سابق برطانوی وزیر خارجہ جیک اسٹرا کے پردہ کے خلاف مضمون اور اس کی وجہ سے پھوٹنے والی مسلمانوںکے خلاف نسلی منافرت سے ایک بار پھر اسلام اور مسلمانوں کے خلاف مغرب کے دوہرے معیار کی قلعی بالکل صاف ہوگئی ہے۔ برطانیہ جیسے سیکولر اور جمہوریت پسند بلکہ ’’جمہوریت پرست‘‘ ملک میں ایک مذہب کے ماننے والو ںکی مذہبی ومعاشرتی روایات اور انکا طرزِ عمل ملک کے بڑے قدآور رہنما کو ’’سماجی علیحدگی پسندی اور خود کو دوسروں سے مختلف دکھانے کی کوشش نظرآیا۔‘‘ جمہوریت اورسیکولرزم کی اس سے بڑی بدبختی اور کم نصیبی کیا ہوسکتی تھی۔ مگر یہ بدبختی اپنی انتہا کو اس وقت جاپہنچی جب برطانیہ کے وزیر اعظم ٹونی بلیئر نے بھی جیک اسٹرا کی سر میں سرملاتے ہوئے یہ کہہ دیا کہ ’’بھئی بات غلط نہیں کہی جارہی ہے۔ ‘‘ٹونی بلیئر کے حمایتی جملے کے ساتھ ہی رشدی جیسے اپنی اہمیت کھوچکے لوگ بھی اٹھ کھڑے ہوئے اور پردہ کو ہدف تنقید بنانے لگے۔ اور اس بات کا مطالبہ کیا جانے لگا کہ اس پر سخت پابندی عائد کی جائے۔
برطانیہ میں مسلمانوں کی آبادی کا سلسلہ اگرچہ اس کے سامراجی دور سے ہی شروع ہوجاتا ہے مگر اس دور میں اسکارف اور برقعے پہننے والی خواتین کی تعداد نظر نہ آنے والی حد تک ہی تھی۔ خود دس پندرہ سال پہلے تک بھی برقع اور پردہ کی مسلمانوں کی روایت کی مخالفت کرنے چند سر پھرے اور شدت پسند نسل پرستوںکے علاوہ کوئی نہ تھا۔ لیکن ادھر دس بارہ سالوںمیں برقع پوش اور اسکارف پہننے والی خواتین و طالبات کی بڑھتی تعداد اور مختلف مقامات پر ان کی موجودگی سے نہ صرف نسل پرست یوروپی لوگوں کے پیٹ میں مروڑ ہونے لگی بلکہ سیاسی اکھاڑے کے پہلوانوں کے بھی سرچکراتے نظر آنے لگے۔ جس کا ثبوت جیک اسٹرا کے مضمون اور ٹونی بلیئر کی حمایت کی صورت میں ہمیں نظر آتا ہے۔ گیارہ ستمبر اور لندن و میڈرڈ میں ہوئے دھماکوں کے بعد تو اسلامی طرزِ معاشرت کوجمہوریت مخالف، مسلمانوں کو دہشت گرد اور اسلام کو دہشت گردی کا دین بتانے کا طوفان سا آگیا۔ خود کو لادین اور سیکولر قرار دینے والے بڑے بڑے دانشور اورمغرب کی سیکولرزم کی دعوے دار ریاستیں بھی اپنی اسلام دشمنی اور مسلم مخالف ذہنیت کو چھپا نہ سکے۔ اس طرح مغرب نے خواہ مخواہ خود کو اسلام دشمنی کے چلتے نسلی تعصب کے دل دل میں پھنسا لیا۔ اگرچہ اس کا اندازہ لگانا شاید آسان نہ ہو لیکن بہت جلد یہ بات لوگوں کے سامنے آجائے گی کہ اسلام دشمنی میں اس نے جس نسلی تعصب کی آگ کو ہوا دی تھی وہ خود انہی کو جلانے کے لیے تیا رہے۔ اور اس وقت شاید اسلام دشمنی کے لیے متحد ہونے کا نعرہ بھی اپنی معنویت کھوچکا ہوگا۔
آج اسلام، مسلمان اور اسلامی اقدار و روایات کے خلاف نفرت پھیلانے کو صاحبِ اقتدار لوگ اپنے اقتدار کے لیے ڈھال بنائے ہوئے ہیں جبکہ کچھ ممالک میں اسے سیاسی اشو بناکر ووٹ بینک کو مضبوط بنانے کا ذریعہ بنالیا گیا ہے۔ امریکی صدر بش کی دوبارہ جیت، فرانس میں پردہ کے خلاف مہم، سویڈن اور بیلجیم کی حکومتوں کی اسلام مخالف ذہنیت، آسٹریا میں ان تمام لوگوں کو ملک سے نکال باہر کرنے کی بات جو مغرب کے طرزِ معاشرت سے مختلف زندگی بتاتے ہیں۔ ڈنمارک کا اہانتِ رسول کا واقعہ اور اس کی سیاسی سرپرستی، آسٹریلیا میں مسلمانوں پر حالات تنگ کرنے کی کوشش ان تمام کے پیچھے کہیں نہ کہیں سیاسی استحصال کی کوشش اور اپنے عوام کی توجہ ان کے اصل مسائل اور مطالبوں سے ہٹا کر اسلام اور اس کی تہذیب کے فرضی ہوّے سے ڈرانے ہی کی کوشش ہیں۔ اسلام کو دہشت گردی کا مذہب اور مسلمانوں کو دہشت گرد قرار دینے والا یہ مغرب اسلام اور مسلمانوں کے سلسلے میں معمولی معمولی باتوں پر تشدد پر آمادہ ہوجاتا ہے۔ جو اس بات کا ثبوت ہے اس کے دل و دماغ میں اسلام اور مسلمانوں کے خلاف شدید نفرت و عداوت کی آگ بھڑک رہی ہے اور اس آگ کے بھڑکانے میں ٹونی بلیئر اور جیک اسٹرا کی قبیل کے افراد ہی سرفہرست ہیں۔برطانیہ کے مشہور اخبار ’’دی ڈیلی نیوز‘‘ نے ایک رائے شماری کرائی اور اس کے نتیجے میں حاصل ہونے والی آراء کو بیان کرتے ہوئے لکھا کہ برطانیہ کی آبادی کا ۹۷فیصد برطانیہ کی تہذیبی یکسانیت قائم رکھنے کے لیے برقع سمیت ان تمام روایات پر سخت پابندی عائد کردینی چاہیے جو مغرب کے لیے ناقابل قبول ہیں۔ یہ ایک سیکولر اور جمہوریت پرست ملک کے عوام کا چہرہ ہے۔
دوسری طرف کچھ عرصہ پہلے ڈچ پارلیمنٹ نے عوامی مقامات پر چہرہ ڈھانکنے والا برقع پہننے پر پابندی کے حق میںکثرت رائے سے قانون پاس کیا تھا اور یہ نیدرلینڈ کے تین شہروں میں نافذ بھی کردیا گیا۔ مگر وہاں کی میونسپل کارپوریشنز کو ایک بڑا مسئلہ درپیش تھا کہ روایتی ڈچ تہواروں اور ناچ گانوں کی مختلف تقریبات میں ملک کے شہری جو ماسک پہن کر آتے ہیں، انہیں اس قانون سے چھوٹ کیسے دی جائے؟ اور آخر کار چھوٹ دی گئی مگر اس کے ساتھ ہی یہ شرمناک سچائی بھی سامنے آگئی کہ حکومت اپنی ماسک پہننے کی روایت کو تو قائم رکھ سکتی ہے مگر مسلمانوں کے پردہ کو برداشت کرنے کی متحمل نہیں ہوسکتی۔
برطانیہ کے سابق وزیر داخلہ اور وزیر اعظم ٹونی بلیئر کے ذریعہ برقع کی مخالفت اور اس کے خلاف پیدا ہونے والے شدید نسلی جذبات کا سامنے آنا دراصل اس عالمی سطح پرپائی جانے والی اسلام دشمنی ہی کا ایک حصہ ہے جس کی سرپرستی عالمی سطح پر بش اور ٹونی بلیئر اپنی دزیت کے ساتھ انجام دے رہے ہیں۔ اس کے پیچھے نہ تو بظاہر آنے والی سماجی و معاشرتی یکسانیت کی خواہش ہے اور نہ سیکولر اقدار کے بچانے کی خواہش جسے نام نہاد ’’خطرہ‘‘ درپیش ہے بلکہ اس بات کا خوف ہے کہ دن بہ دن تیزی سے پھیلتے اس برقع کی رفتار اگر یہی رہی توہماری بیمار تہذیب کی عمر اور بھی کم ہوجائے گی۔ کیونکہ ریڈ انڈین نسل سے تعلق رکھنے والی اورعرب خواتین ہی نہیں بلکہ یوروپ کی سفید فام عورتیں بھی اب کثیر تعداد میں برقع میں نظر آتی ہیں اور ظاہر ہے یہی وہ چیز ہے جو ننگ دھڑنگ تہذیب کے دلدادہ مغرب کو برداشت نہیں اور ہر سفید فام یوروپی لڑکی کو برقع میں دیکھ کر اس کے پیٹ میں مروڑ اور اعصاب میں شدید قسم کا کھنچاؤ ہونے لگتا ہے۔
مغربی خواتین کی مجبوری یہ ہے کہ اسے ایسے دین اور ایسے طرزِ حیات کی تلاش ہے جو انہیں عزت و وقار کی زندگی عطا کرسکے اور انہیں عالمی سطح پر پھیلے اس استحصالی نظام سے بچائے جس نے عورت کے چاروں طرف مکروفریب کے مضبوط جال بن دئے ہیں۔ اور وہ اس نظام کے خلاف علم بغاوت بلند کرنے کے لیے اپنی قوت کو مجتمع کررہی ہے۔
آخر کوئی عورت خواہ مغرب کی ہو یا مشرق کی اس تہذیب و ثقافت اور طرزِ زندگی کو دیر تک کیسے جھیل سکتی ہیجو آٹھ سال کی معصوم لڑکیوں کو حاملہ بنادیتا ہو اور جہا ںکئی کئی بچوں کی غیرشادی شدہ مائیں جوانی ڈھل جانے کے بعد تنہائی میں کسمپرسی کی زندگی گزار رہی ہوں۔