باہم بات چیت کی اہمیت

ڈاکٹر سمیر یونس —ترجمہ: تنویر آفاقی

ایک قدیم عربی کہاوت ہے: ’’تمھاری گفتگو سے ہی میں تمھیں جان جائوں گا۔‘‘شوہر اور بیوی کے درمیان باہمی گفتگو کی اہمیت اس کہاوت سے واضح ہوتی ہے، کیوں کہ بہت سے شادی شدہ جوڑوں کے درمیان یہ شکایت پائی جاتی ہے کہ وہ ایک دوسرے سے بات بھی نہیں کرتے ہیں۔اس کے وجہ سے ان کی شادی شدہ زندگی ایک طرف پریشانیوں اور الجھنوں سے دوچار ہوجاتی ہے اور زندگی کی بنیاد لرزنے لگتی ہے تو دوسری طرف گھر کا ماحول گدلا جاتا اور آپس میں ایک دوسرے کے تعلق سے شکوک وشبہات پھر نفرت و بیزاری جنم لینے لگتے ہیں۔

سماجی ومعاشرتی نیز حاندانی امور سے متعلق جائزے اس جانب اشارہ کرتے ہیں کہ طلاق کا ایک بڑا سبب یہ بھی ہے کہ شوہر اور بیوی کے درمیان عدم گفتگو یعنی آپس میں بات چیت نہ کرنے کا ماحول رہتا ہے ۔ چنانچہ لبنان کی ایک کمیٹی نے اپنی رپورٹ میں کہا ہے کہ زوجین کے درمیان عدم گفتگو کا ماحول طلاق کا تیسرا سب سے بڑا سبب ہے۔اسی طرح کا اشارہ سعودی عرب کے شہر ریاض میں لیے گئے ایک جائزے سے بھی ملتا ہے۔جائزے میں یہ بھی کہا گیا ہے کہ شوہر اور بیوی کا ایک دوسرے کے تئیں لیے دیے رہنا ، ایک دوسرے سے کنی کاٹنا اور آپس میں بات نہ کرنا ایک ایسا عالمی مسئلہ بن گیا ہے کہ خاندانی امور سے متعلق عالمی کانفرنسوں میں اس مسئلے پر الگ سے بحث ہونے لگی ہے۔

رسولؐ کا ازواج مطہرات سے انداز گفتگو

اس سلسلے میں اللہ کے رسول ﷺ کا نمونہ ہمارے لیے بہترین مثال ہے جس کی ہمیں پیروی کرنی چاہئے کہ وہ کس طرح اپنی بیویوں سے گفتگو کیا کرتے تھے۔آپؐ کی زندگی کے کچھ نمونے یہاں پیش کیے جارہے ہیں:

حضرت خدیجہؓ سے گفتگو

آپؐ پر جب پہلی بار وحی نازل ہوئی اور آپؐ گھر تشریف لائے تو آپؐ نے حضرت خدیجہ سے فرمایا کہ مجھے چادر اڑھائو ، اس کے بعد آپ نے اپنے اوپر بیتا ہوا واقعہ سنایا۔پھر آپؐ نے فرمایا کہ مجھے اپنی جان کا خطرہ محسوس ہورہا ہے۔حضرت خدیجہؓ نے آپؐ کو اطمینان اور تسلی دلاتے ہوئے فرمایا : ’’ایسا ہر گز نہیں ہوسکتا، اللہ کی قسم اللہ تعالی کبھی آپؐ کو بے سہارا نہیں چھوڑے گا کیوں کہ آپؐ صلہ رحمی فرماتے ہیں، سچی بات کہتے ہیں، لوگوں کا بوجھ اٹھاتے ہیں، بے سہارہ لوگوں کی مدد کرتے ہیں، مہمان کی عزت وضیافت کرتے ہیں۔۔۔‘‘ (بخاری)

حضرت خدیجہؓ نے پریشانی کے وقت اس طرح آپؐ کا حوصلہ بڑھایا اور آپ کو تسلی دی چنانچہ حضرت خدیجہ کی یاد ہمیشہ کے لیے آپؐ کے دل میں بس گئی اور یہ یاد کبھی بھی آپؐ سے جدا نہ ہوسکی بلکہ آپؐ کی زندگی کا گویا حصہ بن گئی۔آپ کبھی بھی حضرت خدیجہ کو ؓبھلا نہیں پائے اور اسی وجہ سے ام المؤمنین حضرت عائشہؓ نے ایک دن یہاں تک کہہ دیا: ’’لگتا ہے آپ کے لیے دنیا میں خدیجہ کے علاوہ کوئی عورت ہی نہیں ہے۔‘‘

