وہ اسپتال کےPediatric Intensive Care Unit PICU کے دروازے کی پاس کھڑا تھا۔ دروازہ کانچ کا تھا۔ کانچ پر گلاب کے پھول اور پھولوں کے درمیان دو ننھے بچوں کے مسکراتے ہوئے چہرے بنے ہوئے تھے۔ پھول کی طرح کھلےچہرے ۔۔۔ چہروں کے ٹھیک او پر کانچ کا گول حصہ شفاف تھا جس میں سے اندر جھانکا جا سکتا تھا۔
وہ شفاف کا نچ سے اندر جھانک رہا تھا۔ اندر اُس کا بیٹا تھا جسے دنیا میں آئے ابھی صرف آٹھ روز ہی ہوئے تھے۔
آٹھ روز پہلے جب اُس کی بیوی کو دردِ زہ شروع ہوا تو وہ فوراً اُسے اسپتال لے گیا تھا۔ لیڈی ڈاکٹر نے اُس کی بیوی کو ایڈمٹ کرنے میں کو تاہی نہیں کی تھی کیونکہ وہ اُس کی اس وقت سے مریض تھی جب اُسے دو ماہ کا حمل تھا تب سے وہ اپنی بیوی کو اسی لیڈی ڈاکٹر کے پاس بلاناغہ ہرماہ چیک اپ کے لیے لاتا رہا تھا، وہ مطمئن تھالیڈی ڈاکٹر کی اُس نے کافی تعریف سنی تھی۔
ابھی اُس کی بیوی کو اسپتال میں ایڈمٹ ہوئے تین گھنٹے بھی نہیں ہوئے تھے کہ لیڈی ڈاکٹر اُس کے پاس آئی۔’’ تمہاری پتنی کو زیادہ درد نہیں آرہا ہے۔ آپریشن کرنا ہوگا، تیس ہزار روپے خرچ آئے گا، دوائیاں الگ!‘‘
یہ سنتے ہی اُس کے پیروں تلے کی زمین کھسکنے لگی۔ وہ التجا آمیز لہجے میں لیڈی ڈاکٹر سے مخاطب ہوا : ’’ڈاکٹرنی صاحبہ! میں غریب آدمی ہوں!‘‘
’’غریب ہے تو سرکاری اسپتال لے جانا تھا!‘‘ لیڈی ڈاکٹر کے لہجے میں جھلاہٹ تھی۔
’’آپ کی میں نے بہت تعریف سنی اُس لیے جیسے ہی میری بیوی کے حاملہ ہونے کا مجھے پتہ چلا، آپ کے پاس ہی لاتا رہا ہوں!‘‘
’’ارے بھیا!تمہاری بات برابر ہے مگر یہ سرکاری اسپتال نہیں ہے۔ پتنی کی زندگی چاہیے تو آپریشن کرانا ہوگا کیونکہ اسے دردنہیں آرہا ہے!‘‘
لیڈی ڈاکٹر نے اُسے خوفزدہ کرنے کی کوشش کی۔
’’ڈاکٹر نی صاحبہ! اسے درد آرہا ہوگا مگر اُسے درد سہنے کی عادت پڑچکی ہے، زمانے سے وہ درد سہتی آرہی ہے، بیٹی ہونے کا درد، بہن بننے کا درد، سماج میں بے حیثیت ہونے کا درد اور اب ماں بنے کا درد۔وہ درد کا بھی اظہار نہیں کرتی بہت سہن شکتی ہے اس میں۔ اُسے درد ہورہا ہوگا، آپ یقین کیجئے، آپ بھی عورت ہیں دیکھنا بغیر آپریشن کے ہی اُسے بچہ ہوگا آپ تھوڑا انتظار تو کیجئے!‘‘
’’ میں انتظار نہیں کرسکتی اندر بچہ کمزور ہے بچے کی جان جا سکتی ہے یا ماں کی زندگی خطرے میں پڑ سکتی ہے آپریشن کرنا ہوگا۔‘‘لیڈی ڈاکٹر نے پھر اُسے ڈرایا۔
’’ نہیں ڈاکٹر نی صاحبہ! تھوڑا انتظار کر لیجئے، میں جانتا ہوں میری بیوی کیسی ہے، درد سہنے کی بہت شکتی ہے اُس میں، جب جب اُسے بخار آیا ہاتھ، پاؤں، کمر میں درد ہوا، اُس نے کچھ نہیں کہا، گھر کا سارا کام کاج خاموشی سے کرتی رہی۔‘‘
