بندئہ مومن کا رویہ

محمد اسلم نجمی

’’حضرت عبادہ بن صامت رضی اللہ عنہ سے روایت ہے رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: جس شخص نے اس بات کی گواہی دی کہ اللہ کے سوا کوئی الٰہ نہیں، وہ تنہا ہے اور اس کا کوئی شریک نہیں اور محمد ﷺ اللہ کے بندے اور رسول ہیں اور (اس نے) اس بات کی گواہی دی کہ حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) اللہ کے رسول ہیں، وہ اس کی بندی کے بیٹے ہیں، وہ اللہ کا وہ کلمہ ہیں، جسے اس نے مریم (علیہا السلام) کی طرف القا فرمایا اوروہ اس کی روح ہیں۔ اور (وہ یہ بھی مانتا ہے کہ) جنت اور دوزخ حق ہیں (یعنی موجود ہیں) تو اللہ تعالیٰ ایسے شخص کو (جو ان عقائد کا حامل ہوگا) جنت میں داخل کریں گے، اس کا عمل جو کچھ بھی رہا ہو۔‘‘ (مشکوٰۃ ، رقم ۲۷)
اس حدیث میں بحیثیت مجموعی معلوم ہوتا ہے کہ دنیا میں بندے سے اصل مطلوب چیز اس کا رویہ ہے اور وہ یہ ہے کہ اس نے اپنے آپ کو خدا کا بندہ سمجھا، وہ خدا کا بندہ بن کر جینے کے عہد کے ساتھ زندہ رہا اور زندگی کے آخری سانس تک اس نے بندگی کے حدود سے تجاوز نہ کیا۔
دنیا کی آزمائش دراصل انسان کی فکر اور اس کے علم اور رویے کا امتحان ہے۔ اس میں اس کی آزمائش دو پہلوؤں سے ہوتی ہے:
۱- اس نے صحیح بات جاننے کے لیے کتنی اور کس درجے میں کوشش کی اور دنیا میں جو وسائل اسے میسر تھے، ان میں سے اس نے اس مقصد کے لیے کیا کچھ صرف کیا اور کیا کچھ داؤ پر لگایا۔
۲- حق جان لینے کے بعد اسے ماننے اور قبول کرلینے کے بارے میں اس کا رویہ کیا تھا۔ کہیں ایسا تو نہیں ہوا کہ موروثی عقائد، گروہی تعصبات اور مسلکی اعتقادات قبولِ حق کے راستے میں رکاوٹ بن گئے ہوں۔
دنیا میں آدمی جب زندگی کی تگ و دو کے لیے باہر نکلتا ہے تو اس کا جسم اور کپڑے دونوں آلودہ ہوتے ہیں۔ دن بھر کی مشقت اور جدوجہد کے بعد وہ جب گھر واپس آتا ہے تو سب سے پہلے اپنے جسم اور کپڑوں کی آلودگی کو دور کرنے کے لیے فکر مند ہوتا ہے۔ اعمال کا معاملہ بھی ایسا ہی ہے۔ یہ ممکن نہیں کہ زندگی کی سرگرمیوں میں بندے سے کوئی گناہ سرزد ہی نہ ہو۔ حقیقت یہ ہے کہ اس کے تمام تر اخلاص، خشیت اور تقویٰ کے باوجود اس سے گناہ صادر ہوجاتے ہیں۔ یہ گناہ روح کی غلاظت ہیں۔ جسم اور کپڑوں کی آلودگی کی طرح گناہوں کے بارے میں سچے مومن کی خواہش ہوتی ہے کہ اس کا دامن دل اگر گناہوں سے آلودہ ہوگیا ہے تو جتنی جلدی ممکن ہو، وہ اسے توبہ کے پانی سے دھو ڈالے۔ غلطیوں کا شعور اور گناہوں کی ندامت اسے اعتراف جرم کے ساتھ خدا کی بارگاہ میں حاضر ہوکر مغفرت طلب کرنے پر آمادہ کرتی ہے۔ اس اعتبار سے دیکھئے تو توبہ گناہوں کا غسل ہے۔ دین گناہوں سے دل کی طہارت اور خطاؤں سے روح کی پاکیزگی کا نام ہے۔ یہی پاکیزگی اسے آخرت میں خدا کی جنت کا حق دار بناتی ہے۔
اس سے واضح ہوتا ہے کہ دین کوئی مجموعۂ احکام نہیں ہے، بلکہ یہ انسانوں کو پاکیزہ بنانے کی دعوت ہے۔ شریعت کے احکام خیالات، علم اور عمل ہی کی پاکیزگی کے لیے دیے گئے ہیں۔ ایسی پاکیزگی کی ضرورت اس لیے ہے کہ خدا کی جنت پاکیزہ لوگوں کا ٹھکانا ہے۔ لہٰذا اس کی جنت میں آباد ہونے کے لیے پاکیزگی شرط ہے اور یہ دنیا ایسے ہی پاکیزہ لوگوں کے انتخاب کے لیے بنائی گئی ہے۔
بندہ اگر یہ حقیقت سمجھ لے تو پھر اس کا اللہ ہی کو الٰہ ماننا اور نبی ﷺ کو خدا کا بندہ اور رسول تسلیم کرنا ایک حسی واقعہ بن جاتا ہے۔ پھر اس کے قول و فعل ہر وقت اور ہر جگہ خدا کی الوہیت اور نبی ﷺ کی رسالت کی شہادت دیتے ہیں۔ پھر وہ خدا کو ہر جگہ اور ہر وقت موجود پاتا ہے اور نبی ﷺ کی اطاعت اور اتباع اس کا شب و روز کا وظیفہ بن جاتی ہے۔
حدیث کے آخر میں ’علی ما کان من العمل‘ (اس کا جو کچھ بھی عمل رہا ہو) کے الفاظ آئے ہیں۔ اس کا ہرگز یہ مطلب نہیں ہے کہ حدیث میں عقائد و ایمانیات کے اقرار کے بعد اسے ہر برا بھلا کام کرنے کی آزادی حاصل ہوجاتی ہے اور یہ کہ محض اقرار کے بعد اس سے عمل کی پرسش نہیں ہوگی، بلکہ نبی ﷺ کا مطلب یہ ہے کہ جو کچھ اوپر بیان ہوا اسے اختیار کرلینے کے بعد ایسا شخص خدا اور آخرت کے بارے میں یقین اور اعتماد کے اس درجے میں ہوتا ہے کہ وہ حتی الوسع نافرمانی سے بچنے کی کوشش میں رہتا ہے اور انسان ہونے کے ناتے جو گناہ اس سے سرزد ہوجاتے ہیں، وہ ان کے فوراً بعد توبہ و استغفار کا راستہ اختیار کرتا ہے۔ یہ جملہ خدا کے اپنے بندے پر اعتماد کا اظہار ہے۔ یہ تو ہوسکتا ہے کہ ایسے مخلص شخص سے بڑے سے بڑا گناہ سرزد ہوجائے، مگر یہ ناممکن ہے کہ وہ گناہ کے باوجود خدا سے بے پروا اور آخرت سے نچنت ہوکر زندہ رہے۔ وہ لازما ً توبہ کرکے گناہوں سے پاک ہوگا۔
——

مزید

حالیہ شمارے

ماہنامہ حجاب اسلامی ستمبر 2024

شمارہ پڑھیں

ماہنامہ حجاب اسلامی شمارہ ستمبر 2023

شمارہ پڑھیں