برسات کا موسم

نادرہ ملک

آسمان پر کالے کالے بادل کے آوارہ ٹکڑوں کو ہوا کے دوش پر لہراتے دیکھ کر دل مسرتوں سے جھوم اٹھا۔ بارش میں کمزوری ہے۔ کتنی شدت سے مجھے برسات کی پہلی بارش کا انتظار تھا۔ لیکن لمحہ بھر میں میری خوشیاں زائل ہوگئیں۔ آسمان صاف ہوچکا تھا۔ بادل کے کالے کالے ٹکڑے نہ جانے کہاں غائب ہوگئے تھے۔ اور اب بڑی ڈھٹائی سے تابناک سورج میرا منھ چڑھا رہا تھا۔

’’یہ لڑکی دھوپ میں کیا کررہی ہے؟……‘‘ یہ بھائی جان کی آواز تھی۔

’’بارش کا انتظار کررہی ہوں……‘‘ میں نے اوپر سے ہی اونچی آواز میں جواب دیا۔

’’تمہارا دماغ خراب ہوگیا……‘‘ بھائی جان اوپر آگئے۔

’’ابھی ابھی میں نے آسمان پر کالے بادلوں کو دیکھا تھا۔‘‘

’’اب تو نہیں ہیں … پھر دھوپ میں کیوں تپ رہی ہو…؟‘‘

’’یہ سورج میرا منھ چڑھا رہا ہے۔ بادل سے کہہ رہی ہوں آکر اس کے منھ پر کالک مل دے۔‘‘ میں نے معصومیت سے کہا۔

’’بادل تمہاری بات سن رہا ہے؟‘‘

’’کاش سن لیتا!‘

’’سن لے گا تب آجانا، اس وقت نیچے چلو۔‘‘

’’بھائی جان وہ دیکھو … بادل۔‘‘ بادل کا ایک ٹکڑا لہراتا ہوا نہ جانے کہاں سے سطح افق پر وارد ہوگیا تھا۔

’’پاگل مت بنو، نیچے چلو… ورنہ اماں کی ڈانٹ کھانی پڑے گی۔ بادل نہیں چھائے۔ پانی نہیں برسا اور میں سورج کو گھورتی ہوئی نیچے آگئی …‘‘

’’اماں چار بچ گئے… کریمن بوا برتن مانجھنے ابھی تک نہیں آئیں۔‘‘

’’بچہ بیمار تھا … ساس کی طبیعت بگڑ گئی … نند سے جھگڑا ہورہا تھا … ڈھیر سارے بہانے ہیں کریمن بوا کے پاس ۔‘‘ اماں تنک کر بولیں۔

’’اماں الٹا ہی کیوں سوچتی ہو، ہوسکتا ہے اس کی باتوں میں سچائی ہو۔‘‘

’’تو میں جھوٹی ہوں……‘‘ اماں بگڑ اٹھیں۔

’’توبہ میں نے ایسا کب کہا ……‘‘

اس دن کریمن بوا نہیں آئیں۔گھر کا سارا کام مجھے ہی کرنا پڑا۔ دوسرے دن جب کریمن بوا آئیں تو ان کے چہرے پر چھائی پژمردگی اور آنکھوں میں ویرانی لرزاں دیکھ کر میں پوچھ بیٹھی۔

’’کیوں بوا خیریت تو ہے…؟‘‘

’’بی بی میرا بیٹا بیمار ہے۔‘‘

’’کیا ہوا اسے……‘‘

’’دو دنوں سے بخار میں تپ رہا ہے۔‘‘

’’ڈاکٹر کو دکھایا ……؟‘‘

’’ہاں لے گئی تھی، لیکن کوئی فائدہ نہیں۔ بخار ہے کہ اترنے کا نام نہیں لیتا۔‘‘ وہ سسک اٹھی۔ اپنی ساڑی کے آنچل سے آنسو پوچھتی ہوئی کچن میں چلی گئی۔ مجھے اس کی حالت پر ترس آیا۔ میں نے اسے یہ کہہ کر چھٹی دے ی کہ جب تمہارا بیٹا ٹھیک ہوجائے تب آنا۔ میں سارا کام خود کرلوں گی۔ اماں نے سنا تو بگڑ اٹھیں۔