’’کیسے آدمی ہو تم! میں کیا کہہ رہی ہوں اور تم کیا بک بک کئے جارہے ہو!‘‘ لیڈی ڈاکٹر نے اُسے ڈانٹا۔
اُسی وقت ایک نرس دوڑی دوڑی آئی۔ ’’میڈم! ان کی پتنی کی ڈلیوری ہوگئی!‘‘ نرس اُس کی طرف اشارہ کر کے بولی۔
جواب میں لیڈی ڈاکٹر نے تیوری چڑھا کر اس کی طرف دیکھا، نرس سے خبر سن کر اُس کی باچھیں کھل گئیں۔’’ میڈم!‘‘ ( نرس کی زبان سے میڈم سن کر وہ ڈاکٹر نی کو میڈم کہنے لگا) ’’میڈم ! میں نے کہا تھانا میری پتنی کو دردسہنے کی عادت ہے، اُس نے ماں بننے کے درد کو بھی ظاہر نہیں کیا۔ کیا ہوا اُسے لڑکا یالڑکی ؟‘‘ وہ نرس سے پوچھنے لگا۔
نرس نے کوئی جواب نہیں دیا، وہ لیڈی ڈاکٹر کے ماتھے کی شکنوں کے شکنجے میں پھنس گئی تھی اور مجرم کی طرح سر جھکا کر جا چکی تھی۔
وہ لیڈی ڈاکٹر سے مخاطب ہوا ’’میری پتنی کولڑ کا ہو یا لڑکی؟ یہ بتادیجیے نا!‘‘
جواب میں لیڈی ڈاکٹر نے سر ہلا کر ’’ہوں‘‘ کہا اور چلی گئی۔ ابھی دومنٹ بھی نہیں ہوئے تھے کہ واپس آئی اور کہا: ’’بھگوان کی کرپاسے تمہاری پتنی کی ڈلیوری تو نارمل ہوگئی۔ لڑکا ہوا ہے مگر بچہ بہت کمزور ہے پیدا ہونے کے بعد وہ رویا نہیں!‘‘
’’تو کیاہوا ….. زندگی بھر تو اُسے میری طرح رونا ہی ہے نا!‘‘
’’ وہ رونا الگ اور بچہ کا پیدا ہوتے ہی نہ رونا خطرے کی بات ہے!‘‘
لیڈی ڈاکٹر نے اسے سمجھانے کی کوشش کی۔
’’عجیب بات ہے میڈم انسان کا پیدا ہوتے ہی نہ رونا خطرے کی بات بن جاتی ہے اور اُس کا زندگی بھر کا رونا کسی کے لیے خطرناک بات نہیں بنتی۔‘‘
’’ تمہاری اس طرح کی بکواس سننے کے لیے میرے پاس وقت نہیں ہے۔‘‘ لیڈی ڈاکٹر چڑ کر کہنے لگی۔ ’’بچہ بہت کمزور ہے اُس کی زندگی خطرے میں ہے اُسے فوراً PICU میں ایڈ میٹ کرنا ہوگا۔ میرے اسپتال میں PICU نہیں ہے۔ جلدی بتاؤ ۔۔۔۔!‘‘ لیڈی ڈاکٹرنے اُسے اس انداز میں کہا کہ وہ گھبرا گیا۔
’’کس اسپتال میں PICU ہے میرے بیٹے کو کہاں ایڈمٹ کرنا ہوگا ؟!‘‘ اس کے لہجے میں لرزش آگئی تھی۔
’’ٹھہرو میں بات کرتی ہوں۔‘‘ یہ کہہ کر وہ اپنے کیبن میں چلی گئی۔
وہ خوفز ده بینچ پر بیٹھ گیا سر جھکائے ماتھے پر ہاتھ رکھے، کیبن میں لیڈی ڈاکٹر کے کان سے موبائیل فون لگا تھا۔
PICU کا کیس بھیج رہی ہوں، ڈلیوری نارمل ہوئی ہے۔ بچہ بھی تندرست ہے مگراُسے آٹھ دس روز روکے رکھنا؟‘‘
’’پارٹی کیسی ہے؟‘‘ اُدھر سے ڈاکٹر نے پوچھا۔
پارٹی تو خود غریب کہہ رہی ہے، ہر کوئی میرے پاس آتا ہے تو پہلے خود کو غریب ہی بتاتا ہے جیسے دیش کے سارے غریبوں کے لیے ہی میں نے اسپتال کھولا ہے۔‘‘ لیڈی ڈاکٹر کے لہجے میں جھلاہٹ تھی۔
’’پھر بھی کتنادم ہے !‘‘ ڈاکٹر نے منجھے ہوئے بیوپاری کے انداز میں پوچھا۔
