ایک نظر اس نے اپنی نوزائیدہ پوتی پر ڈالی اور گرتی پڑتی وارڈ سے باہر نکل گئی۔ اس کا دل بڑی تیزی سے دھڑک رہا تھا۔ اس کی کپکپاتی پلکوں سے آنسو ٹوٹ ٹوٹ کر جھریوں بھرے گالوں پر یوں بہہ رہے تھے جیسے خشک اور بنجر زمین پر برسات کے نالے ہوں، لمحہ، لمحہ غم کے گھونٹ بھرتی ہوئی زندگیوں میں خوشیو ںکی پیاس کتنی شدید تر ہوتی ہے، جیسے ریگ زار کے چلتے مسافر ہوں، لیکن کون جانے، اس تشنہ چاہت کا سامانِ تسکین، قدرت نے کارخانۂ حیات کے کس گوشہ میں چھپا کر رکھ دیا تھا، وہ تو سدا روتی ہی رہی۔
’’ماں! رونے سے کیا ہوتا ہے، یہ اپنی لغزشوں کا حاصل ہے۔‘‘ اُس کا بیٹا اس کے پیچھے چل رہا تھا، آہستہ آہستہ۔ اس کے قدموں کے سامنے کوئی رنج حائل نہ تھا، لیکن پھر بھی وہ اس طرح ناپ تول کر قدم بڑھا رہا تھا جیسے اُسے خوف تھا کہ زندگی کی راہ پر لڑکھڑا کر نہ گرجائے۔ اُس نے پلٹ کر ایک نظر بیٹے پر ڈالی۔ اس کا بیٹا اپاہج تھا ایک پیر سے لنگڑا اورمعذور! اس کا دل کانپ گیا۔
’’بیٹے! بتاؤ کیا قدرت کا مذاق میرے ساتھ جنم جنم کے لیے ہے۔ لیکن دکھ درد کے آبلے تو میرا مقدر تھے، آخر میری بہو نے کیا کیا تھا۔ تم بتاؤنا۔ کیا یہ قدرت کا رحم ہے؟ خدا کی قدرت ایک وسیع سمندر کی مانند ہے نا! ہم تو اک بوند ہیں۔ پھر اس وسیع سمندر میں طوفان کیوں نہیں آجاتا؟ اس کی لہریں تڑپ کیوں نہیں جاتیں؟‘‘
’’ماں!‘‘ بیٹے نے ماں کو للکارا… ’’تم نہیں سمجھتی ہو ماں، قدرت نے مامتا کا سارا تقدس اور درد عورت کو دے دیا تھا، لیکن، لیکن تمہاری بہو نے اپنے ہاتھوں اس تقدس کے دامن کو داغ دار کردیا ہے، تمہاری بہو عورت نہیں، ماں نہیں…‘‘
وہ چونک پڑی۔’’کیا ہے کاظم! یہ تم کیاکہہ رہے ہو؟‘‘
’’ہاں ماں! میں نے بلندیوں کی تمنا میں چوٹ کھائی ہے!‘‘ کاظم تیزی سے لنگڑاتا ہوا اک طرف کو نکل گیا۔
اُس نے آواز دی ’’کاظم!… کاظم!!‘‘ لیکن کاظم چلا گیا۔ اُس کی لنگڑاتی دنیا چلی گئی، بس اس کے درد کی ایک صدائے بازگشت باقی رہ گئی۔ ’’ماں تمہاری بہو نے اپنے ہاتھوں اس تقدس کے دامن کو داغ دار کردیا ہے— ماں تمہاری بہو نے … تمہاری بہو نے… ‘‘ وہ لرز گئی ’’نہیں، نہیں کاظم! تم نے میری بہو پر غلط الزام لگایا، اس میں ثریا کا کیا دوش!… کیا کیا تھا اس بے چاری نے! یہ تو میرا مقدر میرا نصیب ہے۔ میرے خدا! کوئی آ خر کب تک مقدر کا دامن تھامے اپنے آپ کو دھوکا دیتا رہے، کب تک کوئی تقدیر کے ڈسے ناگوں کا زہر برداشت کرتا رہے۔ اس نصیب کی تاریکیوں نے، اس کے جھوٹے فریب نے اس کو ازل سے جلا کر رکھ دیا تھا۔
