بلا عنوان!!

؟؟

پنڈت جواہر لال نہرو نے ایک بار تقریر کرتے ہوئے موٹر کار والوں کو مشورہ دیا تھا کہ وہ بس اسٹینڈ یا دیگر تنہا مقامات پر جہاں کسی مسافر کو جسے بس یا اور کوئی سواری نہ مل رہی ہو، ازراہِ عنایت لفٹ دے دیا کریں کیونکہ کسی پر احسان کرنا ایک نیک کام ہے۔ مگر پنڈت جی نے شاید مہذب قوموں کے افراد کے کیریکٹر سے متاثر ہوکر اپنے دیش واسیوں کو اعلیٰ کرداری کا سبق دیا تھا۔ یہ نصیحت کرتے وقت غالباً وہ اس بات کو بھول گئے تھے کہ ہمارا ملک ابھی اس معاملہ میں بہت پسماندہ ہے اور یہاں کے لوگوں کو اخلاق کے معنوں سے روشناس ہونے میں ابھی برسوں لگیں گے۔ ہمارے ہاں لفٹ دے کر کاروں والے اکثر غلط اور مجرمانہ حرکات کے مرتکب ہوتے ہیں۔ مگر سبھی نہیں، کئی اچھے لوگ بھی ہوتے ہیں، جن کا مقصد صحیح معنوں میں دوسروں کا بھلا کرنا ہوتا ہے۔ لیکن عام طور پر دیکھا گیا ہے کہ موٹر کار والا بوڑھے اور جسمانی اعتبار سے معذور شخص کی نسبت کسی نوجوان لڑکی یا عورت کو لفٹ دینے پر جلد آمادہ ہوجائے گا۔ اس سلسلہ میں ایک موٹر کار والے کی کہانی بڑی دلچسپ ہے جس نے پنڈت جی کے مشورے پر عمل کرتے ہوئے ایک بار بس اسٹینڈ پر کھڑی ایک لڑکی کو لفٹ دے کر بھلائی کا کام کرنا چاہا اور انجام کا ر عجیب و غریب حالات سے دوچار ہوا۔

واقعہ یہ ہے کہ وہ اپنی کارمیں بیٹھ کر کہیں جارہا تھا۔ دوپہر کا وقت تھا۔دھوپ بڑی تیز تھی۔ جب وہ ایک بس اسٹینڈ کے قریب سے گزرا تو اسے ایک نوجوان خوبصورت لڑکی جس کے گال دھوپ میں تمتما رہے تھے ، کھڑی نظر آئی۔ ایسا معلوم ہوتا تھا کہ وہ کافی دیر سے بس یا دیگر سواری کی منتظر ہے۔ اس نے کار کی رفتار مدھم کی اور نزدیک جاکر کہا ’’محترمہ! اگر برا نہ مانو تو کار میں بیٹھ جاؤ جہاں کہو گی اتار دوں گا۔‘‘

’’چل چل اپنا راستہ لے۔ بدمعاش کہیں کا!‘‘ اس عورت نے تڑاک سے کہا۔ ’’مجھے تمہاری مدد کی ضرورت نہیں۔ میں ٹیکسی کرسکتی ہوں۔‘‘

کاروالے نے اصرار کیا اور اسے قائل کرنے کے لیے کہنے لگا کہ ’’وہ کوئی لوفر نہیں بلکہ ایک اعلیٰ گزیٹیڈ افسر اور وزارت داخلہ میں جس کا کام امن اور قانون پر نگاہ رکھنا ہے، اعلیٰ رتبہ پر فائز ہے۔ یقین کرو اور کار میں بیٹھ جاؤ۔ تپتی دھوپ میں کھڑے رہنے سے کیا فائدہ؟ تمہارا یہ پھول سا جسم سورج کی تپش برداشت نہیں کرسکے گا۔‘‘

یہ سن کر وہ عورت مزید سیخ پا ہوگئی اور اس نے چپل اتارلی اور بپھر کر بولی:

’’شیطان جائے گا یا مچاؤں شور؟ چلا جا ورنہ وہ درگت ہوگی کہ عمر بھر نہ بھولے گا، تو بھلے ہی انڈر سکریٹری ہے یا ڈپٹی سکریٹری مگر میری یہ چپل تیرا دماغ درست کردے گی۔‘‘ یہ کہتے ہوئے اس کے گلابی گال تیار سیب کی مانند سرخ ہوگئے اور ہونٹوں کی لالی ’’چیری بلاسم کا‘‘ نظارہ پیش کرنے لگی۔

بہر حال اس عورت کے اس قدر برہم ہونے کے باوجود وہ کار والا آپے میں رہا اور اس نے اس حسینہ کی طرف سے سرزنش پر برا نہیں مانا اور بولا۔’’آپ شور کیو ںنہیں مچاتیں اورکسی کو مدد کے لیے کیوں نہیں پکارتیں؟‘‘

اس چیلنج پر اس نے اپنی چپل پہن لی اور آہستہ سے بولی:

’’بھائی صاحب! میرے حال پر رحم کرو۔ مجھے آپ کی پیش کش منظور نہیں۔ آپ بھلے ہی ایک اچھے انسان ہیں۔ مگر میں خطرہ مول لینے کے لیے تیار نہیں۔‘‘ اس کے نرم لب و لہجہ سے کار والے نے سمجھا کہ چلو اس عورت نے یہ تو تسلیم کیا کہ وہ ایک بھلا مانس ہے۔

بات آئی گئی ہوگئی۔ وہ کار لے کر چلا گیا کوئی ایک ماہ بعد یہ کار والا پھر اسی عورت سے ملا۔ مگر اب کے بس اسٹینڈ پر نہیں بلکہ کالج میں جہاں وہ ہسٹری کی ٹیچر تھی اور بڑی باوقار شخصیت دکھائی دے رہی تھی۔ کار والے صاحب ایک وزیر کے مصاحبین میں شامل تھے۔ اور کالج کے پرنسپل نے وزیر مہودے کے ساتھ ساتھ ان کا بھی تمام ٹیچروں سے تعارف کرایا اور بتایا کہ یہ مسٹر ورما ہیں جو ہوم منسٹری میں ایک اعلیٰ افسر ہیں۔ یہ سنتے ہی اس لیڈی ٹیچر پر گھڑوں پانی پڑگیا۔ اس کا نام شوبھا تھا۔ جب سب لوگ چلے گئے تو شوبھا نے شری ورما سے معافی مانگی اور کہنے لگی کہ ’’ورما صاحب! مجھے اپنی گستاخی پر بڑا افسوس ہے لیکن آپ جانتے ہیں کہ اس طرح اکثر نوجوان لڑکیاں غلط آدمیوںکے ہتھے چڑھ کر اپنی زندگی تباہ کر بیٹھی ہیں۔ انسان کو دوسروں کے تجربے سے فائدہ اٹھانا چاہیے۔مجھے ایک ایسی لڑکی کا کیس معلوم ہے جو لفٹ لے کر اپنا ’’سب کچھ‘‘ لٹا بیٹھی ہے۔ آج کل وہ زندگی اور موت کی کشمکش میں مبتلا ہے۔‘‘

’’کون ہے وہ لڑکی؟‘‘ ورما صاحب نے پوچھا۔

’’آپ کل شام ۶ بجے میرے ہاں تشریف لائیے۔‘‘ شوبھا نے اپنا ایڈریس دیتے ہوئے شری ورما سے کہا۔ ’’میں آپ کو ساری تفصیلات بتاؤں گی اور اگر آپ اس بدنصیب لڑکی سے ملنا چاہیں گے تو اس کا بھی بندوبست کردوں گی۔‘‘

اگلے رورز شام کو عین وقت پر شری ورما شوبھا کے فلیٹ پر جا پہنچے۔ شوبھا پہلے ہی منتظر تھی۔ دونوں نے بیٹھ کر چائے پی اور تھوڑی دیر بعد شوبھا بولی۔