’’خود مختار بن بیٹھی ہو…… کس کی اجازت سے تم نے اسے چھٹی دی……؟‘‘

’’اماں بگڑتی کیوں ہو۔ اس کا بیٹا بیمار ہے تمہیں تکلیف نہیں ہوگی۔ میں سارا کام کرلوں گی۔‘‘ میں نے اماں کو سمجھاتے ہوئے کہا۔

’’عجیب سر پھری لڑکی ہے۔ جو دل چاہے کر بیٹھتی ہے۔ بڑوں سے رائے مشورہ لینا تو اس نے سیکھا ہی نہیںہے۔‘‘ میری شان میں اماں نہ جانے کیا کیا قصیدے پڑھتی رہیں اور میں نے خاموشی اختیار کرلی۔ اب میں انہیں کیسے سمجھاتی کہ دوسروں کی تکلیف، دوسروں کا درد محسوس کرنے والا دل میرے سینے میں دھڑکتا ہے تو میں کیا کروں۔ تم نہیں سمجھ پاتیں، دوش تمہارا ہے۔‘‘

چار دن بیت گئے۔ کریمن بوا نہیں آئیں تو مجھے تشویش ہوئی۔ کہیں ان کا بیٹا زیادہ بیمار تو نہیں ہوگیا۔ میں نے دل میں فیصلہ کیا کہ کریمن بوا کے گھر جاؤں گی… اماں برس پڑیں…

’’پاگل ہوگئی ہو، اس گندی بستی میں جاؤگی … لوگ کیا کہیں گے؟‘‘

’’کیوں اس میں کیا برائی ہے؟ اس بستی میں انسان ہی تو رہتے ہیں۔‘‘

’’تم وہاں نہیں جاؤگی……‘‘ اماں کا لہجہ حتمی تھا۔

’’مگر کیوں……؟‘‘ میں بضد تھی۔

’’مجھے تمہارا وہاں جانا قطعی پسند نہیں۔‘‘

’’اماں میں اسکول جاسکتی ہوں، کالج جاسکتی ہوں، بازار جاسکتی ہوں۔ پھر … پھر وہاں کیوں نہیں جاسکتی۔ میری اچھی اماں پلیز مجھے مت روکو… مجھے جانے کی اجاز دے دونا۔‘‘ میں نے اماں کے گلے میں پیچھے سے اپنی بانہوں کا ہار ڈالتے ہوئے خوشامدانہ انداز میں کہا۔

بالآخر اماں نے میری بات مان لی اور اس سے پہلے کہ اماں کا ارادہ بدلے میں وہاں سے چل پڑی … میرا رکشہ کریمن بوا کے گھر تک نہیں جاسکا تھا۔ کیوں کہ ان کے گھر تک جانے والی گلی کافی تنگ تھی۔ میں رکشہ سے اتر گئی۔ بچپن میں کبھی میں کریمن بوا کے ساتھ ان کے گھر آئی تھی۔ اس لیے ان کا گھر ڈھونڈنے میں زیادہ دشواری نہیں ہوئی۔ میں ان کے گھر کے قریب آکر رکی تو گلی میں کھیلتے بچے مجھے اس طرح دیکھنے لگے … جیسے اس گلی میں گمان سے باہر ہستی آگئی ہو۔ میں نے کریمن بوا کے دروازے پر پہنچ کر دستک دی… حالانکہ دروازہ کھلا ہوا تھا لیکن بغیر دستک کے داخل ہونے کی ہمت نہیں ہوئی۔ اندر سے کسی کے کھانسنے کی آواز آرہی تھی۔ دروازے پر کریمن بوا مجھے دیکھ کر مجسمۂ حیرت بن گئیں۔

’’بی بی جی آپ!‘‘

’’تمہارا بیٹا کیسا ہے بوا…؟‘‘

’’آپ یہاں…؟‘‘

میں دروازے پر کھڑی تھی اور بچے جہاں اب تک مجھے اور میرے قیمتی کپڑوں کو دیکھ رہے تھے … وہیں کچھ نچلے اور اوباش قسم کے نوجوانوں کے ہونٹوں پر سیٹیاں اور سستی فلموں کے غیر معیاری گانے مچلنے لگے تھی۔

