ہماری زندگی کے مسائل میں بدہضمی بھی تقریباً روز مرہ کا مسئلہ بن کر رہ گیا ہے۔ کسی بھی گھرانے کو لے لیجیے… آج ایک کے لیے کھچڑی پک رہی ہے تو کل دوسرے کے لیے! اصل میں ہم نے بدہضمی کا صرف ایک ہی علاج مقرر کر رکھا ہے کہ کھچڑی کھالی۔ بچوں کو نمکول وغیرہ دے کر بدہضمی سے نپٹا جاتا ہے۔ ہم نے تو بعض ایسے چٹخورے مریضوں کو بھی دیکھا ہے جنھیں پرہیزی کھچڑی بھی گوشت والی چاہیے یعنی پلاؤ کھچڑی، ان کی تمنا رہتی ہے کہ علاج میں بھی چسکہ منہ سے نہ چھوٹے۔ آئیے دیکھئے کہ بدہضمی اصل میں ہے کیا؟ اس کی وجوہات کیا ہیں؟ اور سدباب کیسے ہوسکتا ہے؟
ہم جو بھی خوراک کھاتے ہیں، وہ جزو بدن بن جاتی ہے یعنی اس خوراک میں موجود غذائیت سے ہمارے جسم کو کام کاج کرنے کی طاقت ملتی ہے۔ ہرغذا میں مخصوص حیاتین یا عناصر موجود ہوتے ہیں، کوئی ایک غذا مکمل غذا نہیں ہوتی۔ اس لیے ہمیں خوراک ادل بدل کر یا دوسرے معنوں میں متوازن خوراک کھانی چاہیے تاکہ ہمارے جسم کو ہر قسم کے حیاتین اور عناصر کی موزوں مقدار مل سکے جو جسم کے تمام اعضاء کو تندرست و توانا رکھتے ہیں لیکن یہ تبھی ممکن ہے جب ہماری کھائی ہوئی خوراک اچھی طرح ہضم ہو۔
اگر ہمارے نظام ہضم میں فتور ہوا یعنی غذا اچھی طرح ہضم نہ ہوئی تو غذا کی غذائیت سے ہمارا جسم بالکل استفادہ نہ کرسکے گا اور وہ اسہال کی صورت میں جزوبدن بنے بغیر خارج ہوجائے گی۔ قبض ہر صورت میں نقصان دہ ہے۔
پہلے ہم بدہضمی کی وجوہ کا جائزہ لیتے ہیں۔ سب سے پہلا نمبر بسیار خوری کا ہے۔ یعنی کسی بھی کھانے کو زندگی کا آخری کھانا سمجھ کر کھانا۔ اور لازمی بات ہے کہ ایسا کھانا کھایا بھی جلدی جلدی جاتا ہے تاکہ بہت کچھ کھایا جاسکے۔ معدے کو خوب ٹھونس کر بھرلیا جاتا ہے حتی کہ گنجائش نہ ہونے کے سبب کھانا چھوڑنا پڑتا ہے۔ وہی مثال کہ’ معدہ بھرجاتا ہے نیت نہیں بھرتی‘ ایسا منظر عموماً تقریبات میں دیکھنے کو ملتا ہے جہاں کھانے بھی مرغن اور کئی قسم کے ہوتے ہیں۔
بعض کھانے تو ہاضمے کے عمل میں ایک دوسرے کی ضد ہوتے ہیں لہٰذا معدہ ایک تو پہلے ہی وزن کے مارے ہلنے جلنے سے قاصر ہوتا ہے اوپر سے مختلف غذائیں مل کر اس کا بالکل ہی کچومر نکال دیتی ہیں۔ نتیجتاً معدہ تھک ہار کر بیٹھ جاتا ہے، غذا ہضم ہوئے بغیر جسم میں اپنا سفر تمام کرکے انجام کو پہنچتی ہے اور انسان زبردست بدہضمی کا شکاربن جاتا ہے۔