حضرت سودہ بنت زمعہؓ سے ہنسی مذاق

ام المؤمنین حضرت سودہ کے بارے میں یہ مشہور ہے کہ وہ اللہ کے رسول ﷺ کو بہت ہنسایا کرتی تھیں۔ ایک بار انھوں نے اللہ کے رسولﷺ سے کہا: ’’ کل میں آپؐ کے ساتھ نماز پڑھ رہی تھی، جب میں رکوع میں گئی تو میں نے اس ڈر سے اپنی ناک پکڑ لی کہ کہیں میری نکسیر نہ پھوٹ جائے۔‘‘ یہ سن کر اللہ کے رسولﷺ کو ہنسی آگئی۔(طبقات ابن سعد)

ام المؤمنین حضرت حفصہؓ سے گفتگو

جابر بن عبداللہ ؓ روایت کرتے ہیں کہ مجھے ام مبشر نے یہ بات بتائی کہ انھوں نے اللہ کے رسولؐسے اس وقت یہ بات سنی جب آپؐ حضرت حفصہ کے پاس تشریف فرما تھے کہ: جن لوگوں نے درخت کے نیچے بیعت کی تھی ان میں سے کوئی بھی ان شاء اللہ دوزخ میں نہیں جائے گا۔‘‘ یہ سن کر حضرت حفصہؓ نے عرض کیا: اے اللہ کے رسول ؐکوئی کیوں نہیں جائے گا!! اس پر آپؐ نے ناگواری ظاہر کی تو انھوں نے قرآن کی آیت کا یہ ٹکڑا تلاوت کیا: ان منکم الا واردہا۔ اس کے جواب میں اللہ کے رسولﷺ نے فرمایا: اللہ تعالی یہ فرما چکا ہے: ثم ننجی الذین اتقوا ونذر الظالمین فیہا جثیاً (مریم)(مسلم)

ام المؤمنین جویریہ بنت حارثؓ سے گفتگو

ام المؤمنین حضرت جویریہؓ خود ہی یہ واقعہ بیان کرتی ہیں کہ اللہ کے رسولﷺ میرے پاس تشریف لائے تو میں صبح کے وقت بیٹھی تسبیح پڑھ رہی تھی۔ پھر آپؐ اپنی ضرورت کے تحت تشریف لے گئے اور تقریبا دوپہر کے وقت تشریف لائے تو میں اس وقت بھی تسبیح پڑھ رہی تھی۔ مجھے تسبیح پڑھتے دیکھ کر آپؐ نے پوچھا: تم ابھی تک تسبیح پڑھ رہی ہو؟ میں نے عرض کیا: ہاں۔ تو آپؐ نے فرمایا: ’’کیا میں تمھیں ایسے الفاظ نہ سکھا دوں کہ یہ کلمات یہ ہیں: سُبْحَانَ اللّٰہِ عَدَدَ خَلْقِہِ تین مرتبہ، سُبْحَانَ اللّٰہِ زِنَۃَ عَرْشِہِ تین مرتبہ، اور سُبْحَانَ اللّٰہِ مِدَادَ کَلِمَاتِہِ تین مرتبہ (مسلم) حضرت جویریہ کا ایک واقعہ یہ بھی ہے کہ ایک دن جمعہ کے روز اللہ کے رسولﷺ ان کے پاس تشریف لائے ۔ اس وقت حضرت جویریہؓ روزے سے تھیں۔ آپؐ نے ان سے پوچھا کہ کیا تم نے کل بھی روزہ رکھا تھا؟ انھوں نے جواب دیا: نہیں۔ آپؐ نے پھر پوچھا کہ کیا کل بھی روزہ رکھنے کا ارادہ ہے؟ حضرت جویریہؓ نے پھر عرض کیا: نہیں۔ آپؐ نے فرمایا ’’پھر تم آج کا روزہ بھی توڑ دو۔‘‘ (بخاری)

