بچوں میں احساسِ کمتری : اسباب اور علاج

محمد عبدالعزیز،نظام آباد

بچے میں کمتری کااحساس اکثر خارجی ہوتا ہے۔ مثلاً بات بات پر ٹوکنا،طنز و طعنوں سے کام لینا، اسے اپنے ہی بہن بھائیوں اور دوست احباب کے سامنے ڈانٹنا، چھوٹے بھائیوں اور بہنوں کی نسبتاً بہتر تعلیمی صورتحال کا اس سے تقابل کرنا اور اسے عار دلانا۔ معاملہ یہیں تک محدود نہیں رہتا بلکہ مختلف خاندانی پس منظر رکھنے والے لوگوں میں بات گالی گلوج اور مار پیٹ تک پہنچ جاتی ہے۔ اس صورتحال کا سب سے افسوسناک پہلو یہ ہے کہ مندرجہ بالا ساری کارستانیاں بچے کی صحیح تعلیم و تربیت اور تابناک مستقبل کے نیک مقصد کو سامنے رکھ کر کی جاتی ہیں۔ اور یہ حرکات عام طور پر خاندانی اور سماجی پس منظر میں تین لوگوں سے سرزد ہوتی ہیں۔ جن کی زد سے بچہ کبھی بچ نہیں سکتا کیوں کہ اس عمر میں ان کے حصار سے نکلنا بچہ کے لیے قریب قریب ناممکن ہوتا ہے: (۱) والدین(۲) اساتذہ (۳) عزیز و رشتہ دار
بچہ میں احساسِ کمتری پیدا کرنے میں چند اور بھی عناصر یا عوامل ہوتے ہیں جن کا تعلق داخل سے ہوتا ہے، مثلاً جسمانی یا عضوی طور پر ایک یا ایک سے زائد نقائص کا پایا جانا۔ جسے دیکھ کر دوسرے بچے مذاق اڑائیں جیسے بہت زیادہ موٹاپا، یا پھر انتہائی دبلا پن، بصارت کے نقائص یا پیدائشی عضویاتی نقائص وغیرہ۔ بچپن کی اس کمزوری اور نامکمل ہونے کا احساس بچہ کی خود اعتمادی اور خودداری کو ناقابلِ یقین حد تک نقصان پہنچاتا ہے۔ اس کا آغاز ابتدائی عمر اور بچے کی ابتدائی زندگی میں رونما ہونے والے واقعات سے لگایا جاسکتا ہے۔ ہم میں سے اکثر نے یہ منظر دیکھا ہوگا کہ کمزور بچے سب کا گھوڑا بنا سواری کا کام انجام دے رہا ہے اور اوپر بیٹھنے والے کی مار بھی کھا رہا ہے اورکبھی ایسا بھی ہوتا ہے کہ اسکول ہو یا گھر اسے ناکردہ گناہوں کی سزا دی جاتی ہے کیوں کہ وہ چرب زبان نہیں ہوتا، وہ اپنا دفاع نہیں کرسکتا اور اس ڈر سے کہ اگر الزام قبول نہ کرلوں تو اور مار پڑے گی اور جو کچھ ہوا یا جس کسی نے شرارت کی اس کانام بتادوں تو وہ بعد میں میری اور پٹائی کرے گا اور اس وقت ان کے ہاتھوں سے مجھے کون بچائے گا؟ یہ اور اس طرح کے ذہنی تحفظات ہوتے ہیں جن کی بنا پر جسمانی اعتبار سے کمزور یا عضویاتی نقائص رکھنے والے بچے تختہ مشق بنتے ہیں۔ اور ذلت کا یہ احساس دماغی عوارض کے لیے زرخیز ثابت ہوتا ہے۔ کمتری کا یہ احساس کچھ اس طرح ان کے فکری اور جذباتی پس منظر پر چھا جاتا ہے کہ وہ بڑے ہونے کے بعد یعنی سنِ بلوغت کو پہنچنے کے بعد بھی خود کو اس بھنور سے نکال نہیں پاتے۔
