بلڈ پریشر سے محفوظ رہیے!!

حکیم عبدالحمیدؒ

’’ہائی بلڈ پریشر‘‘ موجودہ دور کی عام بیماری ہے۔ اس مرض میں رگوں کے اندر خون کا دباؤ طبعی دباؤ کے مقابلے میں بڑھ جاتا ہے۔
خون کے دباؤ یا بلڈ پریشر سے وہ قوت مراد ہے، جو دل کے سکڑنے پر خون اپنے بہاؤ کی حالت میں خونی رگوں کی لچک دار نالیوں کو پھیلانے کے لیے صرف کرتا ہے۔
دل یا ہارٹ دورانِ خون سے تعلق رکھنے والا خاص عضو ہے، ایک پمپنگ مشین کے مانند سینے کے اندر سکڑتا اور پھیلتا رہتا ہے۔دل جب سینے میں سکڑتا ہے تو وہ خون کی ایک خاص مقدار کو شریانوں میں دھکیلتا ہے۔ شریانوں کی نالیاں قدرتی طور پر لچک دار ہوتی ہیں۔ اس لیے وہ ایک خاص حد تک پھیل کر اس خون کو قبول کرلیتی ہیں، پھر جب یہ خون شریانوں کے طبعی دباؤ سے آگے بڑھتا ہے اور عروقِ شعریہ (بال جیسی باریک رگوں) میں پہنچ جاتا ہے تو شریانیں اپنی لچک کے سبب سکڑ کر اپنی سابقہ حالت پر لوٹ آتی ہیں اور یہ سلسلہ برابر جاری رہتا ہے، جس کے نتیجے میں خون رگوں میں ایک خاص رفتار کے ساتھ برابر بہتا رہتا ہے۔ اگر شریانوں میں یہ قدرتی لچک نہ ہوتی تو ان میں خون برابر بہنے کی بجائے تھوڑے تھوڑے وقفے سے بے سلسلے کے بہتا۔
یہ واضح رہے کہ خون کا یہ دباؤ یاخون کی خاص رفتار حالتِ اعتدال پر اسی وقت تک قائم رہتی ہے، جب تک (۱) خون کی مقدار (۲) قلب کی قوتِ انقباض (دل کے سکڑنے کی طاقت) اور (۳) خونی رگوں کی باریک باریک شاخوں کی قوتِ مقابلہ حالتِ اعتدال پر رہتی ہے۔ لیکن ایک تن درست انسان میں ان تینوں باتوں میں برابر تبدیلیاں ہوتی رہتی ہیں۔ مثلاً جب انسان کسی وجہ سے جوش میں آتا ہے تو اس کادل غیر معمولی طور پر زور زور سے سکڑنے لگتا ہے اور فوراً خون کا دباؤ بڑھ جاتا ہے۔ اسی طرح جب زیادہ پانی پی لیا جاتا ہے تو خون کی مقدار بڑھ جاتی ہے اور اس سے بھی خون کا دباؤ بڑھ جاتا ہے۔
اسی طرح اگر جسم پر ٹھنڈا پانی ڈالا جائے یاننگے بدن ٹھنڈی ہوا میں مکان سے باہر آئیں تو ٹھنڈک پہنچنے سے بدن کی کھال کی باریک باریک رگیں سکڑ جاتی ہیں۔ اور ان رگوں کی اندرونی فضا اور ان کے دہانے تنگ ہوجاتے ہیں اور اس کے نتیجے میں خون کا دباؤ بڑھ جاتا ہے، اسی طرح رنج و غم، فکر و پریشانی، غصہ و خوشی وغیرہ میں بھی خون کے دباؤ پر اثر پڑتا ہے اور ورزش کرنے اور بھاگنے دوڑنے سے بھی خون کا دباؤ بڑھ جاتا ہے، غرض صحت کی حالت میں بھی خون کا دباؤ بڑھتا اور گھٹتا رہتا ہے۔ اس کے علاوہ تمام تندرست آدمیوں کے خون کا دباؤ یکساں نہیں رہتا۔ ہر شخص کے خون کے دباؤ میں اختلاف ہوتا ہے، لیکن ان اختلافات کے باوجود خون کے طبعی دباؤ کا ایک خاص اوسط مقرر ہے۔ اگر اس مقررہ اوسط سے خون کا دباؤ بڑھ جائے یا گھٹ جائے اور دباؤ کے بڑھنے یا گھٹنے کی مخصو ص علامتیں پیدا ہوجائیں اور وہ عرصے تک قائم رہیں تو اس کو حالتِ مرض سمجھا جاتا ہے۔
