بینڈ باجے والے جو کروں کی سی وردیوں میں ملبوس کوٹھی کے برآمدے میں اکتائے ہوئے سے بیٹھے بیڑیاں پی رہے تھے۔ اُن کی نفریاں اور شہنائیاں دیوار کے ساتھ لگی ہوئی ایک قطار میں پڑی تھیں۔ بینڈ ماسٹر تھوڑے تھوڑے سے وقفے کے بعد شاید گھر والوں کو اپنی موجودگی کا احساس دلانے کے لیے اپنے نقارے پر ایک ہلکی سی چوٹ لگا دیتا تھا۔ مگر اندر تو دعوت، پورے جوبن پر تھی۔ مہمان ڈٹ کر کھا رہے تھے اور اُن کی پلیٹیں بار با مٹھائیوں سے بھردی جاتی تھیں اور ہر مہمان سے تھوڑا سا اور کھالینے کے لیے بار بار اصرار کیا جارہا تھا۔ جیسے دعوت نہیں، کھانے کھلانے کی کوئی جنگ ہورہی تھی۔ مٹھائیوں کے علاوہ سب کے سامنے گرم گرم دودھ کے گلاس بھی بھرے رکھے تھے۔ وہ بھی ابھی اُن سب کو پینے تھے کہ ریت ہی ایسی تھی۔ لڑکے کا بڑا بھائی اور چچا دونوں گلابی رنگ میں نہائے بیٹھے تھے۔ باقی مہمانوں پر بھی گلابی رنگ بڑی فراخ دلی سے چھڑکا گیا تھا۔ خاطر و مدارات کے ساتھ ساتھ اُن سب سے مذاق بھی ہورہا تھا۔ چنانچہ تھوڑے تھوڑے وقفے کے بعد کسی برجستہ فقرے پر صحن کی فضا قہقہوں سے گو نج اٹھتی تھی۔
سوماؔ اپنے کمرے میں بیٹھی کھڑکی کی جالی میں سے یہ سب تماشا دیکھ رہی تھی۔ اس کے ساتھ والے کمرے میں مٹھائیوں اور خشک میووں سے بھرے ہوئے چالیس تھال رنگ برنگ پنّیوں سے ڈھکے تخت پر رکھے تھے۔ ادھر ایک کونے میں تپائی پر پڑا ہوا اکتالیسواں تھال کرنسی نوٹوں سے لد رہا تھا۔ سو سو روپے کے نئے نوٹوں کے کئی بنڈل اُس میں بڑے قرینے سے سجے تھے۔ اس کا چھوٹا بھائی مدنؔ ابھی منڈی سے پھلوں کے ٹوکڑے لے کر نہیں لوٹا تھا۔ اس کے آنے پر ہی اس کا شگن یہاں سے روانہ ہونا تھا۔
سوماؔ کے لیے یہ تماشا نیا نہیں تھا۔ ایسا پہلے بھی کئی بار ہوچکا تھا۔ کتنی ہی دفعہ اس کی منگنی کا جلوس اسی طرح شان و شوکت سے نکالا گیا تھا۔ لیکن یہ بیل اب تک منڈھے نہیں چڑھ سکی تھی۔ جونہی اُس کی شکل و صورت کے بارے میں کچھ چرچا ہونے لگتا منگنی کا شگن واپس آجاتا۔سوماؔ کی زندگی کا یہ سب سے بڑا المیہ تھا کہ وہ بہ ظاہر خوبصورت اور گورے رنگ کی نہ تھی۔ یہی وجہ تھی کہ سانولے رنگ والی یہ لڑکی اپنے خوب صورت دل اور روشن دماغ کے باوجود ابھی تک کسی کو پسند نہیں آئی تھی، اول تو لڑکے والے اسے دیکھتے ہی رشتے سے کنی کاٹ جاتے یا پھر اگر کسی جگہ اس کے سانولے رنگ کی طرف سے آنکھیں بند کروا کر، یا اپنی امیری کے بل بوتے پر اس کا رشتہ کر بھی دیا جاتا تو بھید کھلتے ہی اس کی سسرال میں ایک ہنگامہ کھڑا ہوجاتا۔ لڑکا باغی ہوکر گھر سے بھاگ نکلتا اور رشتہ ٹوٹ جاتا۔ ایسا تین بار ہوچکا تھا۔ اس کا باپ اچھا کھاتا پیتا اور حوصلہ مند آدمی تھا۔ اُس نے ہر چند اسے سونے اور چاندی میں مڑھ کر دینا چاہا، مگر اس پر بھی سب کو یہ سودا گھاٹے کا معلوم ہوا۔ خوبصورتی کی اپنی جو ایک الگ قیمت ہے، وہ کسی طرح بھی مال و زر سے چکائی نہ جاسکی۔ اس لیے پچیس سال کی ہوچکنے پر بھی سوماؔ ابھی تک بِن بیاہی تھی۔ وہ پہاڑ گنج کے ایک پرائیویٹ گرلز ہائی اسکول میں استانی بن کر اپنی جوانی کاٹ رہی تھی۔ پانچ ہزار روپیہ مہینہ تنخواہ پاتی تھی اور اپنے والدین پر کسی طرح کا بوجھ نہیں تھی۔ لیکن اس کی شادی کردینا تو ان کا ایک سماجی اور اخلاقی فرض تھا۔وہ اس سے سبکدوش ہونا چاہتے تھے۔ اس لیے اس سلسلے میں سر توڑ کوشش کررہے تھے۔ اس نئے رشتے کی بات ابھی پچھلے ہفتے ہی اُن کے گھر میں چلی تھی۔ لڑکے کی دونوں بھاوجیں شگن سے پہلے اسے آکر دیکھ بھی گئی تھیں۔ اس کے باوجود اُن کی طرف سے ’’ہاں‘‘ ہوگئی تھی اور آج دھوم دھام سے اس کی منگنی کا شگن دیا جارہا تھا۔
سوماؔ حیران تھی کہ یہ سب کچھ کیسے ہوگیا۔ اسے دیکھ لینے کے بعد بھی اُن لوگوں نے ہاں کیونکر کہہ دی۔ کہیں وہ بھاوجیں ہی تو گھر میں اپنی برتری قائم رکھنے کے لیے اسے اپنے چھوٹے دیور کے سر نہیں منڈھ رہی ہیں۔ ممکن ہے انھوں نے گھر جاکر اس کی جھوٹی تعریف کی ہو اور اس گھر سے اچھا جہیز ملنے کے لالچ میں اپنے گھر والوں کو یہ رشتہ لے لینے پر راضی کرلیا ہو۔
احساسِ کمتری نے سوما کے دل میں کئی وسوسے پیدا کردیے تھے۔ اس کا دل ایک انجانے خوف سے دھڑک رہا تھا۔ بار بار کے انکار نے اُس کے اندر اس مسئلے کا روشن پہلو دیکھنے کی صلاحیت ہی نہیں رہنے دی۔ بدصورتی کے منحوس سائے اس کی سوچوں پر بہت گہرے ہوچکے تھے۔ اس لیے اُس کا دماغ ہمیشہ اندھیرے کی طرف ہی لپکتا تھا۔ روشنی میں اُس کے خیالات کی آنکھیں چندھیا جاتی تھیں۔ اس وقت بھی جبکہ سب کچھ ٹھیک طرح سے ہورہا تھا، اسے حالات کی مخالف لہر ہوّا بن کر ڈرا رہی تھی اور وہ اپنے غیر یقینی مستقبل سے خوف زدہ ایک کونے میں دبکی بیٹھی تھی۔