دوسرا عام مسئلہ ہے کھانے کو کم چبانا، عموماً دیکھنے میں آیا ہے کہ جو آدمی طب کے زریں اصولوں پر عمل کرے اور کھانا خوب چبا چبا کر،وقت لگا کر کھائے تو اسے دوسرے لوگوں کے مذاق کا نشانہ بننا پڑتا ہے کہ ’’یہ جگالی کررہا ہے‘‘۔ کوئی کہے گا ’’کیا بھئی دوسری بارکھا رہے ہو۔‘‘ غرض یہ کہ جتنے منہ اتنی باتیں بلکہ اتنے مذاق، لہٰذا پھر وہ شخص بھی عموماً یہی کوشش کرے گا کہ جلدی جلدی کھا کر فارغ ہوجائے۔ بھلے لوگ یہ نہیں دیکھتے کہ یہ آدمی صحیح طریقے سے کھا رہا ہے، ہم بھی اس کی تقلید کریں بلکہ اسے بھی ہاضمہ دشمنی پر اکسا کر خوش ہوتے ہیں حالانکہ بہترین اصول یہ ہے کہ کھانا چبا چبا کر آہستہ آہستہ کھایا جائے تاکہ اس میں خوب لعاب دہن شامل ہوجائے جو غذا کو ہضم ہونے میں بہت مدد دیتا ہے۔
تیسری بڑی وجہ ذہنی دباؤ ہے جس میں غم، غصہ، دفتری الجھاؤ یا گھریلو مسائل وغیرہ شامل ہوتے ہیں۔ دماغ جتنا متردد اور بے چین ہوگا، اس کا اتنا ہی واضح اثر ہاضمے پر پڑے گا۔ لہٰذا ضروری ہے کہ کھانے کے دوران خوشگوار ماحول ہو اور تمام تر پریشانیوںکو وقتی طور پر بھلا کر پورا دھیان کھانے کی طرف لگایا جائے۔ تاہم ضروری ہے کہ دستر خوان پر موجود غذا بھی دل خوش کن ہو۔ یہ نہ ہو کہ بندہ وقتی طور پر پریشانیاں بھلا کر دسترخوان پر جائے لیکن وہاں حالات مزید خراب ہوں یعنی کوئی ناپسندیدہ شے یا ناپسندیدہ طریقے سے غذا پیش کی گئی ہو۔
دسترخوان کی صفائی ستھرائی بھی بندے کو وقتی طور پر سکون دیتی ہے۔ کوشش کیجیے کہ دسترخوان پہلی نظر میں بھلا لگے۔ خاتون خانہ نے اللہ کی دی ہوئی جو بھی نعمت پکائی ہے، وہ اسے اس طرح پیش کرے کہ خواہ مخواہ کھانے کو دل کرے اور اشتہا بڑھائے۔ اس سلسلے میں وہ اچار اور چٹنیوں سے بھی مدد لے سکتی ہے جو ہاضمے میں معاون بنتی ہیں۔ سب سے بڑی بات یہ ہے کہ دستر خوان پر جو بھی کھانا موجود ہو اسے خوش دلی سے کھائیں۔ بعض لوگ عموماً بچے کھانا دیکھتے ہی کہتے ہیں، یہ کیا پکایا ہے، ہمیں تو یہ نہیں کھانا، یہ بہت بری بات ہے اور اللہ تعالیٰ کو سخت ناپسند ہے۔ ویسے بھی ہر غذا کے اندر ایسی خاص غذائیت ضرور ملتی ہے جو جسم کو درکار ہوتی ہے۔ اس لیے ہر چیز کھائیں جو چیز آپ برے دل یا دوسروں کے دباؤ سے کھائیں گے، وہ بھی آپ کے ہاضمے میں رکاوٹ پیدا کرے گی لہٰذا خوش دلی سے کھانا کھائیں تاکہ جسم بھی اسے بخوبی قبول کرکے خوشی خوشی اچھے طریقے سے ہضم کرے۔
