حالیہ دنوں میں ہونے والے تشدد، بم دھماکوں اور حملوں کے لیے اقلیتوں کو موردِ الزام ٹھہرانے کے موضوع پر بہت کچھ لکھنے اور اس کے نتیجے میں کچھ نہ کچھ حاصل کرپانے کے اطمینان کے بعد مہاراشٹر اور آسام کے واقعات نے غلام محمد اور مجھ جیسے قلم کاروں اور تجزیہ نگاروں کے ہوش وحواس کو گم کردیا ہے۔ ۲۹؍ستمبر کے مالے گاؤں بم دھماکے کے سلسلے میں پرگیہ سنگھ کی گرفتاری، اور شک کی سوئی سابق اور موجودہ فوجی افسروں کی طرف گھومنے سے اس بات کی تصدیق ہوگئی ہے جو ہم لوگ اب تک کہتے آرہے تھے کہ : دہشت کا کوئی اور چہرہ ہے، انڈین مجاہدین اور سیمی ہندوستانی سیکورٹی دستے کی ذہنی اُپج ہیں اور یہ کہ دہشت گردی کے حقیقی تار، پوری طرح آر ایس ایس ایس، بی جے پی کے نفرت اور فاشزم پر مبنی نظریات سے جڑے ہوئے ہیں۔ آر ایس ایس اور بی جے پی بنیادی طور پر ملک کے اندر ہی پیدا ہونے والی دہشت گرد و فاشسٹ قوتیں ہیں اور ایسا پہلی بار نہیں ہے کہ ان کا خوفناک چہرہ دنیا کے سامنے آیا ہو۔
مجھے آر ایس ایس کے مخالف اور مسلمانوں کے حامی و دوارکا اور بدری ناتھ کے شنکر اچاریہ، سوامی سوروپ آنند کے ساتھ ہونے والی اپنی ملاقات اب بھی یاد ہے۔ اس ملاقات کے دوران شنکر اچاریہ نے واضح طور پر کہا تھا کہ ’’امریش! یہ سنگھی تمام نیم فوجی دستوں سے زیادہ بڑے مجرم ہیں۔ یہ اپنی ابتدا سے ہی قتل اور لوٹ مار میں ملوث ہیں۔ یہ راون کی طرح ’ادھرمی‘ ہیں اور پھر بھی خود کو ہندو ظاہر کرتے ہیں۔ یہاں تک کہ مجھے قتل کرنے تک کی کوشش کرچکے ہیں۔‘‘
یہ قول شنکر اچاریہ کے ہیں۔ یہ بات بھی واضح ہوچکی ہے کہ ۱۹۴۷ء میں تقسیم ملک کے وقت ہونے والے فسادات کے دوران بھی آر ایس ایس اور انگریزوں کے درمیان خفیہ گٹھ جوڑ تھا۔ کچھ عرصے پہلے شائع شدہ ایک مضمون میں ’’ایشین ایج‘‘ اور ’’کوورٹ‘‘ کے کالم نگار، اکھیلیش متل نے اس پوری سازش کا خلاصہ حقائق کی بنیاد پر کیا تھا، جسے میں قارئین کے سامنے پیش کررہا ہوں۔
’’۱۹۹۸ء میں اورئینٹ لانگ مین پبلی کیشن کی طرف سے شائع ہونے والی ،آئی سی ایس راجیشور دیال کے تذکرہ’ اے لائف آف اورٹائمس‘ میں آر ایس ایس (راشٹریہ سویم سیوک سنگھ) اور برطانوی حکومت کے درمیان ناپاک گٹھ جوڑ کے پختہ ثبوت موجود ہیں۔ آر ایس ایس کو مسلمانو ںپر حملہ کرنے کے لیے شہروںاور گاؤں کے تفصیلی نقشے فراہم کیے گئے تھے۔‘‘
دیال کہتے ہیں: ’’۱۹۴۶ء کے ابتدائی ایام میں ایک ’کاک ٹیل‘ پارٹی کے دوران چیف سکریٹری نے مجھے بتایا تھا کہ میں یوپی کا اگلا ہوم سکریٹری ہوں گا۔ اس عہدے کے لیے میں پہلا ہندوستانی افسر تھا کیونکہ اس سے پہلے یہ عہدہ برطانوی افسروں کے لیے ریزرو ہوا کرتا تھا۔‘‘ (ص:۷۷)
