برطانیہ میں مسلم دشمنی کی لہر

یوسف رامپوری

مغربی ممالک مسلم خواتین کو حجاب میںنہیں دیکھنا چاہتے، ان کی کوشش یہ ہے کہ جس طرح دیگر مغربی قومیں بے پردہ ہیں، اسی طرح مسلم عورتیں بھی بے پردہ رہیں، اسکولوں، بازاروں، دوکانوں اور دفتروں میں وہ اسی طرح دکھائی دیں جس طرح ساری عورتیں دکھائی دیتی ہیں۔ اس طرح کی ایک کوشش حال ہی میں برطانیہ کے وزیر خارجہ جیک اسٹرا نے کی ہے، انھوں نے مطالبہ کیا ہے کہ ’’مسلم خواتین جب بھی مجھ سے ملنے آئیں، بے نقاب آئیں۔‘‘ جیک اسٹرا کے نائب نانجل گرتھس نے اس بیان کی وضاحت کرتے ہوئے کہا : ’’پردہ دوسروں کو مطمئن نہیں رہنے دیتا اور پردہ کرنے والی عورتوں کو دوسروں کا خیال نہیں اس لیے وہ خود غرض ہیں۔‘‘

جیک اسٹرا کے بیان کے آنے کے بعد ان کے اپنے حلقہ انتخاب بلیک برن میں تین نوجوانوں نے ایک لڑکی کو نقاب اتارنے پر مجبور کیا۔ دوسری طرف لیورپول میں دو خواتین کے نقاب ان کے چہروں سے نوچ لیے گئے۔ برطانیہ کے مسلمان اس صورت حال سے کافی پریشان اور مضطرب نظر آرہے ہیں، انھوں نے جیک اسٹرا کے بیان اور مسلم خواتین کے چہروں سے نقاب نوچ لیے جانے پر احتجاج شروع کردیے ہیں۔

اگر جیک اسٹرا نے اس بیان کو ذاتی بیان کہا ہے لیکن اگر واقعہ کی نوعیت پر نظر ڈالی جائے تو ان کا یہ بیان کسی منظم و سوچی سمجھی منصوبہ بندی کا پیش خیمہ معلوم ہوتا ہے۔ کیونکہ ان کی حجاب دشمنی کے بعد برطانیہ میں حجاب کی دشمنی میں مزید اضافہ ہوسکتا ہے۔ جیسا کہ فوری طور سے مسلمانوں پر حملوں اور دھمکیوں میں اضافہ ہوگیا اور مسلمانوں پر نسل پرست ہونے کے الزام لگائے گئے اور ان کو برا بھلا کہا گیا اور مسلم خواتین کے چہروں سے نقاب نوچ لیے گئے۔ حالانکہ جیک اسٹرا کو مسلمانوں کی حمایت حاصل ہے۔ جس حلقے سے وہ کامیاب ہوتے ہیں، وہاں مسلمانوں کی آبادی ۳۰ فیصد ہے اور مسلمان انہیں کی حمایت کرتے ہیں۔ کیونکہ مسلمانوں کا خیال ہے کہ جیک اسٹرا مسلمانوں کے تئیں نرم رویہ رکھتے ہیں، مگر جب انھوں نے ہی حجاب کے خلاف بیان بازی کردی تو دیگر برطانوی لیڈران کا کیا حال ہوگا؟

آئندہ سالوں میں برطانیہ میں حجاب کے خلاف زیادہ شدت کے ساتھ آواز اٹھانے کے واقعات میں اس لیے بھی اضافہ کا خدشہ محسوس کیا جارہا ہے کہ آئندہ انتخابات میں برطانیہ کے لیڈران اپنی جیت کو یقینی بنانے کے لیے حجاب دشمنی کا سہارا لے سکتے ہیں۔ کیونکہ گزشتہ چند سالوں کے دوران برطانیہ میں جو حالات پیدا ہوئے ہیں وہ مسلمانو ںکے خلاف جاتے ہیں، وہاں کے لوگ مسلمانوں سے نفرت کا اظہار کرتے دکھائی دے رہے ہیں۔ اس لیے انہیں ہر اس بات میں دلچسپی محسوس ہوتی ہے جو مسلمانوں کے خلاف ہو۔ نائن الیون کے بعد جو مسلم دشمنی کی لہر دیگر مغربی ممالک میں نظر آئی تھی، اسی طرح کی لہر برطانیہ میں بھی دکھائی دی تھی۔ خاص طور سے سال رواں ۱۰؍جولائی کے بعد برطانیہ میں مسلمانوں کو اور زیادہ شک کی نگاہ سے دیکھاجانے لگا ہے اور ان کے گرد شکنجہ کسا جانے لگا ہے۔ یہ محسوس ہوتا ہے کہ ایسے حالات میں جو بھی مسلم دشمنی کو اپنے الیکشن کے لیے استعمال کرے گا، اسے کامیابی ملے گی۔ جیک اسٹرا کے بیان کو بھی اسی پس منظر میں دیکھا جاسکتا ہے کہ وہ ایک لمبے عرصہ سے پارلیمنٹ کے رکن منتخب ہوتے چلے آرہے ہیں اس کی وجہ یہ رہی کہ مسلمانوں نے انہیں اپنے ووٹ سے نوازا، مگر اس بار شاید انہیں یہ محسوس ہورہا ہے کہ اگر انھوں نے مسلم دشمنی کا نعرہ بلند نہ کیا تو وہاں کی اکثریت انہیں شکست سے دوچار کردے گی، اس لیے انھوں نے برطانیہ میں اپنے منصب کو برقرار رکھنے کے لیے مسلم دشمنی کا کارڈ کھیلنا شروع کردیا ہے۔

