بولتے پرندے اور طلحہ!

تسنیم حسین شیخ

’’کوؤؤک…کوؤ… وک… کو… و‘‘ کوئل آم کے درخت پر بیٹھی اپنی مسحور کن آواز میں لہک رہی تھی!
محمد طلحہ کو کافی دیر ہوگئی اس پر ریسرچ کرتے ہوئے۔ امی نے باورچی خانے کی کھڑکی سے باہر لان کی طرف دیکھا اور طلحہ کو آواز لگائی۔ ’’بیٹا ناشتہ لے کر گئے تھے اور برتن ابھی تک واپس نہیں لائے۔‘‘ امی نے طلحہ کو بغور دیکھا… جو کہ ابھی تک کوئل کی مسحور کن آواز میں گم تھا…!
’’امی کیا آپ جانتی ہیںکہ یہ پرندے کیا بولتے ہیں؟‘‘ طلحہ نے سوال کرڈالا۔
’’ہاں بیٹا یہ اندازہ تو ہوتا ہے کہ آج وہ خوش ہیں یا ناراض… لیکن لفظ بہ لفظ اندازہ نہیں لگایا جاسکتا؟ ‘‘ امی نے زچ ہوکر جواب دیا۔ ’’گھریلو کام کاج اور بچوں کی مصروفیات میں اتنا وقت کہاں کہ پرندوں کی بولی پر بھی تحقیق کی جائے؟‘‘ انھوں نے کندھے اچکائے اور برتن دھونے میں مصروف ہوگئیں۔
طلحہ تو لگتا تھا آج امی سے پرندوں کی بولی پر مقالہ لکھوا کر چھوڑ گے گا۔ ’’امی جان! ابھی جب میں لان میں ناشتہ کررہا تھا تو میں نے اندازہ لگایا کہ کوئل اپنی کوک سے اپنی سہیلیوں سے کہہ رہی تھی کہ کیریاں پکنے والی ہیں… آم بننے والے ہیں… اے اللہ تیرا شکر ہے … اور مجھے آم پکنے سے گرمی بہت لگتی ہے، آپ مجھ پر پانی برسادو۔‘‘
’’ایں… واہ بھئی طلحہ… واہ… کیا بات ہے۔ ماشاء اللہ کیا خوب تحقیق کی … شاباش…! ‘‘ انھوں نے طلحہ کی پیٹھ تھپکی۔ ’’مجھے یقین ہے بیٹا تم ایک دن تمام پرندوں کی بولیوں پر کتاب لکھو گے۔ مجھے اپنے بیٹے پر ناز ہے اور اللہ کا احسان ہے کہ اس نے مجھے تمہاری صورت میں اتنا ذہین بیٹا عطا فرمایا۔‘‘
طلحہ نے سرجھکا کر امی کو تعظیم دی اور واپس لان کی راہ لی۔
گرمیوں کی چھٹیاں ہوچکی تھیں۔ طلحہ نے ریاضی کا کام مکمل کرلیا تھا… اب وہ سائنس کا جرنل سنبھال چکا تھا… اس نے اپنی چھٹیاں گزارنے کا پورا پروگرام پہلے سے مرتب کرلیا تھا… پہلے کام مکمل کرنا ہے، پھر ماموں کے گھر، اور پھر دوبارہ یاد کرنے والا کام کرنا ہے۔ اس نے کھیل کود کے لیے شام کا وقت مختص کیا تھا۔
جنید نے دروازے پر آواز لگائی۔ طلحہ نے دروازہ کھولا۔ جنید کے ساتھ چند دوست تھے۔ انھوں نے آپس میں سلام کیا اور ایک دوسرے کے حال احوال پوچھے اور اپنی اپنی مصروفیات کی اطلاع دی۔ ’’آج کل میں اپنے محلے کے لوگوں میں ’’صفائی نصف ایمان‘‘ کے بارے میں لیکچر پر کام کررہا ہوں تاکہ جگہ جگہ کچرے کے جو ڈھیر اکٹھے ہوجاتے ہیں ان کی صفائی ہوسکے۔ گھروں کا کچرا باہر ڈال کر اپنے گھر کی گندگی سے پورا محلہ سڑایا جاتا ہے۔ اور پھر جب ان کے بچے اس گندگی کے ڈھیر کے قریب سے گزرتے ہیں تو مختلف بیماریوں کا شکار ہوتے ہیں اور بچوں میں بیماری کے جراثیم جڑ پکڑلیتے ہیں، اور ایسے بچے پھر اپنی زندگی بھر پورطریقے سے نہیں گزار سکتے۔‘‘