خون کا دباؤ معلوم کرنے کے لیے ایک خاص آلہ ہے، جس کی رو سے ایک ۲۱ سالہ جوان تندرست آدمی کے خون کا دباؤ قلب کی انقباض (سکڑنے) کی حالت میں ۱۲۰ ملی میٹر سیمابی اور انبساطی (پھیلنے) کی حالت میں ۶۵ سے اسی ملی میٹر کے درمیان ہوتی ہے۔ بچوں میں انقباضی دباؤ بہت کم ہوتا ہے، چناںچہ ایک سال کے بچے میں ۷۰ ملی میٹر سیمابی ہوتا ہے، اس کے بعد جوں جوں عمر بڑھتی جاتی ہے، یہ انقباضی دباؤ بھی بڑھ جاتا ہے۔ یہاں تک کہ جوانی میں ۱۲۰ ملی میٹر سیمابی تک پہنچ جاتا ہے اور عمر کے بڑھنے کے ساتھ ساتھ یہ سلسلہ برابر بڑھتا ہی رہتا ہے۔
خون کا دباؤاگر مستقل طور پر بڑھا رہے تو یہ حالتِ مرض ہے اور اس کا سب سے بڑا سبب شریانوں کا سخت ہوجانا ہے۔ سختی کی وجہ سے ان کی قدرتی لچک کم ہوجاتی ہے۔ ایسی صورت میں خون کا دباؤ یقینا بڑھ جاتا ہے۔ اس کے مختلف اسباب ماہرینِ طب نے بتائے ہیں لیکن عام زندگی میں مسلسل دماغی، جسمانی محنت، رنج و غم اور فکر سے بھی خون کا دباؤ بڑھ جاتا ہے۔ پرانے قبض، تمباکونوشی اور شراب نوشی کی زیادتی سے بھی یہ مرض ہوجاتا ہے۔
علامتیں
جب کوئی اس مرض میںمبتلا ہوتا ہے تو شروع میں اس کی علامتیں نہایت معمولی ہوتی ہیں۔ چناںچہ جب وہ تیز چلتا ہے یا سیڑھیوں پر چڑھتا ہے تو اس کا سانس پھول جاتا ہے، کوئی کام کرنے سے جلد تھک جاتا ہے کبھی کبھی دل پر ایک قسم کا دباؤ سا محسوس ہوتا ہے یا دل دھڑکنے لگتا ہے۔ بعض مریضوں کو دردِ سر رہنے لگتا ہے یا چکر آنے لگتے ہیں، رات کو نیند نہیں آتی اور دماغی کاموں سے ان کی طبیعت گھبرانے لگتی ہے۔
جب کچھ مدت تک یہ حالات قائم رہتے ہیں اور روز بہ روز کم زوری بڑھتی جاتی ہے تو مریض کو اس کا کچھ احساس ہوتا ہے، وہ علاج کے بارے میں سوچتا ہے۔ معالج خون کا دباؤ دیکھنے والے آلے سے معائنہ کرتا ہے تو خون کا دباؤ بڑھا ہوا پاتا ہے۔
اگر شریانوں میں سختی زیادہ ہو تو خون کا دباؤ ہر وقت یکساں رہتا ہے، ورنہ چلنے پھرنے، کام کاج کرنے، آرام کرنے، کھانے پینے اور غصہ وغیرہ حالات میں رات دن کے چوبیس گھنٹوں میں کم و بیش ہوتا رہتا ہے، کبھی کبھی خون کا دباؤ بڑھنے کے فوراً بعد سکتہ یا فالج ہوجاتا ہے، کبھی مرگی کا دورہ بھی پڑجاتا ہے اور کبھی مریض کو دل کے درد کے دورے پڑنے لگتے ہیں۔
محفوظ رہنے کی تدبیریں
جہاں تک ہوسکے مریض کو ان باتوں سے بچائیں، جن سے یہ مرض پیدا ہوتا ہے۔ مریض کو شراب، چائے، قہوہ اور تمباکو نوشی سے روکیں نمک اور گرم مسالا بالکل استعمال نہ کریں اور سادہ غذائیں کھانے کے لیے دیں۔
قبض ہرگز نہ ہونے دیں، پیشاب اور پسینے میں رکاوٹ نہ پیدا ہونے دیں۔ ہمیشہ صاف اور کھلی ہوا میں رکھیں۔ غصہ و غضب، رنج و غم اور پریشانی سے دور رہتے ہوئے خوش و خرم زندگی بسر کریں۔
علاج
اگر کسی شخص میں خون کا دباؤ بڑھنے کا یقین ہوجائے تو اس کو فوراً آرام کرنے کی ہدایت کریں۔ اگر قبض ہو تو فوراً قبض کو دور کرنے کے لیے کوئی ملین دوا دیں۔ اس کے بعد صبح و شام بکری کا دودھ تازہ بہ تازہ شربتِ عناب یا مصری سے میٹھا کرکے پلائیں۔ اس کے علاوہ اگر ککڑی، کھیرے کے بیج چھ ماشے، عناب پانچ ماشے، دھنیا خشک تین ماشے کو پانی میں پیس چھان کر مصری سے میٹھا کرکے صبح و شام دیں تو اس سے بھی بہت فائدہ پہنچتا ہے۔