’’تمہارا بیٹا ٹھیک ہے نا …؟‘‘ میں نے اندر آکر پوچھا۔

’’آپ یہاں کیوں آئیں ہیں بی بی جی …؟‘‘ وہ محوِ حیرت تھی کہ کمرے میں دو چارپائیاں پڑی ہوئی تھیں۔ ایک پر ایک شخص گھٹنوں کے بل جھک کر اپنے جانگھوں سے سینے کو دبائے ہوئے گہری گہری سانس لے رہا تھا۔ چارپائی کے نیچے مٹی کے برتن کا ٹوٹا ہوا ایک حصہ رکھا تھا، جس میں چولہے کی راکھ بھری ہوئی تھی اور اس میں جذب گاڑھے گاڑھے بلغم پر بہت ساری مکھیاں بھنبھنارہی تھیں۔ جب کبھی وہ بوڑھا شخص حلق کو صاف کرکے بلغم اس ٹوٹے ہوئے مٹی کے برتن میں گراتا تو کمرے میں اُس کے سانسوں کی سائیں سائیں کے ساتھ مکھیوں کی بھنبھناہٹ گونج اٹھتی۔ دوسری چار پائی پر دس بارہ برس کا ایک لڑکا لیٹا ہوا تھا۔لڑکے کے سرہانے دو جوان لڑکیاں بیٹھی ہوئی تھیں۔ غالباً وہ کریمن بوا کی بیٹیاں تھیں۔ ان میں سے ایک بار بار اس لڑکے کے سر پر ہاتھ پھیر رہی تھی۔ ایک چار سالہ لڑکا زمین پر سویا ہوا تھا اور اس کے ارد گرد بھی مکھیاں بھنبھنا رہی تھیں۔ شاید یہ بوا کی بیوہ نند کا بیٹا تھا۔ پاس ہی سفید میلی سی ساڑی میں ملبوس اس کی نند بیٹھی تھی۔ جس کی ساڑی میں جگہ جگہ پیوند چسپاں تھے۔

’’بی بی جی میرے بیٹے کا بخار نہیں اترا … دیکھئے ابھی بھی بے سدھ پڑا ہے۔ میرے بچے کا اوپر بیٹھا خدا ہی نگہبان ہے۔ میں کافی پریشان ہوں اس لیے نہیں آسکی۔‘‘ گویا اس نے صفائی دی۔

’’میں تمہارے بیٹے کو دیکھنے آئی ہوں بوا…‘‘

’’کیا……؟‘‘ اس کے لہجے میں بے یقینی تھی۔

بوا اپنے آنچل سے کونے میں رکھی اکلوتی کرسی کو صاف کرتے ہوئے مجھے بیٹھنے کو بولیں۔ میں جاکر بیٹھ گئی۔ لیکن جب میں نے غور کیا تو پتہ چلا کہ وہ کرسی نہیں تھی… اسٹول بھی نہیں تھا … خیر جو بھی تھا بیٹھنے کے لائق تھا۔ گرمی کی شدت سے میرا برا حال تھا۔ کوئی مجھ سے بات نہیں کررہا تھا۔ کریمن بوا میرے ایک دو سوالوں کا جواب دے کر چپ ہوگئی تھیں۔ میں نے پرس میں سے کچھ روپئے نکال کر بوا کو دئیے کہ اپنے بیٹے کا علاج ٹھیک طرح سے کراسکے اس کے بعد میں اٹھ کھڑی ہوئی۔ ’’چلتی ہوں …‘‘

’’میرے تو نصیب جاگ گئے۔ آپ اس غریب کی جھونپڑی میں آئیں۔ منّا کے ابا گھر پر نہیں ہیں انہیں یقین نہیں ہوگا … کہ آپ آئی تھیں۔‘‘