’’تو کیا یہ بہتر نہ ہوگا کہ یہ کچرا محلوں اور آبادی سے باہر ڈالا جائے۔یا پھر بلدیہ کے ذریعے یہ مسئلہ حل کرلیا کریں!‘‘
’’اچھا یار طلحہ! تو بتا آج تیری فاختہ کیا پیغام دے رہی ہے؟‘‘ احمد نے موقع پاتے ہی اپنا سوال داغا۔
’’یہ امن کے سوا کیا پیغام دے سکتی ہے! تمھیں علم ہی ہوگا، بی فاختہ ہمیشہ لوگوں کو امن وسلامتی کا پیغام دیتی ہے۔ ہاں البتہ جب کل میں کھانا کھا رہا تھا تو ایک چڑیا میرے کمرے میں گھس آئی۔ اس نے پنکھے کے اوپری کٹورے میں اپنا گھونسلہ جو بنا رکھا تھا ، اس میں انڈے بچے دے رکھے تھے۔ وہ جب بھی انھیں کھانا دیتی تو ایک آدھ انڈا یا بچہ گھونسلے سے گرجاتا۔ اور کل تو حد ہوگئی۔ پنکھا چل رہا تھا، چڑیا اپنے بچوں کو دانہ دنکا دینے کے لیے پریشان تھی کہ گھبراہٹ میں وہ پنکھے میں آگئی، گرتے گرتے اس نے اللہ کو پکارا، کلمۂ شہادت پڑھا اور بچوں کو یاد کیا۔ ایسے میں میں نے بھاگ کر دو قطرے پانی اس کے حلق میں ٹپکایا تو وہ بڑیسکون سے بولی: طلحہ بھائی میرے دونوں بچوں کا خیال رکھنا۔ اور اللہ کو پیاری ہوگئی۔ میرے کاندھوں پر بڑی ذمہ داری آن پڑی۔ میں نے بڑی ہمت کرکے ایک گتے کے ڈبے میں گھونسلہ رکھا اور باجرا پیس پیس کر چڑیا کے بچوں کو دانہ پانی دینے لگا۔ امی کمرے میں آئیں اور جب انھوں نے مجھے اتنے انہماک سے بچوں میں محو پایا تو بڑے پیار سے بولیں: ’’طلحہ جب یہ بچے بڑے ہوں گے تو تمھیں مما مما بولیں گے اور تمہارے دونوں کاندھوں پر جھولا جھولیں گے۔‘‘ میں خوشی سے مسکرائے بنا نہ رہ سکا۔
میں نے ایک ہفتہ تک بڑی محنت کی۔ لیکن صد افسوس، پہلے ایک بچہ چوچو، پھر چی چی دونوں انا للہ ہوگئے۔
امی سے میرا افسردہ چہرہ نہ دیکھا گیا تو انھوں نے طوطوں کا جوڑا منگادیا۔ میں جب ان کو چنے کی دال اور روٹی پانی میں بھگو کر کھلاتا تو وہ تشکر بھری نگاہ سے مجھے دیکھتے اور بولتے: ہم اللہ کے حکم سے تمہارے پاس آئے ہیں، تمہارا دل بہلانے اور جو تم ہمارا خیال رکھتے ہو اس کے حکم سے، تو ہم تمہارا یہ احسان کبھی نہ بھولیں گے۔‘‘
دوپہر کو میں انھیں باغ میں لے آتا۔ لان میں آکر وہ بہت خوش ہوتے۔ انھیں اللہ کے بھیجے ہوئے اور پرندے بھی درختوں پر نظر آتے جو کہ آپس میں ایک دوسرے کو خوش آمدید کہتے اور اپنی قدرتی دعوتِ طعام یعنی پھل، پتے اور پودوں کی ایک دوسرے کو دعوت دیتے!
’’طلحہ بھائی! آپ کو پرندوں کی بولیاں کیسے پلے پڑتی ہیں۔‘‘ خالدہ حیرانی سے بھیا کو تک رہی تھی۔
’’رات کو ساڑھے تین بجے باہر کتوں کے بھونکنے سے آنکھ کھلی۔ میں چونکا، کوئی ناہنجار چور گھروں کی تاک میں تھا۔ کتے نے اسے محلے سے باہر بھگانے میں کامیابی حاصل کی اور آسمان کی طرف پرتشکر نگاہ سے دیکھا۔ اے اللہ تیرا شکر! میں نے اپنے محلے کے تھکے ماندے لوگوں کو چور کے عذاب سے بچالیا۔ چڑیاں پودوں میں چہچہارہی تھیں اور اللہ کی حمدوثنا میں مصروف تھیں۔ وہ سب اللہ تعالیٰ کی عبادت گزاری میں ایک دوسرے پر سبقت لے جانے میں مصروف تھے… جبھی تو اللہ تعالیٰ ان کے رزق کا انتظام ایسے ذرائع سے کرتا ہے کہ انھیں علم ہی نہیں ہوتا اور دانہ دنکا مل جاتا ہے!