برسوں پہلے، اٹھائیس برس پہلے اس کی زندگی کے پُربہار چمن میں کاظم کا معذور وجود ایسا ہی تھا، جیسے لالہ زارکے سینے میں داغ ہوں۔ کاظم کو دیکھ کر وہ محسوس کرتی — جیسے وہ ایک ماں نہیں کوئی ڈائن ہے، کوئی بھیانک رات ہے۔ کوئی تڑپتی بجلی ہے جس نے کاظم کی ازلی مسرتوں کو لوٹ لیا تھا۔ جس نے اپنے بیٹے کو معذور بناکر جنم دیا ہے تاکہ وہ سدا سسکتا سسکتا جیون کا زہر پیتا رہے۔
لیکن وہ بھی کیا کرتی اس کو بھی کیا معلوم تھا کہ جنم دینے سے پہلے مامتا کے کن کن جذبوں کی حفاظت کرنی پڑتی ہے۔ کن اصولوں کا پالن کرنا پڑتا ہے۔
بیاہ کے چار ماہ بعد ہی اُس کے شوہر کا تبادلہ ہوگیا تھا۔ تن تنہا شہر جاتے وہ گھبرارہی تھی مگر مجبوری تھی، جانا ہی تھا ورنہ پھر اُس کے شوہر کو صعوبتیں برداشت کرنی پڑتیں۔ یہ سوچ سوچ کر اس کا دل پسیج گیا اور وہ شوہر کے ساتھ جانے کو تیار ہوگئی تھی۔ بھلا بیوی بن کر اگر وہ اپنے شوہر کے دکھ سکھ کا خیال نہ رکھے، اس کو مسرت اور خوشی نہ دے سکے تو پھر وہ کس کام کی! چلتے وقت ماں نے کہا تھا: بہو کا خیال رکھنا امین! اس نے پردیس کے دکھ کبھی نہیں اٹھائے۔ اس کو تو اس وقت سنبھال کر آرام دینے کی ضرورت ہے۔ میں کیاکروں میں خود بیمار ہوں، بچہ ابھاگن سے کچھ نہیں ہوسکتا۔ تم اس کا خیال رکھنا پرایا دیس ہے!‘‘
لیکن مسرت کے پیچھے لپکنے والے غم کس نے دیکھے ہیں، زندگی کی پررونق شام جب ڈوبنے لگتی ہے تو تاریک سائے بڑے تیزی سے پھیلنے لگتے ہیں۔ کتنی بھیانک تھی وہ رات۔ کاظم کی پیدائش سے تین ماہ پہلے— بڑی رات گئے تک اس کا شوہر نہ آیا تھا، وہ انتظار کرتی ٹہلتی رہی تھی۔ حتیٰ کہ اس کے پاؤں تھک گئے، جسم تھک گیا، انتظار سے جلتی آنکھیں تھک گئیں، تب وہ کرسی پر دھنس گئی تھی اور رات دبے قدموں بھاگتی رہی۔ جیسے کوئی چور ہو۔ جیسے کسی کا سب کچھ لوٹ کر بھاگ رہی ہو۔ سچ بھی ہے، اس رات نے تو اس کی زندگی پر چمکتے ہر روشن ستارے کو چھین لیا تھا۔
باہر امینؔ کے قدموں کی آواز سنائی پڑی۔ وہ چونک اٹھی، دروازہ کھول کر کھانا گرم کیا، میز پر رکھ کر پلٹی، مگر امین نے اس کو بھی کھانے پر مجبور کیا۔ بغیر اس کے امین ایک نوالہ بھی اٹھانا گناہ خیال کرتا تھا۔ امین نے اس کے سراپا پر ایک نظر ڈالی اور کہنے لگا: ’’کتنے طویل ہیں یہ رات دن، یہ مہینے!!‘‘
وہ کچھ سمجھ نہ پائی، ٹکر ٹکر اس کی طرف دیکھتی رہی۔
