اسلام صرف ایک عقیدہ ہی نہیں، بلکہ یہ ایسا عملی مذہب ہے جو زندگی کے ہر معاملے میں انسان کی رہنمائی کرتا ہے۔ اسی مذہب نے ہمیں یہ بھی بتایا ہے کہ ہم مال و دولت کا استعمال کس طرح کریں۔ اسلام نہ تو یہ پسند کرتا ہے کہ اس کی پیروی کرنے والے مال و دولت کے حریص و بخیل بن کر دولت پر قبضہ جماکر بیٹھ جائیں کہ نہ خود اپنی ضررتیں پوری کریں اور نہ کسی ضرورت مند کی حاجت روائی کریں۔ اسی طرح وہ اس بات کو بھی گوارا نہیں کرتا کہ اس کے ماننے والے بے دریغ دولت لٹانے لگ جائیں۔ چنانچہ اس نے جہاں ایک جانب انسان کو بخل اور کنجوسی سے منع کیا ہے وہیں دوسری جانب اس نے فضول خرچی کو بھی ناپسندیدہ قرار دیا ہے۔
بخل کے ضمن میں قرآن میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے:
ولا یحسبن الذین یبخلون بما آتٰہم اللّٰہ من فضلہ ہو خیرلہم بل ہو شر لہم سیطوقون ما بخلوا بہ یوم القیامۃ وللّٰہ ما فی السماوات والارض واللہ بما تعملون خبیر۔ (آل عمران:۱۸۰)
’’جن لوگوں کو اللہ نے اپنے فضل سے نوازا ہے اور پھر وہ بخل سے کام لیتے ہیں وہ اس خیال میں نہ رہیں کہ یہ بخیلی ان کے لیے اچھی ہے۔ نہیں، یہ ان کے حق میں نہایت بری ہے۔ جو کچھ وہ کنجوسی سے جمع کررہے ہیں وہی قیامت کے روز ان کے گلے کا طوق بن جائے گا۔ زمین اور آسمان کی میراث اللہ ہی کے لیے ہے اور جو کچھ تم کرتے ہو اللہ اس سے باخبر ہے۔‘‘
اور ایک دوسری جگہ ارشاد فرمایا:
ومن یوق شح نفسہ فاولئک ہم المفلحون۔ (الحشر: ۹)
’’اور جو اپنے نفس کی حرص اور بخل سے بچالیا جائے تو ایسے ہی لوگ کامیاب ہیں۔‘‘
یعنی اخروی کامیابی کے لیے لازم ہے کہ انسان بخل اور حرص کی ذہنیت سے پاک ہو۔ احادیث میں بھی بخل سے منع کیا گیا ہے اور اس کے مرتکب کو سخت وعید سنائی گئی ہے:
عن عبداللہ بن عمروقال: قال رسول اللّٰہ ﷺ اتقوا الشح فان الشح اہلک من کان قبلکم۔ (مسلم)
’’حضرت عبداللہ بن عمروؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا: بخل و حرص سے بچو، کیونکہ اس بخل و حرص نے تم سے پہلے کے لوگوں کو ہلاک کیا۔‘‘
فضول خرچی کے بارے میں اللہ تعالیٰ صاف فرماتا ہے کہ:
ولا تبذر تبذیرا۔ ان المبذرین کانوا اخوان الشیطین وکان الشیطان لربہ کفوراً۔ (بنی اسرائیل: ۲۶-۲۷)
’’اور فضول خرچی نہ کرو، فضول خرچ لوگ شیطان کے بھائی ہیں، اور شیطان اپنے رب کا ناشکرا ہے۔‘‘
فضول خرچی کرنے والوں کو شیطان کا بھائی کہہ دینا ہی یہ سمجھنے کے لیے کافی ہے کہ فضول خرچی اللہ تعالیٰ کی نگاہ میں کتنا بڑا جرم اور گناہ ہے۔ فضول خرچی دراصل اللہ کی عطا کردہ نعمتوں کی ناشکری ہے۔ فطری بات ہے کہ اگر اللہ تعالیٰ نے ہمیں چند یا بہت سی نعمتوں سے نوازا ہے کہ تو اس کے شکر کا تقاضا ہے کہ ہم ان نعمتوں کا استعمال عطا کرنے والے کی مرضی کے مطابق کریں اور اگر ہم ایسا نہیں کرتے تو لازماً ہمارا شمار ناشکری کرنے والوں میں ہوگا۔
اس حقیقت کو یوں بھی سمجھا جاسکتا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے اپنے نیک بندوں کی خصوصیت یہ بتائی ہے کہ وہ ان دونوں برائیوں سے پاک رہتے ہیں۔
والذین اذا انفقوا لم یسرفوا ولم یقتروا وکان بین ذلک قواما۔
