بدزبانی کی مختلف قسمیں ہیں۔ ایک قسم وہ ہے جس کا انسان قوت قوت شہوانیہ کے تحت مرتکب ہوتا ہے۔ زیادہ تر بد کردار لوگ، بیباک نوجوان اور بے تکلف دوست و احباب ایسی باتیں کرتے ہیں۔ یہ وہ باتیں ہیں جنھیں عام لوگوں کے سامنے کرنے میں شرم آتی ہے اور دوسرا انسان سنتا ہے تو وہ بھی ناپسند کرتا ہے اور خود ایسی باتیں کرنے والا بھی یہ بات پسند نہیں کرتا کہ دوسرا اس کی یہ باتیں سنے۔ یہ باتیں بعض اوقات شرمناک حد تک پہنچ جاتی ہیں۔ عربی زبان میں اس قسم کی گفتگو کو ’’رفث‘‘ کہتے ہیں اور قرآن مجید کی اس آیت میں فَلَا رَفَثَ وَلَا فُسُوْقَ۰ۙ وَلَا جِدَالَ فِي الْحَجِّ۰ۭ (البقرہ:197 ) میں منع کیا گیا ہےاور اس قسم کی گفتگو کرنے والے کو حدیث کے الفاظ میں “بذی” کہا گیا ہے۔
اس کی دوسری قسم وہ ہے جو انسان غصہ سے مغلوب ہوکر یا پھر عادت کے طور پر کرتا ہے۔ عام الفاظ میں اس کا نام سب وشتم یا گالی گلوچ ہے اور یہ صورت عموماً لڑائی جھگڑے کے موقع پر پیش آتی ہے۔ زمانہ حج میں چونکہ عام اجتماع ہوتا ہے اور اس حالت میں لڑائی جھگڑے کا زیادہ امکان ہوتا ہے، اس لیے خداوند تعالیٰ نے ایک لفظ ”فسق“ سے اسکی ممانعت کی۔
فَلَا رَفَثَ وَلَا فُسُوْقَ۰ۙ وَلَا جِدَالَ فِي الْحَجِّ۰ۭ (البقره: 197)
’’حج کے دنوں میں نہ شہوت کی کوئی بات کرنی چاہیے، نہ فسق کی نہ جھگڑے کی۔‘‘
گالی گلوچ کی مختلف صورتیں ہیں۔ بعض اوقات انسان ایک شخص کے ماں باپ کو بُرا بھلا کہتا ہے، اس کے نسب میں عیب نکالتا ہے، کبھی خود اس شخص کے عیوب ظاہر کرتا ہے، یہاں تک کہ اگر وہ کسی جسمانی کمزوری یا نفرت انگیز مرض میں مبتلا ہو تو اس پر بھی طنز کرتا ہے، بعض حالتوں میں اگر اس نے کوئی برا کام کیا ہے یا اس کے ساتھ کوئی کہ برا برتاؤ کیا گیا ہے، تو اس کا اظہار کرتا ہے۔
قرآن مجید نے اجمالی طور پر ان تمام صورتوں کی ممانعت صرف ایک لفظ سے کی ہے:
لَايُحِبُّ اللہُ الْجَــہْرَ بِالسُّوْۗءِ مِنَ الْقَوْلِ اِلَّا مَنْ ظُلِمَ۰ۭ (النساء: 148)
’’اللہ کو بری بات کا پکار کر کہنا پسند نہیں مگر جس پر ظلم ہوا ہو، وہ ظلم کو بر ملا بیان کرسکتا ہے)‘‘
اور قرآن وحدیث میں جابجا بد زبانی سے بچنے کے حکم و مصالح نہایت تفصیل سے بیان کیے گئے ہیں۔
(۱) ایک مصلحت یہ ہے کہ گالی گلوچ میں لوگ عموماً زیادتی کرتے ہیں، یعنی اگر ایک شخص ایک گالی دیتا ہے تو دوسرا دو دیتا ہے، اگر ایک شخص کسی کے باپ کو برا کہتا ہے تو دوسرا اس کے ماں باپ دونوں کو اس میں شامل کر لیتا ہے۔ اس لیے دوسرے کی زیادتی سے محفوظ رہنے کا طریقہ یہ ہے کہ کسی کو گالی نہ دی جائے ، خداوند تعالیٰ نے قرآن مجید کی اس آیت میں یہی نکتہ بیان کیا ہے:
وَلَا تَسُبُّوا الَّذِيْنَ يَدْعُوْنَ مِنْ دُوْنِ اللہِ فَيَسُبُّوا اللہَ (الانعام: 108)
’’اور ( مسلمانو ! ) خدا کے سوا دوسرے جن معبودوں کو یہ پکارتے ہیں ان کو برا نہ کہو کہ یہ لوگ (بھی) نادانی سے بڑھ کر خدا کو برا کہہ بیٹھیں گے۔‘‘