’’لو سنو ورما صاحب! اس لڑکی کا نام لیلا ہے۔ اور وہ اسی کالج میں جہاں میں پڑھاتی ہوں۔ سیکنڈ ایئر کی اسٹوڈنٹ ہے۔ ایک روز وہ اسٹاپ پر کھڑی بس کا انتظار کررہی تھی کہ اتنے میں ایک کار اس کے قریب آکر رکی اس میں بیٹھے نوجوان نے اسے لفٹ کی پیش کش کی جو لیلا نے قبول کرلی۔ وہ نوجوان لیلا کو دھوکہ دینے میں کامیاب ہوگیا۔ وہ اسے اس کی منزل پر پہنچانے کی بجائے کسی غیرآباد جگہ لے گیا۔

شری ورما نے جب یہ سنسنی خیز کہانی سنی تووہ سوچنے لگے کہ شوبھا نے بس اسٹینڈ پر ان کے ساتھ جو برتاؤ کیا تھا اس میں وہ حق بجانب تھی۔ کیونکہ شرافت کسی کے ماتھے پر تو لکھی نہیں ہوتی۔ کیا پتہ کون بھیڑ کے روپ میں بھیڑیا نکل آئے۔

’’تھوڑی دیر بعد ورما صاحب نے پوچھا کہ کیا لیلا نے آپ کو اس نوجوان کا پتہ وتہ دیا تھا؟‘‘

’’ایڈریس تو نہیں بتایا۔‘‘ شوبھا نے جواب دیتے ہوئے کہا۔ ’’البتہ اس کا فوٹو دیا تھا۔‘‘

’’کیا وہ فوٹو آپ مجھے دکھاسکتی ہیں؟‘‘

’’کیوں نہیں!‘‘ یہ کہہ کر شوبھا اپنے بیڈ روم میں گئی اور الماری میں سے فوٹو لاکر ورما صاحب کے آگے رکھ دیا۔

فوٹو دیکھتے ہی ورما صاحب کے چہرے کا رنگ اڑگیا۔ یہ فوٹو تو ان کے بیٹے کیلاش کا تھا۔

شوبھا نے یہ کیفیت دیکھی تو پوچھنے لگی’’کیا آپ اس بدمعاش کو جانتے ہیں؟‘‘

لفظ ’’بدمعاش‘‘ سن کر ورما صاحب کی آنکھوں میں آنسو آگئے۔ ’’یہ میرا بیٹا ہے!‘‘ یہ کہہ کر ورما صاحب نے مارے شرم کے اپنا منھ ڈھانپ لیا۔

شوبھا حیران و ششدر رہ گئی لیکن فوراً بولی: ’’ورما صاحب! اگر آپ چاہیں تو اس بدنصیب لڑکی کی جان بچا سکتے ہیں۔‘‘

’’میں لیلا کو بدنام نہیں ہوںنے دوں گا۔ لیلا آج سے ہماری عزت ہے۔ میں اس کے والدین سے مل کر اس لڑکی کی بھیک مانگ لوں گا۔‘‘

مزید

حالیہ شمارے

ماہنامہ حجاب اسلامی ستمبر 2024

شمارہ پڑھیں

ماہنامہ حجاب اسلامی شمارہ ستمبر 2023

شمارہ پڑھیں

درج بالا کیو آر کوڈ کو کسی بھی یو پی آئی ایپ سے اسکین کرکے حجاب اسلامی کو عطیہ دیجیے۔ رسید حاصل کرنے کے لیے، ادائیگی کے بعد پیمنٹ کا اسکرین شاٹ نیچے دیے گئے  وہاٹس ایپ پر بھیجیے۔ خریدار حضرات بھی اسی طریقے کا استعمال کرتے ہوئے سالانہ زرِ تعاون مبلغ 600 روپے ادا کرسکتے ہیں۔ اس صورت میں پیمنٹ کا اسکرین شاٹ اور اپنا پورا پتہ انگریزی میں لکھ کر بذریعہ وہاٹس ایپ ہمیں بھیجیے۔

Whatsapp: 9810957146