بچت آج کے دور کی اہم ضرورت ہے۔ بچت کی ضرورت اس وقت پیش آتی ہے جب دستیابی اور ضرورت زیادہ کی ہو۔ گھریلو اخراجات اور آمدنی سے لے کر بجلی، پانی، گیس یہاں تک کہ وقت میں بچت کے لیے بھی سنجیدگی سے غوروفکر کرنا پڑتا ہے۔ مگر اسی ضمن میں بہت سی ایسی چھوٹی چھوٹی باتیں ہیں، جنھیں ہم معمولی سمجھ کر نظر انداز کرتے ہیں، لیکن ان پر اپنی گرفت سخت کردیں تو اس کے نتائج اچھے ہوسکتے ہیں۔
مثال کے طور پر آپ کسی پرائیویٹ یا سرکاری دفتر میں ملازم ہیں اور وہاں فاضل جل رہے بلب، اے سی یا پنکھے کو بند کرنے کے لیے کہیں تو کورا سا جواب ملے گا۔ ارے صاحب چھوڑیں… ہمارا کیا جاتا ہے، کون سا ہمیں بل ادا کرنا پڑتا ہے۔
گھروں میں بھی عموماً لاپرواہی کے ساتھ ایسا ہی ہوتا ہے کہ کمروں میں بلا ضرورت بلب، ٹیوب، پنکھے، اے سی، ٹی وی یا اور دوسری گھریلو استعمال کی اشیا اور غیر ضروری طور پر جلتی رہ جانے والی گیس فضول خرچی کی مد میں آتی ہیں اور اگر ہم توجہ کریں، ضرورت ختم ہوتے ہی سوئچ پر انگلی رکھ کر اسے آف کردیں تو یہ نہ صرف بل میں کمی کا باعث ہوگا بلکہ اس سے بچنے والی بجلی کی وجہ سے لوڈ شیڈنگ میں بھی خاطر خواہ اور نمایاں فرق پڑے گا۔
’’قطرہ قطرہ مل کر دریا بن جاتا ہے۔‘‘ کی کہاوت یوں ہی وجود میں نہیں آگئی۔ پرانے دور میں اچھی، سگھڑ، سلیقہ شعار گرہستی کہلانے والی خواتین کے شب و روز پر نظرڈالیں تو آپ کو علم ہوگا کہ ان کی دسوں انگلیاں دسوں چراغ ہوا کرتی تھیں۔ وہ تہواروں اور تقاریب پر آنے والے کپڑے خود سیتی، خود کاٹتی تھیں اور نئی سے نئی اختراع بھی ہوتی۔ دوپٹے گھروں میں حسب خواہش رنگ لیے جاتے، کپڑوں کی کٹنگ کے بعد جو کپڑا فاضل بچتا اسے محفوظ رکھ لیا جاتا اور یہ فاضل کپڑا یا تو گھر، خاندان، عزیز واقارب میں نوزائیدہ بچوں کے لباس کی تیاری میں کام آجاتا، یا پھر استعمال ہونے والے کپڑے کے پھٹ جانے، گھس جانے پر پیوند لگانے کے کام آتا۔ آج خواتین کی اکثریت نئی سماجی معاشرتی مصروفیات اور ان گھریلو فنون سے عدم واقفیت کی وجہ سے درزیوں کا سہارا لینے پر مجبور ہے یا پھر ریڈی میڈ پر گزارا کرتی ہے۔ دونوں صورتوں میں خاصا پیسہ ضائع جاتا ہے۔ اگر درزی کے بجائے خود اپنا کام آپ کیا جائے تو نہ صرف پیسے کی بچت ہوگی بلکہ آپ کا وہ کپڑا جو بچ جانے کی صورت میں درزی واپس نہیں کرتا آپ کے پاس رہ جائے گا اور کسی مناسب موقع پر آکر آپ کے مزید خرچ ہوجانے والے پیسے کو محفوظ کردے گا۔