اس نقطہ کو رسول اللہ ﷺنے ایک حدیث میں اس طرح بیان فرمایا کہ سب سے بڑا گناہ یہ ہےکہ آدمی اپنے باپ ماں پر لعنت بھیجے، کہا گیا: یا رسول اللہ ! کوئی اپنے ماں باپ پر کیوںکر لعنت بھیج سکتا ہے؟ فرمایا: ’’اس طرح کہ جب کوئی کسی کے باپ کو برا بھلا کہے گا تو وہ بھی اس کے ماں باپ دونوں کو برا بھلا کہے گا۔‘‘ (بخاری )
(۲) بد زبان آدمی اجتماعی اور معاشرتی زندگی کے فوائد سے محروم ہو جاتا ہے، اور لوگ اس سے ملنا جلنا چھوڑ دیتے ہیں۔ حدیث میں ہے کہ ایک آدمی رسول اللہ ﷺ سے ملنے آیا ، آپﷺ نے اس کو دیکھا تو فرمایا کہ ”اپنے قبیلہ میں یہ نہایت برا آدمی ہے“۔ لیکن جب وہ آپ کے پاس بیٹھا تو آپ اس سے نہایت خندہ پیشانی کے ساتھ ملے، جب وہ چلا گیا تو حضرت عائشہ نے کہا کہ جب آپ نے اس کو دیکھا تو برا کہا، پھر اس سے نہایت لطف و محبت کے ساتھ ملے، فرمایا: ’’عائشہ!تم نے مجھ کو بد زبان کب پایا؟ خدا کے نزدیک قیامت کے دن سب سے براشخص وہ ہوگا جس کی بدزبانی کے خوف سے لوگ اس کو چھوڑ دیں۔‘‘ (بخاری)
(۳) رفق و ملاطفت وشرم و حیا شریفانہ اخلاق ہیں اور اسلام نے خاص طور پر ان کی تعلیم دی ہے لیکن بد زبانی ان کے بالکل مخالف ہے۔ ایک بار کچھ یہود رسول اللہ ﷺکی خدمت میں حاضر ہوئے اور سلام کے بجائے ” السّامُ عَلَيْكُمْ“( تم کو موت آئے ) کہا حضرت عائشہ نے جواب میں کہا:” عَلَيْكُمْ وَلَعْنَكُمُ اللّٰه وَغَضَب اللّٰهِ عَلَيْكُمْ“یعنی تم کو موت آئے، خدا تم پر لعنت بھیجے اور تم پر خدا کا غضب نازل ہو۔ رسول اللہ ﷺ نے سنا تو فرمایا: ”اے عائشہ! نرمی اختیار کرو اور سختی اور بد زبانی سے بچو“ ۔ ( بخاری )
(۴) گالی گلوچ کی ممانعت کا ایک نہایت دقیق نکتہ یہ ہے کہ اس میں عموماً بے شرمی اور بے حیائی کی باتوں کو الفاظ کی صورت میں سے منہ سے نکالا تا جاتا ہے اور سنایا جاتا ہے، اس سے سوسائٹی میں ان مکروہ باتوں کے سننے اور سنانے کی جرات پیدا ہوتی ہے اور بے حیائی کے الفاظ بڑھ کر اعمال کی صورت اختیار کر لیتے ہیں۔ یہی سبب ہے کہ حدیث میں آنحضرت ﷺ نے بدزبانی کو حیا کے بالمقابل ذکر فرمایا ، ارشاد ہے کہ ”بد زبانی جس چیز میں شامل ہوتی ہے اس کو بدنما بنا دیتی ہے، اور حیاجس چیز میں ہوتی ہے، اس کو زینت دے دیتی ہے۔“ (ترمذی)
اس سے معلوم ہوا کہ بدزبانی اور فحش گوئی حیا کے خلاف ہے۔
(۵) گالی گلوچ سے لوگوں کے دلوں کو اذیت پہنچتی ہے، حالانکہ ہر مسلمان کو کسی کو بھی ایذا دینے سے احتراز کرنا چاہیے یہ ہر ایک پر لازم ہے ، اس لیے رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ مسلمان وہ ہے جس کی زبان اور ہاتھ سے مسلمان محفوظ ہیں (مسلم)۔ مردوں کو برا بھلا کہنے کی ممانعت اس لیے کی گئی ہے کہ اس سے زندوں یعنی مردوں کے عزیز واقارب اور دوست و احباب کے دلوں کو اذیت پہنچتی ہے۔ (ترمذی)