ام المؤمنین زینب بنت جحشؓ سے گفتگو

حضرت زینبؓ خود بیان کرتی ہیں کہ ایک روز اللہ کے رسولﷺ نیند سے بیدار ہوئے تو آپ کا چہرہ مبارک سرخ تھا۔ آپؐ نے فرمایا:’’لاالہ الا اللہ، عرب کے لیے تباہی ہے اس مصیبت سے جو قریب آپہنچی ہے۔ آج یاجوج ماجوج کے گڑھے میں اتنا بڑا سوراخ ہوگیا ہے۔ آپﷺ نے انگلیوں سے حلقہ بناتے ہوئے سوراخ کی مقدار بتائی۔ اس پر حضرت زینب نے پوچھا: اے اللہ کے رسولﷺ! کیا ہم اس صورت میں بھی ہلاک کر دیے جائیں گے کہ ہمارے درمیان صالح اور نیک لوگ موجود ہوں؟ آپؐ نے فرمایا: ہاں، جب خباثت بڑھ جائے گی تو صالح اور نیک لوگوں کی موجودگی کے باوجود ایسا ہوجائے گا۔(متفق علیہ)

ام المؤمنین عائشہؓ سے گفتگو

اللہ کے رسولﷺ اور حضرت عائشہ کے درمیان گفتگو کے کئی واقعات روایات میں آتے ہیں، کیوں کہ حصرت عائشہؓ آپ کی سب سے چہیتی بیوی تھیں۔اسی وجہ سے آپﷺ اللہ سے دعا بھی کرتے رہتے تھے کہ میں جس حد تک قدرت رکھتا ہوں اپنی بیویوں کے درمیان اعتدال اور انصاف سے کام لیتا ہوںیعنی مادی معاملات میں میں اعتدال کو ملحوظ رکھتا ہوں لیکن جہاں میری قدرت نہیں ہے یعنی میرا دل، تو اس سلسلے میں، میں اللہ سے عفو ودرگذر کا طالب ہوں۔ کیوں کہ آپ ﷺ کا قلبی میلان زیادہ حضرت عائشہؓ کی طرف رہتا تھا۔

ایک روز اللہ کے رسولﷺ حضرت عائشہ کے پاس تشریف لائے تو وہ گڑیوں سے کھیل رہی تھیں۔ آپﷺ نے پوچھا: ’’یہ کیا ہے؟‘‘ انھوں نے جواب دیا: گھوڑا۔ آپؐ نے فرمایا: اس کے تو پر نظر آرہے ہیں، گھوڑے کے کیا پر ہوتے ہیں۔ حضرت عائشہ ؓ نے جواب میں فرمایا : کیا آپ کو معلوم نہیں حضرت سلیمانؑ کے گھوڑوں کے پر تھے۔ اس پر آپ ؐ کو ہنسی آگئی۔حضرت عائشہؓ خود بیا ن کرتی ہیں کہ انھوں نے اللہ کے رسولﷺ سے اس آیت : وَالَّذِیْنَ یُؤْتُوْنَ مَا آتَوْا وَقُلُوْبُہُمْ وَجِلَۃٌ أَنَّہُمْ إِلٰی رَبِّہِمْ رَاجِعُوْنَ (المومنون۔۶۰)کے متعلق پوچھا کہ کیا اس کا مطلب یہ ہے کہ آدمی چوری کرتا ہے ، شراب پیتا ہے اور زنا کرتا ہے لیکن اس کے باوجود وہ اللہ سے ڈرتا بھی رہتا ہے؟ آپؐ نے فرمایا: ’’ نہیں، بلکہ اس آیت کا مطلب یہ ہے کہ آدمی صدقہ کرتا ہے، روزہ رکھتا ہے، نماز پڑھتا ہے اور اس کے ساتھ ساتھ اسے یہ ڈر بھی رہتا ہے کہ اللہ اس کی یہ نیکیاں قبول کرے گا یا نہیں۔‘‘(مسند احمد بن حنبل)