اسکولوں، دفتروں، کلبوں وغیرہ میں بجلی کے سوئچ بند کرنے کی ذمہ داری گارڈ پر چھوڑ دی جاتی ہے۔ اگر متعلقہ آفیسر ہیڈ کلرک اور کلرک اپنے اپنے پنکھوں اور بلبوں کے سوئچ خود اٹھتے ہوئے آف کردیں تو اس میں ان کا کوئی نقصان نہیں ہوگا بلکہ یہ انہی کے لیے مفید ہوگا۔
اب تو اسٹریٹ لائٹس بھی اکثر مقامات پر رات دن چوبیس گھنٹے روشن نظر آنے لگی ہیں۔ اس کی وجہ بھی فرائض سے غفلت یا پھر یہ کہ کون سا ہمیں بل ادا کرنا ہے، والی بے فکری ہے۔ سرکاری ادارے یہ اعلان تو کرتے ہیں کہ شام چھ بجے سے رات گیارہ بجے تک اپنے غیر ضروری بجلی کے آلات بند رکھیے۔ اگر یہ ادارے صارفین کو ایسی ہدایتیں جاری کرنے کے ساتھ ساتھ خود بھی عمل کریں اور چوبیس گھنٹے جلنے والی اسٹریٹ لائٹس کو صبح ہوتے ہی بند کردیں تو بجلی کی کافی بچت ہوسکتی ہے۔ مگر یہاں تو یہ لطیفہ ہوتا ہے کہ دن میں جلتی رہنے والی اسٹریٹ لائٹس رات کے اندھیرے میں لوڈ شیڈنگ کے نام پر گھنٹوں بند کردی جاتی ہیں۔ اگر یہی عمل دن میں کیا جائے تو یقینا رات کو لوڈ شیڈنگ کی ضرورت پیش نہیں آئے گی۔
شادی، بیاہ، سالگرہ، عقیقہ اور دوسری رسوم کے موقع پر تقریبات میں خاصا کھانا جھوٹا بچ کر ضائع ہوجاتا ہے۔ عموماً مدعوئین کھانے پر اس بری طرح ٹوٹ پڑتے ہیں جیسے خدانخواستہ وہ کئی دن کے فاقوں سے ہوں اور اپنی پلیٹیں اس بری طرح بھر لیتے ہیں گویا دوبارہ انھیں موقع نہیں ملے گا۔ نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ مرغن کھانا چند نوالے کھانے کے بعد ہی طبیعت بلکہ پیٹ بھی بھر جاتا ہے اور وہ اپنی بھری ہوئی پلیٹ ادھر، ادھر دیکھ کر خاموشی سے میز پر رکھ کر ہٹ جاتے ہیں۔ اگر وہ بقدرِ ضرورت بلکہ خود ہی مناسب مقدار میں ڈشز سے پلیٹ میں نکالیں اور ضرورت پڑنے پر مزید لے لیں تو بہتر ہوگا۔ اس میں کوئی مضائقے یا سبکی کی بات نہیں کہ آپ نے ڈشز میں سے پلیٹ میں کتنی بار لیا۔ یہ ضرور معیوب بات ہے کہ پلیٹ بھر کر نکالنے کے بعد اسے کھائے بغیر نظریں بچا کر چھوڑ دیا جائے۔ اگر اسی بچت کی طرف توجہ دی جائے تو سو مہمانوں کے لیے پکنے والا کھانا ڈیڑھ سو افراد بخوبی اور بآسانی کھاسکتے ہیں۔
ان تقریبات میں ڈیکوریشن اور سجاوٹ کے نام پر استعمال ہونے والی بجلی اور دوسرے لوازمات میں بھی بچت کی جاسکتی ہے۔ مدعوئین ایسی تقریبات میں شرکت کے لیے خصوصی طور پر اہتمام کرتے ہیں۔ نئے لباس، نئے جوتے خریدے جاتے ہیں اور یوں چند گھنٹوں کی تقریب کے لیے خاصا روپیہ خرچ ہوجاتا ہے۔
