بعد ِطلاق :قرآنی احکام

شمشاد حسین فلاحی

گذشتہ شماروں میں طلاق کے سلسلے میں بیداری کی خاطر ہم نے لکھا تھا کہ قران مجید کا بنیادی منشا یہ ہے کہ زوجین نباہ کی ہر ممکن کوشش کریں اور اس سلسلے میں اگر ضرورت محسوس ہو تو اہل خاندان اور معاشرے کے ہوش مند اور ذمہ دار افراد بھی ان کی مدد کریں اور اگر یہ کوشش ناکام ہوجاتی ہے اور طلاق ہی حل نظر آتی ہے تو پھر قرآنی طریقے کے مطابق بتائے گئے وقت میں صرف ایک طلاق دی جائے۔ اس ایک طلاق کی صورت میں اب بھی رجوع اور ازدواجی زندگی کی امید اور امکان باقی رہتا ہے کیوں کہ دین علیحدگی سے زیادہ نباہ اور رشتے کو بنائے رکھنے کو ترجیح دیتا ہے۔ لیکن پھر بھی اگر ممکن نہ ہوسکے اور طلاق ہو ہی جائے تو قرآن کا مقصود اور اس کی ہدایات یہ ہیں کہ یہ علیحدگی اچھے اور خوش گوار انداز میں انجام پائے اور فریقین میں سے کسی کو بھی ضرر یا نقصان پہنچنے سے بچا جائے۔ چناں چہ اسلام اور قرآن ما بعد طلاق کے مراحل میں بھی واضح رہ نمائی اور ہدایت دیتا ہے۔ واضح رہے کہ ان تمام مراحل میں قرآن جس چیز کی بار بار تلقین کرتا ہے وہ ہے اللہ کا ڈر اور اس کا تقویٰ اختیار کرنا۔ اور یہاں علیحدگی کے بعد کے مرحلے میں پیش آمدہ حالات میں بھی قرآن یہی ہدایت کرتا ہے کہ لوگ اللہ کا تقویٰ اختیار کریں اور ایک دوسرے پر زیادتی اور ایک دوسرے کا حق مارنے سے بچیں۔

سورہ طلاق کی آیت ۲میں جہاں یہ بات کہی گئی ہے کہ عدت مکمل ہونے کے بعد یا تو انہیں بھلے طریقے سے ساتھ رکھ لیا جائے یا بھلے طریقے سے الگ کر دیا جائے وہیں یہ بات بھی کہی گئی ہے کہ:

’’جو اللہ کا تقویٰ اختیار کرتا ہے اس کے لیے اللہ تعالیٰ راستے بنا دیتا ہے اور اس کو ایسی ایسی جگہوں سے رزق دیتا ہے جہاں کا اس کو گمان بھی نہیں ہوتا۔‘‘

اس کے بعد کی آیات میں حاملہ اور غیر حاملہ کی عدت کی مدت بیان کرنے کے بعد فرمایا گیا کہ:

’’جو اللہ کا تقویٰ اختیا رکرتا ہے اللہ تعالیٰ اس کے لیے اپنی جانب سے آسانیاں پیدا کر دیتا ہے۔‘‘

قرآن اس بات کی تاکید کرتا ہے کہ عورت عدت کی یہ مدت شوہر کے گھر پر ہی اسی کی کفالت میں اور خرچ پر گزارے گی اور اس بات کی ضمانت دیتا ہے کہ اس دوران اسے نہ تو کوئی ضرر پہنچایا جائے گا اور نہ ہی انتقامی جذبے کے تحت اس کی زندگی کو تنگ کیا جائے گا۔ اس کو وہی رہائش اور معیارِ زندگی فراہم کیا جائے گا جس میں تم رہتے ہو اور کوئی تفریق نہ ہوگی۔

زوجین کے درمیان علیحدگی کی صورت میں سب سے پہلا مسئلہ بچوں کا پیدا ہوتا ہے کہ ان کا کیا ہوگا۔ قرآن اصولی طور پر بچوں کی کفالت اور پرورش کا ذمہ دار بھی مرد کو ہی بناتا ہے اور اسی کی ذمہ داری ہے کہ وہ بچوں کے جملہ معاملات اور امور کا انجام دے اور ایسا اس لیے ہے کہ عورت جب دوسری شادی کرے تو بچے اس کی خوشگوار ازدواجی زندگی میں کسی قسم کی دشواری کا سبب نہ ہوں۔

چھوٹے بچوں یا دودھ پیتے بچوں کے سلسلے میں علیحدگی کی صورت میں قرآن واضح رہنمائی کرتا ہے کہ اگر مرد چاہے تو وہ پرورش کی خاطر یا دودھ پلانے کی خاطر انہیں ان کی ماں کے حوالے کر سکتا ہے مگر اس صورت میں مرد اس بات کا مکلف ہوگا کہ بچے کی ماں کے کھانے پینے اور اوڑھنے پہننے کا خرچ فراہم کرے۔

سورہ البقرۃ آیت نمبر ۲۳۲ میں فرمایا گیا:

اور مائیں اپنے بچوں کو پورے دو سال دودھ پلائیں۔ اس صورت میں بچے کے باپ کو انہیں معروف طریقے سے کھانا کپڑا دینا ہوگا۔ مگر کسی پر اس کی وسعت سے بڑھ کر بار نہ ڈالا جائے گا۔ نہ تو ماں کو اس وجہ سے تکلیف میں ڈالا جائے گا اور نہ باپ کو ہی اس کی وجہ سے تنگ کیا جائے گا۔‘‘

جب کہ سورہ طلاق کی آیت میں فرمایا گیا کہ

’’آپس میں معروف کا معاملہ کرو اور اگر تنگ دستی ہو تو کوئی دوسری عورت دودھ پلائے۔‘‘

قرآن کے ذریعے دی گئی ہدایات سے یہ بات واضح ہو جاتی ہے کہ بچے کی وجہ سے نہ تو عورت کا استحصال کیا جانا چاہیے اور نہ اس کو بہانا بنا کر عورت کی جانب سے مرد کا استحصال ہو۔ مطلب صاف ہے کہ معاملات معروف طریقے سے اور اللہ سے ڈرتے ہوئے کیے جائیں اور اس میں بھی معاشرے کے باشعور لوگ موجود ہوں۔ قرآن یہاں پر بھی اہل معاملہ کو فیاضی، تقویٰ اور حسن معاملہ کی لاَ تَنْسَوُا الْفَضْلَ بَیْنَکُمْ کہہ کر تاکید کرتا ہے۔

علیحدگی کی صورت میں دوسرا اہم مسئلہ مال اور جائداد کا آتا ہے۔ قرآن اس سلسلے میں بھی واضح ہدایت اور رہ نمائی دیتا ہے۔ سورہ نساء کی آیت ۲۰ میں ارشادِ ربانی ہے:

’’اور اگر تم ایک بیوی کی جگہ دوسری بیوی لانے کا ارادہ ہی کرلو (یعنی طلاق ہو ہی جائے) تو پہلی بیوی کو خواہ تم ے ڈھیر سارا مال ہی کیوں نہ دے دیا ہو، اس میں سے کچھ بھی واپس نہ لو۔‘‘

اور اگر کوئی ایسا کرتا ہے تو قرآن نے اسے بہتان اور اثم مبین بتایا ہے۔ اس سے آگے بڑھ کر اللہ تعالیٰ اہل ایمان کو ایسی صورت میں حکم دیتا ہے کہ

’’اور جن خواتین کو طلاق دی گئی ہے انہیں مناسب طریقے سے کچھ مال دے کر رخصت کیا جائے اور یہ حق ہے متقی لوگوں پر۔‘‘ (البقرۃ:۲۴۱)

اس پوری بحث سے جو بات کھل کر ہمارے سامنے آتی ہے وہ یہ ہے کہ طلاق ایک انتہائی سنجیدہ معاشرتی مسئلہ ہے اور اسے یوں ہی انجام نہیں دیا جانا چاہیے بلکہ بہت سوچ سمجھ کر اور نباہنے کے تمام امکانات کو بروئے کار لاکر ہی انجام دیا جائے۔ اسی طرح یہ بات بھی واضح ہوتی ہے کہ اس پورے پروسس میں فریقین اللہ کے خوف اور تقویٰ کی اسپرٹ کے ساتھ کام کریں۔ نہ تو مرد انتقامی جذبے سے مغلوب ہو اور نہ ہی عورت۔ کسی طرح کسی بھی صورت میں کسی بھی فریق کا استحصال نہ ہو۔ قرآن کی ہدایات سے یہ بات بھی واضح ہوجاتی ہے کہ بچوں اور مال و جائداد کے سلسلے میں بھی کسی فریق پر نہ تو زیادتی ہونی چاہیے اور نہ کسی کو اس کے حق سے محروم کیا جانا چاہیے۔

مسلم معاشرے کا المیہ یہ ہے کہ جہاں پوری عملی زندگی میں وہ قرآنی ہدایات کے علم اور اس پر عمل سے خالی ہے وہیں اس طلاق کے سلسلے میں بھی قرآنی ہدایات سے بالکل دور ہے۔ یہی وجہ ہے کہ معاملات کو تقویٰ کی اسپرٹ سے خالی رہ کر انجام دیا جاتا ہے اور ایک دوسرے کا حق مارنے کی کوشش انتقامی جذبے کے تحت کی جاتی ہے۔ جب ایسا ہوتا ہے تو لوگ عدالتوں سے انصاف طلب کرتے ہیں جہاں انصاف کے لیے انہیں طویل مدت تک عدالتوں کے چکر کاٹنے پڑتے ہیں اور اس کے باوجود بھی یہ بات یقینی نہیں ہوتی کہ انہیں وہ انصاف حاصل ہوسکے گا جو قرآن دیتا ہے۔ اس پر مزید یہ ہوتا ہے کہ اسلام اور قرآنی ہدایات بدنام ہوتی ہیں اور ان لوگوں کو اسلام سے عداوت رکھتے ہیں بہت کچھ کہنے اور کرنے کا موقع مل جاتا ہے۔ ہندوستان کے موجودہ سیاسی حالات میں اس بات کو اچھی طرح دیکھا اور سمجھا جاسکتا ہے۔lll

مزید

حالیہ شمارے

ماہنامہ حجاب اسلامی ستمبر 2024

شمارہ پڑھیں

ماہنامہ حجاب اسلامی شمارہ ستمبر 2023

شمارہ پڑھیں