درد کی شدت سے آپؐ کا جسم بے چین تھا اور زبان سے الفاظ ادا ہو رہے تھے
’’نماز اور تمھارے زیرِ دست‘‘
بعثت رسولﷺدنیا میں پیش آنے والے شب و روز کے واقعات کی طرح کوئی عام اور معمولی واقعہ نہیں بلکہ یہ تاریخ اِنسانی کا ایک انقلاب خیز اور فیصلہ کن مرحلہ ہوتا ہے، کیوں کہ رسول بندوں کے درمیان خدا کا فیصلہ اور فرقان بن کر آتا ہے۔ وہ نیک کو بد سے، محسن کو مجرم سے، طیب کو خبیث سے اور وفا شعار کو باغی سے الگ چھانٹنے اور ممتاز کرنے آتا ہے، وہ اپنے مخاطب اِنسانوں کو لازماً دو گروہوں میں تقسیم کرنے اور دونوں کے درمیان ایک مستقل کشاکش برپا کرانے ا?تا ہے…
اس کی رسالت کو تسلیم کرکے اس کی پیروی کرنے والے خدا کے پسندیدہ اور محبوب قرار پاتے ہیں اور اس کی تکذیب کرکے مخالف کیمپ میں رہنے والے خدا کے معتوب ٹھہرتے ہیں، رسولؐ کی آمد کے بعد صرف دو ہی صورتیں ہوتی ہیں اور ہوسکتی ہیں، تیسری صورت ممکن نہیں یا اس کے مخاطب حزب اللہ کے افراد ہوں گے یا حزب الشیطان کے۔
تقریباً چودہ صدی پہلے خداکے آخری رسولﷺ اور عالم انسانیت کے راہنما اس دنیائے ہست و بود میں تشریف لائے، تو قرآن نے ایک تنبیہی اعلان کیا:
’’تمھارے پاس رسول آگئے جو تم میں سے ہیں۔‘‘
یہ سورہ توبہ کی آیت کا ایک مختصر سا فقرہ ہے۔ سورہ توبہ مدنی دور کی آخری سورتوں میں سے ہے، اس فقرے کے مخاطب مکے اور مدینے کے وہ سارے ہی لوگ ہیں جن کے درمیان آپ پچھلے بیس بائیس سال سے دعوت و تبلیغ کا کام کر رہے تھے، اس کے مخاطب، یہود و نصاریٰ بھی ہیں، مشرکین، منافقین بھی ہیں اور مومنین بھی۔
اس فقرہ میں بیک وقت نہایت بلیغ انداز میں ترغیب و تشویق بھی ہے اور انذار و تنبیہہ بھی۔ ’’رسول آگئے‘‘ یعنی جس ہستی کا تمھیں نہایت اشتیاق کے ساتھ انتظار تھا، جس کی اطلاع تمھیں تورات میں دی گئی، جن کی بشارت تمھیں عیسیٰؑ نے دی تھی اور جن کا ذکرِ خیر تم اپنے بزرگوں سے سنتے چلے آئے تھے، وہ دعائے خلیل اور نوید مسیحا رسول کریمؐ تشریف لے آئے۔
سوچو! تمھارے شوق انتظار، دعائے خلیل، نوید مسیحا کا تقاضا کیا ہے اور اس مقدس رسول کا جس کے تم منتظر تھے تمھیں کس شان سے استقبال کرنا ہے، یہ تو تشویق و ترغیب کا پہلو ہے، دوسرا پہلو انذار اور تنبیہہ کا ہے، ’’رسول آگئے‘‘ یعنی یہ کسی عام انسان کی آمد نہیں ہے بلکہ خدا کے رسول کی بعثت ہے، رسول تمھارے درمیان فرقان بن کر آئے ہیں، وہ لازماً طیب کو خبیث سے اور نیک کو بد سے چھانٹ کر الگ کرنے آئے ہیں، مہلت کی گھڑی ختم ہوگئی، عذر کا دور بیت گیا، حق اور باطل نکھر کر سامنے آگیا۔
اب تو لازماً کسی ایک ہی گروہ کے ساتھ ہونا ہے، اگر تم نے محمد کی رسالت کو تسلیم کرکے ان کی پیروی کی روش اختیار نہ کی تو تم لازماً رسول کے مخالف کیمپ میں ہو اور حق سے تمھارا رشتہ ختم ہوچکا ہے۔
رسولؐکی آمد و بعثت کے بعد اب تمھاری فلاح یا خسران اور نجات یا تباہی وابستہ ہے صرف اس بات سے کہ تم محمدؐکی دعوت کا کیا جواب دیتے ہو اور محمدؐکے تئیں تمھارا رویہ کیا رہتا ہے۔ آج بھی یہ فقرہ اپنی پوری تنبیہی شان کے ساتھ روئے زمین کے تمام انسانوں سے مخاطب ہے، خواہ وہ کسی نسل، کسی قوم، کسی رنگ اور کسی وطن کے ہوں اور کوئی بھی زبان بولتے ہوں، کہ اللہ کے رسول آچکے، اپنا پیغام دنیا کے سامنے پیش کر چکے، اب نہ رہتی زندگی تک کوئی دوسرا رسول آئے گا کہ آپ خاتم النبیین ہیں اور نہ کسی دوسرے رسول کی ضرورت ہے کہ آپ تمام انسانوں کی طرف مبعوث کیے گئے ہیں اور آپ کی سیرت و سنت محفوظ ہے۔lll