جذباتی گفتگو

حضرت عائشہؓ فرماتی ہیںکہ ایک روز اللہ کے رسولﷺ میرے پاس تشریف لائے تو میں نے پوچھا کہ آج آپ دن بھر کہاں رہے؟ آپؐ نے فرمایا: ’’حمیرا! میں امّ سلمہ کے پاس تھا۔‘‘ یہ سن کر میں نے کہا: ’’کیا ام سلمہ سے آپ کا پیٹ نہیں بھرتا؟‘‘ میری بات سن کر آپؐ مسکرانے لگے تو میں نے عرض کیا: اے اللہ کے رسولﷺ ! کیا آپ مجھے اپنے بارے میں ایک بات بتائیں گے کہ اگر آپ دو چراگاہوں میں جائیں جن میں سے ایک کی گھاس چَر لی گئی ہو اور دوسری کی گھاس محفوظ ہو، ابھی تک کسی نے چری نہ ہو تو آپؐ دونوں میں سے کس میدان میں اپنے جانور کو چَرانا پسند فرمائیں گے؟ آپؐ نے فرمایا: ’’جس میدان کی گھاس چری نہ گئی ہو۔‘‘ میں نے عرض کیا کہ میں آپؐ کی دوسری بیویوں کی طرح نہیں ہوں، کیوں کہ آپ کی دیگر تمام ازواج پہلے بھی کسی مرد کی بیویاں رہ چکی ہیں۔ میری یہ بات سن کر اللہ کے رسولﷺ مسکرانے لگے۔(طبقات ابن سعد) ایک بار حضرت عائشہؓ نے یہ پتہ لگانا چاہا کہ آپؐ ان سے کتنی محبت کرتے ہیں اور اس کے لیے انھوں نے صاف لفظوں میں اللہ کے رسولﷺ سے پوچھا: ’’آپ مجھ سے کتنی محبت کرتے ہیں؟‘‘آپؐ نے فرمایا: ’’رسی کی گانٹھ کی طرح۔‘‘ اس کے بعد اکثر وہ اللہ کے رسولﷺ سے پوچھتی رہتیں کہ یا رسول اللہ ’’رسی کی گانٹھ کی طرح‘‘ کا کیا مطلب؟ لیکن آپ یہی جواب دیتے کہ’’ اسی طرح محبت کرتا ہوں۔‘‘

اگرچہ اس بات سے وہ خوش ہوجاتی تھیں لیکن ان کی تسلی نہیں ہوتی تھی کیوں کہ وہ تو یہ چاہتی تھیں کہ جنت میں بھی وہ آپؐ کے قریب رہیں۔ اس لیے پوچھتی ہیںکہ آپؐ کی کون سی ازواج جنت میں آپؐ کے ساتھ ہوں گی؟ آپؐ فرماتے: ’’ان میں سے ایک تم بھی ہو۔‘‘

غصہ اور ناراضگی کے وقت گفتگو

غصے اور ناراضگی کے وقت آپؐ اپنی ازواج سے نہایت مہذب انداز میں بات کیا کرتے تھے۔ حضرت عائشہؓ فرماتی ہیں کہ اللہ کے رسول ﷺ جب کبھی ناراض ہوجاتے تو آپؐ اپنا دست مبارک میرے کاندھے پر رکھتے اور فرماتے: ’’اللہم اغفر لہا ذنبہا أذہب غیظ قلبہاوأعذ من مضلات الفتن‘‘ (الاربعین فی منقبۃ امہات المومنین)(اے! اللہ عائشہؓ کے گناہ کو معاف فرما، اس کے دل کا غصہ دور کردے اور اسے گمراہ کن فتنوں سے اپنی پناہ میں لے لے۔‘‘

ایک بار آپؐ نے حضرت عائشہؓ سے فرمایا: ’’جب تم مجھ سے خوش ہوتی ہو یا ناراض ہوتی ہو تو مجھے پتہ چل جاتا ہے۔‘‘ حضرت عائشہؓ نے پوچھا:اے اللہ کے رسول ﷺ وہ کیسے؟ ‘‘آپؒ نے فرمایا: ’’جب تم مجھ سے خوش ہوتی ہو تو تم کہتی ہو : ’’نہیں ،محمد کے رب کی قسم۔‘‘ اور جب ناراض ہوتی ہو توکہتی ہو: ’’نہیں، ابراہیم کے رب کی قسم۔‘‘ اس پر حضرت عائشہؓ نے فرمایا: ’’بالکل صحیح فرمایا ، لیکن بخدا میں صرف آپ کا نام لینے سے ہی گریز کرتی ہوں۔‘‘(بخاری و مسلم) (یعنی آپ کی محبت اور آپ کا احترام میرے دل میں رہتا ہے۔)