حجاب کے خلاف برطانیہ میں آواز بلند ہونے کا سیاسی پہلو تو ہے ہی لیکن اس سے زیادہ اس کا تہذیبی پہلو بھی نظر آتا ہے۔ مغربی قوموں کو یہ بات برداشت نہیں ہورہی ہے کہ مغرب میں رہ کر بھی مسلمان اپنی تہذیب سے جڑے رہیں۔ وہ سوچ رہے ہیں کہ مغرب میں زیادہ دیر تک اسلامی تہذیب کی بقا اسلامی تہذیب کی مقبولیت کی بنیاد بن سکتی ہے۔ اس کی کچھ مثالیں بھی سامنے آنے لگی ہیں کہ امریکی و یورپی ممالک کے لوگ اپنے معاشرہ سے اوبتے جارہے ہیں اور اسلامی معاشرہ اور اسلامی تہذیب کی طرف مائل ہورہے ہیں۔ کیونکہ جب انہیں معلوم ہوتا ہے کہ اسلامی تہذیب انسانی و اخلاقی اقدار پر مبنی ہے تو وہ اس سے لازمی طور پر متاثر ہوتے ہیں۔ مغرب کی بہت سے خواتین پردہ کے فلسفہ اور اس کے فائدوں کو جان کر دائرہ اسلام میں داخل ہوگئیں اور وہ پورے طور سے حجاب میں نظر آنے لگیں۔ برطانیہ میں پردہ کے خلاف اٹھنے والی آواز اسلام کے خلاف مغربی دنیا کی ایک منظم تحریک کا حصہ بھی ہوسکتی ہے۔ یہ بات اس بنیاد پر کہی جاسکتی ہے کہ پردہ کے خلاف محض برطانیہ میں ہی آواز نہیں اٹھ رہی ہے، بلکہ دیگرمغربی ممالک میں بھی پردہ کے خلاف تحریک زوروں پر ہے۔ فرانس میں اسکول کی طالبات کے اسکارف پہننے پر بار بار تنازع اٹھتا رہا ہے۔ جس نے کئی بار سنگین حالات بھی اختیار کیے، فرانس کا معاشرہ کیونکہ صد فیصد عریانیت و فحاشیت کا عکاس ہے، اس لیے اسے حیا وپاکیزگی کا آئینہ دار پردہ بالکل نہیں بھاتا۔ فرانس کے لوگوں کو یہ بھی پسند نہیں کہ مسلمان اپنی تہذیب و معاشرت کے مطابق وہاں زندگی گزاریں، اس لیے وہاں بعض دفعہ مسلمانوں کو تعصب اور ان کی تنگ نظری سے گزرنا پڑتا ہے اور نسلی تشدد کا بھی سامنا کرنا پڑتا ہے۔ یورپی ملک ہالینڈ میں تو باضابطہ حجا پر پابندی ہے۔ وہاں پردہ کرنے کی اجازت نہیں۔ ہالینڈ میں برقعہ پہننے والی عورتوں کو نوکریاں نہیں ملتیں اور نہ ہی انہیں بے روزاری بھتہ دیا جاتا ہے۔ اسی طرح پردہ کے خلاف بلجیم کے شہر مارسک میں بھی برقعہ یا حجاب پر زبردست پابندی ہے۔ یہاں عام شاہراہ پر برقعہ پہننا غیر قانونی ہے او راس کے باوجود بھی اگر کوئی مسلم خاتون برقعہ پہن کر باہر نظر آجاتی ہے تو اسے خاصی رقم (۱۲۵ یورو) کا جرمانہ ادا کرنا پڑتا ہے۔ اگر سوال کسی آفس میں نوکری کا ہو تو پردہ والی عورت کے لیے اس کا تصور تک نہیں کیا جاسکتا۔ مغربی ممالک کے علاوہ دیگر بہت سے ممالک میں بھی برقعہ یا حجاب پر تنقیدیں ہوتی رہتی ہیں اور حجاب والی عورتو ںکو بے وقوف، جاہل اور مظلوم سمجھا جاتا ہے۔ بعض مقامات پر پردہ کرنے والی عورتوں کے شوہروں پر الزام لگایا جاتا ہے کہ وہ ان کو برقعہ میں لپٹے رہنے کے لیے مجبور کرتے ہیں۔ حد تو یہ ہے کہ کتنے لوگ پردہ کو لے کر اسلام پر چھینٹا کشی شروع کردیتے ہیں۔

پردہ کے خلاف اٹھنے والی عالم گیر آواز یقینا اسلام کے خلاف ایک منصوبہ بند سازش ہے اور مسلم معاشرہ کو تباہ کرنے کا ایک حربہ ہے۔ اسلام کے ماننے والوں پر ضروری ہوجاتا ہے کہ وہ ان واقعات سے سبق لیں اور حکمت عملی سے حالات کا مقابلہ کریں، پردہ کے تصور کو ختم نہ ہونے دیں، ورنہ جہاں اسلامی تہذیب و معاشرت کو ناقابل تلافی نقصان پہنچے گا، وہیں اس کے مسلم معاشرہ میں خطرناک نقصانات سامنے آئیں گے۔ جیسا کہ مغرب کا معاشرہ بے پردگی کے نتیجہ میں اٹھنے والے مسائل کا سامنا کررہا ہے۔

مزید

حالیہ شمارے

ماہنامہ حجاب اسلامی ستمبر 2024

شمارہ پڑھیں

ماہنامہ حجاب اسلامی شمارہ ستمبر 2023

شمارہ پڑھیں