’’انگلی ٹیڑھی کرنے پر خود ہی پتہ لگ جائے گا۔‘‘
’’ٹھیک ہے بھیج دو! ٹیڑھی انگلی سے گھی نکالنا مجھے آتا ہے۔‘‘
’’میراکمیشن دینا مت بھولنا۔ میں نارمل ڈلیوری کے زیادہ پیسے نہیں لیتی۔‘‘
’’ٹھیک ہے نا!‘‘ ڈاکٹر نے اطمینان دلایا۔ لیڈی ڈاکٹر نے مسکرا کر موبائیل فون کان سے ہٹالیا اور پھر فاتحانہ انداز میں اپنے کیبن سے نکل کر باہر آئی۔
اُسے دیکھ کر وہ فوراً بینچ سے اٹھا لیڈی ڈاکٹر اُس کے پاس آئی اور اُس سے کہا ’’میں نے PICU اسپتال کے ڈاکٹر سے بات کرلی ہے بہت مشکل سے ڈاکٹر صاحب راضی ہوئے ہیں۔‘‘
’’اسپتال کا نام؟‘‘ بے تابی سے اُس نے پوچھا۔
لیڈی ڈاکٹر نے اسپتال کا نام و پتہ بتایا۔ پتہ سن کر وہ بڑی عجلت میں اسپتال کے گیٹ سے نکلا، اپنے بیٹے کو ایڈمٹ کرنے کےلیے اس نےآٹو رکشہ ٹھہرایا۔ اسپتال میں گیا۔
جب نرس نے لحاف میں لپٹا اُس کا نوزائیدہ بیٹا اُسے سونپا تو اس کی بانہوں میںبیٹا رونے لگا۔ وہ خوشی سے تقریباً چیخ اٹھا۔’’میڈم!دیکھو میرا بیٹا رو رہا ہے۔ میرا بیٹا رورہا ہے!‘‘
اُس کی آواز سن کر میڈم اپنے کیبن سے نکل آئی اور اس کی مسرت کو یہ کہہ کر خوف میں بدل دیا کہ ’’بچے کی دل کی ڈھڑکن برابر نہیں چل رہی ہے۔ اُسے ہارٹ کا پرابلم ہے دیر مت کرو، جاؤ جلدی فوراً۔‘‘
وہ خوفز وہ گھبرایا، گھبرایا اپنے بیٹے کو سینے سے لگائے آٹو رکشہ میں بیٹھ گیا۔
’’بھائی ! جلدی چلو، میرے بیٹے کو ہارٹ کا پرابلم ہے!‘‘ لزز تے لہجے میں وہ آٹو رکشے والے سے بولا۔
دوسرے ہی پل آٹو رکشہ سڑک پر فراٹے بھرنے لگا، چند منٹوں میں ہی وہ اسپتال پہنچ گیا۔
اپنے بیٹے کو سینے سے لگائے آٹو رکشے سے اتر کر اسپتال کی سیڑھیاں چڑھا۔ ویٹنگ روم میں پہنچا جہاں کرسی پر نرس بیٹھی آنے والے مریضوں کے کارڈ بنا رہی تھی۔ وہ سیدھا اس نرس کے پاس گیا۔’’میڈم! مجھے فلاں اسپتال سے بھیجا گیا، میرا بیٹا سیریس ہے!‘‘
نرس فوراً ڈاکٹر کے کیبن میں گئی، دوسرے ہی پل واپس آکر اسے اندر جانے کا اشارہ کیا۔ وہ بچہ لے کر کیبن میں پہنچا۔ ڈاکٹر اسٹیتھو سکوپ Stethoscope سے بچے کی جانچ کرنے کے بعد اس سے مخاطب ہوا ’’بچے کے دل کی دھڑکن برابر نہیں ہے، اُسے ہارٹ کا پرابلم ہے۔Picu میں رکھنا ہوگا۔‘‘
’’جی صاحب ! او پر بھگوان نیچے آپ، میرے بیٹے کو بچا لیجیے !‘‘ وہ گڑ گڑانے لگا۔’’ ہوں!‘‘ ڈاکٹر نے سر ہلایا۔ ’’ٹھیک ہے کا ؤنٹرپر دس ہزار روپے جمع کرا دو۔‘‘
’’دس ہزار روپے!‘‘ اس کی آنکھیں پھٹ گئیں پیشانی پر شکنوں کا جال تن گیا۔
’’ہاں، دس ہزار روپے!‘‘ ڈاکٹر بھوئیں سیکڑ کر بولا۔
’’میرے پاس ابھی اتنے پیسے نہیں ہیں!‘‘