(الفرقان: ۶۷)
’’جو اس طرح خرچ کرتے ہیں کہ نہ تو فضول خرچی کرتے ہیں اور نہ بخل، بلکہ ان کا خرچ دونوں انتہاؤں کے درمیان اعتدال پر قائم رہتا ہے۔‘‘
اس آیت میں بڑی اہم تعلیم دی گئی ہے۔بخل اور تنگ دلی آدمی کو دولت کا حریص بنادیتی ہے اور پھر مال کی کثرت اسے کبر و غرور میں بھی مبتلا کردیتی ہے۔ اسی طرح حد سے زیادہ تنگی بھی آدمی کو عاجز و مسکین بنادیتی ہے اور اسے دوسروں کے سامنے ہاتھ پھیلانے پر مجبور کردیتی ہے۔ اور انسان کی یہ دونوں حالتیں اللہ تعالیٰ کو پسند نہیں ہیں، اسی لیے یہ حکم دیا گیا کہ نہ دولت کے ایسے حریص بن جاؤ کہ اسے سینت سینت کر رکھنے لگو۔ اور نہ خرچ میں اس حد تک بڑھ جاؤ کہ بعد میں خود دوسروں سے مانگنے کی نوبت آجائے۔
بخل اور فضول خرچی کے بارے میں اسلام کے ان واضح احکام کے باوجود ہمارا حال یہ ہے کہ ہم اعتدال پر قائم رہنے کے بجائے ان دونوں بیماریوں میں بری طرح مبتلا ہیں۔ بلکہ سچ تو یہ ہے کہ اس دور میں صورت حال یہ ہوگئی ہے کہ ہم میں سے بیشتر لوگ بیک وقت بخل اور فضول خرچی کے جرم میں ملوث ہیں۔
بخل اور فضول خرچی کا انوکھا سنگم
بظاہر یہ بات بڑی عجیب معلوم ہوتی ہے کہ بھلا بخل اور فضول خرچی ایک ساتھ کیسے ممکن ہیں؟ لیکن یہ ایک تلخ حقیقت ہے، بطور مثال پہلے ایک دلچسپ لطیفہ ملاحظہ فرمائیے۔
ایک مولوی صاحب کے پاس چند بچے قرآن مجید پڑھنے کے لیے آیا کرتے تھے۔ دوپہر کے وقت سب بچے کھانا کھانے کے لیے گھر چلے جاتے تھے۔ ایک روز سب بچے تو چلے گئے لیکن ایک بچی بیٹھی رہ گئی۔ مولوی صاحب نے پوچھا: ’’کیوں بیٹی! تم آج کھانا کھانے کیوں نہیں گئیں؟‘‘ بچی نے جواب دیا: ’’مولوی صاحب، آج ہم لوگ دوپہر کا کھانا نہیں کھائیں گے۔ شام کو انہی پیسوں سے سینما دیکھنے جائیں گے۔‘‘
اگرچہ یہ محض ایک لطیفہ ہے لیکن اس سے موجودہ معاشرے کی نفسیات کی بالکل صحیح عکاسی ہوتی ہے۔ آج ہمارے معاشرے میں فضول خرچی اور اسراف کا جو بازار گرم ہے اس نے غریبوں اور تنگدستوں کو ایک ساتھ بخل اور فضول خرچی پر مجبور کردیا ہے۔ امیر لوگ تو پیسے کے زعم میں اور دوسروں پر اپنی امارت کی دھاک بٹھانے کے لیے اپنے ٹھاٹ باٹ اور شان و شوکت کا مظاہرہ کرتے ہی ہیں، خود غریب اور نادار طبقہ بھی ان کی شرکت اور ان کے ’’اسوئہ حسنہ‘‘ کی پیروی میں زیادہ سے زیادہ نمائش اور ظاہری ٹھاٹ باٹ کے شوق میں مبتلا ہورہا ہے۔ جس کانتیجہ عموماً یہ ہوتا ہے کہ بہت سے ضروری اور لازمی کام پس پشت ڈال دیے جاتے ہیں، بہت سے جائز اخراجات سے صرف نظر کرلیا جاتا ہے۔ اور انتہا یہ کہ خود روکھی سوکھی کھائی جاتی ہے، لیکن فضول اور لایعنی چیزوں کے حصول کے لیے رقم پس انداز کی جاتی ہے۔ بچوں کے اسکول کی فیس تو خود کو نادار ظاہر کرکے معاف کرالی جاتی ہے، لیکن ڈش کنکشن پر ہر ماہ سو ڈیڑھ سو کی رقم ضائع کرنے کو گویا فرض عین سمجھا جاتا ہے۔ دس روپئے کی دینی تعلیم کی کتاب خریدنے کو تو گویا غیر ضروری سمجھ کر نظر انداز کردیا جاتا ہے لیکن فحش، فضول اور گمراہ کن فلموں اور گانوں کی آڈیو اور ویڈیو کیسٹس اور سی ڈیز خریدنے کو ضروری اور لازمی خیال کیا جاتا ہے۔ بقرعید کی قربانی سے تو حیثیت نہ ہونے کا بہانہ کرکے دامن بچالیا جاتا ہے لیکن نذرونیاز اور دیگر خود ساختہ رسوم کی پابندی کو فرض سمجھ کر ادا کیا جاتا ہے اور ان پر خوب جی کھول کر خرچ کیا جاتا ہے۔
