بلاعنوان

حسن اجمل

اس دن بارش کے ساتھ ساتھ شدید قسم کا طوفان بھی آیا تھا۔

اور یہ پہلا اتفاق تھا کہ کمال نے اپنے گھر جاتے ہوئے ہلکا سا خوف محسوس کیا۔ نہ معلوم اس کا بوسیدہ مکان اس طوفانی موسم کا مقابلہ کرسکے گا یا نہیں۔ بظاہر یہ امید نہیں تھی کیونکہ تناور درخت جڑسے اکھڑ گئے تھے اورشہر کے مختلف حصوں سے پرانے مکانات کے گرنے کی خبریں برابر آرہی تھیں۔ لیکن وہ اپنے گھر سے دور رہنے کو تیار نہیں تھا۔ معلوم نہیں اس تکونے کمرے سے اسے کیا انسیت تھی کہ اسے کسی دوسری چھت کے نیچے نیند ہی نہ آتی تھی۔ چاہے وہ کیسی ہی جگہ ہو، اور کیسی ہی محفل، اگر اسے بیٹھے بیٹھے اپنے مکان کی یاد آجاتی تو وہ کہیں نہ رک سکتا تھا بیٹھے بیٹھے وہ یکایک اٹھ کھڑا ہوتا۔ ’’اب چلوں گا۔‘‘

اور اس کایہ جملہ اب اتنا زیادہ سمجھا جاچکا تھا کہ جاننے والے اس کے بعد اس سے رکنے کے لیے بالکل اصرار نہ کرتے۔ اپنے مکان سے اس کا یہ جذباتی تعلق مشہور تھا۔ ایک بار کسی دوست نے اس کے مکان پر کچھ نازیبا تبصرہ کردیا تھا تو کئی دن تک کمال کی اس سے بول چال بند رہی تھی، کہنے والے نے صرف اتنا کہا تھا ’’سمجھ میں نہیں آتا یا ر!تمہارا اس گھر میں دل کیسے لگتا ہے؟ مجھے تو تمہارا مکان قرونِ وسطیٰ کا کوئی قید خانہ معلوم ہوتا ہے۔ یا یوں جیسے تاریخ سے پہلے کا کوئی مہیب الجثہ جانور اپنی کمین گاہ کے باہر سر اٹھائے کھڑا ہو۔‘‘

کہنے والے نے بہت صحیح بات کہی تھی۔ اس کے مکان کی ہیئت واقعی خاصی ہیبت ناک تھی، تین منزلوں پر مشتمل وہ عمارت جس کی دوسری منزل کا ایک تکونا سا کمرہ اس کا مسکن تھا۔ شاید اب سے سو سال پہلے تعمیر ہوئی تھی۔او رتعمیر کرنے والوں نے شاید کبھی اس کی مرمت کی طرف توجہ نہیں دی تھی اوراب عالم یہ تھا کہ دیواروں کا پلاسٹر ادھڑ چکا تھا۔ ستون کھوکھلے ہوچکے تھے اور چھجے اپنے مکینوں کا بوجھ سہارتے سہارتے ایسے جھک چکے تھے جیسے کسی بھی لمحہ زمین پر آرہیں گے۔ اس عمارت کی آڑی ترچھی بے رنگ دیواریں ایک دوسرے کے سہارے یوں رکی ہوئی تھیں جیسے ایک دوسری سے لپٹ کر اپنی کسمپرسی کا ماتم کررہی ہوں۔ یہ سب کچھ درست تھا مگر پھر بھی کمال نے اپنے دوست کی بات کا اتنا برا مانا تھا کہ جیسے اس نے کمال کے مکان پر تبصرہ نہ کیا ہو اس کی ماں بہن پر عیب لگایا ہو۔ اس واقعہ کے بعد اس کے دوست آہستہ آہستہ مکان سے اس کے جذباتی لگائو کا احترام کرنے لگے۔ اور شاید یہی وجہ تھی کہ آج جب بارش نے طوفانی رنگ اختیار کرلیا تھا اور پرانے مکان دھڑا دھڑ گر رہے تھے تو کسی دوست نے اسے یہ مشورہ دینے کی جسارت نہیں کی کہ وہ یہ طوفانی رات اپنے مکان میں بسر کرنے کا خطرہ مول نہ لے۔اور آج عجیب اتفاق تھا کہ اسے خود ہی اپنے مکان میں جاتے ہوئے خوف محسوس ہورہا تھا۔ وہ اپنے مکان کے سامنے ایک دوکان کے سائے میں کھڑا ہوا سوچ رہا تھا کہ اسے اندر جانا چاہیے یا نہیں۔