پیسے نہیں ہیں تو بچہ لے جاؤ، یہاں علاج کے لیے پیسے لگتے ہیں!‘‘
ڈاکٹر کے پاس تھوڑی بھی ہمدردی نہیں تھی اس کی آنکھوں میں آنسو بھر آئے۔ ہاتھ جوڑ کر کپکپاتی آواز میں ڈاکٹر سے کہنے لگا ’’ڈاکٹر صاحب! میرے پاس صرف پانچ ہزار روپئے ہیں مجھے آج کے دن کی مہلت دیجئے میں کل پانچ ہزار روپئے اور جمع کرادوں گا۔‘‘
’’ٹھیک ہے!‘‘
ڈاکٹر نے ٹیبل پر رکھی بیل بجائی۔ نرس آئی۔ ڈاکٹر نرس سے مخاطب ہوا۔’’ ان کے بچے کا کارڈ بناؤ اور بچے کوPICU میں لے جاؤ۔‘‘ وہ ڈاکٹر کو تشکر آمیز نگاہوں سے دیکھنے لگا۔ ڈاکٹر بولا ’’تم آج پانچ ہزار روپئے اور کل پانچ ہزار روپئے جمع کرا دینا ۔ PICU کا چارج پانچ ہزارور پیے روز ہے سمجھے!‘ وہ لاچار انسان کی طرح سر ہلا کر رہ گیا۔
نرس نے ڈاکٹر کے حکم کی تعمیل کی کارڈ بنا کر اسے تھمایا پھر اس کے بیٹے کو لے کرکیبن سے نکلی وہ بھی اُس کے پیچھے ہی چلا، نرس PICU کا دروازہ کھول کر جیسے ہی اندر گئی وہ بھی اُس کے ساتھ ہی گھسا نرس نے اسے ڈانٹ دیا۔ ’’اے ! اندر نہیں آنا ، یہ PICU ہے یہاں صرف بچے کی ماں آسکتی ہے، تم باہر ہی کھڑے رہو، دیکھنا ہے تو کانچ سے اندر دیکھو!‘‘
’’ٹھیک ہے!‘‘ وہ دروازے کے باہر کھڑ اشفاف گول کانچ سے اندر جھانکنے لگا۔ نرس نے اُس کے بیٹے کو سفید چادر والے بستر پر لٹادیا اور باہر آئی اسے دروازے کے باہر کھڑا دیکھ کر تلخ لہجے میں بولی:’’ تم ابھی تک یہاں کھڑے ہو کا ؤنٹر پر جا کر اپنا نام پتہ کس اسپتال میں پتنی کی ڈلیوری ہوئی یہ سب لکھا کر پیسے جمع کر دو یہاں کا قاعدہ ہے پیسے جمع کرنے سے پہلے بچے کو PICU میں نہیں رکھا جاتا۔‘‘
اس نے جواب میں کچھ نہیں کہا مجرم کی طرح سر جھکا کر کاؤنٹر پر گیا اپنا نام، پتہ ، جس اسپتال میں پتنی کی ڈلیوری ہوئی اس کا نام لیڈی ڈاکٹر کا نام لکھا کر پانچ ہزار روپئے جمع کرائے اور باقی پانچ ہزار روپے کل جمع کرنے کا وعدہ کر کے اسپتال سے نکل آیا۔
بیٹے کی پیدائش کی خوشی کو بیٹے کی زندگی کے لئے پیسے جمع کرنے کی فکر کھا گئی تھی وہ پریشان اپنے دوستوں کے پاس گیا اس کےدوست مالدار نہیں تھے ۔ کیوں کہ غریب کے دوست مالدار نہیں ہوتے۔ دوستوں سے اس نے دس ہزار روپے قرض لیا اور اپنا چا را یکڑ کھیت چالیس ہزار روپے میں مہاجن کے پاس ایک سال کے لئے گروی رکھ دیا۔ پچاس ہزار روپئے جیب میں آتے ہی اس پر چھائی لاچاری، بے بسی اور مایوسی ختم ہوگئی۔
پیسہ جذبات و احساسات کو بھی کیسا کنٹرول کر لیتا ہے، جیسے پیسہ انسان کے لئے ایک ٹانک ۔۔۔ ایک پاور۔ خدا کی بنائی ہوئی دنیا کا حاکم ۔۔۔! شاید اس لیے کہ دنیا بازار بن چکی ہے، ہر رشتہ ،ہر جذ بہ خرید و فروخت کی چیز ۔۔۔ ہر کام تجارت !