(۶) گالی گلوچ لڑائی کا پیش خیمہ ہے اور مسلمانوں کے ساتھ لڑنا بھڑنا کفر ہے، اس لیے جو چیز اس کا ذریعہ بنتی ہے وہ اگر کفر نہیں تو کم از کم فسق ضرور ہے، اس لیے رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: سباب المسلم فسوق وقتاله كفر۔’’ مسلمان کو برا بھلا کہنا گناہ ہے اور اس کے ساتھ لڑنا کفر۔‘‘
ان تمام مراتب کو پیش نظر رکھنے کے بعد یہ واضح ہو جاتا ہے کہ بدزبانی اور فحاشی اسلامی تعلیمات اور اسلامی خصوصیات کے منافی ہے، اس لیے جو شخص صحیح اسلامی زندگی بسر کرنا چاہتا ہے وہ اس بداخلاقی میں مبتلا رہنا پسند نہیں کرے گا اس لیے رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:
ليس المومن بالطعان ولا اللعان ولا الفاحش ولا البذى۔(ترمذی)
’’جو مسلمان ہے وہ طنز و تشنیع نہیں کرتا کسی پر لعنت نہیں بھیجتا، بدزبانی اور مخش کلامی نہیں کرتا۔‘‘
ایک اور حدیث میں بدزبانی کو نفاق کی علامت قرار دیا گیا ہے۔
یہ تمام وجوہ تو انسانوں کی باہمی گالی گلوچ اور لعن طعن سے تعلق رکھتے ہیں لیکن اس قسم کی بد زبانیاں صرف انسانوں تک محدود نہیں ہیں، بلکہ بے جان اور عقل سے خالی چیزوں سے بھی جب نقصان پہنچتا ہے تو لوگ ان کو بھی برا بھلا کہ بیٹھتے ہیں مثلاً جب کوئی شخص حوادث زمانہ کا شکار ہوتا ہے تو وہ زمانہ کو برا بھلا کہنے لگتا ہے، یہ نہیں سوچتا کہ اس میں زمانے کا کیا قصور ہے، یہ جو کچھ ہوا ہے مشیت الٰہی سے ہوا ہے۔ اس بنا پر اسلام نے ان چیزوں کو بھی برا بھلا کہنے کی ممانعت کی ہے، اور اس مفہوم کو رسول اللہ ﷺنے خود اللہ تعالیٰ کی زبان سے اس طرح ادا کیا ہے کہ خدا کہتا ہے کہ انسان زمانہ کو برا بھلا کہتا ہے حالانکہ میں خود زمانہ ہوں اور رات دن میرے ہاتھ میں ہیں (بخاری)۔ یعنی زمانہ کو برا بھلا کہنا خود خدا کو برا بھلا کہنا ہے۔ ایک بار ایسا ہوا کہ ایک شخص کی چادر ادھر ادھر اڑنے لگی، اس نے ہوا پر لعنت بھیجی تو رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ ”اس پر لعنت نہ بھیجو، وہ تو صرف خدا کی فرمانبردار ہے “۔ ( ابوداؤد)
ایک سفر میں ایک عورت نے اپنی اونٹنی پر لعنت بھیجی، رسول اللہ ﷺنے اونٹنی کو الگ کر دیا (ابوداؤد) اور یہ اس عورت کی سزا تھی کہ تا کہ وہ دوبارہ اس قسم کا کلمہ نہ کہے۔
اسلام میں گالی گلوچ کے صرف یہی معنی نہیں کہ کسی کو مغلظات سنائے جائیں، بلکہ ہر وہ بات جس سے کسی کی تو ہین یا دل آزاری ہوگالی ہے۔ کسی کو فاسق یا کافر کہنا اگر چہ عرف عام میں گالی نہیں ہے، لیکن اسلام میں وہ ایک سخت گالی ہے اور رسول اللہ ﷺمیں عوام نے ایک مقدس دن، ایک مقدس مہینہ اور ایک مقدس شہر میں ( یعنی حجتہ الوداع میں) ایک خطبہ میں مسلمانوں کو یہ ہدایت کر دی ہے کہ خدا نے تمہارے خون تمہارے مال اور تمہاری عزت کو اسی طرح حرام کر دیا ہے جس طرح تمہارا یہ دن ، تمہارا یہ مہینہ اور تمہارا یہ شہر محترم ہے۔l