اسراف اور فضول خرچی کی اس بیماری کے مظاہر اگر سماج میں دیکھنے ہوں تو شادی بیاہ کی رسموں اور ان میں ہونے والے اخراجات کو دیکھ لیا جائے۔ سچ پوچھئے تو شادی کی ان محفلوں میں شامل ہونے سے ایسا محسوس ہی نہیں ہوتا کہ مسلم معاشرے میں کہیں غربت و افلاس بھی موجود ہے۔ غریب سے غریب انسان بھی شادی بیاہ کے موقع پر معاشرہ میں اپنی ناک اونچی رکھنے کے نام پر دل کھول کر خرچ کررہا ہے اور اپنے ’’ارمان‘‘ پورے کررہا ہے۔ خواہ اس نام نہاد عزت کے لیے اسے کتنے ہی لوگوں کے آگے سرجھکانا پڑے، اپنے ہی جیسے دوسرے لوگوں کا احسان لے کر ان کا قرض دار بننا پڑے اور پھر چاہے بعد میں سود سمیت چکانا بھی پڑے، لیکن وہ کسی سے بھی پیچھے رہنے کے لیے تیار نہیں ہے۔
ایک طرف تو شادی بیاہ میں کی جانے والی فضول خرچی کا یہ عالم ہے، دوسری جانب یہاں بخل اور تنگدلی کی ذہنیت بھی کارفرما نظر آتی ہے۔ اس کا سب سے بڑا ثبوت حق مہر کے تئیں لاپروائی اور اس کی ادائیگی سے پہلو تہی کا وہ چلن ہے، جس سے مہر جیسے اہم رکن کو – جسے اسلام نے مردوں پر واجب قرار دیا ہے – محض ایک کاغذی کارروائی تک محدود کردیا ہے۔ امیر سے امیر آدمی بھی جو شادی بیاہ کی لایعنی اور فضول رسموں اور بدعات و خرافات میں محض اپنا نام روشن کرنے اور اپنے نفس کی تسکین کے لیے روپیہ لٹانے سے دریغ نہیں کرتا۔ مہر کا نام سنتے ہی اچانک مفلس و نادار بن جاتا ہے اور ستم ظریفی تو یہ ہے کہ اسے نام نہاد مفلسی و ناداری کے اظہار پر کسی قسم کی شرم یا جھجھک بھی محسوس نہیں ہوتی۔ ایسا لگتا ہے کہ مسلم معاشرے میں مہر کی حیثیت محض ایک کاغذی کارروائی سے زیادہ باقی نہیں ہے۔ اور اس کے لیے بس اتنا ہی کافی ہے کہ نکاح کے وقت مہر کی ایک رقم محض نام کے لیے نکاح نامہ میں درج کرلی جائے اور مرتے وقت بیوی سے معاف کرالی جائے۔
معاشرے کی اس صورت حال سے ایک بڑی تلخ حقیقت سامنے آتی ہے کہ ہمارے لیے دنیا کے سارے رسم و رواج تو قابل تقلید ہیں لیکن ایک دین اسلام کے عائدہ کردہ فرائض و واجبات ہماری نظر میں اتنے غیر اہم اور فضول ہیںکہ ان کی پابندی سے ہم بالکل آزاد ہیں۔ معاذ اللہ!
ضرورت اس بات کی ہے کہ ہم اپنے طرز فکروعمل میں تبدیلی لائیں اور معاشرے میں رائج شدہ رسموں کی پابندی کے بجائے ہم خدائی احکام کے پابند بنیں۔ کیونکہ اسی میں ہماری حقیقی فلاح و کامیابی مضمر ہے۔
اس ضمن میں سب سے زیادہ قابل غور بات یہ ہے کہ آخر ہم خدائی احکام کے تئیں اتنے بے حس اور بے پروا کیوں ہیں؟ اور اس کے برخلاف سماج میں رائج شدہ رسموں کے اتنے پابند کیوں ہیں؟ کیا واقعی ہمیں اللہ تعالیٰ کے احکام سے زیادہ اپنے معاشرے کے رسم و رواج عزیز ہیں؟ یا پھر ہم اللہ تعالیٰ سے زیادہ معاشرے کے لوگوں سے ڈرتے ہیں؟
یہ چند غور طلب سوالات ہیں جن پر غور کرنے سے ہم خود اپنے دل کی حالت جان سکتے ہیں، اور پھر اپنے عمل میں مثبت تبدیلی لاسکتے ہیں۔