بزرگ ہمارے معاشرے کا وہ ستون ہیں جو نئی نسل کو پال پوس کر بڑا کرتے ہیں اور انھیں علم اور سچائی کا راستہ دکھاتے ہیں، جو کچھ انھوںنے اپنے بڑوں سے سیکھا وہ نئی نسل تک منتقل کرتے ہیں۔ کہا یہ جاتا ہے کہ ایک لڑکی کو تعلیم کی دولت سے آراستہ کردیا تو سمجھ لیں کہ آنے والی نسلوں کو تعلیم کے زیور سے آراستہ کردیا۔ والدین اپنی اولاد کی خوشی کے لیے خود مشکل سہہ لیتے ہیں۔ کم آمدنی کے باوجود کوشش یہی ہوتی ہے کہ وہ اولاد کو اچھا کھلائیں پلائیں، تعلیم کے زیور سے آراستہ کریں، اپنی اولاد کو اس قابل بنادیں کہ وہ سربلند کرکے زندگی گزار سکے اور اسی جدوجہد میں والدین بڑھاپے کی دہلیز پر پہنچ جاتے ہیں۔ اپنا سب کچھ خرچ کرکے اولاد کی خواہشوں کو پورا کرنے میں خوش تھے، یہ سوچے بغیر کہ بڑھاپے میں ان کا کیا ہوگا! جب بڑھاپا آتا ہے تو وہ خالی ہاتھ ہوتے ہیں، اس امید پر کہ جس طرح انھوں نے اپنی خواہشوں کا گلا گھونٹ کر اولاد کی خواہشوں کو اہمیت دی ہے، بڑھاپے میں یہی اولاد ان کو بھی اسی طرح اہمیت دے گی اور ان کی ضرورتوں کا خیال رکھے گی۔ مگر جن گھرانوں میں اولاد اپنے والدین کا خیال رکھتی ہے ان کی تعداد کم ہوتی جارہی ہے۔ آج کل بے شک آمدنی کے مقابلے میں اخراجات زیادہ ہیں اور پھر بے روزگاری بھی عروج پر ہے۔ ایسے میں لڑکے اپنے بیوی بچوں میں مگن ہوکر والدین کو اپنی ذمہ داری ہی نہیں سمجھتے۔ وہ اور ان کے بیوی بچے… بس یہی ان کی زندگی کا محور بن جاتے ہیں … اور والدین جو اپنی جوانی، اپنی آمدنی ان پر لٹا چکے ہوتے ہیں، تہی دست رہ جاتے ہیں۔ بڑھتی عمر کے ساتھ بیماریاں بھی بڑھتی جاتی ہیں اور والدین کے لیے اپنی دوا کا حصول بھی مشکل ہوجاتا ہے۔ وہ والدین جو جوانی میںایک چھینک پر اپنی اولاد کو ڈاکٹر کے پاس دوڑے لیے چلے جاتے تھے، اپنی بڑی بڑی بیماریوں میں دوا سے بھی محروم رہ جاتے ہیں۔
کچھ بیماریاں ایسی ہیں کہ جن میں کھانے سے زیادہ دوا ضروری ہے۔ جیسے شوگر، بلڈ پریشر۔ اس میں مستقل دیکھ بھال بھی ضروری ہے ۔ پرہیز بھی اس بیماری کا ایک حصہ ہے۔ لیکن ایسی حالت میں بوڑھے والدین بوجھ سمجھے جانے لگتے ہیں۔ اگر ہائی بلڈ پریشر کی دوا نہ لی جائے تو فالج ہوسکتا ہے۔ شوگر کی ٹھیک طرح دیکھ بھال نہ کی جائے تو گردے متاثر ہوسکتے ہیں۔ بیمار والدین بھی خود کو بوجھ سمجھتے ہوئے شرمندہ رہتے ہیں کہ اولاد اتناپیسہ کہاں سے لائے گی۔ والدین کا بڑھاپا اولاد کے لیے آخرت میں نجات کا باعث بن سکتا ہے۔ ایک حدیث کا مفہوم ہے: ’’والدین کو مسکرا کر دیکھنے کا ثواب حج کے برابر ہے۔‘‘ یہ کتنا آسان کام ہے۔ بزرگوں کی موجودگی خود ہی اللہ کی رحمت ہوتی ہے۔ آپ کے لیے دعا کو ہاتھ اٹھتے ہیں۔ وہ گھرانے خوش نصیب ہیں جہاں بزرگ موجود ہیں۔ یہ تو زندگی کا نظام ہے کہ آج آپ اپنے بزرگوں کی دیکھ بھال کریں گے تو کل آپ کی اولاد آپ کے لیے کھڑی ہوگی۔ جی ہاں! یقین مانیے اگر آج آپ نے بزرگوں کا احساس نہیں کیا تو وہ وقت دور نہیں جب آپ کی اولاد آپ کو بوجھ سمجھ کر آپ سے جان چھڑانے کی کوشش کرے گی۔
دنیا بے شک تیز رفتار ہوگئی ہے، وقت سکڑتا جارہا ہے۔ لیکن کچھ وقت اپنے والدین کے لیے بھی نکالیں۔ آپ ان کے پاس آکر بیٹھیں، ان کی بیماری، دکھ سکھ میں برابر کے شریک ہوں۔ اپنوں کی موجودگی میں بیماری کی سختی بھی کم ہوجاتی ہے۔ شروع سے ان کی دیکھ بھال اپنے اوپر لازم کرلیں تاکہ ان کی صحت برقرار رہے۔
کتنے بدقسمت ہیں وہ لوگ جن کے ماںباپ یا دونوں میں سے ایک موجود ہے، لیکن وہ اپنے لیے جنت میں محل نہیں بنا پائے۔ یہ بزرگ کل آپ کے لیے سایہ تھے، آج آپ کی اولاد کے لیے بہترین تربیت گاہ ہیں۔ وہ گھر ہمیشہ پھلتے پھولتے دیکھے گئے ہیں جہاں بزرگوں کا احترام ہوتا ہے۔ ایک ایسے صاحب سے ملنا ہوا جو خیر سے ستر برس کے ہوں گے لیکن بہت اداس تھے، کہہ رہے تھے کہ میں انجینئر تھا، بہت کمایا لیکن سارا پیسہ اولاد پر خرچ کردیا، آج اسی اولاد کو میری ضرورتوں کے لیے پیسہ دینا ناگوار ہوتا ہے۔ ایک اور صاحب کہہ رہے تھے کہ بہو کھانے کو بھی نہیں پوچھتی۔ تو یہ فرض تو بیٹے کا ہے، اس کو باپ کا خیال کرنا چاہیے۔ میری نانی میرے نانا کے متعلق بتاتی تھیں کہ جب وہ کھانے بیٹھتے تھے تو امی اپنی ساس کو کھانا کھلا چکی ہوتی تھیں لیکن ہر نوالے پر وہ اپنی اماں سے پوچھتے رہتے تھے کہ اماں یہ چکھ لو، اماں ایک نوالہ کھالو۔ اور یہ دیکھتے ہوئے بہو کی ہمت کبھی نہ ہوئی کہ ساس کے کھانے پینے میں لاپروائی برتیں۔ جن کے والدین حیات ہیں وہ کتنے خوش قسمت ہیں۔
——