[گزشتہ دنوں دہلی کی ایک NGO کے ذریعے چلائے جارہے اولڈ ایج ہوم کی میز ایگری منٹ کی مدت ختم ہوجانے اور تجدید نہ ہوپانے کے سبب اس کے مکین سڑک پر رہنے پر مجبور ہوگئے۔ انہوں نے کئی راتیں کھلے آسمان کے نیچے گزاریں اور اپنے ساتھیوں کو مرتے ہوئے دیکھا۔ اس کی خبریں دہلی کے اخبارات کی بھی زینت بنیں۔ اس تناظر میں اسلام کا نظریہ پڑھئے]
اس وقت دنیا میںتقریباً 80کروڑ بوڑھے مرد و زن آباد ہیں۔ 2050ء تک ان کی تعداد دو ارب تک جا پہنچے گی۔ تب انسانی تاریخ میں پہلی بار کرہ ارض پر بچوں (1 تا 14برس) سے زیادہ بوڑھے بس رہے ہوں گے۔ تمام ممالک کی حکومتیں ترقی پذیر ہوں یا ترقی یافتہ، عمر رسیدہ مردوں عورتوں کے مسائل حل کرنے کی خاطر اقدامات کر رہی ہیں۔ لیکن عمل میں وہ تقریباً صفر ہیں۔ اس کی بنیادی وجہ ان معاشروں کا وہ نظریہ ہے جو وہ بزرگوں اور بوڑھوں کے لیے رکھتے ہیں۔
مغرب کے برعکس اسلامی معاشرے میں بوڑھوں کی عزت و تکریم ہے۔ خصوصاً اولاد بوڑھے والدین کی نگہداشت کرتی ہے۔ بالعموم پورے معاشرے میں ضعیف العمر افراد کی تعظیم کی جاتی ہے۔ اس کی وجہ رسول کریمؐکی عظیم تعلیمات اور قول و عمل ہے۔ درحقیقت آپؐ ہی نے عمر رسیدہ انسانوں کی دیکھ بھال کرنے والے عمل کی بنیاد رکھی۔آپؐ نے مسلمانوں کو سکھایا اور حکم دیا کہ رنگ، نسل اورجنس سے بالاتر ہو کر سبھی بوڑھے مرد و زن کی نگہداشت و حفاظت کریں۔ آپﷺ نے محض ہدایات ہی نہ دیں بلکہ اپنے عمل سے بھی مسلمانوں کو درست راہ دکھائی۔
نوجوانوں کی ذمے داری
حضرت انسؓ بن مالک سے روایت ہے: نبی کریمؐ نے فرمایا ’’جو نوجوان بڑھاپے کی وجہ سے ایک عمر رسیدہ کا اعزاز و اکرام کرے، اللہ تعالیٰ اس کے بڑھاپے میں بھی ایسا شخص مقرر فرمائیں گے جو اس کی عزت و تکریم کرے گا۔ (ترمذی شریف)
اس حدیث میں رسول اللہﷺ نے نوجوانوں پر زور دیا ہے کہ وہ بوڑھوں کی عزت و خدمت کریں تاکہ جب وہ بوڑھے ہوں، تو ان کے ساتھ بھی ایسا ہی سلوک ہو۔ ایک اسلامی معاشرے میں اس ہدایت پر صدق دل سے عمل کیا جائے، تو نہ صرف نئی اور بوڑھی نسلوں کے مابین فاصلے کم ہوتے ہیں بلکہ ان کے درمیان محبت اور ہم آہنگی جنم لیتی ہے۔
درج بالا حدیث میں ایک اور اہم نصیحت بھی موجود ہے۔ یہ کہ نوجوان رنگ، نسل، ذات پات وغیرہ سے ماورا ہو کر ہر بوڑھے کا خیال کریں اور اگر اسے مدد کی ضرورت ہو، تو وہ بھی خندہ پیشانی سے فراہم کریں۔ ایک اور حدیث میں نبی کریمؐ نے ہدایت فرمائی کہ سبھی انسانوں کے ساتھ رحم و کرم کا طرز عمل اختیار کیا جائے۔