کوے اور چیلیں بجلی کے تار پر بیٹھے پتا ہے کیا کہہ رہے تھے؟ شہر کے شہری بہت گندے ہوچکے ہیں… وہ اپنے گھروں کا سارا گند باہر ڈال کر بے فکر ہوجاتے ہیں۔ جہاں سے ہمیں گھروں کے کچرے سے رزق ملتا ہے۔ اس میں تمام گند مکس ہوتا ہے جو بیمار کردیتا ہے۔ ہمارے پیارے نبی ﷺ نے فرمایا ہے صفائی نصف ایمان ہے۔ اور اللہ تعالیٰ بھی اسے بہت پسند فرماتا ہے۔ حمز ہ کیا تمھیں معلوم ہے؟ ‘‘ طلحہ نے سوال کیا۔
’’چلو یار اب کرکٹ میچ ہوجائے۔‘‘ علی نے طلحہ اور جنید کی کمر تھپکی۔ ’’ہاں یار چلو اٹھو!‘‘ سبھی دوست ہاتھ میں ہاتھ ڈالے پارک کی جانب چلے۔ یہاں نہر کے کنارے بھی بہت کچرا تھا۔ مرغابیاں ان میں اپنی خوراک ڈھونڈ رہی تھیں۔ مچھلیاں ناراض لگتی تھیں۔ گھروں کا کچرا اور نالیاں نہر میں جو گررہی تھیں۔ پانی بہت گندا ہوچکا تھا۔ طلحہ نے کھلے کانوں سے ان کی شکایت سنی۔ بطخ، سارس، بگلے بھی کمزور دکھائی دے رہے تھے۔ دوسرے علاقوں سے آنے والے سیلانی پرندے نہر کے کنارے پر قدم جمانے سے ہچکچارہے تھے۔ مچھیروں نے جال ڈال رکھا تھا۔ لیکن ایک لمحے کو لگا یہ بیمار مچھلیاں ہوں گی جو مچھیرے کی روزی کو خراب کرڈالیں گی۔ طلحہ پھر افسردہ ہوگیا۔
صحت اللہ تعالیٰ کی عظیم نعمت بھی ہے اور عظیم امانت بھی۔ اس کی قدر اور حفاظت اللہ تعالیٰ کی جانب سے ہم پر فرض ہے۔ ایسی تعلیم سے کیا حاصل جو معاشرے کی بدحالی کو نہ سنبھال سکے۔ جو امن و سلامتی کا پیغام گھر گھر نہ پہنچاسکے! جو بھائی چارے اور ایثار کا سبق نہ دے! جو اللہ کو، اور اس کے رسول ﷺ کو نہ پہچانے کہ وہ دنیا میں کیوں بھیجے گئے۔ طلحہ نے افسوس سے ہاتھ ملے اور دوستوں کو کھیل ختم کرکے نماز کی دعوت دی ۔ ’’آؤ اب ہم اللہ کا شکر ادا کرنے چلیں۔‘‘
کوئل درختوں پر کوک رہی تھی، اور خدا کا شکر ادا کررہی تھی کہ ہمارے لیے آم پک گئے ہیں، آؤ اور اللہ کی نعمتوں سے فیضیاب ہوجاؤ… اور سجدئہ شکر بجالاؤ۔ وہ کہہ رہی تھی… طلحہ نے ترجمہ کیا اور سجدے میں گرگیا!
——

مزید

حالیہ شمارے

ماہنامہ حجاب اسلامی ستمبر 2024

شمارہ پڑھیں

ماہنامہ حجاب اسلامی شمارہ ستمبر 2023

شمارہ پڑھیں

درج بالا کیو آر کوڈ کو کسی بھی یو پی آئی ایپ سے اسکین کرکے حجاب اسلامی کو عطیہ دیجیے۔ رسید حاصل کرنے کے لیے، ادائیگی کے بعد پیمنٹ کا اسکرین شاٹ نیچے دیے گئے  وہاٹس ایپ پر بھیجیے۔ خریدار حضرات بھی اسی طریقے کا استعمال کرتے ہوئے سالانہ زرِ تعاون مبلغ 600 روپے ادا کرسکتے ہیں۔ اس صورت میں پیمنٹ کا اسکرین شاٹ اور اپنا پورا پتہ انگریزی میں لکھ کر بذریعہ وہاٹس ایپ ہمیں بھیجیے۔

Whatsapp: 9810957146