چوتھی بڑی وجہ مرغن اور تیز مسالے والے بازاری کھانے ہیں۔ ایسی خوراک کھانا تو اپنے جسم یعنی قدرت کی صناعی کو امتحان میں ڈالنے کے مترادف ہے۔ کبھی کبھار تو معدہ اس امتحان سے گزر جاتا ہے لیکن اگر اسے عادت بنالیا جائے، تو یہ کھانے ہمارے جسم کی اندرونی نازک مشینری کو اسی طرح نقصان پہنچاتے ہیں جس طرح کہ کسی جگہ پانی کا ایک قطرہ مسلسل گرتا رہے تو سوراخ بنادیتا ہے۔ ایسی خوراک ہمارے معدے کے لیے زہرِ قاتل ہے۔ یہ اسے ناکارہ بنانے کے ساتھ ساتھ بے شمار بیماریوں کو بھی جنم دیتی ہے۔
پانچویں وجہ ہے نشے بازی جیسے تمباکو نوشی، افیم، چرس، شراب نوشی، ہیروئین وغیرہ۔ یہ تمام چیزیں نہ صرف بذات خود نامراد ہیں بلکہ معدے اور نظام ہضم کی بھی دشمن ہیں۔ ان کی موجودگی بدہضمی ہونے کا واضح سبب ہے۔
اس کے علاوہ کچھ وجوہ قدرتی طور پر ہوتی ہیں یعنی کوئی بیماری یا فطری طور پر کچھ ایسی غذائیں جو راس نہیں آتیں۔ لیکن زیادہ تر اس مرض کا سبب حضرتِ انسان خود ہی ہوتے ہیں۔ ایک اور خطرناک بیماری ہے جسے ’ام الامراض‘ کہا جاتا ہے یعنی قبض، یہ بھی ہاضمہ خراب ہونے سے جنم لیتی ہے۔
قبض کیا ہے؟
جس طرح خوراک انسانی زندگی کے لیے ضروری ہے اسی طرح حوائج ضروریہ سے فارغ ہونا بھی ضروری ہے۔ اس کام میں بھی ترتیب اور پابندی وقت کا لحاظ رکھنا چاہیے۔ پاخانے کی کیفیت پر بھی نظر رکھئے کہ آپ ضرورت پڑنے پر اپنے معالج کو اپنی صحیح حالت بتا پائیں۔
معمول کے مطابق روزانہ بافراغت پاخانہ نہ آنے کو قبض کہتے ہیں۔ بعض اوقات کوئی قابض خوراک کھانے سے ایک دو روز قبض ہوجائے تو اس کا اتنا مسئلہ نہیں لیکن اگر دائمی قبض سے دوچار ہوں تو اس کا برقت تدارک کرنا چاہیے۔ اس سلسلے میں فوراً معالج سے رجوع کریں۔
آئیے ہم آپ کو قبض سے بچاؤ کے کچھ طریقے بتاتے ہیں:
(۱) صبح نہار منہ ایک گلاس پانی پینے کو معمول بنالیں۔
(۲) سلاد اور کچی سبزیاں زیادہ کھائیے۔ گاجر، کھیرا، ککڑی، مولی، بندگوبھی، سلاد کے پتے اور ایسی ہی کچی کھائی جانے والی سبزیوں کو باریک باریک کاٹ کر ملالیں۔ ذائقہ بڑھانے کے لیے اس پر نمک، کالی مرچ، لیموں وغیرہ بھی چھڑک لیں۔ اس میں آپ انگور، سیب کے ٹکڑے، سنگترہ اور کشمش وغیرہ بھی ڈال لیں۔ یقین جانئیے کہ یہ سلاد اتنا خوش ذائقہ ہوگا کہ آپ روزانہ بڑے شوق سے کھائیں گی۔ اور ایک فائدہ یہ کہ قبض سے نجات ملے گی۔
