بند دروازے کے اندر

آثم میرزا

میں سہ منزلہ مکان کی بازار کی طرف کھلنے والی کھڑکی میں بیٹھابازار کی آمدو رفت میں خود کو تلاش کررہا ہوں۔

یہ مکان میرے ایک دوست نعیم کے ایک قریبی رشتہ دار کا ہے۔ وہ مع اہل و عیال ایک تقریب میں شمولیت کے لیے شہر سے باہر گیا ہے۔ اسے گھر کی حفاظت کے لیے ایک معتبر اور دیانت دار آدمی کی ضرورت تھی۔ اس نے مجھے لالچ دیا تھا کہ سلامت علی کی سفارش سے مجھے کہیں نہ کہیں ضرور ملازمت مل جائے گی اور کالج میں دیکھے ہوئے خوابوں کی جو بے حرمتی ہورہی ہے اس کے عذاب سے نجات مل جائے گی۔ اگر جلد کوئی انتظام نہ ہوسکا تو وہ مکان کی حفاظت کرنے کا معقول معاوضہ مجھے دلائے گا۔

بیکاری میری زندگی میںخوف کے دائرے بنارہی تھی اس لیے میں نے اسے ہی غنیمت جانا تھا۔ رات بارہ بجے تک میں ٹی وی دیکھتا رہا تھا۔ جب سونے کے لیے پلنگ پر لیٹا تو ایک عجیب سا خیال گزرتے لمحوں کو گرفت میں لینے کی کوشش کرنے لگا۔

کئی زایوں سے دنیا کا جائزہ لے کر میں خود کو ورغلانے لگا کہ میرے اس جگہ ٹھہرنے اور محافظ بننے کا کسی کے پاس تحریری ثبوت نہیں ہے۔ میں آزادانہ طور پر گھر کی تلاشی لے سکتا ہوں۔ سلامت علی ایک مالدار اسامی ہے۔ قیمتی اشیا سے گھر بھرا ہوا ہے۔ اگر بیس تیس ہزار کا مال ادھر ادھر بھی کردیا جائے تو کوئی فرق نہیں پڑے گا۔ پھر جس دوسر سے ہم گزر رہے ہیں اس کی رفتار بے حد تیز ہے، انتظار کا لفظ اپنا مفہوم کھو رہا ہے۔ اب تو یہی فکر لگی ہوئی ہے کہ جلد سے جلد ککھ سے لکھ بنا جائے۔خواہ برسوں کی مسافت منٹوں میں کیوں نہ طے کرنی پڑے۔ کون انتظار کرسکتا ہے کہ سلامت علی واپس آکر سفارش کرے۔ پھر دفتروں کے چکر لگائے جائیں اور جب کامیابی حاصل ہوجائے تو مہینے کے بعد ہزار بارہ سو سے زیادہ جیب سے کچھ نہ نکلے۔ ہاں اگر اس گھر کی تلاشی لے کر کچھ حاصل کرلیا جائے تو جوانی کا دور سرور انگیز طور پر گزرسکتا ہے اور پھر یکدم نعیم کا خیال آگیا۔

بچپن کا دوست … دوستی پر نازاں … رفاقت قابلِ افتخار۔ یہ سوچنا بھی جرم ہے… میرے اندر دور تک قہقہوں کی گونج نے ہر تعمیر پسند جذبے کو ادھ موا بنادیا تھا… صبح کو ناشتے کے بعد کچھ دیر تک ٹہلتا رہا تھا اور اب کھڑکی پر آگیا ہوں۔ میں اپنے منصوبے کو حتمی شکل دے کر عملی قدم اٹھانا چاہتا ہوں۔ کئی ایک رخنے دکھائی دیے ہیں… انہیں بند کرنا ضروری ہے۔ اوہ! نہیں!!

میرے اندر جیسے چمکیلی لائن پر دوڑتی ہوئی مال گاڑی کے کئی ڈبے پٹری سے اترکر زمین میں دھنس گئے ہوں۔

’’نہیں یہ توقیر نہیں ہے۔ ہاں۔ وہ تو ہم سب سے زیادہ لائق، ہوشیار، ہوش مند اور بااثر طالب علم تھا۔ وہ تو … یقینا اس وقت کسی اعلیٰ عہدہ پر فائز ہوگا۔ اور یہ !!