ازدواجی زندگی کی یہ وہ تصویر ہے اور یہ وہ پیغام ہے جسے ہر شادی شدہ جوڑے کو اس وقت اپنے سامنے رکھنا چاہئے جب ان میں سے کوئی بھی غصے کی حالت میں ہو۔حضرت عائشہؓ کا یہ جواب کس قدر مہذب ہے کہ ’بالکل صحیح فرمایا ، لیکن بخدا میں صرف آپ کا نام لینے سے ہی گریز کرتی ہوں۔‘‘

حضرت عائشہ کی رقیبانہ گفتگو

چوں کہ حضرت عائشہؓ کو اللہ کے رسولﷺ سے بے پناہ محبت تھی اس لیے وہ آپ کے سلسلے میں غیرت ورقابت کا شکار رہتی تھیں۔اس سلسلہ کا ایک واقعہ یہ ہے کہ ایک روز رات کے وقت اللہ کے رسولﷺ حضرت عائشہ کے گھر سے نکل کر باہر چلے گئے ۔ حضرت عائشہؓ فرماتی ہیں: ’’مجھے آپ پر غیرت آگئی۔ پھر آپ واپس تشریف لائے اور دیکھا کہ میں کیا کر رہی ہوں تو بولے: ’’عائشہؓ ! تمھیں کیا ہوا، کیا تمھیں غیرت آگئی؟‘‘ میں نے عرض کیا :’’ مجھے آپ جیسی ہستی پر غیرت کیوں نہ آئے؟‘‘آپؐ نے دریافت فرمایا: ’’کیا تمھارا شیطان تم پر غالب آگیا؟‘‘ میں نے پوچھا: ’’اے اللہ کے رسولﷺ کیا میرے ساتھ بھی شیطان لگا ہوا ہے؟‘‘ آپؐ نے فرمایا:’’ہاں‘‘میں نے پوچھا : کیا ہر انسان کے ساتھ شیطان لگا ہوا ہے؟ آپؐ نے فرمایا: ’’ہاں۔‘‘ میں نے پوچھا : ’’کیا آپ کے ساتھ بھی لگا ہوا ہے؟ ’’ آپؐ نے فرمایا: ’’ہاں میرے ساتھ بھی لگا ہوا ہے لیکن اللہ نے میری مدد کی ہے اس لیے وہ میرے تابع ہوگیا ہے۔‘‘(فقہ سیرۃ نساء النبی)