وہ بازار بنی دنیا میں پچاس ہزار روپئے جیب میں رکھ کر اب سراٹھائے ایک باحیثیت شخص کی طرح اس اسپتال میں پہنچا جہاںاس کی بیوی ایڈمٹ تھی۔ اسپتال پہنچ کر وہ لیڈی ڈاکٹر سے ملا۔
’’میڈم ڈاکٹر صاحب نے میرے بیٹے کو ایڈمٹ کر لیا ہے مگر PICU میں ماں کے سوا کسی کو آنے کی اجازت نہیں ہے ۔ اس لیے۔۔۔۔‘‘
’’ ہاں، میں سمجھ گئی تم کیا کہنا چاہ رہے ہو۔‘‘ لیڈی ڈاکٹر اُس کی بات کاٹ کر بولی’’ تمہاری پتنی ابھی کمزور ہے آج ہی اُس کی ڈلیوری ہوئی، میں اسے پرسوں چھٹی دے دوں گی۔‘‘
’’ٹھیک ہے !‘‘ اس نے اطمینان کی سانس لی اور اپنی بیوی سے ملا اسے بچے کے بارے میں بتایا ۔۔۔۔
بیوی رونے لگی۔ اُس نے بیوی کو دلاسہ دیا’’ فکر کی کوئی بات نہیں، اپنا بیٹا اچھا ہے تھوڑا کمزور تھا، اس لئے ڈاکٹرنی نے PICU میں رکھنے کے لئے کہا تھا۔ پرسوں تمہاری چھٹی ہو جائے گی تم خود چل کر دیکھ لینا۔‘‘
سچ کہہ رہے ہونا!‘‘ بیوی کی پلکوں سے آنسوؤں کے موتی ٹوٹنے لگے ۔
’’بھگوان کی قسم!‘‘
بیوی اُس کا ہاتھ اپنے دونوں ہاتھوں میں دبا کر بولی ’’بھگوان کے بعد میں تم پر ہی بھروسہ کرتی ہوں!‘‘
اُس نے خاموش بیوی کے سر پر ہاتھ پھیر کر اُسے اطمینان دلایا اور پھر اسپتال سے نکل کر اُس اسپتال میں پہنچا جہاں اُس کا بیٹا ایڈمٹ تھا۔
دو روز تک وہ دونوں اسپتالوں کے چکر لگاتا رہا۔ تیسرے دن اُس کی بیوی کو چھٹی ملی، چھٹی دینے سے پہلے لیڈی ڈاکٹر اس سے نارمل ڈلیوری کے سترہ ہزار روپئے وصول کرنا چاہ رہی تھی، اس نے بہت منت سماجت کی تو پندرہ ہزار روپئے لینے پر راضی ہوئی تھی۔
پندرہ ہزار روپئے ادا کر کے وہ اپنی بیوی کو اس اسپتال میں لے آیا تھا جہاں اُس کا بیٹا ایڈمٹ تھا۔
اسپتال پہنچتے ہی اُس کی بیوی نرس کے ہمراہ PICU میں گئی وہ کانچ کے گیٹ سے اندر جھانکنے لگا تب ہی ایک نرس اس کے پاس آئی۔
’’اے بھیا! وہاں بینچ پر بیٹھو، رش مت کرو!‘‘
’’رش کہاں ہے، میں تو اکیلا ہی ہوں!‘‘ وہ بولا۔
’’تم اکیلے ہو تو اور بھی لوگ آکر کھڑے ہوں گے تمہاری پتنی اندر گئی نا، اب تم وہاںبینچ پر بیٹھ جاؤ!‘‘نرس کے لہجے میں ترشی تھی۔
وہ کچھ نہ بولا خون کا گھونٹ پی کر خاموش بینچ پر بیٹھ گیا۔
اُس کی نظریں PICU کے دروازے پر ٹکی ہوئی تھیں۔ کچھ دیر بعد دروازہ کھلا نرس کے ہمراہ اُس کی بیوی باہر آئی۔ بیوی کا چہرہ خوشی سے کھلا ہوا تھا۔ بیوی کا پر مسرت چہرہ دیکھ کر وہ نرس کے لہجے کی کڑواہٹ بھول گیا۔ بیوی کی طرف دیکھ کر مسکرانے لگا، بیوی اُس کے پاس آکر بیٹھ گئی، کہنے لگی: ’’اپنا بچہ تو بہت اچھا ہے جی! مجھ سے چمٹ کر ایسا دودھ پیا جیسے بہت بھوکا ہو، چلو ڈاکٹر سے کہہ کر چھٹی لے لیں گے!‘‘