’’صرف تین ماہ بعد ہی اپنا منّا اپنے ہاتھوں میں ہوگا نا؟‘‘ وہ شرما کر سمٹ گئی۔ باہر کلیوں کی سوگندھ مہک رہی تھی۔ میٹھی میٹھی، دلفریب خوشبو، تاریک تاریک سے روشن اجالے بکھرے پڑے تھے۔ وہ تھک گئی تھی۔ باہر صحن میں نکل آئی۔ اس کے پیچھے امین بھی چلا آیا۔ اپنے کپڑے سمیٹ کر وہ دم بھر کو لیٹ گئی۔ ’’آج چودھویں شب ہے نا۔‘‘ اس کی نگاہیں نیلے آسمان پر بکھرے ہوئے ستاروں کے درمیان چاند کو ڈھونڈ رہی تھیں۔
ناگاہ اس کے منہ سے ایک چیخ نکلی۔ وہ گھبرا کر اٹھ بیٹھی، اس کے ہاتھ لرز رہے تھے، اس کی آنکھیں چاند کے ماتھے پر جم کر رہ گئی تھیں جہاں کسی کی بکھری ہوئی زلفوں کی مانند چاند کا تمام چہرہ تاریک تھا، تھواڑا سا روشن حصہ چمک رہا تھا، جیسے ٹمٹما کر جل رہا ہے۔’’چاند گرہن‘‘ اس کے کپکپاتے لبوں سے نکلا۔ کہیں میری زندگی کے چمن کا پھول بھی داغ دار نہ ہوجائے امین!
اف!!!— وہ بھاگتی ہوئی آئی اور اپنے بستر پر گرگئی۔ اس کی مسرتوں کی جھولی میں دکھ کے وہ پتھر ڈال دیے، جس کا بوجھ وہ سنبھال نہ سکی، وہ برداشت ہی نہ کرسکی اور پھر اک صبح جب کاظم نے جنم لیا تو اس نے دیکھا کہ چاند نے اپنے ماتھے کے داغ اس کے بیٹے کی پھول سی زندگی کو بخش دیے تھے۔ کم از کم اس کا یہی خیال تھا۔ اس کا کاظم اک پیر سے معذور تھا۔ پیدائشی اپاہج!!— وہ رنج و غم کے مارے رو پڑی۔ میرے خدا! کیا میری اولاد تمام عمر دنیا بھر کی مصیبتیں سہتی رہے گی، کیا یہ ہمیشہ دوسروں کا محتاج رہے گا۔ اُف! یہ سب وہ نہ دیکھ پائے گی، اس سے یہ دکھ نہ سہا جائے گا— مگر وقت بیت گیا۔ شب و روز ماہ و سال کے لبادوں میں لپٹتے چلے گئے۔ وقت کی اڑان نے آہستہ آہستہ اس کا غم بانٹ لیا۔ وہ کاظم کی پرورش بڑی جانفشانی سے کرنے لگی۔ معصوم کاظم چھ برس کا تھاکہ اس کے سینے پر یتیمی کا داغ لگ گیا۔ امین نے اپنی آنکھیں ہمیشہ کے لیے بند کرنے سے پہلے اپنی بیوی سے کہا: ’’میرے بیٹے کو ایک لائق مہذب سوشل انسان بنانا۔ ایسا کہ دنیا اس کے پیچھے لپکے اور وہ اپنا آپ بھول جائے۔‘‘ یہ امین کی آخری خواہش تھی، اس نے خاموشی سے سنا اور بیوگی کے لباس میں اپنے آپ کو ڈھانپ لیا۔ کسی سے کچھ کہا نہ سنا۔ درد و غم ایسے کہاں ہوتے ہیں کہ دوسرے بانٹ لیں۔ یہ بوجھ تو اپنے آپ اٹھانا پڑتا ہے۔ اکیلے ہی پسنا پڑتا ہے۔ امین کی خواہش کی ڈور کا ایک سرا تھامے وہ کاظم کو ہر غم کے تھپیڑے سے بچاتی بلندیوں کی طرف لے جانے لگی۔ اوپر بہت اوپر۔ وہاں جہاں پہنچنے کے بعد وہ اک مہذب اور سوشل انسان کہلاسکے۔ ایک دن جب کاظم اس کی کوششوں سے ایک اعلیٰ عہدے پر فائز ہوگیا، وہ سوچنے لگی:’’قدرت اگر ہر غم کے طوفان کے بعد خوشیوں کی ذرا سی بھی جھلک نہ دکھائے تو شاید انسانوں کی یہ بستی، یہ کائنات زمین کی کوکھ میں دفن ہوکر رہ جائے۔‘‘ کاظم خوش تھا۔ وہ خوش تھی، ان کی کائنات مسکرا رہی تھی۔ تہذیب اور سوسائٹی نے کاظم کو بڑی مضبوطی سے اپنی گرفت میں لے لیا تھا۔ کاظم کے خیالات نئی روشنی اور نئے رنگ کے بہترین غماز تھے۔ ترقی کے اونچے مدارج نے اُن کی زندگی کے رنگ ڈھنگ بدل ڈالے۔ اُن کا طبقہ اب ایک اونچا طبقہ تھا۔ اور کاظم اس کا ایک نہایت اہم فرد تھا۔ نرم و شفاف زندگی میں اب آبشاروں کا سا زور اور بے ہنگم رقص کا سا شور پیدا ہوگیا۔ وقت کے لمحات منہ زور گھوڑے کی مانند اس کے ہاتھوں سے نکلتے چلے گئے۔ اب کوئی خوبصورت، خوب سیرت، گرہست بہو لانے کا ارمان اس کے دل میں کروٹیں لینے لگا تھا۔ جب سہاگ کی مالا ٹوٹی تو اس نے کاظم ہی کو سب کچھ جان کر سینے سے لگالیا تھا۔ اس بڑھتے ہوئے پودے کی پھوٹتی ہوئی اک اک کونپل سے اس کا دل بہاروں میں ڈولنے لگتا۔ اب جبکہ یہ پورا تناور درخت بن گیا، اس کے سائے میں اب تک کی تمام تشنہ تمناؤں کو وہ اب بجھا لینا چاہتی تھی۔ کسی لجائی شرمائی سی بہو کو لانے کا ارمان آخر ایک روز الفاظ کی صورت میں اس کے لبوں پر آگیا۔ کاظم نے سنا تو وہ چپ سا ہوگیا اور سوچنے لگا: وہ تو آزاد زندگی کا خواہش مند تھا، وہ تو لامحدود فضاؤں کا باسی ہے، وہ کیسے تیاگ دے یہ جیون۔ آنے والی لکیروں کو پیٹتی ہوئی اس کی جیون ساتھی اس کا حسنِ خواب نہیں، بھیانک تعبیر ہوگی۔ ماں تو نادان ہے۔ وہ تو بس چاہتی ہے کہ میرے ساتھ بیاہ نام کی کوئی چیز ہوجائے۔ اس بیاہ کی آغوش میں آنے والی دلہن جو اک آفیسر کی بیوی بنے گی— وہ کیسی ہو؟ ماں نے یہ کبھی نہ سوچا — کاظم اپنے خیالات کے سمندر سے ابھر آیا—
’’ماں تم نے اپنے گھر سے باہر پھیلی ہوئی میری زندگی پر بھی غور کیا ہے؟ تم نہیں جانتیں، سوسائٹی کی مجھ پر بڑی ذمہ داریاں ہیں، ایک سوشل ورکر کی حیثیت سے زمانے نے مجھے بہت بڑا اعزاز و مقام بخش دیا ہے۔ اس مقام پر ، اس مقام پر مجھے… مجھے … اب تم سے کیا کہوں ماں… میں نے سوچا تھا کہ میری بیوی بھی اعلیٰ تعلیم یافتہ ہوگی، سماجی کارکن بن کر میرا ہاتھ بٹائے گی، نئے زمانے کی پروردہ، نئی پود کی فرد ہوگی۔‘‘ وہ چلا گیا ۔