احساسِ کمتری کی ایک اور وجہ والدین کی اقتصادی بدحالی اور انتہائی خستہ سماجی موقف ہے جس کی اقساط بچہ کبھی ہر روز اور کبھی ہفتے یا مہینے میںڈانٹ ڈپٹ، گالی گلوج اور مارپیٹ کی شکل میں وصول کرتا رہتا ہے۔ بہت سی جائز خواہشات اور تمناؤں سے محرومی نیز ہم عمر ساتھیوں کو میسر آسائشِ زندگی، ان کا معیار، ان کا طرزِ زندگی ان کے مشاغل اور ان کی تفریحات یہ اور اس طرح کے بے شمار ڈرامے ہیں جو ہر روز بچے کے اطراف ایکٹ ہوا کرتے ہیں جو اسے اپنی محرومی و کم مائیگی کا احساس دلاتے رہتے ہیں۔ گھر اور باہر کی یہ فضا بچے میں تلخیِ ایام، حد درجہ حساسیت اور بغاوت کو جنم دیتی ہے۔ بچے کے ذہن میں بننے یا بگڑنے والے یہ نقوش اس کی ابتدائی زندگی پر مرتسم ہونے والے یہ اثرات اپنی نوعیت کے اعتبار سے آنے والی زندگی کی تشکیل میں یا تو معاون و مددگار ہوتے ہیں یا پھر اس سے عصبی امراض یا ذہنی خلل پیدا ہوجاتا ہے جس کا لازمی نتیجہ ایک ٹوٹی پھوٹی یا مسخ شدہ شخصیت کی شکل میں نمودار ہوتا ہے۔
حقیقت یہ ہے کہ شیر خوارگی کی عمر ہی میں بچے کی آئندہ زندگی کا اچھا یا برا ڈھانچہ استثنائی صورتوں کو چھوڑ کر کم و بیش مرتب ہوجاتا ہے اور گہوارے ہی میں انسان بن یا بگڑ جاتا ہے۔ طفولیت کے ابتدائی دنوں میں ہی بچے کی جذباتی زندگی کی تکمیل ہوجاتی ہے۔ وہ یا تو پختگی اور عقلمندی کے ساتھ محبت کرنا سیکھ جاتا ہے یا اپنے اندر خام اور بگاڑ والے عناصر پیدا کرلیتا ہے۔ بچہ بڑھنے میں جتنا عرصہ زیادہ لے گا، اسی قدر بے چارگی کااحساس زیادہ ہوتا جائے گا۔ انسانی بچہ دوسروں کی محتاجی سے نکلنے میں دوسری انواع سے زیادہ وقت لیتا ہے۔ وہ برسوں کے بعد اس قابل ہوتا ہے کہ اپنی ضروریاتِ زندگی کے لیے کسی کا محتاج نہ ہو اور اپنی مدد آپ کرے۔
ان حقائق کی روشنی میں یہ حقیقت ہمارے سامنے آتی ہے کہ احساسِ کمتری یعنی اپنے آپ کو ناکارہ، فضول، فالتو اور نااہل سمجھنے کا یہ احساس اچانک نمودار نہیں ہوتا بلکہ مختلف عناصر اور عوامل کی موجودگی میں جن کا تذکرہ اوپر کیا گیا ہے، یہ احساس بچے میں شعوری حالت کے ابتدائی ایام ہی سے رسنے لگتا ہے۔ اگر برقت اس کی طرف توجہ نہ دی گئی اور اس کی تشخیص نہ کی گئی اور اگر اس احساس سے جو بچے کے حال اور روشن مستقبل کے لیے گرہن کا حکم رکھتا ہے اسے نہ نکالا گیا تو اس کے بگاڑ، غیر فعال اور عملی زندگی میں ناکام ہونے کی ذمہ داری تنہا اس پر ہی نہیں بلکہ کم و بیش تناسب کے ساتھ والدین، اساتذہ اور قریبی عزیز و اقرباء میں بھی تقسیم ہوتی ہے گویا کہ بچے کے تئیں عائد ہونے والی اپنی ذمہ داری سے انھوں نے یا تو پہلو تہی کی ہے یا پھر یہ کہ اِس احساس کمتری کو اِن کے اپنے دامن نے بھی جانے اَن جانے میں ہوا دی ہے۔
