موجودہ برطانیہ فوجی اور سیاسی و معاشی طاقت کے اعتبار سے تو بہت زیادہ طاقت ور ملک کی حیثیت سے باقی نہیں رہا مگر پوری مغربی دنیا میں تہذیب وثقافت کے اعتبار سے اسے امتیازی مقام حاصل ہے۔ گزشتہ صدی کے دوران برطانیہ ہی وہ ملک تھا، جس نے دنیا کے بیشتر حصہ پر حکومت کی اور مغربی تہذیب و ثقافت کو ایشیائی، اور افریقی ملکوں میں پروان چڑھایا۔ اپنے استعماری دور میں عیسائی نظریے اور تہذیب و ثقافت کو پوری دنیا میں غالب تہذیب بنانے کا سہرا برطانیہ ہی کے سر جاتا ہے۔
خواتین کی آزادی اور مساوات مردوزن کا نعرہ اگرچہ صنعتی انقلاب کی دین تھا جس میں سرمایہ دارانہ فکر کا کلیدی رول تھا مگر اسے بہ حیثیت تہذیب دنیا بھر میں روشناس کرانے کا فریضہ’’برطانیہ عظمیٰ‘‘ نے انجام دیا۔ چنانچہ دنیا بخوبی جانتی ہے کہ جمہوریت اور آزادی اور مساواتِ مرد و زن کے دور میں برطانوی سماج اور اس کے احوال و کوائف کا مطالعہ مغربی سماج اور وہاں کے حالات کی سب سے بہتر نمائندگی کرتا ہے۔ خواتین کا اس سماج میں مقام و مرتبہ، احوال و کوائف اور مسائل و مشکلات پورے مغربی سماج بلکہ مشرقی سماج کے بھی کچھ حصوں کی حقیقی نمائندگی کرتے ہیں۔
گزشتہ دنوں برطانیہ کے ایک ادارے آفس فار نیشنل اسٹیٹسکس(ONS)نے خواتین کے درمیان ایک سروے کیا۔ یہ سروے ان بارہ سو خواتین کے درمیان کیا گیا جو نوکریاں کرتی ہیں۔ واضح رہے کہ برطانیہ میں تقریباً چودھ لاکھ خاندان ایسے ہیں، جو خواتین کی کمائی پر منحصر ہیں اور مرد وہاں پر یا تو گھر میں رہ کر بچوں کی دیکھ بھال کرتے ہیں یا پارٹ ٹائم نوکری کرتے ہیں۔ ایسے خاندانوں میں لڑکیاں بیس سال کی عمر سے ہی کمانے لگتی ہیں اور شادی کے بعد بھی نوکری کا سلسلہ جاری رکھتی ہیں۔
او این ایس کے اس سروے سے درج ذیل نتائج سامنے آئے:
٭ سبھی خواتین نے اس بات کی شکایت کی کہ انھیں گھر آنے کے بعد بھی آرام و سکون نصیب نہیں ہوتا۔
٭ ہر پانچویں خاتون کا احساس تھا کہ اسے ایک نہیں دو دو نوکریاں کرنی پڑرہی ہیں۔
٭ ان خواتین کا احساس تھا کہ ان کا خاندان انھیں اہمیت نہیں دیتا۔
٭ ان کے اپنے بچے بھی ان سے گھلتے ملتے نہیں، کیونکہ وہ باپ سے زیادہ قریب ہوتے ہیں۔
٭ اکثر خواتین کا احساس تھا کہ وہ اپنے خاندان کے لیے دوہری محنت کرتی ہیں لیکن خاندان اس کا احساس ہی نہیں کرتا۔
اس سروے کے ذریعہ جو حقائق سامنے آتے ہیں، وہ ایک طرف تو حقیقی اور فطری ہیں، دوسری طرف حقیقت میں انسانی فطرت سے بغاوت یا اسے نظر انداز کرنے کے نتیجے میں پیدا ہوئے ہیں،کیونکہ سماجی، معاشرتی اور فطری نظامِ زندگی میں عورت کی بہترین جگہ گھر ہے اور اس کی اہم اور مناسب ترین ذمہ داری گھر سنبھالنا ہے۔ اور اگر وہ کسی بھی کام اور کسی بھی نام سے گھر سے باہر جاتی اور اس کے علاوہ بھی کوئی ذمہ داری کو قبول کرتی ہے تو یہ یقینا اس پر دوہرا بوجھ ہے۔ کیونکہ باہر کی ذمہ داری اسے فطری گھریلو ذمہ داریوں سے سبک دوش نہیں کرتی۔ اگر وہ آفس جاتی ہے تو یہ اضافی ذمہ داری ہے۔ بچہ اسے پیدا کرنا ہی ہے۔ اس کی دیکھ بھال اور تعلیم تربیت کی ذمہ داری فطری طور پر اسے انجام دینی ہی ہے، یہ کام مرد کر ہی نہیں سکتا۔ ایسے میں ایک کام کاجی عورت کا یہ احساس کہ وہ بیک وقت دو دو نوکریاں کررہی ہے بالکل حقیقی ہے۔ ہماری خواتین کو یہ بات سمجھنی چاہیے کہ بہ ظاہر یہ احساس بڑا خوش کون معلوم ہوتا ہے کہ عورت باہر نکل کر نوکری کرے، مگر حقیقت میں یہ ایسا بوجھ ہے جو اس کی کمر کو توڑ دیتا ہے اور زندگی کا آرام و سکون ختم کردیتا ہے۔ یہ ایک خوبصورت دھوکہ ہے، جو زندگی کا سکون و چین اور اکثر اوقات زندگی کا جذبہ اور امنگیں تک اس کی نذر ہوجاتی ہیں۔