تمام انسانوں کے لیے رحم دلی
حضرت انس بن مالکؓ سے روایت ہے، آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ’’اللہ کی قسم جس کے ہاتھوں میں میری جان ہے وہ اسی پر رحم فرماتا ہے جو دوسرے پر رحم کرتا ہے۔‘‘
یہ سن کر قریب بیٹھے صحابہ کرامؓ گویا ہوئے ’’یا رسول اللہ! ہم سب دوسروں پر رحم کرتے ہیں۔‘‘
آپؐ نے فرمایا ’’تم سب ایک دوسرے پر ہی نہیں بلکہ تمام انسانوں کے ساتھ رحم دلی کا برتائو کرو۔‘‘ (مسند ابویعلی)
ضعیف العمر افراد کی فضیلت رسول اللہﷺ نے ایک اور حدیث میں بھی بیان فرمائی ہے۔ حضرت ابو موسیٰ اشعریؓ سے روایت ہے، آپؐ نے فرمایا ’’جو مسلمان سفید ڈاڑھی والے کا احترام نہیں کرتا وہ اللہ کی تعظیم بھی نہیں کر سکتا۔‘‘
آنحضورؐ نے مسلمانوں کو تلقین فرمائی ہے کہ وہ بوڑھوں کے تمام مسائل کا خیال رکھیں۔ مثلاً بیماری میں علاج کرائیں، نفسیاتی بیماریاں دور کریں، مالی امدادکریںاور ان کی ہر ممکن مدد کریں۔
ایک اور حدیث میں رسول اللہﷺ نے ان مسلمانوں کو مسلم معاشرے میں شامل نہیں کیا جو ضعیف العمر مرد و زن کا خیال نہیں رکھتے۔ ارشاد نبویؐ ہے ’’وہ ہم میں سے نہیں جو بچوں پر رحم نہ کرے اور بوڑھوں کو عزت و احترام نہ دے۔‘‘ (مسند احمد، ترمذی)
احادیث میں احکام
حضرت ابو ہریرہؓ سے روایت ہے، آپؐ نے فرمایا ’’نوجوان کو چاہیے کہ وہ ضعیف العمرکو سلام کرے۔ راہ چلتا مسلمان بیٹھے ہوئے اور چھوٹا بڑے کو سلام کرے۔‘‘
اس حدیث میں رسول اللہﷺ نے آداب مجلس بیان فرمائے ہیں جن کا مظاہرہ آپؐ عملی طور پر فرماتے تھے اور سب سے پہلے آپ نے بوڑھوں کی عزت کرنا سکھائی۔ لہٰذا نوجوان نسل کو چاہیے کہ وہ نہ صرف ضعیف العمروں کو سلام کرے بلکہ ان سے نرمی سے بھی پیش آئے، حال احوال پوچھے اور سہارا بنے۔
نبی کریمؐ نے مسلمانوں کو حکم دیا ہے کہ وہ تمام روزمرہ معاملات میں بوڑھوں کو اوّلیت اور عزت دیں۔ مسند ابو یعلی میں حدیث ہے: ’’جب محفل میں لوگوں کو پانی پلایا یا کھانا کھلایا جائے، تو آغاز ضعیف العمر افراد سے کرو۔‘‘ اسی طرح ایک اور حدیث میں آیا ہے: ’’جبرئیلؑ نے مجھ تک اللہ کا یہ پیغام پہنچایا ہے کہ بوڑھوں کو ہر کام میں اوّلیت دو۔‘‘
صحیح بخاری میں درج ہے کہ ایک بار حضرت مسعودؓ بن کعب کے دو صاحب زادے اور حضرت عبدالرحمن بن سہلؓ کسی مسئلے پر بات کرنے کی خاطر رسول اللہﷺ کی خدمت میں حاضر ہوئے۔ حضرت عبدالرحمنؓ عمر میں سب سے چھوٹے تھے، لیکن جوشِ جوانی میں پہلے باتیں کرنے لگے۔ یہ دیکھ کر نبی کریمؐ نے فرمایا: ’’تمھارے ساتھ بڑے بھی ہیں۔ جو سب سے عمر رسیدہ ہے پہلے اس کو کلام کرنا چاہیے۔‘‘