’’تم سب اسی کمرے میں رہتی ہو ……؟‘‘ میں نے پہلی بار ایک عجیب سا سوال کیا۔

’’اندر آنگن ہے بی بی جی … بنا چھت کا ایک کمرہ ہے جہاں کھانا بنتا ہے۔‘‘ اچانک بادل کے گرجنے کی آواز آئی اور پھر دیکھتے ہی دیکھتے اندھیرا مسلط ہوگیا۔ ٹپ ٹپ کی آواز کے ساتھ برسات کی پہلی بارش شروع ہوگئی۔ اُف میں کہا ںآپھنسی… جس بارش کا مجھے شدت سے انتظار تھا، جس کے لیے میں گھنٹوں چھت پر کھڑی بادلوں کو گھورا کرتی تھی … آج … اف اس جھونپڑی میں بارش کا لطف کس طرح اٹھاؤں۔ میری تمنائیں دم توڑتی محسوس ہوئیں اور میں بے بسی کے عالم میں گھر واپس جانے کے لیے سوچنے لگی۔

’’بی بی جی ٹھہر جائیے … پانی تھم جائے گا تب میں آپ کو چھوڑ آؤں گی…‘‘ بارش کی آواز تیز ہونے لگی۔ دیکھتے ہی دیکھتے موسلا دھار بارش ہونے لگی۔ میں لاچار اسی جگہ بیٹھ گئی جہاں کریمن بوا نے مجھے بیٹھایا تھا۔ میں جیسے ہی بیٹھی ٹپ سے پانی کی ایک بوند میرے سر پر گری۔ میں اس کی ایک ننھی سی بوند کا مقابلہ کرتی اس سے قبل ہی بڑی بڑی کئی بوندیں لگاتار مجھے پر گرنے لگیں۔ میں نے اٹھنا چاہا تو دیکھا کہ چھت ایک جگہ سے نہیں بلکہ کئی جگہوں سے ٹپک رہی۔ میرا اٹھنا بیکار تھا۔ میں بیٹھی بیٹھی بھیگتی رہی۔ بوا کا بیمار بیٹا بھی اس ٹپ ٹپ سے نہیں بچ پایا تھا۔ اس کی بہنیں اسے چادر سے ڈھک رہیں تھی۔ بوڑھے نے کھانسنا بند کردیا تھا۔ وہ بھی بارش کی بوندوں سے بچنے کے لیے کروٹ بدل رہا تھا۔ پھر دیکھتے ہی دیکھتے نہ جانے کس طرح فرش پر پانی آگیا۔ وہ چار سالہ بچہ اٹھ کر رونے لگا۔ اس کی ماں نے اسے گود میں اٹھا لیا۔ اندر سے بھیگتی ہوئی کریمن بوا کی ساس کمرے میں آئی۔ ایک کونے میں رکھی گٹھڑی کھولی۔ اس میں سے کچھ گندے کپڑے نکالے اور اندر کی جانب مڑگئی۔ وہ میری طرف سے بے نیاز تھی۔ بوڑھا بول اٹھا۔

’’کیوں پانی میں بھیگتی ہو… کپڑے بعد میں دھل جائیں گے۔‘‘

’’ہاں دھل جائیں گے لیکن برسات کے پانی جیسا صاف نہیں ہوگا۔‘‘ وہ اندر چلی گئی۔ پھر زور زور سے کپڑے پٹخنے کی آوازیں آنے لگیں۔ بارش نے زور پکڑلیا تھا۔ چھت سے اتنا زیادہ پانی ٹپکنے لگا تھا کہ بچنا مشکل ہورہا تھا۔ بہنیں لاکھ کوشش کررہی تھیں لیکن اپنے بیمار بھائی کو چھت سے ٹپکنے والے پانی سے محفوظ نہیں رکھ پائی تھیں۔ ہم چھت کے نیچے تھے لیکن پانی اس قدر رس رہا تھا کہ کھلی چھت کا گمان ہورہا تھا۔ شام ڈھلنے لگی تھی۔ قبل از وقت رات کی سیاہی اپنی چادر پھیلا رہی تھی۔ میرے لیے مزید ٹھہرنا مشکل ہورہا تھا لیکن اس تیز بارش میں باہر نکلنا بھی دشوار تھا۔ پھر بھی میں گھر پہنچنے کی جلدی میں ہر مشکل کا سامنا کرنے کے لیے تیار تھی۔ اسی تیز بارش میں میں نے بوا سے اجازت مانگی۔ بوا پہلے تو نہ مانی۔ پھر اپنے ساتھ گھر تک چھوڑنے کے لیے رضا مند ہوگئیں۔ میں جیسے تیسے گھرپہنچی۔ اماں میری حالت دیکھ کر دھاڑ اٹھیں۔ بھائی جان نے بھی آج اماں کی طرف داری کی اور میں خاموشی سے سب کی ڈانٹ سنتی رہی۔ وہ رات بڑی کالی اور بھیانک تھی۔ تمام رات مسلسل بارش ہوتی رہی اونچے علاقے کی سڑکیں بھی پوری طرح جل تھل ہوچکی تھیں۔ رہ رہ کرکریمن بوا کے گھر کا منظر میری آنکھوں میں گھوم جاتا۔ اس رات ایک سیکنڈ کے لیے بھی نہ سوسکی۔ صبح مطلع بالکل صاف ہوچکا تھا۔ سورج کی سنہری کرنیں سویرا ہونے کا اعلان کررہی تھیں۔ میں نے کھڑکی سے باہر جھانک کر دیکھا … سڑک پر پانی کا جماؤ ختم ہوچکا تھا۔ اچانک میرے ذہن کے اسکرین پر بوا کے گھر کا منظر گھوم گیا۔ خدا جانے یہ طوفانی اور برساتی رات نے بوا کی جھونپڑی کی خستہ حال بنیادوں پر کیا کیا ستم ڈھائے ہوں گے۔ میرے دل میں طرح طرح کے وسوسے آنے لگے۔