موجودہ دور کے مادہ پرست معاشرے میں کماؤ عورت کی کیا اہمیت ہے اس کا ہمیں اندازہ ہے۔ نوکری کرنے والی لڑکی خصوصاً سرکاری نوکری کرنے والی لڑکی کو لوگ کس قدر حریصانہ نگاہوں سے دیکھتے ہیں، یہ جہیز کی روایت کے بوجھ تلے دبے ہندوستانی سماج میں بہ آسانی دیکھا جاسکتا ہے۔ ایسے میں لوگوں کی نگاہیں صرف اور صرف اس تنخواہ پر ہوتی ہیں جو وہ ہر ماہ کما کر لاتی ہے۔ اس کی شخصیت اور اس کی ذات میں لوگوں کو کم ہی دلچسپی ہوتی ہے۔ بعض خاندانوںمیں یہاں تک دیکھا گیا ہے کہ جب نوکری پیشہ عورت بیمار ہوتی ہے، تب بھی اسے کام پر جانے کو محض اس لیے کہا جاتا ہے کہ گھر پر بیٹھنے کی صورت میں اس کی تنخواہ کٹ جائے گی۔ اس سے سماج کی خود غرضی کا بخوبی اندازہ لگایا جاسکتا ہے۔ اس پوری زندگی کا سب سے زیادہ تکلیف دہ پہلو یہ ہے کہ نوکری کرنے والی عورت اپنے خاندان کو خوش حال اور پرسکون زندگی فراہم کرنے کے لیے دوہرا بوجھ ڈھوتی اور اپنے آرام و خواہشات کو قربان کرتی ہے مگر خاندان کے لوگ اس کی قربانی کو نہیں سمجھتے اس کے برخلاف وہ اسے محض ایک پیسہ کمانے والی مشین تصور کرتے ہیں۔
عورت کی زندگی کا اہم ترین پہلو بچوں کی پیدائش اور ان کی پرورش وپرداخت ہے۔ یہ ایک طرف تو ایسا فطری عمل ہے جس کو دنیا بھر کے مرد مل کر بھی انجام نہیں دے سکتے دوسری طرف یہ عورت کا فطری رجحان اور خواہش بھی ہے۔ کام کاجی خواتین کیونکہ بچے کے ساتھ رہ کر وہ خدمت انجام نہیں دے پاتیں جو بہ حیثیت ماں ضروری ہیں اور جن سے بچوں کے دل میں اپنی ماں کے لیے اٹوٹ جذبہ پیدا ہوتا ہے اس لیے بچے اپنے باپ سے ہی زیادہ مانوس ہوتے ہیں جو اس قسم کے خاندانوں میں ان کا نگراں اور مربی ہوتا ہے۔ اور یہ کام کاجی خواتین کا سب سے بڑا نقصان اور خسارہ ہے کہ محض نوکری اور اس سے ملنے والی کچھ محدود رقم کی خاطر وہ اپنے پیٹ سے پیدا کیے بچوں کی محبت سے بھی محروم ہوجاتی ہے اور یہ محرومی اس کی زندگی کا وہ درد ہوتا ہے جس کا علاج اسے کہیں نہیں مل پاتا۔
او این ایس کا یہ سروے جن حقائق کا انکشاف کرتا ہے وہ حقائق ان مشرقی خواتین کی آنکھیں کھولنے کے لیے کافی ہیں جن کے ذہنوں کو باہر نکل کر کام کرنے کے تصور اور آزادی کے مسحور کن نعرے نے فریب میں مبتلا کردیا ہے۔ اس زندگی کا صرف ایک ہی پہلو خوش کن اور حسین ہے اور وہ ہے دولت کا حصول۔ مگر بہت جلد ہی یہ حقیقت واضح ہوجاتی ہے کہ یہ دولت جس کے لیے عورت اتنی سخت قربانیاں دے رہی ہے اس کے کسی کام کی نہیں اور وہ محض دوسروں کے عیش و آرام کے لیے اپنی زندگی کو تپا رہی ہے۔ اس زندگی کا ایک نقصان تو اولاد سے محرومی کی صورت میں ملتا ہے ، دوسرا ان کے بگڑنے اور گمراہ ہوجانے کی صورت میں بھی سامنے آتا ہے۔ اس لیے کہ تحقیق بتاتی ہے کہ ایسے خاندانوں کے بچے جہاں ماں کی نگرانی اور پیار میسر نہ ہو، بچے محض آیاؤں کے تربیت میں رہتے ہوں یا تو مجرم بن جاتی ہیں یا محروم اور جرم کی عادت یا محرومی کے احساس میں پلنے والی نسلیں کسی کام کی نہیں ہوتیں۔ مجرم نسل قوم و ملک کے لیے مضر اور نقصان دہ ہوتی ہے اور محرومی کے جذبات میں پروان چڑھنے والی نسل اپنی افادیت کھوکر محض زمین پر رینگنے والی مخلوق بن کر رہ جاتی ہے۔
بہرحال برطانیہ کے اس سروے سے ہماری خواتین کو اور زیادہ اطمینان کرلینا چاہیے کہ اسلام نے ان پر گھر کی ذمہ داری ڈال کر ان پر زیادتی نہیں بلکہ احسان کیا ہے۔ اور اگر وہ اس کے خلاف سوچتی ہیں تو برطانیہ کا یہ سروے عبرت کے لیے کافی ہے۔
شمشاد حسین فلاحی