ہوم سکریٹری کے طور پر راجیشور دیال کو خفیہ ترین اطلاعات موصول ہوتی تھیں اور ایسے ہی سنگین نوعیت کے ایک معاملہ کو میں آپ کے سامنے پیش کرتا ہوں۔ جب فرقہ وارانہ تناؤ اپنے بامِ عروج پر تھا، تو ویسٹرن رینج کے ڈپٹی انسپکٹر جنرل اور نہایت ہی لائق و قابل افسر، بی بی ایل جیٹلی رازدارانہ طور پر میرے گھر آئے تھے۔ ان کے ساتھ ان کے دو افسران بھی تھے جو اپنے ساتھ مقفل دو اسٹیل ٹرنکس (بکسے) بھی لائے تھے، ان بکسوں میں سے ان سارے منصوبوں کے دستاویزی ثبوت برآمد ہوئے تھے، جن کے ذریعے مغربی صوبے میں فرقہ وارانہ نسل کشی سے متعلق وہ تمام پختہ ثبوت برآمد ہوئے تھے جن کی بنیاد پر اس صوبے میں مجرمانہ کارروائیاں انجام دینے کی سازش رچی گئی تھی۔ ان بکسوں میں پوری مہارت اور پیشہ ورانہ صلاحیت کے ساتھ تیار کیا گیا ہر شہر اور گاؤں کا بلیو پرنٹ موجود تھا، جس میں اس بڑے خطے کے مسلم علاقوں اور آبادیوں کی وضاحت کے ساتھ نشان دہی کی گئی تھی۔ اس کے علاوہ اس میں مختلف علاقوں تک پہنچنے اور وہاں ان مجرمانہ افعال کو انجام دینے کے بارے میں تفصیلی ہدایات بھی درج تھیں۔‘‘
دیال ان ثبوتوں کو لے کر وزیرِ اعلیٰ گووند بلبھ پنت کے پاس پہنچے وہاں ایک بند کمرے کے اندر جیٹلی نے حاصل کردہ معلومات اور اسٹیل کے بکسوں سے ملے دستاویزی ثبوتوں کی ایک رپورٹ پیش کی۔
آر ایس ایس کے دفتر پر مارے گئے بروقت چھاپوں کے نتیجے میں یہ سنگین سازش منظر عام پر آئی۔ اس کا پلاٹ تنظیم کے سپریمو کی نگرانی میں اور ان کی ہدایت پر تیار کیا گیا تھا۔ جیٹلی نے اور میں نے اصل مجرم ، شری گولوالکر کی فوری گرفتاری کے لیے دباؤ بنایا، جو کہ اس وقت اس علاقے میں ہی موجود تھے، تاہم پنت نے اس معاملے کو کابینہ کے سامنے رکھنے کا فیصلہ کیا۔ کانگریس کے اندر آر ایس ایس سے ہمدردی رکھنے والے کافی لوگ موجود تھے، خود لیجسلیٹو کونسل کے سربراہ، آتما گووند کھیر آر ایس ایس کے ہمدردوں میں سے تھے اور ان کے بیٹے بھی آر ایس ایس کے ممبر تھے۔
گولوالکر کو گرفتار کرنے کے بجائے ایک خط ان کو بھیجا گیا تھا، جس میں حاصل کردہ ان ثبوتوں کی بنیاد پر ان سے صفائی مانگی گئی تھی۔ جیسا کہ متوقع تھا، گولوالکر موقع کا فائدہ اٹھاتے ہوئے فرار ہونے میں کامیاب ہوگئے اور اس کے بعد پولیس مختلف مقامات پر چھاپہ مارتی رہی اور اس طرح کئی ہفتے گزر گئے۔
اس کتاب کے صفحہ ۹۴ کے اگلے پیراگراف میں ۳۰؍جنوری ۱۹۴۸ء کو امن کے پیکر گاندھی جی کی ہلاکت کا بھی ذکر ہے۔ برطانوی انتظامیہ کی جانب سے نقشوں کی حفاظت بڑی سختی کے ساتھ کی جاتی تھی اور ان نقشوں کو آر ایس ایس کو مہیا کرایا جانا، انتظامیہ کی تنظیم کے ساتھ ملی بھگت کا پختہ ثبوت تھا۔
اس کے علاوہ Alexnon Tunzelmann نے اپنی تصنیف کردہ کتاب The Indian Summer: Secret History of The End of An Empire‘ میں اگست، ستمبر اور اکتوبر ۱۹۴۷ء میں دہلی میں ہونے والے فرقہ وارانہ فسادات کی قلعی کھولتے ہوئے لکھا ہے کہ ’’یہ فسادات نہیں تھے بلکہ آر ایس ایس کے ذریعہ ریٹائرڈ فوجی افسروں و عملے کے لوگوں سے ساز باز کے ذریعے نومولود ہندوستانی ریاست کے سیکولر کردار کے خلاف ایک بغاوت و شورش تھی۔ پنڈت نہرو اور سردار پٹیل دونوں ہی اس سازش سے اچھی طرح واقف تھے اور نہرو نے اس وقت سردار پٹیل کو وارننگ بھی دی تھی کہ وہ اس بارے میں فوری طور پر فیصلہ کریں کہ وہ کس کے ساتھ ہیں۔ تبھی پٹیل نے فوج کو، مسلمانوں کے خلاف اس بغاوت و شورش کو جس میں لاکھوں مسلمانوں کا قتل عام کیا گیا تھا، کچلنے کی ذمہ داری سونپی تھی۔ ان دو واقعات سے بخوبی اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ آر ایس ایس کی مجرمانہ ذہنیت کی ایک طویل تاریخ ہے۔ ۱۹۹۰ء کے بعد ایڈوانی کی پہلی رتھ یاترا کے بعد سے دورِ حاضر میں بھی، ان فسطائی عناصر کا صرف ایک ہی ایجنڈا ہے، مسلمانوں کی مخالفت و سیکولرزم اور دستور ہند کی خلاف ورزی۔ اپنے اسی ایجنڈے پر عمل کرتے ہوئے ان عناصر نے نہ صرف ممبئی میں فرقہ وارانہ فسادات کرائے بلکہ وہاں بم دھماکے کیے اور پھر این ڈی اے حکومت کے دورِ اقتدار میں ممبئی، مالیگاؤں، ناندیڑ، ناگپور، یوپی اور احمدآباد بم دھماکوں کے بعدمتشددانہ اور دہشت گردانہ کارروائیاں بھی انجام دیں۔ ۲۶؍جولائی سے ۶ ماہ سے بھی کم مدت کے دوران اب تک ملک کی ۶ ریاستوں میں بم دھماکوں کے ۶۴ واقعات پیش آچکے ہیں۔ جن میں ۲۱۵؍افراد کی جانیں جاچکی ہیں اور ۹۰۰؍افراد زخمی ہوچکے ہیں۔ یہا ںاہم سوال یہ ہے کہ آسام بم دھماکوں کے بعد میڈیا، انڈین مجاہدین اور سیمی کے ناموں کی رٹ کیوں نہیں لگا رہا ہے؟ اب دیکھنا یہ ہے کہ اب کونسی نئی تنظیم کو ہماری سیکورٹی فورسیز ان واقعات کے لیے ذمہ دار ٹھہراتی ہیں۔ اس وقت ملک میں سیکورٹی افسروں و نوکر شاہوں کے ایک بڑے حصے، فرقہ پرست فسطائی عناصر، کانگریس اور بی جے پی میں موجود موقع پرست افراد، سرکردہ میڈیا اور امریکہ حامی کارپوریٹ تاجر گھرانوں کے درمیان ایک کھلا اتحاد جاری ہے۔ خاص طور پر میڈیا کی جانب سے ان فسطائی وفرقہ پرست عناصر کی زبردست حمایت و مدد کی جارہی ہے۔ ذرا تصور کیجیے کہ ممبئی میں شمالی ہند کے باشندوں پر کیے جانے والے جان لیوا حملوں کے بعد CC-IBNکے ایڈیٹر، راجدیب سردیسائی، ہندوستان ٹائمز میں ۳۱؍اکتوبر ۲۰۰۸ء کو اپنے عزیز دوست راج ٹھاکرے کو لکھے گئے ایک مراسلے میں مراٹھی جذبات کی ترجمانی کے لیے ان کی تعریف کرتے ہوئے ان کو شمالی ہند کے باشندوں کے خلاف تشدد سے گریز کرنے کا مشورہ دیتے ہیں اور فرماتے ہیں کہ دہلی میں ان کی خود کی حیثیت بھی تو نقل مکانی کرکے آنے والے ایک شخص کی ہی ہے۔
مہاراشٹر میں کانگریس، این سی پی، شیوسینا، راج ٹھاکرے یہاں تک کہ راج دیپ سرڈیسائی اور دیگر بہت سارے مراٹھی دانشوروں کا سبھی کا تعلق اونچی ذاتوں سے ہے۔ وجے تیندولکر جیسے درمیانہ روش اختیار کرنے والے وسیع النظر مصنفین و دانشوروں کی آواز کو دبا دیا جاتا ہے جب کہ اونچی ذات و انگریزی لب و لہجہ والے راج دیپ جیسے لوگ پوری طرح میدان پر قابض ہیں۔ یہاں سب سے بڑا سوال یہ ہے کہ شمالی ہند کے باشندوں کو آخر کیوں باقاعدہ طور پر نشانہ بنایا جارہا ہے؟ اور اس میں کار پوریٹ گھرانوں کا ہاتھ کس حد تک ہے؟