حضرت عائشہؓ اپنا ایک اور واقعہ بیان فرماتی ہیں کہ میری باری کی رات کا واقعہ ہے کہ آپؐ میرے پاس تھے۔ آپؐ نے اپنی چادر رکھ دی اور جوتیاں اتار کر اپنے پیروں کے پاس رکھ دیں ، پھر آپؐ لیٹ گئے۔ ابھی تھوڑی دیر ہی گذری تھی کہ آپؐ نے یہ خیال کرکے کہ میں سو گئی ہوں آہستہ سے اپنی چادر اٹھائی اوراٹھ گئے۔ اس کے بعد آپؐ دروازہ کھول کر باہر نکل گئے اور آہستہ سے دروازہ بند کر دیا۔میں نے اپنی اوڑھنی اپنے سر پر رکھی اور آپؐ کے پیچھے چل پڑی یہاں تک آپؐ جنت البقیع میں پہنچ گئے۔آپؐ وہاں کافی دیر تک کھڑے رہے پھر آپؐ نے تین بار اپنے ہاتھوں کو اٹھایا اور وہاں سے واپس مڑے تو میں بھی واپس مڑ گئی۔ آپ تیز قدموں سے چلنے لگے تو میں بھی تیز قدموں سے چلنے لگی، آپؐ نے اپنی رفتار بڑھائی تو میں نے بھی اپنی رفتار بڑھا دی، آپؐ دوڑنے لگے تو میں بھی دوڑنے لگی، چنانچہ میں آپؐ سے پہلے گھر میں داخل ہو گئی۔ ابھی میں لیٹی ہی تھی کہ آپؐ بھی گھر میں داخل ہوگئے۔ اللہ کے رسولﷺ نے مجھ سے پوچھا: ’’کیا بات ہے عائشہ تمہاری سانس پھول رہی ہے؟ میں نے کہا: کچھ نہیں ۔ آپؐ نے فرمایا : ’’مجھے بتا دو ورنہ اللہ لطیف وخبیر مجھے بتا دے گا۔‘‘ میں نے عرض کیا: ’’میرے ماں باپ آپ پر قربان ہوں۔ اس کے بعد میں نے ساری بات بتادی۔تو آپؐ پوچھا: ’’میرے آگے آگے جو سایہ چل رہا تھا وہ تم ہی تھیں؟‘‘ میں نے عرض کیا: ’’ہاں‘‘۔ آپؐ نے ایک گھونسہ میرے سینے پر مارا جس سے مجھے تکلیف ہوئی۔ پھر فرمایا:’’کیا تم نے یہ سوچا تھا کہ اللہ اور اس کا رسول تمھاری حق تلفی کرے گا۔‘‘ میں نے کہا: ’’ جی ہاں، لوگ کتنا ہی چھپانا چاہیں اللہ جان ہی جاتا ہے۔‘‘ آپؐ نے فرمایا: ’’جب تم نے دیکھا تھا اس وقت جبریل میرے پاس آئے تھے اور انھوں نے مجھے آواز لگائی تھی۔ لیکن انھوں نے خود کو تم سے مخفی رکھا اس لیے میں نے بھی مناسب یہی سمجھا کہ ان کی آمد تم سے مخفی رہے ۔ وہ تمھارے سامنے نہیں آئے۔ میں نے بھی یہ گمان کیا کہ تم سو چکی ہو۔اس لیے تمھیں اٹھانا بھی ناگوار لگا اور ڈر بھی لگا کہ کہیں تم گھبرا نہ جائو۔ پھر جبریل ؑ نے مجھ سے کہا:’’تمھارا رب تمھیں حکم دیتا ہے کہ جنت البقیع جائو اور اہل بقیع کے لیے مغفرت کی دعا کرو۔‘‘ حضرت عائشہؓ کہتی ہیں کہ میں نے اللہ کے رسولﷺ سے پوچھا کہ میں اہل بقیع کے لیے کس طرح دعا کروں تو آپؐ نے فرمایا:’’اَلسَّلاَمُ عَلٰی اَہْلِ الدَّیَارِ مِنَ الْمُومِنِیْنَ وَ المُسْلِمِیْنَ ویَرْحَمُ اللّٰہُ الْمُسْتَقْدِمِیْنَ وُالمُسْتَأْخِرِیْنَ وَاِنَّا اِنْ شَائَ اللّٰہُ بِکُمْ لَلَاحِقُوْنَ (مسلم)

گھریلو مسائل کا حل

حضرت عائشہؓ بیان کرتی ہیں کہ ایک روز اللہ کے رسولﷺ میرے پاس تشریف لائے۔ میں اس وقت رو رہی تھی۔ آپؐ نے پوچھا کہ کیوں رو رہی ہو؟ میں نے کہا کہ فاطمہ نے مجھے ناپسندیدہ بات کہی۔آپؐ نے اپنی صاحبزادی حضرت فاطمہ کو بلایا اور پوچھا: ’’فاطمہ! کیا تم نے عائشہ کو ناپسندیدہ بات کہی ہے؟‘‘ حضرت فاطمہؓ نے عرض کیا: ’’ہاں اللہ کے رسولﷺ ۔‘‘ آپؐ نے حضرت فاطمہؓ سے فرمایا: ’’کیا تمھیں اس سے محبت نہیں جس سے مجھے محبت ہے؟‘‘ حضرت فاطمہؓ نے فرمایا: کیوں نہیں۔ آپؐ نے پھر پوچھا: ’’کیا تم اس کو ناپسند نہیں کرتی جس کو میں نا پسند کرتا ہوں؟‘‘ حضرت فاطمہ نے جواب دیا: ’’کیوں نہیں۔‘‘ اس کے بعد آپؐ نے فرمایا: ’’میں عائشہؓ سے محبت کرتا ہوں اس لیے تم بھی اس سے محبت کرو۔‘‘ حضرت فاطمہؓ فرماتی ہیں کہ اس کے بعد سے میں نے حضرت عائشہ کو ایسی کوئی بات نہیں کہی جس سے انھیں تکلیف ہو۔‘‘(بروایت ابو یعلی و بزار )

——

مزید

حالیہ شمارے

ماہنامہ حجاب اسلامی شمارہ ستمبر 2023

شمارہ پڑھیں

ماہنامہ حجاب اسلامی شمارہ اگست 2023

شمارہ پڑھیں