بارش مسلسل جاری تھی اور رہ رہ کر بجلی یوں کڑک رہی تھی جیسے قدرت اپنا غصہ ظاہر کررہی ہو۔ اور اس پر سے طوفانی ہوا۔ جیسے پوری کائنات اپنی زندگی کے لیے ایک کربناک جدوجہد میں مبتلاہو۔ اور اس طوفانی موسم میں اس کا مکان یوں لرزتا ہوا محسوس ہورہا تھا جیسے کوئی بے سہارا بچہ کسی خوفناک منظر سے بار بار دہل اٹھتا ہو۔ اور جب کبھی طوفانی ہوا کا جھکڑ آتا تو مکان کے لکڑی کے زینے یوں چرچرانے لگتے جیسے تاریخ سے پہلے کے کسی مہیب الجثہ جانور نے جانکنی کے عالم میں اپنے جبڑے پھیلادیے ہوں اور اس پر بجلی کی کڑک ایسی معلوم ہوتی جیسے وہ اس عفریت کی آخری کراہ ہو۔

کمال کو اس عفریت سے جنون کی حد تک محبت تھی۔ وہ دنیا میں اکیلا تھا، اور اس بھری دنیا میں ایک تکونے کمرے پر مشتمل وہ مکان ہی ایک ایسی چیز تھی جسے وہ اپنا کہہ سکتا تھا۔ اور شاید اسی لیے اس کی ساری محبت و اپنائیت کا مرکز وہ مکان ہی تھا اور شاید اسی وجہ سے اس مکان کے سلسلہ میں اس کے جذبات بالکل وہی تھے جو سفید بالوں اور دھندلی نگاہوں والی ماں کے لیے ایک بچے کے ہوسکتے ہیں۔ اور اس وقت وہ اپنی اس بے زبان ماں کی آغوش میں سما جانے کو بیتاب تھا مگر یہ طوفانی بارش —

اور پھر اس نے دیکھا نیچے والی منزل کے کئی خاندان ایک ایک کرکے اس طوفانی بارش میں گھر چھوڑ کر کسی دوسری پناہ گاہ کی تلاش میں نکل گئے۔ دور کہیں دھم سے ایک درخت گرا اور اس کی شاخیں دیر تک چرچرا کر ٹوٹتی رہیں اور پھر اتنی زور سے بجلی کڑکی جیسے اپنی اس نئی فتح پر قہقہہ لگا رہی ہو اور اس منظر نے اس کی رہی سہی ہمت بھی چھین لی۔

اب اس کے سامنے رات بسر کرنے کا مسئلہ تھا۔ وہ ایک رات کے لیے عابدہ کے گھر بھی رک سکتا تھا، احمد بھی اپنے گھر میں تنہا رہتا تھا۔ اور پھر سلیم تو بخوشی اس کو روکے گا۔ اور اس طرح ناموں کا ایک سلسلہ اس کے ذہن میں آتا چلا گیا۔ اور یہ نام ان تمام متمول عزیزوں اور دوستوں کے تھے جو اس کی قدر کرتے تھے، لیکن جن سے ملتے ہوئے کمال کو ہمیشہ ایک واضح بعد محسوس ہوا کرتا تھا۔ ایک ایسا فاصلہ جسے کوئی چیز بھی پاٹ نہیں سکتی تھی۔ اور وہ فیصلہ نہ کرسکا کہ اسے کس کے گھر کو آزمانا چاہیے۔

وہ دوکان کے سائے سے کھلی سڑک پر نکل آیا۔ اس کا لباس جو بوچھار کی وجہ سے پہلے ہی بھیگ چکا تھا اور اب بارش سے پلک جھپکتے ہی اس کے جسم سے چپک گیا۔ بارش بڑی شدت سے ہورہی تھی۔ اتنی شدت سے کہ بوندوں کے تواتر سے اسے سانس لینے میں دقت محسوس ہونے لگی۔ وہ سنسان سڑک پر بارش میں بھیگتا ہوا ایک سمت میں چلتا رہا یہاں تک کہ ایک موڑ پر اسے احساس ہوا کہ وہ عابدہ کے گھر کے سامنے پہنچ چکا ہے۔