(۳) منقیّٰ یا کشمش بھگو کر کھانے سے بھی قبض رفع ہوجاتا ہے۔طریقہ یہ ہے کہ منقی یا کشمش کے پندرہ بیس دانے رات کو شیشے کے گلاس میں بھگودیں۔ پانی تقریباً آدھا گلاس ہونا چاہیے۔ منقی کے بیج نکال دیں تاکہ منقی یا کشمش کے دانے اچھی طرح بھیگ کر پھول جائیں۔ صبح کو انھیں کھاکر اوپر سے پانی پی لیں جو ذائقے میں میٹھا ہوگا۔ انشاء اللہ قبض سے نجات حاصل ہوگی۔
(۴) اگر آپ کی جلد کھردری ہے، اس پر دانے نکلتے ہیں یا داغ ہیں، تو ہر روز شام کو آدھی پیالی سنگترے کے رس میں پندرہ بیس دانے منقی یا کشمش بھگودیں اور رات کو کھانا کھانے کے تھوڑی دیر بعد کشمش کھا کر رس پی لیں۔ چند دنوں میں قبض سے بھی نجات ملے گی اور جلد بھی نکھر جائے گی۔
اب آئیے بدہضمی کے بھی چند سادہ سے علاج آپ کو بتادیں۔ ویسے سب سے بڑا علاج تو ہمارے رسول ؐ ہمیں بتاچکے ہیں جس پر عمل کرکے ہم ساری زندگی بیماریوں سے دور اور تندرست و توانا رہا جاسکتا ہے۔ اس پر عمل کرنے کے بعد ہمیں کسی اور علاج کی ضرورت نہیں رہتی۔ آپ کا فرمان ہے: ’’کھانا ہمیشہ سادہ کھاؤ اور چند لقموں کی بھوک باقی ہو، تو ہاتھ کھینچ لو۔‘‘
لیجیے جملہ بیماریوں کا کتنا سادہ سا علاج ہے کیونکہ اطباء کے نزدیک بیشتر بیماریاں معدے سے جڑ پکڑتی ہیں۔ اگر معدہ درست ہوگا تو بیماری کی کیا مجال کہ آپ پر حملہ کرے اور معدے کی درستی کا راز اس قول پاکؐ میں مضمر ہے۔ بہر حال معدہ خراب ہو تو آپ ان طریقوں سے اسے درست کرسکتے ہیں۔
٭ سونف اور پودینے کا قہوہ پکا کراس میں حسبِ خواہش نمک یا چینی شامل کرکے مریض کو وقفے وقفے سے پلائیں۔
٭ انار اور اس کا رس بدہضمی اور اسہال کا بہترین علاج ہے۔ مریض کو بار بار انار کا رس بقدر ۵۰ ملی لیٹر پلایا جائے، افاقہ ہوگا۔
٭ بدہضمی اور اسہال میں لیموں کی سکنجبین بھی افاقہ کا باعث بنتی ہے۔
٭ اچھی طرح پکے ہوئے میٹھے سیب کو آگ میں بھون لیا جائے (جس طرح شکر قندی بھونی جاتی ہے) ایسے سیب کا استعمال بھی اسہال اور بدہضمی میں فائدہ مند ہے۔
٭ اسہال میں کیلا بھی مفید ہے۔
٭ اسہال اور بدہضمی میں پپیتا بھی مریض کو کھلایا جاسکتا ہے۔
لیجیے جناب! ان نسخوں پر عمل کیجیے اور چین پائیے لیکن یاد رکھیے کہ پرہیز علاج سے بہتر ہے۔ ایک اور بات جو بہت ضروری ہے کہ ریڑھیوں سے کھانے پینے کی کھلی پڑی ہوئی چیزیں اور کٹے ہوئے پھل ہرگز نہ کھائیں، صاف ستھرا، ڈھکاہوا کھانا کھائیں اور کوشش کریں کہ صاف ستھرا پانی پئیں۔ اللہ آپ سب کو تندرست رکھے۔ آمین!