یہاں ہم بچے میں احساس کمتری کے بجائے خودداری اور خو داعتمادی، خوف و ہراس کے بجائے بے خوفی اور حوصلہ مندی کے احساسات اور جذبات کو پروان چڑھانے میں والدین، اساتذہ اور قریب ترین رشتہ داروں کی مشترکہ ذمہ داریوں کا (اور اُن کے رویوں کی اصلاح کا) تذکرہ ضروری سمجھتے ہیں۔ یہی دراصل اِس مضمون کا مقصد بھی ہے اور دلی آرزو بھی۔ بقول علامہ اقبالؒ
شاید کہ اتر جائے تیرے دل میں میری بات
— بچوں کی صحیح تعلیم و تربیت کو اتفاق یہ حادثہ کے طور پر نہ لیں بلکہ اپنی زندگی کے ایک اہم چیلنج کے طور پر قبول کریں اور اُس کے مقتضیات کے مطابق منصوبہ بندی کریں۔
—اپنی زندگی کو گناہوں اوربرے عادات و خصائل سے امکانی حد تک پاک رکھیں جیسے جھوٹ، غیبت، چغلی، برے القاب سے پکارنا، لڑنا جھگڑنا، گالی گلوج اور چھوٹے چھوٹے معاملات میں تنگ دلی و تنگ نظری کا مظاہرہ کرنا وغیرہ وغیرہ یہ وہ گناہ کے کام اور برے خصائل ہیں جن کے بارے میں آپ کے ضمیر مطمئن ہیں کہ یہ برے اور کردار سوزی کے کام ہیں اور دلی آرزو ہے کہ آپ کی اولاد اور شاگرد اس سے مبرا ہوں، یہ محض آرزو سے نہیں ہوگا بلکہ آپ کے عملی نمونے یا رویے سے ہوگا۔ اس کا کوئی متبادل نہیں اور اس معاملے میں آپ کے ارادے اور عمل کا کوئی قائم مقام بھی نہیں ہے۔
آپ کے اپنے مسائل ہیں خواہ ان کی نوعیت پیشہ ورانہ ہو یا ذاتی ۔بات میاں بیوی کے درمیان اختلافِ رائے کی ہو یا کسی انتظامیہ سے مالی یا کاروباری تنازعات کی، ان مسائل کی خوش اسلوبی سے حل کریں اور ان کے منفی اثرات سے بچے کو محفوظ رکھیں۔ اس لیے کہ اکثر و بیشتر تناؤ اور تلخیوں کے درمیان گھر یا مدرسے کی ساری فضا مکدر ہوکر رہ جاتی ہے اور نزلہ اکثر کمزور پر ہی گرتا ہے۔ اس سے بچے کی ذہنی صلاحیت اور جسمانی نشوونما پر برا اثر پڑتا ہے اور دیکھا یہی گیا ہے کہ انتظامیہ اور اساتذہ، حکومت اور ٹیچر یونین کے ٹکراؤ سے متاثر بھی طلبہ ہی ہوتے ہیں۔
اللہ تعالیٰ کی ساری ہی مخلوقات کی تخلیق اور ربوبیت میں محبت نہ صرف ایک مشترک عنصر کی شکل میں موجود ہے بلکہ یہ جذبہ غالب اور نمایاں بھی ہے اس کی بے پایاں محبت و شفقت سے نہ وقت کا کوئی لمحہ خالی ہے اور نہ کائنات کا کوئی ذرہ، تو پھر کیا یہ انسانی تخلیق کا تسلسل اور قدرت کی صناعی کا عظیم شاہکار (بچہ) قابل نفرت اور ملامت زدہ ہوکر رہ گیا ؟