عابدہ نے اسے بڑی حیرت سے دیکھا۔

’’کمال بھائی آپ؟‘‘ اس نے بھر پور حیرت سے کہا۔ پھر فوراً لہجہ بدلتے ہوئے بولی: ’’شاید مجھے بارش کا احسان مند ہونا چاہیے کہ اس بہانے سہی آپ آئے تو۔‘‘

’’ہاں کچھ ایسی ہی بات ہے۔‘‘ اس نے کہا ’’اور لوگ کہاں ہیں؟‘‘

’’سب اندر ہیں۔‘‘ اس نے کہا ’’ٹھہریے، میں آپ کے لیے تولیہ لے آؤں، آپ کا لباس بالکل تر ہے۔‘‘

اور پھر اس نے موٹے موٹے روئیں والی تولیہ سے جسم خشک کرتے ہوئے عابدہ کی طرف چور نظروں سے دیکھا، اسے احساس ہوا کہ اتنا وقت گزرجانے کے باوجود اس کے لہجے کی کھنک برقرار تھی۔ اس کا وجود اب بھی اسی مہک سے بسا ہوا ہے جس کا ہلکا سا احساس اس کے ذہن میں اب تک محفوظ تھا۔

پھر گھر کے اور لوگ بھی باہر کمرے میں آگئے۔ خالہ امی، اختر، عابدہ کے دو ننھے منے آنکھیں ملتے ہوئے بچے۔ اور پھر ان سب کے بعد عابدہ چائے کی ٹرے لیے ہوئے اس انداز سے کمرے میں آئی جیسے چائے اس نے پہلے سے تیار کررکھی ہو۔ خالہ امی نے اسے بہت اپنائیت سے اس کی بے راہ روی پر ڈانٹا۔ مدتوں شکل نہ دکھانے کا شکوہ کیا۔ عابدہ نے بچوں سے اسے سلام کروایا اور اختر نے بڑے کاروباری انداز میں اس سے مصافحہ کیا۔ اور یہ بات اس نے فوراً محسوس کرلی کہ اختر اس سے بے رخی سے پیش آیا تھا۔پھر چائے کا دور چلا تو اس نے یونہی پوچھ لیا : ’’اور کیا حال ہیں آپ لوگوں کے – عابدہ تم تو اچھی ہو؟‘‘

اور اس جملہ پر عابدہ نے اسے یوں تڑپ کر دیکھا جیسے یہ سوال کرکے اس نے عابدہ کے دل کو ٹھیس پہنچائی ہو۔ ہاں وہ اچھی طرح تھی۔ اس کا شوہر بہت وجیہہ تھا، متمول تھا۔ اس کے دو پھول جیسے بچے تھے۔ اپنا گھر تھا، اپنی کار تھی، ایک چھوٹی سی دنیا تھی جو اس کے قدموں میں تھی لیکن اس دنیا میں ایک ادھورا پن تھا، ایک کمی تھی، اور کمال کو معلوم تھا کہ اس کی دنیا میں یہ ادھورا پن کس وجہ سے تھا۔ احمق لڑکی! اس نے سوچا۔ وہ اتنا سب کچھ پاجانے کے بعد بھی ایک خیالی ہیولے کے پیچھے بھاگ رہی تھی۔

پھر مختلف موضوعات پر گفتگو چل نکلی اور کمال جو اس ارادے سے آیا تھا کہ یہ طوفانی رات عابدہ کے گھر گزارے گا اس بات کا انتظار کرتا رہا کہ کوئی اس سے رک جانے کے لیے اصرار کرے۔ شاید خالہ امی ہی کو احساس ہوجائے۔لیکن ایسی کوئی بات نہیں ہوئی۔ عابدہ نے اسے دو ایک بار ایسی نظروں سے ضرور دیکھا۔جیسے وہ اس کے دل کی بات سمجھ گئی ہو، لیکن منتظر ہو کہ اختر اس سلسلے میں پہل کرے۔ آخر وہ اپنے دل کے چور کو کہاں لے جاتی؟

پھر تھوڑی دیر بعد اختر جماہی لے کر اٹھ کھڑا ہوا۔

’’میں معافی چاہوں گا، اس نے صرف اتنا کہا ا ور اندر چلا گیا۔ کمال کو ایسا محسوس ہوا جیسے اسے کسی نے بھرے بازار میں رسوا کردیا ہو، فوراً ہی وہ بھی اٹھ کھڑا ہوا۔

