بدگمانی عربی کے لفظ ’’الظن‘‘ کا ترجمہ ہے۔ عربی کا ’’ظن‘‘ اچھے اور برے دونوں معنی میں آتا ہے۔ جس طرح اردو میں گمان دونوں معنی میں آتا ہے۔ قرآن مجید میں جہاں بدگمانی سے روکا گیا ہے، وہاں ’سوء الظن‘ کے بجائے صرف ’ظن‘ ہی کا استعمال ہوا ہے۔ قرآن مجید کا فرمان ہے:
یایہا الذین آمنوا اجتنبوا کثیراً من الظن، ان بعض الظن إثم ۔۔۔
(الحجرات: ۴۹:۱۲)
’’اے ایمان والو،کثرت گمان سے بچو، کیونکہ بعض گمان گناہ ہوتے ہیں۔۔۔‘‘
اوپر مذکورہ آیت سے یہ واضح ہے کہ قرآن مجید نے صرف بدگمانی ہی سے نہیں روکا، بلکہ اس نے کثرت گمان سے بھی روکا ہے۔ یعنی قرآن مجید نے ہمیں اس بات سے روکا ہے کہ ہم خواہ مخواہ دوسروں کے بارے میں گمان تراشتے رہیں۔ لوگوں کے بارے میں ہماری رائے سنی سنائی باتوں پر مبنی ہونی چاہیے اور نہ ہمارے بے بنیاد خیالات پر، جو بلا دلیل ہمارے دل میں پیدا ہوگئے ہوں۔ ہمارے وہ خیالات جن کی بنیاد محض ہمارا گمان ہو، درست بھی ہوسکتے ہیں اور غلط بھی۔
گمانوں کی کثرت سے اسی لیے روکا گیا ہے کہ یہ ایک ایسا عمل ہے کہ جس میں خطا کا امکان ہے۔ اگر ہمارا گمان صحیح بھی ہے تب بھی اس میں خرابی ضرور موجود ہے کہ وہ ہمارا گمان ہے، کسی ٹھوس دلیل پر اس کی بنیاد نہیں ہے۔ بندئہ مومن کو اپنی رائے ٹھوس چیزوں کی بنیاد پر ہی بنانی چاہیے۔
ولاتقف ما لیس لک بہ علم، ان السمع و البصر والفواد کل اولئک کان عنہ مسئولا۔ (بنی اسرائیل: ۳۶)
’’اور جس چیز کا تمہیں علم نہیں، اس کے پیچھے نہ پڑو کیونکہ کان، آنکھ اور دل، ان میں سے ہر چیز کے بارے میں سوال ہونا ہے۔‘‘
گمانوں پر مواخذہ
قرآن مجید نے گمانوں کو قابلِ مواخذہ قرار دیا ہے۔ یہ کئی پہلوؤں سے قابل مواخذہ ہیں۔یہ وہ چیزیں ہیں جو گمان کو گناہ بنادیتی ہیں۔ نیک صالح، صحت مند اور اچھا معاشرہ بنانے اور گھروں، خاندانوں، رشتوں اور تعلقات کے بنانے اور بگاڑنے میں بدگمانی کا بڑا اہم رول ہوتا ہے۔ روز مرہ کی زندگی میں اگر اس کا خیال نہ رکھا جائے تو بڑے مسائل پیدا ہوجاتے ہیں۔
بے بنیاد خیال
مذکورہ بالا آیت میں یہ بھی بتادیا گیا ہے کہ ایسی رائے بنانے پر ہماری پرسش ہوگی، جن کے پیچھے کوئی حقیقی بنیاد نہ ہو، بلکہ وہ محض ہمارے خیال اور گمان پر مبنی ہو۔ قرآن مجید نے فرمایا ہے کہ ہماری پرسش آنکھ، کان، اور دلوں سے بھی ہوگی۔ (۱۷:۳۶)۔ جس آنکھ نے غلط دیکھا، جس کان نے غلط سنا اور جس دل نے غلط سوچا وہ مجرم ہے اور وہ پکڑا جائے گا۔ اس لیے کہ بغیر کسی دلیل کے کسی کے بارے میں برا سوچنا ایک غلطی ہے اور اس پر باز پرس ہوگی۔
