بعض بچوں کو ماں باپ ڈھیل دے دیتے ہیں۔ ان کے غلطی کرنے پر محاسبہ نہیںکرتے، نظر انداز کرجاتے ہیں۔ اگر گھر میں آکر کوئی شخص بچے کی شکایت کرتا ہے کہ اس نے یہ غلط کام کیا ہے تو اس کی نہیں سنتے۔ ایک ایسا ہی لڑکا میرے ساتھ زیرِ تعلیم تھا۔ اچھا خاص لائق اور ہونہار تھا، مگر غلط صحبت نے اس کو غلط راستے پر ڈال دیا تھا۔
وہ ایک اچھے کھاتے پیتے گھرانے کا فرد تھا اور پانچ بہنوں کا صرف ایک ہی بھائی تھا۔ میرا ان کے گھر آنا جانا تھا کیونکہ وہ میرے گھر کے قریب ہی رہتا تھا۔ میرے اندر یہ جذبہ کارفرما تھا کہ میں اس کو سمجھاؤں کہ وہ برے کام کرنے سے باز آجائے۔
اس کے والد اور والدہ اس سے بہت پیار کرتے تھے۔ روزانہ جتنا بھی جیب خرچ مانگتا، وہ اسے دے دیتے، وہ چند لڑکوں کے ہتھے چڑھ گیا جو بہت شرارتی تھے اور اکثر ماسٹر صاحب سے مار کھاتے رہتے تھے۔ ہوم ورک کرکے نہیں لاتے تھے۔ جھوٹ بولتے تھے۔ راہگیروں کو تنگ کرتے تھے۔ لوگوں کا نام میں دم کردیتے تھے۔ ان سب کے بارے میں یہ تو مجھے علم نہیں کہ ان کے گھر والے ان کے ساتھ کیا سلوک کرتے تھے۔ مگر ماسٹر صاحب ان سے بڑے ہی پریشان تھے، یہ لڑکا جس کا میں ذکر کررہا ہوں، اس کا نام اکمل تھا۔ میں اس کو بہت سمجھاتا تھا۔ دوست ہونے کے ناطے میرا فرض بنتا تھا کہ میں اس کو سمجھاؤں۔ ہم لوگ نویں کلاس کے طالب علم تھے۔ میں اس کو بار بار سمجھاتا رہا۔ آخر کار میں نے اس کے گھر جانا چھوڑ دیا۔ کلاس میں، میں اسے سمجھاتا، مگر وہ ایک کان سے سنتا، دوسرے سے نکال دیتا۔ اس کے ماں باپ اس سے باز پرس نہ کرتے تھے۔ اگر کوئی اس کی شکایت کرتا تو اسے الٹا قصور وار ٹھہراتے۔ اپنے بیٹے کو کچھ نہ کہتے۔ اس لڑکے اکمل کی ایک بری عادت یہ بھی تھی کہ وہ سگریٹ پیتا تھا اور پیچھے سے لوگوں کے کپڑے پر سگریٹ سلگا کر جلا دیتا تھا اور بھاگ جاتا تھا۔ یہ لوگ اس کو بدعائیں دیتے۔ بس میں سوار ہوتے ہوئے کسی مسافر کی یا بازار میں جاتے ہوئے کسی بھی شخص کی کمر پر جلتی سگریٹ لگادیتا۔ اس شخص کی قمیص جل جاتی۔ اس کو پتا نہ چلتا۔ اگر سگریٹ کی آگ اس کے جسم تک پہنچتی اور اس کو اس بات کا علم ہوجاتا تو اکمل فوراً وہا ں سے راہِ فرار اختیار کرتا۔ یوں وہ لوگوں کی گالیاں اور بدعائیں لیتا۔ وہ اپنی ان گھٹیا حرکتوں سے بازنہ آیا۔
ایک روز اکمل سڑک کے کنارے کنارے موٹر سائیکل پر جارہا تھا۔ سامنے سے دو بسیں ریس لگاتی ہوئی آرہی تھیں۔ سڑکے کے کنارے لوہے کے اوزار بنانے کی دکانیں تھیں۔ ایک دکان دار نے لوہے کو گرم کرنے اور اس کے مختلف اوزار بنانے کے لیے سڑک کے کنارے آگ بھٹی جلا رکھی تھی۔ آگ سے لپٹیں نکل رہی تھیں، ہوا سے شعلے کبھی سڑک کی جانب آجاتے کبھی دوسری جانب پھیلنے لگتے۔ بدقسمتی سے سامنے آنے والی دونوں بسیں برابر چلنے لگیں۔ اکمل ایک طرف سڑک سے نیچے اترگیا۔ وہ بس کی اوٹ میں جلتی ہوئی آگ کو نہ دیکھ سکا۔ اس کی موٹر سائیکل سیدھی آگ کے اندر گھس گئی۔ شعلوں سے اس کے کپڑوں میں آگ لگ گئی۔ موٹر سائیکل میں کیونکہ پٹرول ہوتا ہے، اس لیے اس کو بھی فوراً آگ لگ گئی۔ اکمل کی چیخیں ایسے سنائی دے رہی تھیں، جیسے کوئی جانور ذبح ہورہا ہو مگر لوگ قریب نہیں جارہے تھے۔ کچھ لوگ پانی لے کر آئے مگر اتنا پانی نہ تھا کہ اس آگ کو بجھایا جاسکتا۔ کوئی بھی بھڑکتی آگ کے قریب جانے کی ہمت نہیں کرپا رہا تھا۔ آخر کار چند منٹوں میں اکمل اللہ کو پیارا ہوچکا تھا۔
اس واقعے کو عرصہ گزر گیا ہے، مگر مجھے جب بھی یاد آتا ہے ، کلیجہ منہ کو آتا ہے۔ اس کی جلی ہوئی لاش اسپتال لائی گئی ۔ پھر اس کے گھر پہنچادی گئی۔ اس کے ماں باپ کا جو حال ہوا ہوگا، وہ ظاہر ہے۔ جیتے جی مرگئے ہوںگے۔ ان کا جوان بیٹا لوگوں کی بددعاؤں کی نذر ہوگیا۔ شاید وہ لوگوں کو تھوڑا تھوڑا جلاکر اپنے لیے آگ جمع کرتا رہا اور پھر اس آگ میں خود جل گیا۔
کسی کی بددعا ہرگزنہیں لینی چاہیے۔ ورنہ آخرت میں توسزا ملنی ہی ہے، کبھی کبھی دنیا میں بھی مل جایا کرتی ہے۔
——