برسات کی بیماریاں احتیاط و علاج

ڈاکٹر مشتاق احمد

برسات کا موسم بڑا خوش گوار اور سہانا ہوتا ہے لیکن اس سہانے موسم کی آمد اور رم جھم بارش اپنے ساتھ کچھ پریشانیاں بھی لاتی ہے۔ جیسے باڑھ، دریاؤں کی طغیانی، اس سے انسان جان کا نقصان ہوتا ہے۔ اس کے علاوہ کئی بیماریاں بھی اسی موسم کی دین ہوتی ہیں جیسے ملیریا، ڈینگو اور ڈائریا وغیرہ۔ اس کا اہم سبب اس موسم میں پیدا ہونے والے ’’مچھر‘‘ہوا کرتے ہیں۔

پانی اور مچھروںسے پیدا ہونے والے امراض میں سب سے اہم ملیریا بخار اور بخار کی دوسری قسمیں ہیں۔ جیسے ڈینگو، کالازار، پیلا بخار (Yellow Fever)، چکن گنیا، دماغی بخار، جاپانی بخار اور ڈائریا وغیرہ۔ لیکن ملیریا ان میں سب سے عام اور قدیم بیماری ہے جو ملک کے تقریباً سبھی حصوں میں نمودار ہوتی ہے۔

ملیریا کی تاریخ

مچروں کی پیدائش اور ان کی پیدائش کے نتیجے میں رونما ہونے والی بیماری ملیریا کی تاریخ اتنی ہی قدیم ہے جتنی انسانی تاریخ۔ سکندر اعظم بھی ملیریا کی نظر ہوگیا تھا۔ چنگیز خاں کی افواج کو بھی مچھروں اور ملیریا سے جوجھنا پڑا تھا اور کم سے کم چار پوپ، امریکی صدر جارج واشنگٹن، ابراہم لنکن کو بھی ملیریا سے لڑنا پڑا اور بعض کی موت کا سبب بھی ملیریا بیماری رہی تھی۔

ہمارے ملک ہندوستان میں مچھر اور ان سے پیدا ہونے والی بیماری ملیریا کی آمد کا ذکر کافی قدیم ہے اور چرک میں بھی اس کا ذکر ملتا ہے۔ ۱۹۵۳ء تک ہندوستان میں اس مرض سے متاثرین کی سالانہ تعداد ساڑھے سات کروڑ تک پہنچ گئی تھی جن میں سے آٹھ لاکھ لوگ مارے گئے تھے۔ اس کو کنٹرول کرنے کے لیے حکومت ہند نے مہم چلائی اور اس بیماری سے بچنے میں پانچ سال کے اندر سالانہ ۲۰ لاکھ لوگ اس مرض سے محفوظ ہوگئے اور ۱۹۶۱ء آتے آتے ملیریا کا قہر ۵۰ ہزار معاملوں تک محدود ہوکر رہ گیا تھا لیکن کچھ دنوں کے بعد اس مہم کے کمزور پڑ جانے کی وجہ سے اس بیماری کا قہر دوبارہ رونما ہونے لگا جو موجودہ شکل میں ہم سب کے سامنے ہے اور ہم اس بیماری سے اچھی طرح واقف ہیں۔ چنانچہ ہر آنے والی برسات کے موسم میں اس سے مقابلہ کرنے کے لیے ہم اپنے آپ کو تیار کرتے رہتے ہیں۔