چونکہ ہمارے گمان بے بنیاد ہوتے ہیں، اس لیے ہم یہ نہیں جان سکتے کہ کون سا گمان گناہ والا ہے اور کون سا نہیں۔ یعنی جب ہمیں حقیقت کا علم ہوگا تبھی پتا چلے گا کہ ہم غلط سوچ رہے تھے یا ٹھیک۔ اس لیے حقیقت کے سامنے آنے تک ہم یہ نہیں جان سکتے کہ ہم غلط سوچ رہے ہیں۔ اسی لیے قرآن مجید نے ہمیں یہ نہیں کہا کہ بدگمانی کو ترک کرو، بلکہ اس نے کہا بہت گمان نہ کیا کرو۔ اس لیے کہ ان میں سے اکثر غلط ہی ہوں گے۔
نا انصافی
گمانوں کی وجہ سے ہم ایسے عمل کرڈالتے ہیں جو برے ہوتے ہیں۔ ان اعمال میں سب سے بڑا عمل نا انصافی ہے۔ گمان اور خیالات ہمارے دلوں میں پیدا ہوتے رہتے ہیں۔ شیطانی وسوسے اور ادھر ادھر کے خیالات دل میں آتے رہتے ہیں۔ اگر ہم انھی خیالات پر جم گئے اور گمانوں پر ہی اپنے کسی بھائی کے بارے میں بری رائے بنالی تو وہ گناہ کا باعث ہوگا۔ لیکن اگر وہ گمان ہمارے دل میں آیا، اور ہم اس میں مبتلا ہونے کے بجائے اس سے نکل گئے اور اس کو رد کردیا تو ہم گناہ سے بچ سکتے ہیں۔ کسی کے بارے میں بغیر کسی ٹھوس بنیاد کے بری یا غلط رائے بنا لینا اس کے ساتھ نا انصافی ہے۔ مثلاً آپ نیک نیتی سے کوئی عمل کریں، تو اس پر کوئی آدمی دل ہی دل میں یہ رائے بنالے کہ آپ ریا کار ہیں تو کیا یہ آپ کے ساتھ انصاف ہے؟ ظاہر ہے کہ یہنا انصافی ہے۔
اعمال اور تعلقات پر اثر
گمانوں سے ہونے والا دوسرا بڑا عمل ہمارے تعلقات میں خرابی ہے۔ ہمارے تعلقات میں اہم چیز ہماری رائے ہوتی ہے۔ یعنی اگر کسی کے بارے میں ہماری رائے اچھی ہوگی توہم اس سے اچھے طریقے سے ملیں گے اور اگر ہمارے رائے اس کے بارے میں اچھی نہیں ہوگی تو ہم اچھے طریقے سے نہیں مل سکیں گے۔ اس طرح سے ہمارے گمان ہمارے رویوں کو خراب کرتے ہیں۔ گمان ہی کی بنا پر رویہ تبدیل کرلیتے ہیں جس کا انجام تعلقات کی خرابی ہوتا ہے۔ دوسرے سے معاملات کرنے لگ جاتے ہیں۔ جس سے وہ گناہ کی صورت اختیار کرسکتے ہیں۔
دل میں میل آنا
نبی اکرم ﷺ نے اپنے پاس آکر دوسروں کی برائی کرنے والوں کو یہ کہہ کر برائی کرنے سے منع کردیا کہ:’’دوسروں کی برائی سے جس طرح دل میں میل آتا ہے، اسی طرح اپنے خیالات سے بھی دل میں میل آتا ہے۔‘‘ اس میل کے آ نے سے ہمارے رویوں میں تبدیلی آتی ہے۔ کسی خیال سے دل میں غصہ پیدا ہوگا، کسی سے نفرت، کسی سے بے جا اور غیر متوازن محبت۔ یہ سب چیزیں خرابی پیدا کرتی ہیں۔
محبت کا خاتمہ
ایک دوسرے کے بارے میں گمانوں کی کثرت سے دل دوسروں کے بارے میں صاف نہیں رہتے، جس سے باہم فاصلے بڑھ جاتے ہیں۔ ایک ہی چھت کے نیچے رہنے والے باہمی محبت سے محروم ہوجاتے ہیں۔ باہمی تعلق اتنا کمزور پڑ جاتا ہے کہ ایک دوسرے کے دکھ درد میں شریک ہونا تو درکنار ان کے ساتھ وہ تعلق بھی نہیں رہتا جو ایک اجنبی انسان کا دوسرے اجنبی انسان کے ساتھ ہوتا ہے۔