’’اب میں بھی چلوں گا۔‘‘

عابدہ نے اسے معذرت خواہانہ نظروں سے دیکھا۔ خالہ امی نے دبی زبان سے روکا’’اس طوفان میںکہاں جاؤگے؟‘‘ لیکن وہ نہ رک سکا۔

اب وہ پھر سڑک پر تھا اور بارش کی بوندیں اس کے جسم پر چوٹ لگاتی ہوئی محسوس ہورہی تھیں۔

عابدہ کے گھر آکر اسے بے حد ذہنی کوفت ہوئی تھی۔ نہ جانے اختر کو اس سے اتنی نفرت کیوں تھی، اگر اسے عابدہ سے ایسی ہی محبت ہوتی جس کے آگے اختر کا کاروباری ذہن سوچ ہی نہیں سکتا تھا تو اسے عابدہ کو اپنالینے سے کون روک سکتا تھا؟ یا اگر وہ عابدہ کو کسی وجہ سے نہیں اپنا سکا تھا تو یہ اس کا گناہ تو نہیں تھا۔ اگر وہ اتنا ہی برا ہوتا جتنا اختر نے اسے سمجھا تھا تو شاید عابدہ کسی معصوم کلی کی طرح اس کے گھر میں نہ مہک سکی ہوتی۔ وجود کی خوشبو کے پیار اور جسموں کے اتصال والی محبت میںکتنا بڑا فرق ہے۔ یہ اختر کا کاروباری ذہن کیسے سمجھ سکتا تھا۔ اور کمال کویہ سوچ کر خود پر بہت غصہ آیا کہ اس نے عابدہ کے گھر رات بسر کرنے کا خیال ہی کیوں کیا۔ اگر وہ کہیں ایسا کرتا تو دوسری صبح شاید عابدہ بھی اسی کی طرح سڑک پر نظر آتی۔

سوچنے کا یہ انداز اس کی سمجھ میں کبھی نہ آسکا تھا، اور اس لیے وہ اپنے تمام عزیزوں اور دوستوں سے الگ اپنی دنیا بسائے ہوئے تھا۔ اس کی ساری محبتوں کا مرکز صرف اس کا اپنا گھر تھا۔ وہ تکونا سا نیم تاریک کمرہ جس کی سیلی سیلی سی فضا اس کے وجود کا ایک حصہ بن چکی تھی۔

مکان کا خیال آتے ہی اسے ایک بار پھر یہ سوچ کر رنجیدہ ہونا پڑا کہ وہ اپنے گھر سے دور رہنے پر مجبور تھا۔ بارش کا زور بڑھتا ہی جارہا تھا اور رات کی تاریکی کے ساتھ ساتھ طوفان بھی خوفناک ہوتا جارہا تھا، رات گزارنے کا مسئلہ اب اور بھی شدید ہوگیا تھا۔

احمد کے گھر کافی دیر تک کال بیل بجاتے رہنے کے بعد دروازہ کھلا تو احمد سلیپنگ گاؤن پہنے ہوئے اس انداز سے باہر نکلا جیسے اسے زیادہ سے زیادہ یہ امید رہی ہو کہ اس طوفان میں آنے والا کوئی پاگل ہی ہوسکتا ہے یا پھر کوئی بے ضرر قسم کا انسان جیسے محلہ کا چوکیدار۔ لیکن جب اس نے کمال کو سامنے پایا تو بوکھلا گیا۔ ’’ارے کمال تم؟ خیریت تو ہے۔‘‘

’’سب خیرت ہے یار، اندر تو آنے دو۔‘‘ کمال نے کہا اور تیزی سے کھلے ہوئے دروازے کے اندر چھلانگ لگادی اور اس لمحہ میں کمال نے یہ بات محسوس کرلی جیسے احمد نے بے اختیارانہ طور پر اسے روکنے کی کوشش کی ہو، لیکن وہ تو اچانک اندر چلا آیا تھا، اور اندر آتے ہی اس نے دوسری بات جو محسوس کی وہ یہ کہ احمد کا کمرہ ایک نسوانی جسم کی خوشبو سے بسا ہوا تھا لیکن یہ خوشبو کچھ اس نوعیت کی تھی جس سے کمال کو ہمیشہ نفرت رہی تھی اور ابھی وہ اس پر غور ہی کررہا تھا کہ برابر والے کمرے کا پردہ اٹھااور ایک سانولی سی لڑکی اندر داخل ہوئی۔’’احمد ڈیئر‘‘ وہ بے خیالی میں احمد سے کوئی بات کہنے والی تھی لیکن کمال کو یکلخت سامنے پاکر بوکھلا گئی اور الٹے پاؤں دوسرے کمرے میں چلی گئی۔