میں نے آنکھیں زور سے میچ کر کھول دی ہیں۔

’’خود کو ورغلانے سے کیا فائدہ! یہ توقیر ہی ہے۔ جو سگریٹ ایجنسی کی ٹرائیسایکل پر سوار… دکانداروں کو سگریٹ کا کوٹہ تقسیم کررہا ہے۔ ہاں ہم میں سب سے زیادہ حسین خواب دیکھنے والا خوبرو جوان جو دنیا کو اپنے سامنے جھکانے کے لیے ہر حربہ استعمال کرنا اپنے بائیں ہاتھ کا کھیل سمجھتا تھا۔ وہ اب ایک معمولی سی ملازمت حاصل کرکے ماضی کے رخشندہ کینوس پر انگڑائی لیتی ہوئی مدہوش کن تصویر پر سیاہ برش پھیر رہا ہے۔ اس نے یقینا اب تو زندگی کی گاڑی کا رخ بدلتے دیکھ کر اپنی عقل پر بھروسہ کرنا چھوڑ دیا ہوگا!‘‘

میں اسے آواز دے کر ٹھہرانا چاہتا ہوں، مگر حلق سوکھ گیا ہے اور ہونٹ چپک کر رہ گئے ہیں۔ میری نظروں کا مرکز ٹریفک کا سپاہی بن گیا ہے۔ سفید قمیص کاسنی رنگ کی پتلون میں اچھے ڈیل ڈول کا سپاہی بڑا جی دار معلوم ہورہا ہے۔ ایسے ہی نڈر اور بہادر ملازمین اندرونی خلفشار پر قابو پانے میں معاون ثابت ہوسکتے ہیں۔ اور مگر مگر … یہ کیا! ایک یاماہا پر سوار تین خوش پوش نوجوان پاس سے گزر گئے ہیں۔ ان کی مسکراہٹ میں ایک طنز ہے، ایک چیلنج ہے کہ جیسے کہہ رہے ہوں:

’’ہمت ہے تو ہمیں روک کر بتاؤ۔ چالان کرنے کی جرأت کرو۔ پھر سارے کالج کو یہاں پر جمع کرکے ایسا مزہ چکھائیں گے کہ ساری عمر ہسپتال میں گزار دو گے۔‘‘

یہ امیر زادے کالج کے طالب معلوم ہوتے ہیں۔ بہت زیادہ حسین دکھائی دینے والے اور سگریٹ کی ایجنسی پر ملازمت اختیار کرنے والے … اور … سپاہی نے ایک میلے کپڑوں والے نوجوان کو روک لیا ہے۔ اس کا اسکوٹر پرانا ہے۔ اس نے نیچے اتر کر ہاتھ جوڑ دیے ہیں۔ یہ اسکوٹر بھی اس کا اپنا معلوم نہیں ہوتا۔ جیسے وہ کسی کارخانہ میں ملازم ہے۔ اس کے پاس متعلقہ کاغذات ہی نہیں ہیں … کئی آدمی ارد گرد جمع ہوگئے ہیں… اس کی جیب سے شاید مطلوبہ رقم نہیں نکلی۔ اس لیے سپاہی چالان کرنے پر مصر ہے۔ ایک ادھیڑ عمر کا واقف کار مل گیا ہے۔ وہ نوجوان کو ایک طرف لے گیا ہے۔ جیب سے کچھ رقم نکال کر اسے پکڑا دی ہے اور نوجوان یہ رقم چند گز کے فاصلے پر کھڑے ہوئے ریڑھے والے کو پکڑا آیا ہے اور اس کی خلاصی ہوئی۔ سپاہی نے چالان فارم والی کاپی چھوٹے چرمی بیگ میں ڈال لی ہے اور سیٹی بجاکر موڑ مڑنے والے تانگہ بان کی توجہ اپنی جانب مبذول کرالی ہے۔۔۔

دو نو عمر لڑکے سوزوکی کار پر سوار شوںشوں کرکے گزر گئے ہیں۔ ان کو روکنے کی بھی سپاہی میں ہمت نہیں پیدا ہوئی۔ اب وہ ایک دیہانی ہنڈا موٹر سائیکل سوار کے سامنے تن کر کھڑا ہوگیا ہے۔ مجھ پر جھنجھلاہٹ سوار ہوگئی ہے۔ میں ریڑھی والے کی طرف قہر آلودہ نظروں سے دیکھتا ہوں، لیکن اس میں ریڑھی والے کاکیا قصور ہے!

وہ بھی تو ریڑھی پر سجے ہوئے پھیل بیچنا چاہتا ہے اور اس کے لیے پولیس والے کی خوشنودی حاصل کرنا لازمی امر ہے۔ اگر وہ اسے اعتماد میں نہ لے چکا ہوتا تو یہاں سے کہیں دور جاچکا ہوتا۔ یہ جگہ جو پھل فروخت کے لیے بے حد موزوں ہے کسی دوسرے نے حاصل کرلی ہوتی اور وہ! وہ تو انور ہے… میرا چھوٹا بھائی۔ مجھے تعلیم دلواکر پچھتانے والے باپ نے چھوٹے بیٹے کو میٹرک کے امتحان سے پہلے ہی اسکول سے اٹھا کر کارخانہ میں اپنے ایک دوست کا شاگرد بنادیا تھا۔