بھائی چارہ
یہ انسان کا انسان سے وہ رشتہ ہے جو اولاد آدم ہونے کی بنا پروجود میں آتا ہے اگرہم بدگمانی کا شکار ہیں تو ہمارا یہ رشتہ رفتہ رفتہ ختم ہوجائے گا۔ ہم ایک ہی محلے اور معاشرے کا حصہ ہوتے ہیں، مگر تعلقات میں محبت نہ ہونے اور دلوں میں فاصلوں کی وجہ سے کسی کے نہایت مشکل و نازک موقعے پر بھی اس کے پاس سے بے پروائی سے گزر جاتے ہیں۔ اس لیے کہ ہم گمانوں کی وجہ سے اس مجبور اور بے کس کے خلاف اپنی رائے خراب کرچکے ہوتے ہیں۔
مرحمت (ہمدردی)
باہمی محبت کی یہ کمی ہمارے اندر سے ہم دردی کا عنصر بھی ختم کردیتی ہے۔ ہمارے جیسا انسان ہی بھوکا ہوتا، مرض سے کراہ رہا ہوتا ہے، مگر ہمارے دل میں کوئی خیال تک نہیں رینگتا کہ ہم اس کے کام آئیں۔ یہ محض اسی موقع پر ہوگاجب ہماری اس کے بارے میں رائے خراب ہوگی۔ دوسروں سے ہم دردی نہ صرف ہمارا اخلاقی وجود تقاضا کرتا ہے، بلکہ ہمارا دینی وجود بھی اس کا تقاضا کرتا ہے۔
نیتوں کے بارے میں ہم جان ہی نہیں سکتے۔ کسی کی نیت پر رائے قائم کرلینا بھی غلط ہے۔
اس کی بہت عمدہ مثال وہ واقعہ ہے جو حضرت اسامہ رضی اللہ عنہ کو پیش آیا جب انھوں نے ایک جنگ میں کسی آدمی کو کلمہ پڑھنے کے باوجود مار ڈالا تو وہ نبی اکرم ﷺ کے پاس آئے۔ چنانچہ جب ان سے بات ہوئی تو آپ نے فرمایا: أقال لا الہ الا اللہ وقتلتہ، کیا اس نے لا الہ پڑھا اور پھر بھی تم نے اسے قتل کرڈالا؟‘‘
حضرت اسامہ نے عرض کی: ’’یا رسول اللہ انما قالہا خوف من السلاح اس نے ایسا صرف اسلحہ کے ڈر سے کہا تھا۔‘‘
آپ نے فرمایا: أفلا شققت عن قلبہ حتی تعلم اقالہا ام لا، ’’تم نے اس کا سینہ چیر لیا ہوتا کہ تم جان لیتے کہ اس نے کلمئہ اسلام دل سے نہیں کہا یا نہیں!‘‘
حسن ظن کا حکم
ہم مسلمانوںپر یہ لازم ہے کہ اپنے بہن بھائیوں، ہم سایوں، دوستوں اور ارد گرد رہنے والوں کے بارے میں حسن ظن رکھیں۔ سورئہ نور کی آیت افک سے ہمارے سامنے یہ بات آتی ہے کہ ہماری عمومی رائے دوسروں کے بارے میں اچھی ہونی چاہیے، جب تک کہ وہ ٹھوس دلائل سے بدل نہ جائے۔ اچھی رائے سے ہماری مراد یہ ہے کہ جب بھی کوئی برائی کسی آدمی سے متعلق آپ کے علم میں آئے تو فوراً:
(۱) اس کو اچھے پہلو سے دیکھیں۔
(۲) اس کے اچھے اسباب اور وجوہ پر نظر رکھیں۔
(۳) جس پر الزام لگایا جارہا ہے، اس پر الزام لگانے سے گریز کریں اور کہیں کہ ہم نے ایسا کرتے اسے نہیں دیکھا، بخدا ہماری نظر میں پاک صاف ہے۔
