میں انگلینڈ میں تین دن سے ایک چیز کی تلاش میں تھا کہ کوئی بچہ مجھے روتا ہوا مل جائے۔ ہمارے ملک میں تو یہ حال ہے کہ جس گھر میں دو تین بچے ہوں، وہاں محلے میںرہنے والے صحیح طرح سے سو نہیں سکتے۔ لیکن انگلستان میں شاید بچوں کو رُلانے کا بھی رواج نہیں یا پھر یہ بچے روتے ہی نہیں۔ انگریزوں کے بچوں میں ایک اور خصوصیت ہے، بڑے ہوکر وہ کتنی ہی عام اور بھدی شکل کے بن جائیں لیکن بچپن میں اتنے خوب صورت ہوتے ہیں کہ آدمی کا دل کرتا ہے گود میں اٹھا کر پیار کرنے لگے۔ لیکن گود میں اٹھانے کی حسرت ہی رہتی ہے۔
ایک بس اسٹاپ پر ایک بچے کو گود میں لے کر پیار کرنے کی کوشش کی تو اس کی ماں کا موڈ ہی بدل گیا۔ بچہ اس نے فوراً واپس لے کر زمین پر کھڑا کر دیا۔ شام کو یہ مسئلہ حل کرنے کے لیے اپنے میزبان، زاہد سے پوچھا تو پتا چلا کہ یہاں گود میں بچہ اٹھانا بڑا معیوب سمجھا جاتا ہے۔ ایک تو آدمی خود بھی ہونق سا لگتا ہے۔ کمر پر بچہ لٹکائے وہ عجیب و غریب پوز کا مالک بن جاتا ہے۔ اس سلسلے میں ایک واقعہ کا ذکر دلچسپی سے خالی نہیں ہوگا۔
انگلستان میں جب بچہ پیدا ہوتا ہے تو پیدائش کے بعد اس کا سارا ریکارڈ رکھا جاتا ہے اور باقاعدگی سے اس کا میڈیکل چیک اب کیا جاتا ہے۔ ایک پاکستانی نے انگریز معالج کو بتایا کہ ڈاکٹر صاحب بچہ بہت روتا ہے۔ ڈاکٹر بہت فکر مند ہوا۔ تفتیش پر پتا چلا کہ بچے کو گود کی عادت پڑ گئی ہے۔ ڈاکٹر نے بچہ اس سے واپس لے لیا اور کہا: ’’آپ بچہ رکھنے کے اہل نہیں۔ ایک ماہ تک یہ ہسپتال کی نگرانی میں رہے گا جب تک کہ اس کی عادت نہ چھوٹ جائے۔ ‘‘
یہ واقعہ سن کر میں سوچنے لگا کہ اپنے ہاں تو الٹا رواج ہے۔ جب تک آپ بچے کو گود میں نہیں اٹھاتے، کسی کو یہ احساس نہیں ہوتا کہ پیار کیا جا رہا ہے اور پھر گود میں اٹھا اٹھا کر ہلکورے الگ دیے جاتے ہیں اور آدمی عجیب طرح لہک لہک کر ہلتا ہے۔ بچے کو غالباً اس کی عادت پڑ جاتی ہے کہ وہ ایک ساکت جگہ پر لیٹنا پسند نہیں کرتا اور ہر وقت آپ اسے گود میں نہیں اٹھا سکتے۔ بس یہی وقفہ بچے کو خوب رُلاتا ہے اور جب تک آپ اسے نہیں اٹھا لیتے، وہ چپ نہیں کرتا اور اگر آپ اسے اٹھانا بھول جائیں تو وہ ساری عمر اس کا بدلہ لیتا رہتا ہے۔lll