اب وہ ہر ماہ کچھ نہ کچھ کمانے لگا ہے۔ اسی لیے وہ بڑے مزے سے سگریٹ کا کش لگا رہا ہے اور میں اس کی نظروں میں اپنی وقعت کھوچکا ہوں۔ نہ کوئی کام کرسکتا ہوں اور نہ چھوٹی موٹی ملازمت ہی آنکھوں میںجچتی ہے۔ یہ مشورہ مجھے کسی بھلے مانس نے دیا تھا کہ اور کچھ نہیں کرسکتے تو عشق ہی کیا کرو۔ ہاں یہ مشورہ مجھے ذلیل کرنے کے لیے دیا گیا تھا۔ حالانکہ میں گُر آزما چکا تھا اور بڑی مشکل سے جیل جانے سے بچ سکا تھا۔ انور شاید کسی کام کے لیے کارخانہ سے باہر آیا تھا۔ اس نے پہلے تو کبھی سگریٹ نہ پیا تھا۔ کم از کم میں نے اسے کبھی کش لگاتے نہیں دیکھا ہے۔ اور اب … اس اسٹائل سے دھواں چھوڑ رہا ہے جیسے کسی فلم کا ویلن ہو۔ میں اسے نصیحت نہیں کرسکتا۔ بے کار آدمی کسی کو مشورہ دینے کے قابل نہیں سمجھا جاتا۔ میں ملازمت نہ ملنے پر ناکارہ پرزہ بن کر رہ گیا ہوں۔ اسی لیے تو اس مکان کی تلاشی لے کر عیش اڑانا چاہتا ہوں۔ ہاں اسی طرح تو راتوں رات امیر کبیر بن سکتا ہوں۔ کون تحقیق کرے گا! کون تعاقب کرے گا۔ کون! کون!!

لیکن وہ جوان لڑکی یہ تو ہو بہو شانو ہے۔ میری چھوٹی اور انور کی بڑی بہن۔ اور اس کے ساتھ یہ بڑھیا کون ہے؟ یہ بھڑکیلا میک اپ کرکے اس وقت کہاں جارہی ہے؟ نہیں … یہ کوئی اور ہوسکتی ہے۔ حقیقت کو مت بھولو۔ تم کون ہوتے ہو دیوار کھڑی کرنے والے۔ تمہاری اپنی حیثیت کیا ہے! ہاں … ایک ناکارہ پرزہ… اور …لیکن میں … ایسے نہیں ہونے دوں گا۔ میں اس بڑھیا کو نہیں جانتا صرف شانو کو پہچانتا ہوں۔‘‘

شانو … ٹھہرو… رک جاؤ… میں آواز دیتا ہوں لیکن ٹریفک کا شور میری آواز کو نگل لیتا ہے۔ میں نیچے کی طرف بھاگتا ہوں۔ آخری سیڑھی پر آکر دروازہ اندر کی طرف کھینچتا ہوں لیکن وہ تو باہر سے بند ہے، شاید مقفل ہے۔

مالک مکان جاتے وقت ضرور باہرتالا لگاگیا ہوگا۔ ضروریات زندگی کی ہر چیز فریج میں جمع کرکے۔ مجھے قیدی بناگیا ہے۔ یہ آدمی خود کو دوسرے سے زیادہ عقل مند ثابت کررہا ہے… میں شور مچا کر باہر کی دنیا کی ہمدردی حاصل نہیں کرسکتا۔ میں تو ان کے لیے اجنبی تھا۔ وہ سب مجھے وقتی طور پر چور سمجھ سکتے ہیں۔ بعد میں رہائی نصیب ہوجائے مگر پہلے تو حوالات میں بند ہونا پڑے گا… اوپر … تیسری منزل پر جانے کو جی گھبرا رہا ہے… بہت تھک گیا ہوں … کیا کروں … اتنا قیمتی ساز وسامان … مقفل دروازہ … میں وہیں بیٹھ کر شانو کا تعاقب کرنے لگا ہوں۔

مزید

حالیہ شمارے

ماہنامہ حجاب اسلامی ستمبر 2024

شمارہ پڑھیں

ماہنامہ حجاب اسلامی شمارہ ستمبر 2023

شمارہ پڑھیں

درج بالا کیو آر کوڈ کو کسی بھی یو پی آئی ایپ سے اسکین کرکے حجاب اسلامی کو عطیہ دیجیے۔ رسید حاصل کرنے کے لیے، ادائیگی کے بعد پیمنٹ کا اسکرین شاٹ نیچے دیے گئے  وہاٹس ایپ پر بھیجیے۔ خریدار حضرات بھی اسی طریقے کا استعمال کرتے ہوئے سالانہ زرِ تعاون مبلغ 600 روپے ادا کرسکتے ہیں۔ اس صورت میں پیمنٹ کا اسکرین شاٹ اور اپنا پورا پتہ انگریزی میں لکھ کر بذریعہ وہاٹس ایپ ہمیں بھیجیے۔

Whatsapp: 9810957146