اس کی کئی وجوہات میں سے ایک وجہ یہ بھی ہے کہ آپ نے اسے عزت نفس کی تعلیم نہیںدی بلکہ ایک قدم اور آگے بڑھ کر خود اس کی عزت نفس کو مجروح کیا۔ عزت صرف بڑوں ہی کی میراث نہیں بلکہ بچوں کا بھی اس پر برابر کا حق ہے۔ لیکن مشاہدہ یہی ہے کہ کبھی جھڑک کر، کبھی اس کے اپنے ہی ساتھیوں کے سامنے ڈانٹ کر کبھی چھوٹے بھائیوں کا بہنوں سے تقابل کرکے اس سے کام کم لیا جاتا ہے اور ذلیل زیادہ کیا جاتا ہے۔ یہ نہ ہی افسانہ ہے اور نہ ہی کوئی من گھڑت روداد۔ استثنائی صورتوں کو چھوڑ کر آج کا بچہ تعلیم و تربیت اور قابلِ نفرت رویوں کا شکار ہوکر رہ گیا۔ اور اس سلوک کا المناک پہلو وہ صدمہ ہے جو بچے کے دل و دماغ کو پہنچتا ہے۔ ایسے ماحول کے پروردہ بچے جوان ہوکر ناکارہ اور نااہل ثابت ہوتے ہیں۔ احساسِ کمتری، محبت سے محرومی اور معاشرے سے نفرت کا زہر جب رگ و پے میں سرایت کرجاتا ہے تو وہ انتقام لیتا ہے۔ اپنے آپ سے، اپنے معاشرے سے اور ان نفرتوں اور وسوسوں سمیت لوٹا دیتا ہے جس کی وہ بچپن سے عکاسی کی راہ دیکھ رہا تھا۔ بچہ تھا محسوس کرسکتا تھا، سہ گیا اس لیے کہ اظہارِ ذات اور ردعمل کا یارا نہ تھا اور آج اس کی ذات نے اظہار کے سارے بند توڑ دیے اور اس میں سب کچھ بہہ گیا کسی کا بچپن، کسی کی جوانی، کسی کا بڑھاپا، کسی کی تمنائیں اور آرزوئیں اور اس کا تو سب کچھ!!!
اس وقت کے آنے سے پہلے بچے کی تعلیم و تربیت اس کے تئیں اپنے برتاؤ میں نفرت کے بجائے محبت کو ہتھیار (Tools) کے طور پر استعمال کریں۔ نفرت سماج کا ناسور ہے، نفرت نفرتوں کو، اور ملامت ملامتوں کو جنم دیتی ہے۔ محبت ایک انمول شئے ہے۔ تبلیغ، تعلیم اور تربیت میں یہ تریاق کا حکم رکھتی ہے۔ لہٰذا بچے کو کسی وقت بھی اور کسی قیمت پر بھی محبت سے محروم نہ رکھیں۔
—جبر سے شخصیت کی فطری اٹھان پر کاری ضرب لگتی ہے، اور بچے کے دل میں شرم اور ناراضگی کا جذبہ پیدا ہوجاتا ہے۔ اسی طرح مذہبی تعلیم میں اگر سختی روا رکھی جائے اور بچے کی ذرا سی کوتاہی یا لغزش کو مذہبی توہین قرار دے کر سختی برتی جائے تو اس کے برعکس نتائج سامنے آتے ہیں۔ جبر کے تجربات خواہ اُن کا مرکز گھر، مدرسہ یا معاشرہ ہی کیوں نہ ہو، شخصیت کو مسخ کرنے یا مزید بگاڑنے کا ہی سبب بنتے ہیں اور بہت سی خداداد صلاحیتیں اور فطری اٹھان جبر کے ردعمل میں پیدا ہونے والی تلخی کے زیرِ اثر دب کر رہ جاتی ہیں۔
—یہ ہم سب کی مشترکہ ذمہ داری ہے کہ بچوں کو خود اعتمادی سے آشنا کیا جائے اور ان کی بھر پور حوصلہ افزائی کی جائے۔ بہت سے بچوں کی ہونہار صلاحیتیں محض حوصلہ افزائی کے فقدان کے باعث دب کر رہ جاتی ہیں۔ بعض شرارتوں سے ہلکی سی چشم پوشی اور بعض خوبیوں کی بھر پور ہمت افزائی بچے میں غیر معمولی خود اعتمادی اور خود شناسائی کا داعیہ پیدا کرتی ہیں۔