اس روز میں سارا دن سوتی رہی۔ شام ڈھلے اماں نے مجھے جگایا تھا۔ وہ بھی اس خبرکے ساتھ کہ کریمن بوا کا بیٹا مرگیا۔

’’کیا……؟‘‘ مجھے گہرا شاک لگا۔ اپنے اکلوتے بیٹے کی موت کا صدمہ وہ بے چاری غریب کس طرح برداشت کرسکی ہوگی۔ میرے اندر کچھ ٹوٹ پھوٹ کر رہ گیا۔ ڈاکٹر کے مطابق اس کی موت بیماری کی حالت میں شدید طور پر بھیگ جانے کی وجہ سے ہوئی تھی۔ چھت سے ٹپ ٹپ کرکے برستے ہوئے قطرے اسے موت کے سمندر میں ڈبو گئے تھے۔

آسمان پر امنڈتے ہوئے کالے بادل دیکھ کر کبھی میرے دل میں خوشیوں کے دیپ جھلملا اٹھتے تھے، گرجتا برستا دل اور بھیگی بھیگی فضا کس قدر مجھے پسند تھی… مگر اب … یہ سب مجھے مضمحل اور اداس کردیتے ہیں۔ میرے دل میں یہ خلش گھر گر گئی ہے کہ کاش اس روز میں بوا کے بیٹے کو اپنے گھر لے آئی ہوتی لیکن اس طرح کتنی مجبور اور بدقسمت مائیں اور ان کے بیمار بیٹے … اس دنیامیں موجود ہیں… کیا میں سب کو پناہ دے سکتی ہوں؟ …میں سوچتی ہوں کہ اس زمین اور اس آسمان کے درمیان کوئی ایسی پناہ گاہ کیوں نہیں ہے جہاں کریمن بوا جیسے لوگ رہ سکیں……؟

مزید

حالیہ شمارے

ماہنامہ حجاب اسلامی ستمبر 2024

شمارہ پڑھیں

ماہنامہ حجاب اسلامی شمارہ ستمبر 2023

شمارہ پڑھیں

درج بالا کیو آر کوڈ کو کسی بھی یو پی آئی ایپ سے اسکین کرکے حجاب اسلامی کو عطیہ دیجیے۔ رسید حاصل کرنے کے لیے، ادائیگی کے بعد پیمنٹ کا اسکرین شاٹ نیچے دیے گئے  وہاٹس ایپ پر بھیجیے۔ خریدار حضرات بھی اسی طریقے کا استعمال کرتے ہوئے سالانہ زرِ تعاون مبلغ 600 روپے ادا کرسکتے ہیں۔ اس صورت میں پیمنٹ کا اسکرین شاٹ اور اپنا پورا پتہ انگریزی میں لکھ کر بذریعہ وہاٹس ایپ ہمیں بھیجیے۔

Whatsapp: 9810957146