’’چلو!‘‘
وہ دونوں ڈاکٹر کے کیبن میں گئے۔
ڈاکٹر صاحب ! یہ میری پتنی ابھی PICU میں گئی تھی اس نے بچے کو دیکھا بچہ اچھا ہے، اسے چھٹی دے دیجئے نا!‘‘
’’چھٹی!‘‘ ڈاکٹر کے تیور بدل گئے’’میں ابھی چھٹی نہیں دے سکتا، بچہ اچھا اس لئے لگ رہا ہے کہ اس کا علاج جاری ہے، جانتے ہو ا ُسے ہارٹ کا پرابلم ہے اس کی زندگی خطرے میں ہے ۔
’’ہارٹ کا پرابلم کب دور ہوگا!‘‘ اس نے ڈاکٹر سے پوچھا۔
’’کہہ نہیں سکتا، چار ، پانچ ، روز لگ سکتے ہیں ۔‘‘
اس نے حساب لگایا چار ،پانچ روز یعنی تین روز ملا کر آٹھ روز ۔۔۔ آٹھ روز یعنی پانچ ہزار روپئے روز کے حساب سے آٹھ پنجے چالیس ہزار روپئے، دس ہزار روپئے میں اسپتال کے کاؤنٹر پر جمع کراچکا ہوں اور اب میری جیب میں تیس ہزار روپئے ہیں۔
’’ٹھیک ہے ڈاکٹر صاحب!‘‘ ذہن میں حساب لگانے کے بعد اس نے ڈاکٹر سے کہا اور اپنی بیوی کو لے کر کیبن سے نکل آیا۔
آج اس کے بیٹے کو PICU میں رکھے آٹھ روز ہوچکے تھے دونوں میاں بیوی ڈاکٹر کے کیبن میں گئے۔ وہ ڈاکٹر سے بڑی نمرتا سے مخاطب ہوا : ’’ڈاکٹر صاحب ہمارے بیٹے PICU میں رکھے آٹھ روز ہو چکے ہیں روز میری پتنی دن میں تین باراُسے دیکھ رہی ہے دودھ پلا رہی ہے وہ اچھا ہے، ہاتھ پاؤں ہلا رہا ہے، قلقاریاں مار رہا ہے، اسے چھٹی دے دیجئے۔ ہمارے پاس بچے کو PICU میں اور زیادہ دن رکھنے کی گنجائش نہیں۔‘‘
ڈاکٹر اپنے ذہن میں آمدنی خرچ اور کمیشن کا حساب لگا کر بولا ٹھیک ہے چالیس ہزار روپے کاؤنٹر پر جمع کردو اور بچے کو لے جاؤ۔ آٹھ روز بعد چیک اپ کے لئے لے آنا !؟
’’چالیس ہزار روپئے!‘‘ اس نے متحیرانہ لہجے میں ڈاکٹر سے دریافت کیا۔
’’ہاں چالیس ہزار روپئے!‘‘ ڈاکٹر سر ہلا کر بولا۔
’’ مگر میں نے پانچ پانچ ہزار روپئے کر کے دس ہزار روپے جمع کر دیا تھا۔ PICU کا چارج پانچ ہزار روپئے روز کے حساب سے آٹھ روز کا چالیس ہزار روپئے ہوتا ہے۔ میں تیس ہزار روپئے لایا ہوں!‘‘
’’تم نے جو دس ہزار روپے جمع کرائے تھے اس میں پانچ ہزار روپئے میڈ یکل خرچ اور پانچ ہزار روپے ڈاکٹر کی چیک اپ فیس!‘‘ ڈاکٹر نے حساب بتایا۔
’’ڈاکٹر صاحب ! ہمارے پاس چالیس ہزار روپے نہیں ہیں، کچھ کم کر دیجئے نا!‘‘ اس کی بیوی گڑ گڑائی۔
’’ارے بھئی!یہ زیادہ نہیں ہے، میں بہت کم چارج لے رہا ہوں۔‘‘