حسن ظن کے یہ معنی نہیں ہیں کہ ہم اس کے بارے میں کوئی بہت اچھی رائے قائم کریں۔ بلکہ یہ ہیں کہ اس کے عمل کو بری نظر اور بری توجیہ کرکے نہ دیکھیں، اور نہ محض سن کر یا اپنے گمانوں کی وجہ سے اس پر برائی کا الزام لگائیں۔ کسی کی برائی سن کر فوراً برأت کا اظہار کرنا چاہیے۔ چنانچہ جب سیدہ عائشہؓ پر الزام لگا تو قرآن مجید نے مسلمانوں کو یہ نصیحت کی کہ ان پر لازم تھا کہ وہ سیدہ عائشہؓ کی برأت اور پاک دامنی کا اعلان کرتے اس لیے کہ ان میں سے کسی نے بھی انہیں کچھ کرتے ہوئے نہیں دیکھا تھا۔ قرآن مجید میں یہ بات یوں آئی ہے:
’’جو لوگ یہ اتہام گھڑ کر لائے، وہ تم ہی میں سے ہیں۔ تم اس چیز کو اپنے لیے برا خیال نہ کرو، یہ تمہارے لیے اچھی ہے۔ ان میں سے ہر ایک نے جو گناہ کمایا وہ اس کے حساب میں پڑا، اور جو اس فتنہ کا بڑا حصہ دار ہے، اس کے لیے عذاب عظیم ہے۔ اے مسلمانو! ایسا کیوں نہ ہوا کہ جب تم نے یہ بات سنی تو مومن عورتیں اور مرد ایک دوسرے کی بابت اچھا گمان کرتے، اور کہتے کہ یہ توایک سیدھا سیدھا بہتان ہے۔‘‘
(النور:۱۱، ۱۲)
اس آیت میں مسلمانوں سے یہ تقاضا کیا گیا ہے کہ ایسی سنگین صورت میںبھی ہمارا کام یہی ہونا چاہیے کہ جب ایک پورا گروہ یہ کہہ رہا ہو کہ فلاں شخص نے ایسا کیا ہے تو ہم پر لازم ہے کہ جرم ثابت ہونے سے پہلے اپنے بھائی اور بہن کے بارے میں اچھا گمان رکھیں اور اسے ایک بہتان سمجھیں۔
ہمارا باہمی رشتہ اور بدگمانی
اسلام یہ چاہتا ہے کہ اس کے ماننے والے بھائی بھائی بن کر رہیں۔ اس کے لیے اس نے ہمارے تین رشتے بتائے ہیں:
٭ ہمارا آپس میں پہلا رشتہ یہ ہے کہ ہم سب کو ایک ہی خدا نے بنایا ہے۔ ہم اس اعتبار سے خدا شریک بھائی ہیں۔ اس نظریہ سے ہمارے رشتے میں برابری کا ایک تصور آتا ہے۔ اگر مجھے کسی اور خدا نے بنایا ہو اور آپ کو کسی اور نے تو ہوسکتا ہے میرے اور آپ کے درمیان تفاوت ہو۔
(۱) اس فرق کے نہ ہونے کے معنی یہ ہیں کہ میرا اور آپ کا منبع ایک ہے۔ جہاںسے آپ آئے ہیں میں بھی وہیں سے آیا ہوں۔ اس لیے آپ کو مجھ پر اور مجھے آپ پر کوئی فضیلت حاصل نہیں ہے۔
(۲) میری اور آپ کی فطرت ایک ہی خدا نے بنائی ہے۔ ایسا نہیں ہوسکتا کہ میری سرشت میں تو برائی رکھ دی گئی ہو، اور آپ کی سرشت میں نیکی۔ میرے اندر بھی ضمیر اور نفس کی کشمکش لگی ہے اور آپ کے اندر بھی۔ اس لیے یہ کیسے ہوسکتا ہے کہ میں ہمیشہ برائی پر آمادہ رہوں اورآپ ہمیشہ نیکی پر۔ جس طرح آپ کی نیت صحیح ہوتی ہے، اسی طرح میری بھی صحیح ہوتی ہے۔ جس طرح آپ کبھی نفس کا شکار ہوجاتے ہیں اسی طرح میں بھی ہوجاتا ہوں۔ یہ سب خدا نے اس لیے بنایا ہے کہ وہ ہمیں آزمائے۔
(۳) میری اور آپ کی عزت یکساںہے۔ میں جس جل جلالہ کی تخلیق ہوں آپ بھی اسی کی تخلیق ہیں۔ فلاں اور فلاں کو بھی اسی نے بنایا ہے۔ جو آپ کو مقام ہے، وہی میرا ہے وہی سب کا ہے۔ کسی میں کوئی فرق نہیں ہے۔
