اُسے اپنے باپ پر طیش آ رہا تھا۔۔۔ باپ کی بات اس کے لیے اذیت ناک صدائے بازگشت بن چکی تھی۔ ’’بیٹا! میں یہ سب تیرے لیے ہی تو کر رہا ہوں۔‘‘ برسوں پہلے باپ کی اس بات کو سن کر وہ خوش ہو جایا کرتا تھا۔ اتنا خوش کہ باپ سے لپٹ جاتا ، ’’ابو ! آپ کتنے اچھے ہیں ! ‘‘
باپ بھی اسے اپنی بانہوں میں سمیٹ کر شدت سے اس کو پیار کرتا تھا۔
آج اسے اپنے باپ کی بانہوں کی گرفت یاد آ رہی تھی۔ اس کے بوسوں کا لمس وہ اپنی پیشانی پر محسوس کر رہا تھا اور اندر ہی اندر ٹوٹ ٹوٹ کر بکھر رہا تھا۔
اُس کی شخصیت کی وہ ساری دیواریں جن کی تعمیر کے لیے اس نے بہت پاپڑ بیلے تھے، اپنی منھ زور خواہشات کا بارہا خون کیا تھا اوراپنے آپ کو ترسایا تھا، وہ ساری کی ساری اس کی نگاہوں کے سامنے منہدم ہورہی تھیں اور وہ خاموش تماشائی بنا بس دیکھتا ہی رہ گیا تھا۔
اُسے اپنے بچپن کا ایک واقعہ آج بھی اچھی طرح یاد تھا: کلاس کے کچھ لڑکے اپنے اپنے والد کی تعریف میں زمین آسمان کے قلابے ملا رہے تھے۔ ہر ایک یہ منوانے پر تلا ہوا تھا کہ ساری دنیا میں ایک اس کے والد سب سے اچھے اور شریف، سب سے زیادہ نیک اور عزت دار ہیں۔ جب اس نے ان کے دعوے سن کر اپنے باپ کے عزت دار اور شریف ہونے کی بات کہی تھی تو تمام ساتھیوں کے لبوں پر طنزیہ مسکراہٹ رینگ گئی تھی۔ ایک ساتھی تو اس کے سامنے ہاتھ نچا کر قہقہے لگا کر کہنے لگا تھا۔ ’’لوسنو—! اس کے ابا حضور عزت دار، شریف ہیں— ارے!شہر کے دادا ہیں تیرے ابا جان ، لوگ ان سے ڈرتے ہیں، ان کی عزت نہیں کرتے !‘‘
دوسرے لڑکے نے اس لڑکے کو ڈرایا تھا ،’’ ارے! ایسا مت بول! تجھے اس کے ابا ماریں گے …!‘‘
’’ میں کیوں ڈروں، جو سچ ہے وہی تو کہہ رہا ہوں۔ اس کے ابا جان شراب کا دھندا کرتے ہیں، جوئے کا کلب چلاتے ہیں، بتاؤ یہ عزت داروں کے پیشے میں کیا؟!‘‘ لڑکے نے ڈھٹائی سے کہا تھا۔
تب اُسے بہت برا لگا تھا۔ اُس نے اپنے باپ سے اس لڑکے کی شکایت کی تھی۔ باپ نے خوب مارا تھا اور لڑکے کے باپ کو دھمکی بھی دے دی تھی: ’’میرے بارے میں اگر تمہارے چھوکرے نے دوبارہ کبھی اناپ شناپ بکا تو مجھ سے برا کوئی نہیں سمجھا— !‘‘
جواب میں لڑکے کے باپ نے نہایت عاجزی سے ہاتھ جوڑ کر معافی مانگی تھی۔ معاف کردو بھائی! میرے بیٹے سے غلطی ہو گئی۔ آئندہ وہ ایسی حرکت کبھی نہیں کرے گا۔‘‘
وہ اس وقت بہت خوش ہوا تھا کہ اس کے ابا جان کی کتنی عزت ہے۔ لوگ کتنے ڈرتے ہیں اس کے ابا جان سے، کسی کی کیا مجال کوئی اُن کی طرف انگلی بھی اُٹھائے۔ یہ سوچ کر اس کا سینہ فخر سے پھول گیا تھا۔ لیکن … برسوں بعد جب اُس کا شعور بیدار ہو گیا تو اس نے اپنے اور اپنے والد کی حیثیت کے بارے میں سنجیدگی سے سوچنا شروع کیا تھا۔ تب اُسے حقیقت کا اندازہ ہو گیا تھا۔