’’ڈاکٹر صاحب! کچھ کم کر دیجئے بڑی مہربانی ہوگی!‘‘وہ ہاتھ جوڑ کے خوشامد کرنے لگا۔
’’ٹھیک ہے میں اپنے چیک اپ کی فیس دو ہزار روپے کم کر دیتا ہوں!‘‘ ڈاکٹر نے ہمدردی کانا ٹک کرتے ہوئے فراخ دلی دکھائی۔
’’تم اڑتیس ہزار روپئے جمع کرا دو !‘‘
’’میرے پاس صرف تیس ہزار روپئے ہیں میں اپنا کھیت گروی رکھ کر لایا ہوں۔ اب میرے پاس پھوٹی کوڑی بھی نہیں ہے ۔ صرف میری پتنی کے کانوں میں یہ سونے کی بالیاں ہیں!‘‘ وہ بیوی کے کانوں میں لٹکی بالیوں کی طرف اشارہ کر کے بھرائی ہوئی آواز میں بولا
’’ہاں ڈاکٹر صاحب ! تیس ہزار روپئے اور یہ میری بالیاں لے کر بچہ ہمارے حوالے کر دو!‘‘ بے تابی سے اس کی بیوی بولی۔
ڈاکٹر چڑ گیا ’’یہ مہاجن کی دکان نہیں ہے، اسپتال ہے سمجھے!یہاں کیش چلتا ہے کیش۔ جاؤ بالیاں بیچ کر پیسے لے آؤ ، اڑتیس ہزار سے ایک پیسہ بھی کم نہیں لگے گا!‘‘
ماں کی ممتا تڑپ اٹھی ’’ٹھیک ہے ڈاکٹر صاحب! ٹھیک ہے!‘‘ پھر وہ اپنے شوہر سے مخاطب ہوئی ’’آپ یہاں ٹھہریئے جی! میں بالیاں بیچ کر پیسے لاتی ہوں۔‘‘
دونوں ڈاکٹر کے کیبن سے باہر آئے’’تم اکیلے ہی جاؤ گی شانو!‘‘ ( اس کی بیوی کا نام شانتی تھا،لا ڈ سے وہ اسےشانو کہتا تھا۔)’’میں بھی تمہارے ساتھ چلتا ہوں۔‘‘
’’نہیں!‘‘ وہ PICU کے دروازے کی طرف اشارہ کر کے بولی: ’’آپ وہاں ہی کھڑے رہنا دروازے میں سے اپنے بیٹے کودیکھتے رہنا، میں سنار کی دکان سے بالیاں بیچ کر آتی ہوں۔‘‘
شانو اسپتال کی سیڑھیاں اتر کر چلی گئی اور وہ PICU کے دروازے کے پاس کھڑا گول شفاف کا نچ سے اندر جھانکنے لگا۔ اندراس کا بیٹا سفید چادر کے چھوٹے سے بستر پر پڑا ہاتھ پاؤں ہلا رہا تھا۔ بے اختیار اس کا جی چاہا کہ وہ دروازہ کھول کر اندر چلا جائے، اپنے بیٹے کو سینے سےچمٹا کر اس کو خوب پیار کرے مگر اسے اندر جانے کی اجازت نہیں تھی۔
وہ دل مسوس کر دیر تک اندر جھانکتا رہا پھر اس نے دروازہ کے اوپر دیوار میں لگی گھڑی دیکھی بارہ بج رہے تھے۔ اس کی بیوی کو اسپتال سے گئے دو گھنٹے ہو چکے تھے ۔’’کافی دیر ہوگئی شانو ابھی تک کیوں نہیں آئی؟!‘‘ بے قرار ہو کر وہ سوچنے لگا ۔ سنار کی دکان اسپتال سے دور ہے،سڑکوں پر آج کل رش بھی بہت بڑھ گیا ہے کسی سگنل Signal پر پھنس گئی ہوگی، مگر دو گھنٹے بہت ہیں اس سنار کی دکان تو بند نہیں ہے، جہاں سے اس نے بالیاں خریدی تھیں !‘‘ خدشات اس کے ذہن میں سراٹھا رہے تھے اور وہ عالم بے قراری میں اسپتال کے گیٹ میں چلا آیا تھا۔