’’کاظم!‘‘ اس نے آواز دینی چاہی مگر کچھ کہہ نہ سکی۔ کاظم نے تو ان تمام خوبیوں کو سمیٹ کر اپنی زندگی کو سجالیا تھا، جن کی زمانہ پرستش کرتا ہے۔ اپنی اعلیٰ و بہترین زندگی کے لبادہ میں اس کی اپنی سب سے بڑی کمزوری چھپ گئی تھی۔ کسی کی نظریں اس لنگڑے پر پڑتی ہی نہ تھیں۔
کاظم کے خیالات کی اس اونچی پرواز کو دیکھ کر وہ جیسے سمٹ گئی اور … جیسے اس نے اپنی دنیا الگ سی بنالی۔ کاظم پڑھا لکھا تھا، سمجھدار تھا، شاید اس کا کہنا ٹھیک ہو کہ اس کو کسی گرہست ساتھی کی ضرورت نہیں، وہ تو اپنی خارجی دنیا کے لامحدود کاموں میں مدد دینے والی شریکِ زندگی چاہتا تھا۔ وہ کاظم پر کوئی دباؤ نہ ڈال سکی، اپنی پسند کی بیوی لانے کی اس کو اجازت دے دی۔ بڑے پیمانے پر شادی کی تیاریاں ہوئیں، آرسی مصحف کی رسم کے بجائے اس رات شہر … کے سب سے بڑے کلب میں رقص کاپروگرام منعقد ہوا… کاظم کی بیوی کے نام پر ثریا نے اس کے گھر کے حالات کو جانچا تھا۔ گھر کی ٹوٹی پھوٹی دیواروں کو پھر سے بنایا تھا۔ برسوں کا کیا ہوا رنگ اتار کر نئی پالش کی گئی تھی۔ مامتا بھرے دل سے ہر حال میں دعا نکلتی۔ کلب کے کتنے رکن ثریا کے دوست تھے۔ بہو کی بے پناہ قابلیت کا لوہا کاظم کے سارے دوست مانتے تھے۔ ٹھوس عزائم اور ارادوں کا مجسمہ تھی وہ!!… گئی رات تک ڈرائنگ روم کی روشنیاں تیز آگ برساتی رہتیں۔ قہقہے امنڈتے رہتے اور بہو ان قہقہوں میں ڈوبی بہتی چلی جاتی۔ صبح نیند کے خمار کو دور کرنے کے لیے وہ کافی پیتی تھی اور پھر وہ اپنے مشاغل میں کھوجاتی۔ دھوپ کے ڈھلتے سائے گویا شور و شراور ہنگاموں کے قاصد ہوتے۔ وہ کاظم کے ساتھ کار میں بیٹھ کر نکل جاتی۔ کتنی مصروف کیسی مکمل تھی بہو کی زندگی۔ وہ چپ چاپ ہر رنگ کو غور سے دیکھتی اور دوسروں کی خوشیوں میں اپنی خوشیاں پنہاں ہیں، یہ سوچ کر ہلکے سے مسکرادیتی۔ ہر طرح سوشل ورکر ہوتے ہوئے بھی بہو آخر عورت تھی۔ عورت جو بیاہ کے بعد ماں بھی بن جاتی ہے۔ اور جب اس کی بہو ماں بننے لگی، اس نے دنیا بھر کی احتیاطیں اس کے گرد کھڑی کردی تھیں۔ جانے کون کون سے کام نکل آتے ایسی حالت میں بھی ثریا رات کے دو بجے تک جاگتی رہتی، اس کو محسوس ہوتا، جیسے ثریا کو اپنی ماں بننے کی خواہش نہ تھی۔ وہ کہتی ’’ثریا تمہیں آرام کی ضرورت ہے۔‘‘ اور ثریا مسکرا کر رہ جاتی، لیکن ثریا نے کبھی اس کی بات بھی نہ ٹالی تھی۔ جب وہ کہتی بیٹی اب تو آدھی رات ہوچکی ہے، کچھ آرام بھی کرنا چاہیے۔ وہ بستر پر دراز ہوجاتی اور اگلے ہی لمحے غفلت کی نیند اسے آلیتی۔ جو صبح دس بجے تک نہ ٹوٹتی۔ اس قدر نیند سے بھی وہ گھبرا جاتی۔ وہ سمجھ نہ پاتی تھی کہ بہ یک لحظہ کیسے اتنی بے پناہ غنودگی ثریا پر چھا جاتی ہے۔
