بنت حرم جاگ رہی ہے!

مریم جمال

۱۱، ۱۲؍فروری ۲۰۰۶ء؁ کو شہر کی بھیڑ بھاڑ سے دور حیدرآباد کی وادیٔ ہدی میں ’’اے بنت حرم جاگ ذرا‘‘ کے مرکزی موضوع پرمنعقد ہونے والی جماعت اسلامی ریاست آندھرا پردیش کی خواتین کانفرنس ہندوستانی مسلمانوں کی تاریخ میں یقینا سنگ میل کے طور پر دیکھی جائے گی۔ یہ کانفرنس اپنی نوعیت کی منفرد اور پہلی کانفرس ہے جو صرف خواتین کے لیے منعقد کی گئی اور جس کے انتظام و انصرام کی تمام ذمہ داریاں صرف اور صرف خواتین ہی کے ذریعہ انجام دی گئیں۔

حیدرآباد کی یہ خواتین کانفرنس ایسے وقت میں منعقد کی گئی ہے جب ہمارے ملک میں ہی نہیں، عالمی سطح پر خواتین کے خلاف مظالم کا بازار اور روز بہ روز گرم ہوتا جارہا ہے۔ پسماندہ اور ناخواندہ خواتین سے لے کر تعلیم یافتہ، اور اعلیٰ عہدوں پر فائز خواتین تک شوہروں کے مظالم، جنسی تشدد، عدم مساوات مختلف قسم کی استحصالی کیفیات سے دوچار ہیں۔

مذکورہ کانفرنس جس میں محتاط اندازوں کے مطابق ساٹھ ہزار تک خواتین شریک رہیں اس بات کا واضح ثبوت ہے کہ مسلم خواتین میں دینی، ملی اور سیاسی و سماجی شعور کا فقدان ایسا مفروضہ ہے جس کے پیچھے کوئی ثبوت نہیں۔ اور یہ کہ مسلم عورت کے اندر نہ صرف بیداری پیدا ہورہی ہے بلکہ وہ ایک وسیع تر دینی، ملی اور سماجی و معاشرتی رول کی ادائیگی کے لیے اب تیار ہوچکی ہے اور یہ کہ اب دین کا حوالہ دے کر نہ اسے اس کے حقوق سے محروم رکھا جاسکتا ہے اور نہ اس کے قائدانہ کردار کو نظر انداز کیا جاسکتا ہے۔

’’اے بنت حرم جاگ ذرا‘‘ کے مرکزی موضوع پر منعقد ہونے والی اس کانفرنس میں خواتین کو جگانے اور معاشرے کی تعمیر و ترقی میں اپنا رول ادا کرنے پر آمادہ کرنے کے لیے اس کانفرنس میں بہت کچھ تھا۔ ہندوستانی سماج کی تعمیر میں مسلم خاتون کا رول، ملت کی تعلیمی ترقی میں عورتوں کا کردار، جہیز اور غلط رسوم و رواج کی روک تھام اور سماجی بگاڑ کو اصلاح میں تبدیل کرنے جیسے موضوعات نے خواتین کو ایک طرف تو عملی جدوجہد کے لیے تیار کیا دوسری طرف ’’مساوات مردوزن اور آزادیٔ نسواں‘‘ جیسے نعروں کی گہرائی میں اتر کر ان معاشروں کی بھی جھلک پیش کی جو اس کے نمائندے ہیں۔

اس کانفرنس میں ملک کی خواتین کی صورتحال کی تلخ حقیقت سے بھی پردہ اٹھانے کی کوشش کی گئی اور ظلم کی شکار ہندوستانی عورت، حقائق، اسباب اور علاج کے موضوع پر ایک مذاکرہ بھی منعقد ہوا جس میں ملک کی جن نمائندہ خواتین نے اپنے خیالات کا اظہار کیا، ان میں محترمہ ریکھا پانڈے اور ریاستی وزیر تعلیم محترمہ راجیہ لکشمی خاص طور پر قابل ذکر ہیں۔

کانفرنس کا افتتاح جماعت اسلامی کے کل ہند امیر ڈاکٹر عبدالحق انصاری نے کیا۔ انھوں نے اپنے افتتاحی خطاب میں خواتین کو گھروں سے نکل کر سماجی بیداری اور تبدیلی کے فعال رول ادا کرنے کی اپیل کی۔ انھوں نے کہا کہ ’’عورتوں کو سماجی ترقی میں اہم کردار ادا کرنا چاہیے۔‘‘ انھوں نے آزادیٔ نسواں اور مساوات مرد وزن کے مغربی نعرے کے کھوکھلے پن کو واضح کرتے ہوئے کہا کہ: ’’آج آزادی کے نام پر عورتوں کا جنسی استحصال ہورہا ہے اور مختلف تجارتی کمپنیوں کی مصنوعات کے فروغ کے لیے اس کا استحصال کیا جارہا ہے۔ لیکن حقیقت یہ ہے کہ مغربی ملکوں میں عورتوں کے مقابلہ کتوں کے ساتھ زیادہ اچھا سلوک ہوتا ہے۔‘‘