دراصل رسول اللہؐ ان لوگوں کے ساتھ نرمی سے پیش آتے اور انھیں آسانیاں فراہم فرماتے تھے جو معذور، ضعیف العمر یا کسی بھی مسئلے میں گرفتار ہوتے۔
لوگوں کو امتحان میں مت ڈالو
بخاری میں ہے کہ ایک بار حضرت معاذؓ نے نماز میں امامت کی اور اسے خاصا طویل کر دیا۔ جب آپؐ کو طوالت کا علم ہوا، تو آپؐ نے حضرت معاذؓ سے فرمایا: ’’اے معاذؓ! لوگوں کو امتحان میں مت ڈالو۔ نماز میں چھوٹی سورتیں پڑھا کرو کیونکہ نمازیوں میں ضعیف، کمزور اور حاجت مند بھی شامل ہوتے ہیں۔‘‘
مزید برآں اسلام میں معمر مرد و زن کو حج بدل کرانے کی اجازت ہے۔ صحیح مسلم میں روایت ہے، قبیلہ خشم سے تعلق رکھنے والی ایک خاتون نبی کریمؐ کے پاس آئی اور پوچھا ’’یا رسول اللہﷺ! میرے والد بوڑھے اور کمزور ہیں۔ کیا میں ان کی جگہ حج کر سکتی ہوں؟‘‘
آپﷺ نے فرمایا ’’ہاں، تم کر سکتی ہو۔‘‘
سیرت نبویؐ کا مطالعہ کیا جائے، تو ہم پر واضح ہوتا ہے کہ نبی کریمؐ شفقت سے ایک کافر بزرگ کی باتیں سنتے تھے۔
آنحضورﷺ نے جب مکہ مکرمہ میں تبلیغ کا آغاز فرمایا، تو سرداران قریش آپ کے خلاف ہو گئے۔ ان میں قبیلہ عبدہ شمس کا سردار عتبہ بن ربیعہ بھی شامل تھا۔ایک دن عتبہ آپؐ کے پاس آیا اور تضحیک آمیز لہجے میں بولنے لگا۔ لیکن آپؐ اس کی بزرگی کا خیال کرتے ہوئے خاموش رہے۔
جب عتبہ نے آپؐ کو پرسکون دیکھا، تو اس نے بھی انداز گفتگو میں نرمی اختیار کر لی۔ عتبہ نے پھر آپؐ کو مال و دولت، حسن اور اقتدار کی ترغیب کے جال میں پھانسنا چاہا، لیکن ناکام رہا۔ آپؐ نے سورہ فْصِلّت کی تلاوت فرما کر اس کی باتوں کا سارا سحر زائل کر دیا۔ مگر آپ آخر تک اس کے ساتھ عزت و احترام کے ساتھ پیش آئے۔
بزرگوں کے احترام کا ایک اور واقعہ قابل ذکر ہے۔ سیرت ابن ہشام میں درج ہے کہ جنگ بدر میں مسلمانوں نے سردار قریش ابو سفیان کے بیٹے عمرو کو گرفتار کر لیا۔ ابو سفیان ہرجانہ دے کر اسے رہا کرا سکتا تھا، مگر اس نے انکار کر دیا۔
کچھ عرصے بعد مدینہ سے ایک بزرگ صحابی حضرت سعدؓ بن نعمان عمرہ کرنے مکہ مکرمہ گئے۔ گو سیاسی حالات پریشان کن تھے، مگر انھیں یقین تھا کہ مکے والے خانہ کعبہ آنے پر ان کو کچھ نہیں کہیں گے، لیکن مکہ میں ابوسفیان نے حضرت سعدؓ کو گرفتار کر لیا۔