کئی انگلیاں تھیں جو اسے دل کی آنکھوں سے اپنے والد کی طرف اُٹھتی دکھائی دی تھیں۔ کئی آنکھیں تھیں جن میں ان کے لیے نفرت کے شعلہ دہک رہے تھے اور اُس نے سوچا تھا کہ میں ان انگلیوں کو جھکا دوں گا، میں ان آنکھوں میں اپنے لیے محبت کے دیپ روشن کردوں گا اور اپنے کردار سے اپنی شخصیت کی تعمیر کروں گا جو میرے والد صاحب کی گھناؤنی زندگی کی بدولت داغ دار ہوچکی ہے۔ حالاں کہ خدا گواہ ہے، میں ان ناجائز افعال سے بہت دور رہا ہوں جو ان کے کیے دھرے ہیں۔
جن کے والدین اپنی زندگی بد چلنی میں گزار دیتے ہیں ان کے لیے وقار اور عزت کا مقام حاصل کرنا کتنا دشوار ہو جاتا ہے، اس کا اُسے بخوبی احساس تھا۔ اس لیے وہ اپنی زندگی کے راستے پر بہت ہی سنبھل سنبھل کر چلا اور پھونک پھونک کر ہر قدم رکھا۔ کبھی غلطی سے بھی کسی کا دل نہیں دکھا یا، کسی کی برائی نہ کی ، ہر ایک کے ساتھ خوش اخلاقی کا برتاؤ کیا۔ چھوٹوں کے ساتھ شفقت سے پیش آیا اور بڑوں کی عزت کی۔ راستے سے چلا تو سر جھکا کر نیچی نظریں کیے ہوئے۔
اس نے اس لڑکی کی طرف بھی دیکھنا ترک کر دیا تھا جو اس کی کلاس فیلورہ چکی تھی، جس کے ساتھ اُس کے بچپن کا معصوم دور گزرا تھا اور نوجوانی کا کبھی نہ بھولا جانے والا کچھ وقت بھی بیتا تھا۔ کالج کے ماحول میں جہاں آئے دن عشق و محبت کے نئے نئے ناٹک کھیلے جاتے ہیں، مالدار، عزت دار، مہذب لوگوں کے شریف زادے اعلیٰ تعلیم کے بہانے گھٹیا درجے کی عیاشیاں کر تے رہتے ہیں، ایسے ماحول میں وہ اس لڑکی کو دل ہی دل میں، نیک نیتی سے چاہنے لگا تھا۔
اُس کا دل بھی تو بہت چاہا تھا کہ وہ اپنی محبت کا، جو پھانس کی طرح اُس کے دل کی نرم زمین میں بری طرح پھنسی ہوئی ہے، اظہار کر دے، لیکن وہ ڈرتا تھا کہ کہیں وہ شریف لڑکی اُسے غلط نہ سمجھ بیٹھے۔ وہ کسی کی طرف نگاہ اُٹھا کر بھی نہیں دیکھتی تھی۔ صرف اس سے کبھی کبھی نصابی موضوع پر تبادلۂ خیالات کر لیتی تھی یا ضرورت ہونے پر نوٹس وغیرہ لے لیتی تھی۔ وہ بھی اس لیے کہ وہ کلاس کے تمام طلبہ میں منفرد تھا۔ سنجیدہ، با اخلاق — لڑکی نے بالمشافہ بلا تکلف اس کی تعریف بھی کی تھی، جسے سن کر اس کا سینہ مسرت سے بھر گیا تھا۔ سر فخر سے اونچا ہو گیا تھا۔ اس وقت وہ سوچ رہا تھا’ بچپن میں میرے والد کے کردار سے میرا سینہ اسی طرح پھول جاتا تھا اور سر اونچا‘ آج میرے وجود کی اُس کیفیت اور اِس کیفیت میں کتنا فرق ہے۔ وہ کیفیت میری اپنی بربادی تھی، میرا زوال، اور یہ کیفیت — ؟! نہیں ، میں اپنی اس کیفیت کے لطف کو گنواؤں گا نہیں۔ اپنے جذبات پر قابو رکھوں گا، نہیں تو مجھ میں اور کالج کے دیگر لڑکوں میں کیا فرق باقی رہ جائے گا— ؟!‘‘