(۴) اس فرق کے نہ ہونے کے معنی یہ بھی ہیں کہ میرا اورآپ کاخدا ایک ہے۔ وہی میرا بھی نگہبان اور آپ کا بھی۔ میں بھی اسی کے سامنے جواب دہ ہوں اور آپ بھی۔ اگر آپ مجھ پر ظلم کریں گے تو چونکہ وہ میرا بھی رب ہے اس لیے وہ میرے اوپر ہونے والے ظلم سے تحفظ کے لیے آپ سے پوچھے گا۔ اگر میں نے آپ پر ظلم کیا تو وہ آپ کی داد رسی کے لیے مجھ سے پوچھے گا۔
ایک ماں باپ کی اولاد
دوسرا رشتہ قرآن مجیدنے یہ بتایا ہے کہ دنیا میں بسنے والے سب لوگ آدم و حوا کی اولاد ہیں، اور ان دونوںکو بھی اللہ تعالیٰ نے نفس واحد سے پیدا کیا ہے۔ ہم آپس میںنسبی اورر حمی تعلق رکھتے ہیں۔ ہماری رگوں میں اب بھی آدم و حوا ہی کا خون دوڑتا ہے:
یایہا الناس اتقوا ربکم الذی خلقکم من نفس واحدۃٍ وخلق منہا زوجہا و بثَّ منہما رجالاً کثیراً و نساء۔ (النساء:۱)
’’اے لوگو! اپنے رب سے ڈرو، جس نے تم سب کو پیدا کیا ایک ہی جان سے، اور اسی سے اس کاجوڑا پیدا کیا، اور پھر ان دونوں سے بہت سارے مرد اور عورتیں پھیلادیں۔‘‘
ملت واحدہ
اسلام میں داخل ہونے والوں کاباہم ایک رشتہ اور بڑھ جاتا ہے، وہ یہ کہ ہم سب دینی لحاظ سے بھی بھائی بھائی ہیں۔ انما المومنون اخوۃ، (سب مسلمان بھائی بھائی ہیں) کی تعلیم اسی تعلق کی طرف اشارہ ہے۔
یہ تینوں تعلق ہم سے تقاضا کرتے ہیں کہ ہم باہم خلوص و محبت، عزت و احترام، ہمدردی و مرحمت، شفقت و عنایت، مدد و نصرت اور باہمی اصلاح و خیر خواہی کے تعلق کے ساتھ برکتوں والا گھر بسا کر اور ایک خیر و امن والا معاشرہ بنا کر رہیں۔ قرآن مجید نے ہمیں اس پہلو سے بہت سی تعلیمات دی ہیں۔ اسی تعلق سے امت مسلمہ میں اتحاد و یگانگت پیدا ہوتی ہے، اسی سے یک جہتی اور اپنائیت وجود میں آتی ہے۔ اسی سے فرقے مکاتب فکر میں تبدیل ہوکر محض علمی اختلاف تک محدود ہوجاتے ہیں۔ اسی صورت میں حدیث کے مطابق اختلاف اللہ کی رحمت بنتا ہے۔
اس ہمہ جہت محبت و یگانگت کے اس تعلق کو قرآن فروغ دینا چاہتا ہے، تاکہ مسلمانوں اک معاشرہ ایک تعلق و ارتباط اور محبت و مرحمت کی بنیاد پر تیار ہو۔ وہ چاہتا ہے کہ مسلمان ان چیزوں سے بچے رہیں، جو اس تعلق کو توڑتی اور باہم تفریق پیدا کرتی ہیں۔ مذاق اڑانا، چغلی و غیبت کرنا، تجسس اور بدگمانی کرنے، برے نام رکھنا، الزام تراشنا، ذات پات کی تفریق کرنا جیسے اخلاق رذیلہ سے بچنے کی تعلیم اسی لیے دی گئی ہے کہ یہ سب چیزیں ہمارے اندر تفریق اور جدائی پیدا کرتی ہیں۔ یہ ہمیں ایک دوسرے سے کاٹتی ہیں۔ دلوں میں کدورتیں اور نفرتیں پیدا کرتی ہیں۔ جس معاشرے میں یہ چیزیں عام ہوجائیں وہاں سے بھائی چارہ، اخوت ومحبت اور بالآخر قومی و ملی یک جہتی دم توڑ جاتی ہے۔