’’ماں! معلوم نہیں کیوں خدا نے مجھے یہ عذاب دے دیا۔ میں ابھی سے اس جنجال میں پھنسنا نہ چاہتی تھی۔‘‘ ثریا جب کہتی تب اس کا دل کانپ کانپ جاتا۔
’’نہیں ثریا ایسی باتیں نہیں کیا کرتے۔ یہ اولاد تو خدا کی دین ہے۔‘‘
’’لیکن اس دین نے تو مجھ پر دنیا بھر کے عذاب مسلط کردیے ہیں۔‘‘
’’ثریا!!! وہ جیسے ڈانٹ سی دیتی۔ چاند گرہن کی رات ثریا کی زندگی میں بھی آئی تھی۔ اس نے بڑی احتیاط سے اس رات ثریا کو اپنی نگرانی میں رکھا تھا۔ خود جاگتی رہی۔ کہیں ایسا نہ ہو کہ بیتا ہوا عذاب پھر سے مسلط ہوجائے اور وہ خوش تھی کہ اب اس کی بہو کی اولاد پر بدبخت چاند اپنا کوئی سایہ نہ ڈال سکتا تھا۔
لیکن … لیکن صبح جب اس نے ڈیلوری کے بعد اپنی نوزائیدہ پوتی پر نظر ڈالی تو وہ لرز اٹھی۔ نہیں، نہیں قدرت اتنی بے رحم نہیںہوسکتی۔ تو پھر یہ کیسا رحم تھا۔ ترحم کے یہ کیسے جذبات تھے… اس کے آنسو مسلسل بہہ رہے تھے۔ اور ثریا اپنے بیڈ پر یوں پڑی تھی … جیسے برف کی کوئی سل ہے… وہ اٹھی اور پھر وارڈ میں پہنچ گئی۔ بیڈ کے قریب پہنچ کر بچی پر اک بھر پور نظر ڈالی … نوزائیدہ معصوم بچی کے دونوں بازو سرے سے غائب تھے … وہ پھر اک بار کانپ گئی… کیا ہوگا اس بچی کا… لیکن یہ کیسے ہوگیا میرے خدا!!‘‘
ڈاکٹر آرہا تھا۔ وہ بچی کو دونوں ہاتھوں میں سنبھالے ڈاکٹر کی طرف لپکی… ڈاکٹر … آخر یہ سب کیا ہے۔ یہ کیسے ہوگیا؟
ڈاکٹر اتھاہ سوچ میں ڈوب گیا۔ ’’کیا کہاجاسکتا ہے ماں جی، دراصل کوشش کی گئی، لیکن کارگر نہ ہوسکی۔ پھر یہ نتیجہ برآمد ہونا یقینی تھا۔‘‘
’’کیا مطلب! کوشش؟ … کیسی کوشش ڈاکٹر … میں سمجھی نہیں۔‘‘ وہ گھبراگئی۔
’’آپ نہیں سمجھتیں مائی جی!کونٹر گن نامی خواب آور دوا کے استعمال اور دیگرادویات کے کھانے سے یہی اثرات رونما ہوتے ہیں۔ معلوم نہیں کیوں لوگ اپنے ہاتھوں اپنی اولاد کو اپاہج بنا رہے ہیں‘‘ یہ کہتا ہوا ڈاکٹر چلا گیا۔
وہ جیسے پتھر کا مجسمہ بن گئی۔ بچی اس کے ہاتھوں پر چاند کے ماتھے کا داغ بن کر رہ گئی۔ اور ثریا بے بسی سے اپنے ہاتھ پلنگ کی پٹی پر ٹیک کر سسکنے لگی۔ کتنی ہی چوڑیاں اس کی کلائیوں سے ٹوٹ کر نیچے گر پڑیں، جیسے وہ بھی کوئی اپاہج معصوم بچے ہوں۔
اس کے کانوں میں کاظم کی صرف ایک ہی آواز گونجتی رہی…
’’ماں ! ماں! میں نے بلندیوں کی تمنا میں چوٹ کھائی ہے!!‘‘
——