محبت کا زبان سے اظہار کرنا ضروری بھی نہیں وہ جب دل میں پیدا ہوتی ہے تو اس کا اظہار کردار سے از خود ہو جاتا ہے۔ اسی لیے وہ لڑکی کو کالج کا دور ختم ہونے کے بعد بھی کبھی اس کے گھر کی بالکونی میں کھڑا ہوا پاتا تو وہ اسے دیکھا کرتی تھی اور وہ سر جھکا کر گزر جاتا تھا۔ اس کا جی بارہا چاہا کہ وہ کچھ وقت کے لیے نہ سہی، پل دو پل کے لیے ہی رک جائے اور نظر بھر کے اُسے دیکھ لے، مگر پھر فوراً ہی اُسے ایسا محسوس ہوتا جیسے اس کے چاروں طرف کے ماحول کی بہت ساری آنکھیں نکل آئی ہیں اور اسے شک کی نگاہوں سے تک رہی ہیں۔ وہ ایک دم محتاط ہو جاتا، سوچتا ، میں ایک بد چلن باپ کا بیٹا ہوں، لوگ میری ذرا سی لغزش برداشت نہیں کر پائیں گے۔ وہ مجھے بدنامی کے ایسے گڑھے میں پھینک دیں گے، جہاں سے نکلنے کا کوئی راستہ نہ ہوگا — ! ابھی ابھی تو لوگوں کی انگلیاں جھکی ہیں۔ ابھی ابھی تو ان کی نگاہوں میں جو میرے لیے نفرت کے شعلے دہک رہے تھے، بجھے ہیں۔ ابھی ابھی تو وہ مجھے ایک اچھا انسان سمجھنے لگے ہیں۔
میں ایک اچھے انسان کی طرح سماجی اور مذہبی اصول کے تحت اس کے لیے اپنا پیام بھیجوں گا۔ اس کے والد بہت شریف النفس ہیں۔ یقین ہے وہ میرا پیام منظور کر لیں گے۔
ایک دن اُس نے اپنی والدہ کو بڑی منت سماجت کر کے اس بات کے لیے راضی کر لیا کہ وہ اس لڑکی کے لیے اس کا پیام لے جائیں۔
ماں بیٹے کی خواہش کے تحت پیام لے گئیں اور اس لڑکی کے گھر سے مرجھایا ہوا چہرہ لیے واپس آئیں اور برآمدے میں رکھی کرسی پر سر جھکا کر بیٹھ گئیں۔
’’امی …!‘‘ وہ ماں سے مخاطب ہوا۔
ماں نے سر اُٹھا کر ڈبڈ بائی آنکھوں سے دیکھا، اُسے اپنے لخت جگر کا چہرہ دھندلا دکھائی دے رہا تھا۔
’’کیا ہوا امی جان ؟!‘‘ اس نے پوچھا۔
ماں بھرائی آواز میں بولیں ’’ بیٹا، کیوں ذلیل کیا تو نے مجھے بھیج کر ؟ معلوم ہے کیا کہہ رہے تھے وہ لوگ ؟ ان کے رشتے دار، پڑوسی ، سب کے سب۔‘‘ ماں کی آواز جیسے حلق میں اٹک گئی تھی۔
وہ سمجھ گیا تھا کہ وہ لوگ کیا کہہ رہے ہوں گے۔ نہ چاہتے ہوئے بھی وہ چاہ رہا تھا کہ پوچھ کر اپنی ماں کے دل کا بوجھ کچھ ہلکا کردے۔ اس نے شکستہ جہاز کے تختوں کی طرح ڈوبتے ابھرتے دل کے ساتھ پوچھا : ’’وہ لوگ کیا کہہ رہے تھے امی جان !‘‘ اُس کی آواز میں لرزش تھی۔
’’بیٹا،وہ کہہ رہے تھے کہ ہم اس لڑکے سے اپنی بیٹی کا بیاہ کر کے اپنے خاندان کو داغ دار نہیں کرنا چاہتے جس کا باپ شرابی ، جواری اور عیاش تھا۔‘‘ ماں نے کپکپاتی آواز میں کہا۔
ماں کے لبوں سے نکلا ہر لفظ اُس کے ذہن پر پتھر بن کر برسا اور اُس کے سینے میں جیسے جوالا مکھی پھٹ پڑا جس کی حدت اس کے لیے ناقابلِ برداشت تھی تاہم ماںکی آنکھوں میں آنسو دیکھ کر وہ اپنے اندرکی اذیت اور تپش کو ضبط کرتے ہوئے بولا:’’امی جان — ! لوگ کہتے ہیں تو کہنے دیجیے، یہ ان کا حق ہے آپ برا نہ مانئے، میںآپ سے معافی مانگتا ہوں کہ میں نے….
’’ نہیں بیٹا ، نہیں !‘‘ ماں نے اُس کے لبوں پر ہاتھ رکھ دیا اور پھر اس سے لپٹ کر رونے لگی۔
وہ سوچنے لگا۔ یہ دنیا کے لوگ نہ جانے کب تک ایک بیٹے کو اس کے بد چلن باپ کے کرتوتوں کی سزادیتے رہیں گے۔
اُس کے کانوں میں اپنے مرحوم باپ کی آواز گونجی:’’بیٹا! میں یہ سب کچھ تیرے لیے ہی تو کر رہا ہوں ،صرف تیرے لیے۔‘‘ باپ کی بات اس کے لیے اذیت ناک صدائے بازگشت بن گئی تھی …