موجودہ صورت حال

یہ بیماری ملیریا اور اس کا اہم سبب مچھروں کی زیادہ تر اقسام ہیں جو مغربی اور مرکزی افریقہ میں پیدا ہوئیں اور وہاں سے مختلف ذرائع سے انیسویں صدی کے آتے آتے دنیا کے مختلف حصوں میں پھیل گئیں۔ اوراب ملک کے ایسے حصوں میں یہ بیماری پھیل چکی ہے جو وہم و گمان سے بھی دور کی بات ہے۔ جیسے کشمیر، ہماچل پردیش، اتراکھنڈ اور شمال مشرق کے ٹھنڈے علاقے۔ اور گرم علاقوں میں راجستھان کا سہارا ریگستان کا علاقہ جو کبھی مچھروں سے پوری طرح محفوظ سمجھا جاتا تھا۔ اور اب مچھروں نے اپنی ایسی نسلیں پیدا کرنی شروع کردی ہیں جو نئی طاقت کے ساتھ زندہ ہیں اور ان کی افزائش بھی بڑھی ہے جو سال کے بارہ مہینے موجود رہتی ہے۔ دیہی علاقوں میں مچھروں کی موجودگی کا اہم سبب گندگی، گھنے جنگلوں کی موجودگی اور ایسی زراعت ہے جو سال کے زیادہ مہینوں تک موجود رہتی ہے جیسے گنے کی فصل۔ شہروں میں مچھروں کی موجودگی کا اہم سبب گندے نالے اور صنعتیں ہیں۔

ان سب وجوہات کا نتیجہ یہ ہے کہ کلوروکوئن اور ٹیمی فوس جیسی مچھر مار ادویہ ان کے لیے سمِّ قاتل ثابت ہونے کے بجائے ان کی غذا بن چکی ہیں یا کم سے کم بے اثر ضرورثابت ہورہی ہیں۔

ملیریا کا پھیلاؤ

مچھر ملیریا اور بخار کی دوسری اقسام کے پھیلانے میں اہم رول ادا کرتے ہیں۔ مگر ملیریا کے پھیلاؤ میں plosmoنام کی مادہ مچھر کا اہم رول ہوتا ہے۔ جب یہ مادہ مچھر حیوانات یا انسانو ںکو کاٹتی ہے تو اپنے اندر موجود ملیریا کی لار ان میں منتقل کردیتی ہے جو خون کی باریک رگوں میں سرایت کرجاتی ہے۔ اور خون کو جمنے سے روک دیتی ہے۔ کچھ وقت شرائین میں آنے کے بعد یہ جراثیم جنہیں hostکہا جاتا ہے،جگر میں داخل ہوجاتے ہیں اور اس کے خانوں میں پروان چڑھتے رہتے ہیں۔ اور ایک خاص وقت کے بعد یہ خانہ پھٹ جاتے ہیں اور اس میں موجود ملیریا کے جراثیم دورانِ خون میں آکر R.B.کو تیزی سے توڑ پھوڑ کرتے ہیں۔ اس کا مقابلہ کرنے کے لیے جسم انسانی میں مرض سے مقابلہ کرنے کی قوت بیدار ہوجاتی ہے جس کو W.B.C.کہتے ہیں۔ لیکن مرض کے مسلسل حملوں کا مقابلہ کرنے کے لیے یہ قوت مدافعت نہایت کمزور ہوتی ہے۔ نتیجتاً بیماری سے لڑنے کی کوشش میں جسم انسانی کا درجہ حرارت بڑھنے لگتا ہے۔ جس کی شروعات سردی، تیز بخار اور پسینہ سے ہوتی ہے۔ جو ملیریا کی خاص علامات ہیں۔ اگر یہ علامات شدید ہوجائیں تو جانی نقصان کا سبب بنتی ہیں یا دماغی بخاری ہوجاتا ہے جس کو mamingitisکہتے ہیں جو بچوں میں زیادہ واقع ہوا کرتا ہے۔