اس کانفرنس میں جماعت اسلامی ہند کے شعبۂ خواتین کی ذمہ دار محترمہ ناصرہ خانم نے بھی خطاب کیااور شریک خواتین کو دعوت دی کہ وہ اسلام کو اپنی زندگیوں میں جاری و ساری کریں اور غلط رسوم و رواج کے خلاف جدوجہد کریں۔ ’’ہندوستانی مسلم خواتین کے رول ماڈل فلموں کی ہیروئین نہیں بلکہ خدیجہ اور عائشہ ہونی چاہئیں۔‘‘ انھوں نے مزید کہا کہ ’’اسلام نے عورت کو عزت کا مقام دیا لیکن آج عورت کے حصہ میں ذلت و رسوائی ہے۔ مغرب کے تصور آزادی نے جہاں عورت کی عظمت اور جذبۂ حیا کو تار تار کیا ہے وہیں بے رسوم و رواج نے اس کی زندگی اجیرن کردی ہے۔‘‘ انھوں نے زور دے کر کہا کہ مسلم خواتین جہیز کے لین دین کا سختی سے بائیکاٹ کریں۔

انٹرنیشنل اسلامک یونیورسٹی ملیشیا کی پر وفیسر زینت کوثر نے بھی اس کانفرنس سے خطاب کیا اور مسلم سماج میں جاری غیر اسلامی نظریات پر سخت تنقید کی۔ انھوں نے سماج میں رائج مرد کی قوامیت کے غلط تصور کو نشانہ بنایا اور سماجی برائیوں کے خلاف جدوجہد کی دعوت دی۔ انھوں نے کہا کہ’’عورتوں کو یہ چیزیں برداشت نہیں کرنی چاہئیں اور اس وقت تک جدوجہد جاری رکھنی چاہیے جب تک صورت حال درست نہ ہوجائے۔‘‘ انھوں نے تین طلاق کے عمل پر بھی تنقید کی اور علماء کو توجہ دلائی کہ وہ اس سلسلہ کی غلط فہمی اور اس کے غلط استعمال پر روک لگائیں۔ انھوں نے کہا کہ ازدواج کے متبرک رشتہ کو محض تین مرتبہ طلاق ، طلاق، طلاق کہہ کر توڑا نہیں جاسکتا۔

کانفرنس کے اخیر میں ایک قرار داد بھی منظور کی گئی جس میں ملکی و بین الاقوامی مسائل کے ساتھ ساتھ دینی، معاشرتی و سماجی مسائل پر کانفرنس کا نظریہ پیش کیا گیا۔ قرار داد میں کہا گیا ہے کہ ’’اسلام نے خواتین کو جو مقام بخشا ہے عملاً مسلم معاشرہ اس سے کافی دور ہے جس کی وجہ سے اسلام کا عملی نمونہ پیش کرنے میں ہمارا معاشرہ ناکام ہے۔‘‘ کانفرنس میں اس بات کا عہد کیا گیا کہ ہم اپنے گھروں کو اس لعنت سے پاک کرنے کی جدوجہد کریں گے اور جہیز کے خلاف کوشش کریں گے۔ کانفرنس میں شرکاء نے یہ عہد کیا کہ وہ جہیز اور شادی بیاہ اور دیگر تقریبات اور عام زندگی میں اسراف و فضول خرچی سے معاشرہ کو بچائیں گے اور اسلام نے خواتین کو جو حقوق دئے ہیں ان کی بازیابی کے لیے اپنے گھروں میں بھی جدوجہد کریں گے اور سماج میں بھی کوشاں ہوں گے۔ کانفرنس میں ملک میں بڑھتی عریانیت، قحبہ گری اور جنین کشی پر بھی تشویش کا اظہار کیا گیا۔

اس کانفرنس میں مہمان خصوصی کے طور پر مدعو خواتین حمیراء مودودی پاکستان اور نومسلم بی بی سی کی رپورٹر وان ریڈلی کے ویڈیو خطابات بھی شرکاء کانفرنس کو سنائے گئے۔ واضح رہے کہ یہ دونوں خواتین ویزا نہ ملنے کے سبب شریک کانفرنس نہ ہوسکیں۔

کانفرنس کے اختتام پر وہ نظارہ کبھی نہیں بھلایا جاسکتا جب تاحد نظرسیاہ نقاب پوش خواتین کا سمندر بہتا نظر آرہا تھا اور باہر ٹریفک پولیس کانفرنس کے (مرد) والنٹئیرس بھیڑ کو منظم رکھے ہوئے ٹریفک کو کنٹرول کررہے تھے۔

مزید

حالیہ شمارے

ماہنامہ حجاب اسلامی ستمبر 2024

شمارہ پڑھیں

ماہنامہ حجاب اسلامی شمارہ ستمبر 2023

شمارہ پڑھیں

درج بالا کیو آر کوڈ کو کسی بھی یو پی آئی ایپ سے اسکین کرکے حجاب اسلامی کو عطیہ دیجیے۔ رسید حاصل کرنے کے لیے، ادائیگی کے بعد پیمنٹ کا اسکرین شاٹ نیچے دیے گئے  وہاٹس ایپ پر بھیجیے۔ خریدار حضرات بھی اسی طریقے کا استعمال کرتے ہوئے سالانہ زرِ تعاون مبلغ 600 روپے ادا کرسکتے ہیں۔ اس صورت میں پیمنٹ کا اسکرین شاٹ اور اپنا پورا پتہ انگریزی میں لکھ کر بذریعہ وہاٹس ایپ ہمیں بھیجیے۔

Whatsapp: 9810957146