مہمان دعوت اڑا کر اٹھ کھڑے ہوئے تھے۔ مدنؔ بھی پھلوں کے ٹوکرے لے کر پہنچ گیا تھا اور شگن کے تھال اب لڑکے والوں کو سنبھلوائے جارہے تھے۔ اتنا بھاری شگن دیکھ کر سب کی آنکھیں حیرت سے پھٹی ہوئی تھیں، مگر اس کا باپ اب بھی سب کے سامنے اپنی عاجزی اور کم مائیگی کا اظہار کررہا تھا۔ اسے اپنے بوڑھے باپ پر رحم آنے لگا۔ اس کی آنکھوں میں آنسو امڈ آئے اور اپنے لیے اُس کے اندر نفرت کاجذبہ جاگ اٹھا۔ وہ اپنے آپ کو مجرم تصور کرنے لگی۔ جیسے بدصورتی اُس کااپنا ہی گناہ تھا، جس کی وجہ سے اُس کے باپ کی بار بار ہیٹی ہورہی تھی! وہ یہ سب کچھ دیکھنے سے پہلے ہی مرجاتی۔
باہر بینڈ والوں نے اپنے باجے سنبھال لیے تھے۔ کرائے کے مزدور شگن کے تھال سروں پر رکھے ایک قطار میں باہر نکل رہے تھے۔ پھر سمدھیوں نے بھی بڑے تپاک سے ایک دوسرے سے ہاتھ ملایا اور ایک ایک کرکے باہر جانے لگے۔ باجوں کا شور بلند ہوا اور ایک بار پھر اس کا شگن جلوس کی صورت میں اُن کے گھر سے نکل کر سڑک کی طرف ہولیا۔
گھر والے اب اپنے برتن بھانڈے سنبھالنے میں مصروف تھے۔ پلیٹوں، گلاسوں اور چمچوں کی گنتی ہورہی تھی۔ سب لوگ مسرور اور مطمئن نظر آرہے تھے۔ جیسے سب کچھ ٹھیک ہوگیا ہو اور اب خطرے کی کوئی بات باقی نہ رہی ہو۔ مگر سوما کو خطرہ اب بھی سر پر کھڑا نظر آتا تھا۔ اس کا یقین اب بھی متزلزل تھا۔ یہ بات اُس کے دل میں بیٹھ چکی تھی کہ لڑکے کی بھاوجوں نے گھر جاکر اس کی شکل و صورت کے بارے میں جھوٹ بولا ہے اور جب بھی اس جھوٹ کا پول کھل گیا، بات پھر وہیں آجائے گی۔ وہ خود تو اپنے منگیتر کو ایک بار دیکھ چکی تھی۔ گھر میں بڑوں کے درمیان کچھ ذکر اذکار سے اسے پتا لگ گیا تھا کہ اس کا نام گلشن ہے اور وہ نئی دہلی ریلوے اسٹیشن پر ریزرویشن کلرک ہے اور پھر یہ بھی محض ایک اتفاق تھا کہ ایک دن اسے فوارہ سے پہاڑ گنج کی بس بروقت نہ ملنے کے باعث دہلی میں اسٹیشن سے ٹرین کے ذریعے اسکول جانا پڑا اور نئی دہلی ریلوے اسٹیشن کی ڈیوڑھی سے گزرتے ہوئے اس کی نظریں لاشعوری طور پر ریزرویشن آفس کی طرف اٹھ گئی تھیں۔ بابو صاحب اس وقت کسی مسافر سے باتوں میں مصروف تھے۔ خاصے قبول صورت تھے۔ سوما نے محسوس کیا کہ وہ ان کے لیے بالکل موزوں نہیں تھی۔ اس کی صورت دیکھ کر وہ یقینا اس رشتے سے انکار کرسکتے تھے، لیکن ایسا نہیں ہوا۔ شگن گئے ہوئے ایک مہینہ گزر گیا تھا مگر کسی رخ سے کوئی گڑ بگڑ نہ ہوئی۔ لڑکے والوں کے ہاں سے اس کے لیے سونے کی انگوٹھی بھی آگئی تھی اور اب شادی کی تاریخ پکّی کرنے کے لیے خط و کتابت ہورہی تھی۔ مگر سوما بدستور خوفزدہ تھی۔ اسے یہ سلسلہ ریت کی ایک دیوار نظر آرہا تھا اور شادی کی تیاریوں کے ساتھ ساتھ اس کی گھبراہٹ برابر بڑھتی جارہی تھی۔ وہ اپنے آپ کو صلیب پر چڑھا ہوا محسوس کرتی۔ ہر گزرتا ہوا دن اس کے ذہن میں ایک نئی کیل ٹھونک جاتا۔ ہر روز اسکول سے واپس آتے ہوئے اسے ایک بار ضرور یہ خیال آتا کہ آج اس کا شگن واپس آگیا ہوگا۔ مگر گھر پہنچ کر جب اسے یہ پتا لگتا کہ ایسی کوئی بات نہیں ہوئی تو وہ اداس ہوکر فکر مند ہوجاتی۔ شگن کی واپسی کا انتظار وہ بالکل ایک متوقع جوابی خط کی طرح کررہی تھی جس میں اس کی سزا کی منسوخی کا حکم آنے والا تھا۔ گھر میں بھی وہ جتنی دیر رہتی اس کے کان ہر وقت صدر دروازے پر کسی دستک کے منتظر رہتے۔ اس وقت اگر گھر کا کوئی اپنا آدمی بھی اچانک اندر داخل ہوتا تو وہ دروازے کی طرف یوں چونک کر دیکھتی جیسے اس کا شگن واپس آگیا ہو۔ وہ خود بھی حیران تھی کہ ایسی الٹی سیدھی باتیں کیوں اس کے ذہن میں ابھر آتی ہیں۔ وہ تو شادی کی بڑی خواہش مند تھی۔ برسوں سے اس مقدس موقعے کا انتظار کررہی تھی۔ ازدواجی زندگی کے بارے میں اس نے کیسے کیسے سپنوں کے جال بن رکھے تھے۔ مگر اب جبکہ سب کچھ ٹھیک طرح سے ہورہا تھا، وہ کیوں برے امکانات کے بارے میں سوچتی تھی۔ کیوں اُن خوش آئند حقائق سے پہلو بچانا چاہتی تھی جو اس کی زندگی کے لیے ایک سیدھا راستہ مقرر کررہے تھے۔ شاید اس کا اپنا ہی کوئی چور اس کے دل میں ڈر بن کر چھپ گیا تھا۔ اور وہ ہزار کوشش کے باوجود اپنے ذہن میں ایک خوش گوار گرہستی زندگی کا تصور نہیں لاپاتی تھی۔ ہمیشہ اس کے گھناؤنے پہلو ہی اس کے خیالات پر حاوی ہوجاتے تھے۔ گھر میں شادی کا ذکر ہوتے ہی اسے یوں لگتا جیسے اسے کسی بہت بڑے آپریشن کے لیے ہسپتال میں داخل کرانے کی تیاریاں ہورہی ہوں۔ دہشت سے اس کا رواں رواں کانپ جاتا۔ مذبح میں لے جائے جانے والی کسی بکری کی طرح اس کی روح سہم جاتی۔ وہ سارا سارا دن پریشان خیالات کے تانوں بانوں میں الجھی رہتی اور پھر یہی دبے گھٹے ہوئے خیال ڈراؤنے خواب بن کر سیاہ آوارہ بادلوں کی طرح اس کے ذہن پر چھا جاتے۔ وہ دیکھتی کہ وہ سب لوگ جو شگن کے موقع پر ان کے ہاں دعوت کھانے آئے تھے، اب تیزاب سے اس کے چہرے کی سیاہی دھورہے ہیں۔ اس کے جسم کو شکنجوں میں کس کر اسے دبلا کرنے کی کوشش کررہے ہیں۔ اس کی کھال ادھیڑ کر اس کے ڈھانچے پر نئی سفید کھال چڑھائی جارہی ہے۔ وہ سخت اذیت محسوس کرتی، چیخنا چاہتی، مگر ہر بار اس کی آواز گلے میں گھٹ کر رہ جاتی اور وہ کسمسا کر جاگ پڑتی۔ اپنے ہونے والے شوہر کو اس نے کئی بار دوسری شادی رچاتے ہوئے بھی دیکھا تھا۔ اپنی سوتوں سے تو وہ اکثر خواب میں جھگڑا کرتی تھی۔ لیکن اس کی اس ذہنی کشمکش اور اپنے مقدر کے متعلق مکمل بے اعتمادی کے باوجود اس کی شادی کی تاریخ دسہرے کے دن کے لیے پکی ہوگئی۔ جس دن ان کا پروہت شادی کا مہورت لے کر ان کے گھر آیا، وہ دن اس پر قیامت کی طرح گزرا۔ دو دھاری تلوار کی سی سوچوں نے اس کے دل و دماغ کو چھلنی کرڈالا۔ اس رات اسے ایک نہایت بھیانک خواب دکھائی دیا کہ وہ عدالت کے کٹہرے میں کھڑی ہے۔ سب لوگ حقارت سے اس کی طرف دیکھ رہے ہیں۔ جج اس کی طرف پیٹھ کیے بیٹھا ہے۔ وکیلوں کے ہاتھ اس کے سامنے ہوا میں لہرا رہے ہیں اور چاروں طرف سے بپھری ہوئی آوازیں بلند ہورہی ہیں! ’طلاق… طلاق…!‘‘
وہ ہڑ بڑا کر اٹھ بیٹھی۔ اس کا دل زور زور سے دھڑک رہا تھا۔ اس کے بعد نیند اس کی آنکھوں سے غائب ہوگئی۔ خیالات کے تند ریلے اس کے ذہن کو شدت سے ہلورے دینے لگے۔ ادھر سے ادھر اور ادھر سے ادھر۔ اور پھر صبح جب وہ گھر سے تیار ہوکر اسکول روانہ ہوئی تو اس کے قدم بس اسٹینڈ کی بجائے آپ ہی آپ اسٹیشن کی طرف اٹھنے لگے اور اسی دن کی طرح وہ ایک بار پھر گاڑی پر سوار ہوکر نئی دہلی ریلوے اسٹیشن پر جا اتری اور ڈیوڑھی کے گیٹ سے گزر کر چپ چاپ ریزرویشن کاؤنٹر کے سامنے جا کھڑی ہوئی۔ ڈیوڑھی پر بیٹھے ہوئے گلشنؔ نے اس کی طرف دیکھ کر عام سے دفتری لہجے میں کہا:
’’کیا چاہیے آپ کو؟‘‘
’’مجھے…؟ نہیں چاہیے تو کچھ بھی نہیں… میں… میں تو آپ کو صرف یہ بتانے آئی ہوں کہ جس لڑکی سے آپ کی منگنی ہوئی ہے … وہ … وہ میں ہوں۔ یہ دیکھئے آپ کے گھر کی انگوٹھی… میرا مطلب ہے شادی سے پہلے آپ لوگ پھر اپنے فیصلے پر غور کرلیجیے۔ ایسا نہ ہوکہ …‘‘ اس سے آگے سوماؔ کچھ نہ کہہ سکی۔ گلشنؔ کے جواب کا بھی اس نے انتظار نہ کیا۔ بس فوراً وہاں سے چل پڑی اور تیزی سے قدم اٹھاتی ہوئی اسکول کی جانب روانہ ہوگئی۔ اس وقت وہ اپنے آپ کو بہت ہلکا محسوس کررہی تھی۔ اپنے ذہن کے پکے ہوئے پھوڑے کا مواد آج اس نے نکال دیا تھا۔
تیسرے دن اس کا شگن واپس آگیا۔ سارے گھر میں کھلبلی مچ گئی۔ لیکن سوماؔ اطمینان کا گہرا سانس لے کر اندر اپنے پلنگ پر دراز ہوگئی۔ جیسے ایک بہت بڑا بوجھ اس کے سر سے اتر گیا ہو۔