں باہمی تعاون درکار ہے، اسی طرح دینی وسماجی زندگی میں ایک دوسرے کا تعاون ضروری بھی ہے اور مطلوب بھی۔ اس اجتماعی تعاون کی بنیاد پر ادارے بنتے اور چلتے ہیں۔ اسی کی بنیاد پر تنظیمیں اور تحریکیں قائم بھی ہوتی ہیں، اور اپنی خدمات سے لوگوں کو نہ صرف فائدہ پہنچاتی ہیں بلکہ انسانی زندگی میں واضح تبدیلی کا ذریعہ بنتی ہیں۔

مسلمانوں کے درمیان بھی وسیع تر معاشرتی، سماجی، اصلاحی، دعوتی اور اسلامی زندگی میں باہمی تعاون مطلوب ہے، اور اسے دنیا و آخرت کی کامیابی سے جوڑا گیا ہے۔ خود اللہ کے رسول نے تاریخ اسلام میں تعاون باہمی کی ایسی مثال قائم کی ہے جسے انسانی تاریخ نہ دیکھ سکی تھی۔ مکہ سے مدینہ ہجرت کے بعد اللہ کے رسول نے مہاجرین اور انصار کے درمیان’’مواخاۃ‘‘ بھائی چارہ قائم کیا جو تعاون کی معراج ہے اور رہتی دنیا تک کے لیے روشن مثال بھی۔ یہاں مادی اور مالی تعاون کی مثالیں ہی نہیں روحانی تعاون کی مثالیں بھی اس معاشرے میں ملتی ہیں۔ مالی اور جسمانی تعاون تو اسلامی معاشرے میں مطلوب ہے ہی اس کے علاوہ ایک روحانی تعاون بھی مطلوب ہے۔ برائیوں کے خلاف مل جل کر جدوجہد کرنا اہلِ ایمان کا فریضہ بتایا گیا ہے اسی طرح نیکیوں کو پھیلانے اور اچھائیوں کو عام کرنے کے لیے مل کر کوششیں کرنا اہل ایمان کی ذمہ داری بتائی گئی ہے اور یہی بات ہے جسے تعاونوا علی البر والتقویٰ کی صورت میں بیان کیا گیا۔

مسلم معاشرہ کے افراد شخصی ارتقاء اور ذاتی زندگی میں نیکیوں کو اختیار کرنے اور برائی سے بچنے میں ایک دوسرے کے معاون و مددگار ہونے چاہئیں۔ یہ اللہ کے رسول کی احادیث اور آپ کی عملی زندگی سے واضح ہے۔ چنانچہ اللہ کے رسول نے فرمایا: ’’مومن مومن کا آئینہ ہے۔‘‘

چہرے پر اگر کوئی غیر مطلوب چیز لگی ہو اور آئینہ دکھایا جائے تو وہ بتادیتا ہے کہ چہرے پر کیا لگا ہے اور انسان اسے دور کردیتا ہے۔ اسی طرح روحانی زندگی میں مومن مومن کا معاون و مددگار ہوتا ہے اور برائیوں سے بچنے اور نیکیاں اختیار کرنے میں ایک دوسرے کی مدد کرتے ہیں۔ ایک اور جگہ اللہ کے رسول ﷺ نے فرمایا:

انصر اخاک ظالما او مظلوماً۔

’’اپنے بھائی کی مدد کرو خواہ وہ ظالم ہو یا مظلوم۔‘‘

صحابہ نے پوچھا کہ اگر وہ مظلوم ہے تو ہم یقینا اس کی مدد کرسکتے ہیں لیکن اگر وہ ظالم ہے تو کس طرح اس کی مدد کرسکتے ہیں؟ رسول اللہﷺ نے فرمایا: ظالم (مومن) کی مدد یہ ہے کہ تم ظلم کرتے وقت اس کا ہاتھ پکڑ لو۔

یہ ایک مسلم معاشرے میں تعاون باہمی کی مطلوب صورت ہے جس پر ہماری خواتین اور مردوں کو بطور خاص غور کرنا چاہیے اور ہر طرح کے خیر کے کاموں میں ایک دوسرے کے ساتھ تعاون کا ہاتھ بڑھانا چاہیے۔ اس طرح ایک طرف تو ہم اپنی آخرت کی زندگی کو کامیاب بناسکتے ہیں، دوسری طرف سماج اور معاشرے کو برائیوں سے بچا کر ایک مضبوط اور مستحکم معاشرہ بناسکتے ہیں۔

مزید

حالیہ شمارے

ماہنامہ حجاب اسلامی ستمبر 2024

شمارہ پڑھیں

ماہنامہ حجاب اسلامی شمارہ ستمبر 2023

شمارہ پڑھیں

درج بالا کیو آر کوڈ کو کسی بھی یو پی آئی ایپ سے اسکین کرکے حجاب اسلامی کو عطیہ دیجیے۔ رسید حاصل کرنے کے لیے، ادائیگی کے بعد پیمنٹ کا اسکرین شاٹ نیچے دیے گئے  وہاٹس ایپ پر بھیجیے۔ خریدار حضرات بھی اسی طریقے کا استعمال کرتے ہوئے سالانہ زرِ تعاون مبلغ 600 روپے ادا کرسکتے ہیں۔ اس صورت میں پیمنٹ کا اسکرین شاٹ اور اپنا پورا پتہ انگریزی میں لکھ کر بذریعہ وہاٹس ایپ ہمیں بھیجیے۔

Whatsapp: 9810957146