ابو سفیان نے پھر مدینہ منورہ پیغام بھجوایا کہ حضرت سعدؓ کو اسی وقت آزاد کیا جائے گا جب اس کا بیٹا واپس آئے گا۔ تب حضرت سعدؓ کے قبیلے والے رسول اللہؐ کے پاس پہنچے۔ انھوں نے آپؐ سے درخواست کی کہ عمرو بن ابو سفیان کو آزاد کر دیا جائے تاکہ مکہ مکرمہ سے حضرت سعدؓ بن نعمان واپس آسکیں۔ نبی کریمؐ نے معمر حضرت سعدؓ سے اظہار ہمدردی کرتے ہوئے عمرو کو ہرجانہ لیے بغیر رہا کر دیا۔ حضرت سعدؓ بخیروعافیت مدینہ منورہ پلٹ آئے۔
یہ قدرتی عمل ہے کہ ضعیف لوگ ذہنی و جسمانی طور پر کمزور ہو جاتے ہیں، اس لیے اسلامی تعلیم ہے کہ ان سے شفقت اور ہمدردی کا سلوک کیا جائے۔ ابن کثیر سیرت نبوی میں مرقوم ہے کہ رمضان 8ہجری (جنوری 630ء) میں مکہ فتح ہوا۔ تب رسول کریمؐ نے فاتحانہ حرم میں قدم رنجہ فرمایا۔
اس موقع پر حضرت ابو بکر صدیقؓ اپنے والد ابو قحافہ کو لے کر حاضر ہوئے۔ حضرت ابو قحافہ اسلام قبول کرنا چاہتے تھے۔ تب ان کی عمر 90سال بتائی جاتی ہے۔ چونکہ وہ بمشکل چل پا رہے تھے،اس لیے آپؐ نے حضرت ابو بکر صدیقؓ سے فرمایا: ’’آپ انھیں گھر پر ہی رہنے دیتے۔ میں ان کے پاس چلا جاتا۔‘‘
یہ سن کر خلیفہ اوّل نے فرمایا ’’یارسول اللہ! بہتر یہی تھا کہ میرے والد آپؐ کے پاس آتے نہ کہ آپ ان کے پاس تشریف لے جاتے۔‘‘ تب رسول کریمؐ نے حضرت ابوقحافہ کو اپنے ساتھ بٹھایا اور ان کا اکرام کیا۔ تب ہی وہ اسلام بھی لے آئے۔ اسی وقت رسول اللہؐ نے دیکھا کہ حضرت ابو قحافہؓ کے بال سفید ہیں۔ آپؐ نے حضرت ابو بکر صدیقؓ کو تلقین فرمائی کہ ان کے بال مہندی سے رنگ دیے جائیں۔
درج بالا عملی مظاہروں سے عیاں ہے کہ رسول مقبولؓ ضعیف العمرمرد و زن سے نرمی، رحم اور عزت والا معاملہ فرماتے تھے۔آپؓ کی عظیم سنت ہی کے باعث اسلامی معاشروں میں بوڑھوں کا اکرام کیا جانے لگا اور انھوںنے معاشرے میں بلند درجہ پایا۔ بحیثیت مسلمان ہمارا فرض ہے کہ اس سنت کو نہ صرف زندہ رکھیں بلکہ اسے مزید توانا اور راسخ بنائیں اور جو کمزوریاں اہل مغرب کو دیکھ کر یا اپنی معاشرت میں کمزوری اور کوتاہی کے باعث در آئی ہیں اْن پر قابو پایا جائے اور ضعیفوں کی تکریم میں کوئی کمی نہ آنے دی جائے، چاہے وہ اپنے ہوں یا پرائے۔
ایک اہم بات کی وضاحت ضروری ہے کہ یہ سب ہدایات عام بزرگوں کے سلسلہ میں ہیں جب کہ والدین کے سلسلہ میں اس سے کہیں زیادہ اہم ہدایات قرآن کریم میں بھی ہیں اور احادیث میں بھی۔
یہ بات بھی قارئین پر واضح ہے کہ اگر نوجوان بوڑھے والدین کے سلسلے میں قرآن و حدیث کی رہنمائی کو اپنا شیوہ بنائیں تو ان کا بڑھاپا مغربی سماج کے برعکس بڑے آرام اور احترام کا ہوگا۔ ضرورت اسلامی تعلیمات کو جاننے اور ان پر عمل کرنے کی ہے۔lll