’’یہ میرے آفس میں ٹائپسٹ ہیں، مس ڈسوزا‘‘ احمد بتانے لگا۔ ’’بیچاری بارش میں پھنس گئی ہیں، ذرا بارش رکے تو انھیں گھر چھوڑ آؤں گا۔‘‘

اور کمال فوراً سمجھ گیا کہ آفس کی ٹائپسٹ لڑکیاں بلا وجہ احمد کے گھر نہیں آیا کرتیں۔ اور یہ ایک نیا انکشاف تھا جس نے احمد کی شخصیت کے پوشیدہ پہلوؤں کو اس پر واضح کردیا تھا۔

’’اچھا بھئی پھر میں چلتا ہوں۔‘‘ کمال جانے کے لیے مڑا

’’آخر کیسے آئے تھے، خیریت تو ہے؟‘‘ احمد نے پوچھا

’’رات گزارنے آیا تھا تمہارے گھر۔‘‘

’’رات گزارنے۔ اوہ‘‘

’’فکر نہ کرو اب میں نے ارادہ بدل دیا ہے۔‘‘

’’پھر کیا کروگے؟‘‘

’’گھرو اپس جاؤں گا۔‘‘

’’ایسے میں گھر واپس نہ جاؤ، میری رائے یہ ہے کہ …‘‘ اس نے سوچ کر کہا : ’’کیوں نہ رات کسی ہوٹل میں گزار لو۔‘‘

’’ہوٹل میں۔‘‘ ہاں یہ خیال بھی اچھا تھا۔

پھر احمد نے جلدی جلدی اپنا ایک جوڑا نکال کر اس کے حوالے کیا اور تکیے کے نیچے سے گاڑی کی چابی نکال کر بولا ’’چلو میں تمہیں ہوٹل میں چھوڑ آؤں۔‘‘

’’کیا کروگے، میں خود چلا جاؤں گا۔‘‘ اس نے کہا ’’یہ وقت تم مس ڈسوزا کے ساتھ بارش رکنے کا انتظار کرنے میں صرف کرسکتے ہو۔‘‘

’’گدھے ہو تم‘‘ احمد نے اس کی پیٹھ پر ٹہوکا دیا اور پھر لڑکی کو مخاطب کرکے اونچی آواز میں بولا: ’’وڈیو ماینڈ ڈیر اف آئی……‘‘

’’یس یس ، آئی کین ویٹ‘‘ لڑکی نے دوسرے کمرے سے جواب دیا اور احمد اسے اتنی تیز رفتاری سے ہوٹل پہنچا کر بھاگا جیسے اسے یہ ڈر ہو کہ اگر بارش رک گئی تو مس ڈسوزا کو روکنے کے لیے ایک اور طوفان اسے اپنی جیب سے خریدنا پڑے گا۔

کمال کے لیے ہوٹل میں قیام کرنے کا یہ پہلا اتفاق تھا۔ اسے جو کمرہ ملا وہ دوسری منزل پر تھا۔ اس نے جلدی جلدی بھیگا ہوا لباس تبدیل کیا اور بستر پر بے سدہ ہوکر گرپڑا۔ پلنگ گدیلا تھا مگر اس کے جسم کو ان گدوں پر عجیب سی بے کلی سی محسوس ہوئی۔ اسے تمام تر ظاہری شان کے باوجود وہ بستر تکلیف دہ محسوس ہونے لگا۔ ماحول کی اجنبیت نے اسے فوراً ہی کمرے سے متنفر کردیا اور اسے بہت شدت سے اپنا گھر یاد آنے لگا۔