—بچوں کو بات بات پر جھڑکنا، ان کی گفتگو کو درمیان میں کاٹ دینا (جو کہ کسی بھی مہذب سماج میں معیوب عمل سمجھا جاتا ہے) بار بار منہ بند رکھنے کی تاکید کرنا اور ’’ابھی تم بچے ہو زیادہ بک بک نہ کرو‘‘، کی ہدایت کرتے ہوئے ڈانٹ دینا۔اگر یہ اور اس طرح کا طرزِ عمل کوئی ہم سے روا رکھے تو کیا ہماری عزتِ نفس اور اَنا اس کو گوارا کرے گی؟ اگرنہیں تو پھر ہمیں بچوں کے حق میں یہ جواز کیوں اور کیسے حاصل ہوگیا؟ آج بیرحمئی حیوانات کے لیے قانون نہ صرف موجود ہے بلکہ اس کے نفاذ کی خبریں بھی آئے دن اخبارات کی زینت بنتی ہیں لیکن اس ترقی یافتہ معاشرہ میں اولاد سے ناروا سلوک کرنے والے والدین اور بچوں پر زیادتی (جسمانی ہو یا روحانی) کرنے والوں کے لیے بنائے گئے قوانین محض کاغذ کی زینت ہیں۔ والدین کے اِس برتاؤ کو اساتذہ کی مار کو بچوں کی تربیت کے تناظر میں ایک حق کے طور پر دیکھا جاتا ہے اور اسے اُن کی ایک ناگزیر ذمہ داری سمجھا جاتا ہے جو کہ ایک غلط فہمی ہے جس کا ازالہ ضروری ہے۔
—بچے کے لیے ہلکی سی جسمانی سزا اور صبر و تحمل کے ساتھ کی جانے والی معمولی سی سرزنش وہ بھی اُس وقت جب کہ شرارت بدتمیزی کے حدود چھولے اور افہام و تفہیم کے نسخے کارگر نہ ہوں تو یہ سزا اور سرزنش بچے کی اصلاح و تربیت کے لیے کافی ہوتی ہے۔ اس کے لیے سزا دینے والے اور سرزنش کرنے والے والدین، اساتذہ اور سرپرستوں کا اخلاقی رعب اور اثر بھی ضروری ہے ورنہ سزا اصلاح کے بجائے بگاڑ اور تعمیر کے بجائے تخریب کا باعث ہوگی اور اس کے تواتر سے وہ مرحلہ بھی آسکتا ہے کہ جب سزا اورمار کا خوف بچے کے دل سے دور ہوجائے گا اور ہٹ دھرمی و ضد کی کیفیت کے ساتھ بغاوت اور انتقام کے رجحانات پیدا ہوں گے۔ یہی وہ نازک موڑ ہے جہاں والدین، اساتذہ اور بچے کی اصلاح کے لیے فکر مند بزرگوں میں تھکن کے آثار نمایاں ہونے لگتے ہیں۔اصلاح حال کی ناکامی کااعتراف ہونے لگتا ہے، اعصاب پر شکست خوردگی کا احساس چھا جاتا ہے، بچے کے مستقبل سے مایوسی کی کیفیت پیدا ہونے لگتی ہے۔ بعینہٖ اسی مقام پر اوراسی موڑ پر دوسری جانب بچہ ہٹ دھرمی و ضد کی کیفیت سے سرشار، بغاوت اور انتقام کے رجحانات سے لیس اپنی دانست میں ظلم و زیادتی کے سارے بندھنوں کو توڑنے اور ساری کثافتوں کو بہا لے جانے کے لیے تیار کھڑا ہے۔ اگر ہماری دلی آرزو ہے کہ یہ نازک موڑ کبھی نہ آئے اور ہماری نئی نسل اپنے عہد میں باعزت اور پُر وقار زندگی گزارے،اپنی خودی اور اپنے خدا کو پہچانے اور صحیح معنوں میں ہماری آنکھوں کی ٹھنڈک بنے تو آئیے اس کم زور کڑی کو ہم سہارا دیں، اسے اپنے ہی ہاتھوں سے احساس کمتری کے دلدل میں نہ دھکیلیں۔ ورنہ بقول ماہر القادری مرحوم ؎
جس کشتی کے پتواروں کو خود ملاحوں نے توڑا ہو
اس کشتی کے ہمدردوں کو پھر شکوئہ طوفاں کیا ہوگا
azeezmih@yahoo.com
——

مزید

حالیہ شمارے

ماہنامہ حجاب اسلامی ستمبر 2024

شمارہ پڑھیں

ماہنامہ حجاب اسلامی شمارہ ستمبر 2023

شمارہ پڑھیں