اسرول، جس کو سرپ گندھا اور چھوٹا چاند بھی کہتے ہیں، مستقل طور پر خون کے بڑھے ہوئے دباؤ کو کم کرنے کے لیے بڑی مفید دوا ہے۔ یہ دوا ضرورت کے مطابق لے کر کوٹ چھان کر سفوف بنائیں اور ڈیڑھ ڈیڑھ ماشے یہ سفوف صبح و شام دودھ یا پانی کے ساتھ دیں۔
غذا اور پرہیز
سادہ جلد ہضم ہونے والی غذائیں، جیسے دودھ، دہی، چھاچھ، مکھن، مونگ، ارہر کی دال، ساگ خرفہ، ساگ پالک، گھیا (لوکی)، تورئی، ٹنڈا، پرول اور موٹے آٹے کی روٹی کھائیں۔ تازہ پھلوں میں سے سیب، سنترہ، انگور، ناشپاتی، میٹھا لیموں، لوکاٹ وغیرہ کا استعمال کریں۔ چائے، قہوہ، شراب اور تمباکو استعمال نہ کریں۔ نمک اور گرم مسالے کا استعمال بھی مناسب نہیں ہے۔ باقلا،لوبیا، چنے، ماش کی دال اور تلی ہوئی چیزوں سے بھی پرہیز کرنا چاہیے۔
خون کے دباؤ کی کمی
اسے ’’لوبلڈپریشر‘‘ کہا جاتا ہے۔ اس مرض میں خون کادباؤ کم ہوجاتا ہے اور یہ کوئی مستقل مرض نہیں ہے۔ جب کبھی دل کے سکڑنے میں کم زوری پیدا ہوتی ہے یا عروقِ شعریہ کشادہ ہوجاتی ہیں تو خون کا دباؤ کم ہوجاتا ہے۔
اس کے علاوہ جب جسم میں خون کی مقدار کم ہوجاتی ہے تو خون کا دباؤ بھی کم ہوجاتا ہے، تمام پرانے امراض جیسے سِل و دِق، نمونیا، میعادی بخار میں جب کہ مریضوں کا دل کم زور ہوجاتا ہے، خون کا دباؤ گھٹ جاتا ہے۔
خون کے دباؤ میں کمی آجانے سے مریض کم زوری محسوس کرنے لگتا ہے، متلی اور چکر کی شکایت پیدا ہوجاتی ہے اور کبھی مریض خون کے دباؤ کی کمی سے بے ہوش بھی ہوجاتا ہے۔ اگر خون کے دباؤ میں کمی عرصے تک باقی رہے تو مریض بے حد کم زوری محسوس کرنے لگتا ہے۔ اس کا دل کسی کام میں نہیں لگتا، وہ جلد تھک جاتا ہے، اس پر سستی غالب رہتی ہے اور اس کے ہاتھ پاؤں عموماً ٹھنڈے رہتے ہیں اور وہ سردی سے گھبراتا ہے۔
علاج
اگر خون کے دباؤ میں کمی عارضی ہو تو مریض کو چت لٹا کر اس کے سر کے نیچے سے تکیہ نکال دیں اور پائنتی کو ذرا اونچا کردیں۔ کبھی کبھی اسی تدبیر سے سکون ہوجاتا ہے، لیکن خون کے دباؤ کی کمی مستقل ہوتو مریض کو آرام کرنے کی ہدایت کریں۔ اُس کو قوت دینے والی حیوانی غذاؤں کے ساتھ تازہ پھل اور خشک میوے کھلائیں۔
——

مزید

حالیہ شمارے

ماہنامہ حجاب اسلامی ستمبر 2024

شمارہ پڑھیں

ماہنامہ حجاب اسلامی شمارہ ستمبر 2023

شمارہ پڑھیں

درج بالا کیو آر کوڈ کو کسی بھی یو پی آئی ایپ سے اسکین کرکے حجاب اسلامی کو عطیہ دیجیے۔ رسید حاصل کرنے کے لیے، ادائیگی کے بعد پیمنٹ کا اسکرین شاٹ نیچے دیے گئے  وہاٹس ایپ پر بھیجیے۔ خریدار حضرات بھی اسی طریقے کا استعمال کرتے ہوئے سالانہ زرِ تعاون مبلغ 600 روپے ادا کرسکتے ہیں۔ اس صورت میں پیمنٹ کا اسکرین شاٹ اور اپنا پورا پتہ انگریزی میں لکھ کر بذریعہ وہاٹس ایپ ہمیں بھیجیے۔

Whatsapp: 9810957146