بجلی، پانی، گیس، غذا کی بچت کے ساتھ ساتھ ہمیں وقت کی بچت پر بھی خصوصی توجہ صرف کرنی چاہیے۔ جن گھرانوں میں فون کی سہولت موجود ہے وہاں فاضل وقت عموماً فون پر سہیلیوں اور عزیز ہم عمر لڑکیوں میں فون پر گفتگو کی نذر ہوجاتا ہے۔ صرف ضروری اور مختصر گفتگو کرکے فون کے بل میں کمی لائی جاسکتی ہے، بلکہ خاصا وقت بھی بچایا جاسکتا ہے جسے آپ بعد میں مطالعے، امتحانات کی تیاری یا کسی اور ایسے ہی معیاری کام کے مصرف میں لاسکتے ہیں۔ آج کل عزیز و اقارب سے ملنا جلنا بھی ایک مسئلہ بن گیا ہے اگر ہم اس طرح کے وقت بچا کر تجدید ملاقات کریں تو باہم ملنے جلنے اور ایک دوسرے کی خیروعافیت معلوم کرنے سے بہت سے سماجی مسائل حل ہوسکتے ہیں۔
اب پانی کے زیاں کو لیجیے۔ بیشتر گھرانوں میں نل بند کرنے کی ضرورت ہی نہیں سمجھی جاتی۔ نل میں پانی آتا ہے، استعمال ہوتا ہے اور پھر یوں ہی کھلا چھوڑ دیا جاتا ہے۔ اگر استعمال کے فوراً بعد نل بند کردیا جائے تو فاضل بہہ جانے والا پانی کسی اور ضرورت مند کی ضرورت پوری کرسکتا ہے۔
ممکن ہے کہ آپ یہ سوچیں کہ اکیلا چنا کیا بھاڑ پھوڑ سکتا ہے۔ صرف میرے احتیاط کرنے سے کتنی بجلی، کتنی گیس، کتنا پانی اور کتنا وقت بچ جائے گا۔ یہ سوچ غلط ہے۔ بچت کرنا کسی ایک فرد یا کسی ایک گھرانے ہی کا نہیں، ساری قوم کا مسئلہ ہے۔ اگر ساری قوم نے جس کی تعداد سو کروڑ سے زیادہ ہے ایک دن میں اپنے ضائع جانے والے اوقات میں ایک ایک منٹ بھی بچایا تو سو کروڑ سے زیادہ منٹ بچ گئے۔ بجلی کا ایک یونٹ بھی ضائع ہونے سے بچالیا تو سو کروڑ یونٹ کی بچت ہوجائے گی۔ خود سوچئے کہ سو کروڑ منٹوں کے کتنے گھنٹے اور سو کروڑ یونٹوں کی بچت سے کتنی بجلی اور گیس بچ سکے گی!
بچت خواہ اپنے ذاتی معاملات میں ہو یا قومی ضروریات میں، بہت اچھی عادت ہے۔ اگر ہم اپنی روزانہ کی زندگی میں چھوٹی چھوٹی فضول خرچیوں، بربادیوں اور بے پروائیوں پر غور کریں تو یہ قومی پیمانے پر مل کر بہت بڑی فضول خرچیاں، بربادیاں اور بے پروائیاں بن جاتی ہیں۔ ہماری اپنی ذاتی توجہ سے ملک کے لاکھوں اندھیرے گھرانوں میں بجلی کی روشنی پہنچ سکتی ہے، پانی اور گیس کی فراوانی ہوسکتی ہے، ہزاروں ضرورت مند غریبوں کے پیٹ بھرے جاسکتے ہیں۔ آپس میں لوگوں سے مل جل کر خلوص و محبت کے رشتوں ناتوں کو فروغ دیاجاسکتا ہے۔ اگر ہم ان باتوں پر عمل پیرا ہوگئے تو اپنے آپ کو پہنچنے والے فیض سے بھی قطعی محروم نہ رہیں گے۔