ہوٹل کا یہ کمرہ اس کے اپنے کمرے سے کئی گنا بڑا تھا۔ اس کی مسہری گداز تھی اور اس کی دیواریں بڑے سلیقے سے پینٹ کی گئی تھیں۔ لیکن اسے تو وہ اجنبیت کاٹنے کو دوڑ رہی تھی جو اس پورے ماحول پر چھائی ہوئی تھی۔ اس کمرے میں وہ سکون کہا ںتھا، جو اسے اپنے بوسیدہ سے تکونے کمرے میں حاصل ہوتا تھا۔ جب وہ اپنے کمرہ میں اپنے بستر پر لیٹتا تو اس کے جسم کو اس غیر محسوس سے گڑھے میں جاکر بہت سکون ملتا۔ جو اس کے اپنے جسم کے بوجھ سے بستر میں پیدا ہوگیا تھا۔ اور اس کی پلاسٹر اکھڑی ہوئی سیلن زدہ دیواریں اسے اپنی محبت سے معمور معلوم ہوتی تھیں۔ اور وہ تکونا کمرہ اسے ایک ایسی آغوش کی طرح محسوس ہوتا تھا جس میں اس کے لیے محبت ہی محبت اور اپنائیت ہی اپنائیت تھی، ہوٹل کے اس گداز بستر میں ہم آغوشی کا وہ انداز کہاں تھا؟ ان گدوں میں وہ گرمی بھی نہیں تھی جو اس کے برسوںپرانے بستر میں اب تک محفوظ تھی۔ یہ اس کے اپنے جسم اور اس کے اپنے خون کی حرارت تھی جو اس بستر اور اس کے سارے کمرے میں رچی بسی تھی۔ ہوٹل کے اس آراستہ کمرے اور اس کے اپنے کمرے میں وجود کی مہک،اپنائیت اور اجنبیت کا فرق تھا، خون کے رشتے اور روپے سے خریدے ہوئے تعلق کا فرق تھا۔ اور پھر خون کی وہ گرمی جو اس کے بستر میں بسی رہ گئی تھی اسے آواز دینے لگی۔

اس نے ہوٹل کا بل ادا کیا اور پھر بھیگتا ہوا سڑکوں پر چل پڑا، اب اس کا رخ سیدھا اپنے گھر کی طرف تھا۔ بالکل جیل سے بھاگے ہوئے اس قیدی کی طرح جو پناہ کی ہر ممکن کوشش کے بعد ناکام ہوکر قید خانے واپس لوٹ رہا ہو۔ اور اس بار جب وہ اپنے گھر کے سامنے پہنچا تو خوف کا معمولی سا احساس بھی اس کے ذہن میں باقی نہیں رہا تھا۔ اس نے چرچراتی ہوئی تاریک سیڑھیاں بے دھڑک طے کیں۔ اپنے کمرے کا تالا کھولا اور اندر داخل ہوگیا۔ صرف چند لمحوں کے لیے اس کے کمرے میں روشنی نظر آئی اور پھر اندھیرا چھا گیا۔ شاید وہ اپنے جسم سے بنے ہوئے گڑھے میں پہنچتے ہی بارش اور طوفان سے بے نیاز ہوکر بچوں کی طرح میٹھی نیند سوگیا تھا۔

اگلی صبح طوفان تھمنے کے بعد احمد اس سے رات کے رویہ کی معافی مانگنے کے لیے ہوٹل پہنچا۔ اور اسے وہاں نہ پاکر اس کے گھر آیا لیکن اس وقت تک اس کا گھر ملبہ کا ڈھیر ہوچکا تھا۔ جس کے نیچے سے لاشیں برآمد کی جارہی تھیں۔ کمال اپنے گھر میں ابدی نیند سورہا تھا۔

مزید

حالیہ شمارے

ماہنامہ حجاب اسلامی ستمبر 2024

شمارہ پڑھیں

ماہنامہ حجاب اسلامی شمارہ ستمبر 2023

شمارہ پڑھیں

درج بالا کیو آر کوڈ کو کسی بھی یو پی آئی ایپ سے اسکین کرکے حجاب اسلامی کو عطیہ دیجیے۔ رسید حاصل کرنے کے لیے، ادائیگی کے بعد پیمنٹ کا اسکرین شاٹ نیچے دیے گئے  وہاٹس ایپ پر بھیجیے۔ خریدار حضرات بھی اسی طریقے کا استعمال کرتے ہوئے سالانہ زرِ تعاون مبلغ 600 روپے ادا کرسکتے ہیں۔ اس صورت میں پیمنٹ کا اسکرین شاٹ اور اپنا پورا پتہ انگریزی میں لکھ کر بذریعہ وہاٹس ایپ ہمیں بھیجیے۔

Whatsapp: 9810957146