علامات

ملیریا بخار کی عام اور اہم علامات میں سے سردی کا لگنا، شدید بخار اور پسینہ کے ساتھ علامات میں تخفیف ہوجانا یا بخار کا بالکل اترجانا ہے۔ اس کے ساتھ ہی کچھ دوسری علامات بھی رونما ہوجاتی ہیں مثلاً قے آنا، چہرے اور آنکھوں کا نہایت سرخ ہوجانا، آنکھوں سے آنسو آنا، اور شدید اور متواتر بخار آنے کی شکل میں زبان کا بے جا استعمال کرنا جو کہ پاگل پن جیسا ہوتا ہے۔ یا گردن کا اکڑ جانا اور تھوری کا منہ کے سامنے والی ہڈیوں کو چھونے میں نہایت تکلیف محسوس ہونا، جو دماغ میں بخارکے سرایت کرجانے کی خاص علامت ہے۔ اور بچوں میں یہ علامت خاص طور سے پروان چڑھ جاتی ہے اگر ان کو شدید بخار ہوجائے تو۔ ملیریا بخار دوسرے، تیسرے، اور چوتھے دن بھی آسکتا ہے۔

اس کے علاوہ برسات کے موسم میں مچھروں سے پھیلنے والے دیگر بخارات کی علامات بھی کم و بیش ایسی ہی ہوتی ہیں۔ البتہ ڈینگو بخار کی خاص علامت یہ ہے کہ شرائین اور اوردہ پھٹنے لگتی ہیں اور زیرِ جلد سرخ یا کالے دھبے معلوم ہوتے ہیں۔

دیگر بخاروں اور ان کی اقسام کی پہچان کچھ علامات اور لیبارٹری جانچ سے بآسانی کی جاسکتی ہے جس میں خون، پیشاب اور پاخانہ کی جانچ شامل ہیں۔ اور بچوں میں ریڑھ کی ہڈی کے پانی کی جانچ شامل ہے۔

تدبیر(مرض سے پہلے)

سب سے پہلے یہ کوشش کرنی چاہیے کہ اس موسم کے استقبال کے لیے اپنے آپ کو تیار کرلیں اور موسم برسات آجانے پر بچاؤ کی حتی الامکان کوشش کریں۔ مچھردانی کا استعمال کریں، مچھروں کو پنپنے کا موقع نہ دیں۔ اس کے لیے اپنے گھر اور نالیوں کی پوری صفائی رکھیں۔ اور پانی رکنے یا بھرنے نہ دیں۔ اگر آپ کے گھر میںباغیچہ ہو تو اس کی صفائی کا بندوبست اچھی طرح کرلیں۔ اور جلدی جلدی کاٹ چھانٹ کرتی رہیں۔اپنے گھر کے آس پاس غیر ضروری گھاس اور جھاڑ جھنکار کو زیادہ پروان چڑھنے کا موقع نہ دیں۔ اگر مرض پھیل رہا ہو تو ملیریا کا ٹیکہ لگوائیں یا اس کی پیشگی خوراکی لیں اور سبزیوں کو خاص طور سے نمک کے پانی سے دھوکر پکائیں۔

دورانِ مرض علاج

اگر بخار کا حملہ ملیریا کی علامات کے ساتھ ہوچکا ہو تو کسی بھی شکل میں بخار کو شدت نہ پکڑنے دیں۔ ٹھنڈے پانی سے کپڑا بھگو کر جسم کو رگڑیں۔ ایمرجنسی یا گھریلو علاج کے طور پر بخار کو کم کرنے والی ادویہ استعمال کریں جیسے پیراسٹامول وغیرہ۔ دیسی ادویہ کے طور پر اجوائین، خوب کلاں، گلو، کرنجوہ، شاہترہ وغیرہ کا استعمال کریں۔ علامات ہلکی ہونے کے بعد فوراً اپنے طبیب سے رجوع کریں اور لبیارٹی جانچ کی بنیاد پر اپنے طبیب کی نگرانی میں علاج جاری رکھیں۔

تربیت

مزید

حالیہ شمارے

ماہنامہ حجاب اسلامی شمارہ ستمبر 2023

شمارہ پڑھیں

ماہنامہ حجاب اسلامی شمارہ اگست 2023

شمارہ پڑھیں