گیٹ میں رکے ابھی پانچ منٹ بھی نہیں ہوئے تھے کہ اسے شانو آٹو سے اترتی دکھائی دی، وہ فوراً اسپتال کی سیڑھیاں اتر کر اس کی طرف بڑھا، ’’ارے آپ یہاں کیوں آگئے جی!وہیں PICU کے دروازے پر کھڑے رہنا تھانا!‘‘ شانو اسے اپنی طرف آتا دیکھ کر بولی۔ جواب میں اس نے کچھ نہیں کہا۔
وہ دونوں اسپتال کی سیڑھیاں چڑھنے لگے، چڑھتے چڑھتے شانو نے اپنے بلاؤز کے گلے میں ٹھونسے ہوئے نوٹ نکالے اور اس کی طرف بڑھادئے ’’لو یہ ساڑھے آٹھ ہزار روپئے ہیں، دے ماروڈ اکٹر کے منہ پراڑتیس ہزار روپے اور لے چلو اپنے بیٹے کو۔‘‘
اس نے شانو کے دئے ہوئے نوٹ گنے جیب میں رکھا اور پھر نرس سے اجازت لے کر دونوں ڈاکٹر کے کیبن میں گئے۔ ڈاکٹر اپنے بیش قیمت اسمارٹ فون پر گیم کھیل رہا تھا۔ ’’ڈاکٹر صاحب!‘‘
ڈاکٹر نے سر اٹھا کر دیکھا:’’لائے اڑتیس ہزار روپئے!‘‘
’’ہاں!‘‘
ڈاکٹر نے ٹیبل پر رکھی بیل دبائی ۔ نرس اندر آئی۔ ڈاکٹر نے نرس کو PICU سے بچے کو ڈسچارج کرنے کی ہدایت دی اور اسے نسخہ لکھ کر آٹھ روز بعد بچے کو چیک اپ کے لیے لانے کا کہہ کر کاؤنٹر پر اڑتیس ہزار روپے جمع کرنے کا آرڈردیا۔ دونوں سر جھکائے ڈاکٹر کے کیبن سے نکلے۔ ’’پہلے پیسے جمع کرا دو!‘‘ نرس نے حکم دیا۔ اس کا جی چاہا کہ نرس کا منہ نوچ لے مگر وہ بے بس تھا، دانت پیس کر خاموش کا ؤنٹر پر چلا گیا اڑتیسہزار روپئے جمع کرائے۔
شانو بیٹے کو PICU سے لے آئی تھی پھر دونوں اسپتال سے نکل کر گھر جانے کے لئے آٹو رکشے میں سوار ہو گئے۔ آٹو رکشہ چل پڑا، اس نے شانو کی گود سے بچے کو لیا، اس کو پیار کیا اور پھر شانو سے پوچھا ’’شانو! بالیاں تو اپن نے نو ہزار میں بنائی تھیں نا؟‘‘
ہاں سنار نے دو ہزار روپئے بٹّا کاٹا تھا، میں نے بہت منت سماجت کی اپنی پر یشانی بتائی تو اسے نے ایک ہزار روپے کم کیا اورمیری پریشانی سن کر پانچ سورو پئے زیادہ دئے !‘‘
’’ بڑا دیا لو ہے سنار! دنیا ایسے لوگوں سے ہی قائم ہے!‘‘
شانو جواب میں کچھ نہ بولی، اُس کی آنکھوں میں آنسو بھر آئے تھے، اندر پھانس کے کھٹکنے سے اُس کا بدن درد سے بھر گیا تھا، پلکوں سے آنسو ٹپکنے لگے تھے۔۔۔ وہ اس سے یہ نہ کہہ کی تھی کہ ’’سناردیالو نہیں، اس نے پندرہ سو روپے زیادہ دے کر میرے جسم کو بٹّا لگا دیا ہے۔‘‘ یہ کہنے کی اُس میں شکتی نہیں تھی کیوں کہ وہ درد سہنے والی عورت تھی۔
شوہر اُس کی پیٹھ سہلا رہا تھا۔
’’رومت شانو! دیکھ، اس ظالم دنیا میں آکر اپنا بچہ کیسا ہنس رہا ہے۔‘‘