۲۰۰۶ء سے مہاراشٹر کی آٹو صنعت میں اب تک ۰۰۰،۸۰ کروڑ روپئے کی سرمایہ کاری ممبئی، تھانے، ناسک تکون والے علاقے میں کی جاچکی ہے اور اس علاقے میں کی جانے والی اس سرمایہ کاری کا مقصد آٹو پرزہ جات کو تیار کرنے والے ان چھوٹے مینوفیکچرز کو وہاں سے باہر بھگانا ہے، جو اس علاقے میں بہت پہلے سے یہ کام کررہے ہیں اور اس کے لیے جو سب سے مؤثر طریقہ انھوں نے اپنایا ہے وہ یہاں کام کرنے والے شمالی ہند کے باشندو ںکو ڈرا دھمکا کر خوفزدہ کرکے وہاں سے بھاگنے پر مجبور کردینا ہے۔ یہ اسکیم کانگریس کے ایک سینا (ایم این ایس) کو دوسری سینا (شیو سینا) کے خلاف کھڑا کرنے کے منصوبے میں آئندہ انتخابات کے مدِ نظر صحیح بیٹھتی ہے۔ اس کے علاوہ عالمی امریکی سرمایہ دارانہ نظام کی ایک اور راجدھانی کے طور پر ممبئی کے ارتقاء سے متعلق نئے کھیل کے تحت ملک کے مغربی ساحل سے ایسٹ انڈیا کمپنی جیسے ایک اور آپریشن کی ابتدا بھی اس ساری کارروائی کا ایک بڑا مقصد ہے۔ ممبئی میں دراصل یہ طاقتیں ایک ایسی صورت حال پیدا کرنا چاہتی ہیں، جس میں مرکزی اور وفاقی حکومت کی مہاراشٹر اور کم از کم گجرات پر (جہاں مودی کی شکل میں کارپوریٹم اور فسطائی عناصر کا سب سے بڑا دوست برسرِاقتدار ہے) گرفت بالکل ختم ہوجائے۔ آج ٹھاکرے کے خلاف مرکزی حکومت کی جانب سے کسی بھی طرح کی کارروائی میں ناکامی کے پس پشت بھی سب سے بڑے مجرم اور وزیرِ داخلہ شیوراج پاٹل کا بھی بہت بڑا ہاتھ ہے، کیونکہ وہ خود بھی مہاراشٹر سے ہیں اور چاہتے ہیں کہ مرکزی حکومت کا اقتدار وہاں سے کسی طرح ختم ہوجائے۔ یوپی، بہار اور شمالی ہند کے لوگوں کے خلاف تشدد کا ایک سبب یہ بھی ہے کہ ان افراد کا نو آبادیاتی نظام کے خلاف آواز بلند کرنے میں ۱۸۵۷ء میں سب سے اہم رول رہا تھا اور یہ دونوں ریاستیں، ہندوستان کے دو بڑے مذاہب، اسلام اور سناتن دھرم کا بھی مرکز رہی ہیں۔ ان مذاہب کے ماننے والوں اور ہندی -اردو کی اس پٹی کے کسان و محنت کش طبقے نے ۱۸۵۷ء میں نہ صرف برطانوی افواج سے لوہا لیا تھا بلکہ ایسٹ انڈیا کمپنی جیسے کارپوریٹ ادارے کے بھی دانت کھٹے کیے تھے۔ عراق کی طرح، جہاں امریکہ نے جنگ کے لیے ایک پرائیویٹ کمپنی بلیک واٹر کو ٹھیکہ دے رکھا ہے اور اس کمپنی کے فوجیوں کی تعداد تقریباً امریکہ کے برابر ہے، اب ہندوستان میں بھی دہشت گردی کے کام کو پرائیویٹ کمپنیوں کے سپرد کردیا گیا ہے، جو فی الحال چوری چھپے یہ کام انجام دے رہی ہیں۔ مشترکہ پارلیمانی کمیٹی کے ذریعہ تفصیلی چھان بین کے بعد ہی پتہ چل پائے گا کہ دہشت گردانہ کارروائیاں انجام دینے کے لیے پرائیویٹ کمپنیوں کی خدمات حاصل کرنے کے پیچھے آخر کس کا دماغ کارفرما ہے؟ ابھینو بھارتی اور بھونسلے ملٹری اکیڈمی، جن کا تعلق پرگیہ سنگھ اور مالیگاؤں بم دھماکوں سے فی الحال منسلک پایا گیا ہے، بلیک واٹر کی طرح پرائیویٹ کمپنیاں ہی ہیں، جن کا آر ایس ایس اور ہندو تو عناصر سے گہرا تعلق ہے، لیکن اگر انہیں موقع مل گیا تو وہ خود بھی اپنے بل بوتے پر دہشت گردی کا قہر برپا کرنے کی پوری طرح صلاحیت رکھتی ہیں۔ (راشٹریہ سہارا اردو) ——