بچے گھر کی رونق اور والدین کی آنکھوں کی ٹھنڈک ہوتے ہیں۔ حضور ﷺ نے بچوں کو جنت کا پھول کہا ہے۔ آپ خود بھی بچوں سے بے حد پیار کرتے تھے اور دوسروں کو بھی یہی تلقین کرتے تھے۔ لیکن یہی بچے جب غلط صحبت کا شکار ہوجاتے ہیں اور غلط راستوں پر چل نکلتے ہیں تو پھر والدین کی آنکھوں کی ٹھنڈک اور گھر کی رونق کے بجائے گھر کو جہنم بنادیتے ہیں۔ اگر بچوں کو پسندیدہ عادات و اطوار اور اچھے اخلاق کا پابند بنانے کی کوشش نہ کی گئی اور ان پر نظر نہ رکھی گئی تو بچے اپنے تجربات اور دوسروں کی تقلید کرکے اپنی عادتیں بگاڑ لیتے ہیں۔ اس کے بعد ان کی اصلاح کرنا بڑا ہی مشکل کام ہوتا ہے۔ ایسی صورت میں قوی اندیشہ ہے کہ بجائے باکردار و بااخلاق انسان بننے کے وہ ناپسندیدہ عادات و اطوار کو اپنا کر اپنی سیرت و شخصیت کو تباہ اور گھر اور خاندان کی عزت و شہرت کو داغدار کردیں گے۔
ان کے اندر بگاڑ کی ابتداء عام طور پر مندرجہ ذیل اسباب میں سے کسی ایک یا چند سے ہوتی ہے:
(۱) والدین یا اپنے بڑوں کا غلط نمونہ بچوں کی شخصیت پر برا اثر ڈالتا ہے۔ بچے اپنے ماحول ہی کی پیداوار ہوتے ہیں۔ اپنے چاروں طرف لوگوں کو جو کچھ کرتے دیکھتے ہیں وہی کچھ شعوری یا غیر شعوری طور پر اپنانے کی کوشش کرتے ہیں۔ جب گھر کا ماحول ہی پراگندہ ہوگا اور گھر والے مختلف برائیوں کا شکار ہوں گے تو لازماً اس کا برا اثر بچوں پر پڑے گا۔
(۲) والدین یا بڑوں کے درمیان تعلقات کی ناخوشگواری کی کیفیت بچوں کی ذہنی صحت کے لیے انتہائی مضر ہے۔ والدین یا گھر کے دوسرے افراد کے درمیان چپقلش بھی بچوں کے درمیان بگاڑ کا سبب بن جاتی ہے۔ اور آپس میں لڑنا جھگڑنا اچھے اور پُرسکون گھر کو جہنم بنا دیتا ہے۔ جو بچے ان گھروں میں پلتے بڑھتے ہیں وہ طرح طرح کی ذہنی اور اخلاقی برائیوں میں مبتلا ہوجاتے ہیں۔
(۳) بچوں کے بگاڑ کا ایک اہم سبب ان کے ساتھ کیا جانے والا ناروا سلوک بھی ہے خواہ وہ والدین کی جانب سے ہو یا اساتذہ کی جانب سے، گھر کے افراد کی جانب سے ہو یا ہم جولیوں کے ذریعہ۔ مثلاً نفرت و تحقیر، تمسخر، باربار مارپیٹ، ڈانٹ پھٹکار اور شک وغیرہ۔
(۴) احساس کمتری خواہ ذہنی یا جسمانی کمزوری یا نقص کے باعث ہو یا اخلاقی گراوٹ کی وجہ سے انتہائی خطرناک ہوتا ہے۔ بعض کوتاہیوں، کمزوریوں اور جسمانی نقائص کی وجہ سے جب بچے کو کمزور اور ذلیل سمجھا جاتا ہے تو وہ احساس کمتری کا شکار ہوکر بگڑ جاتا ہے۔
(۵) برے اور بگڑے ہوئے ساتھیوں میں پڑ کر اکثر شریف والدین کے شریف بچے بھی بگڑ جاتے ہیں۔
(۶) تعمیری مشاغل اور دلچسپ مصروفیات کے مناسب مواقع نہ ملنا بھی بگاڑ کا سبب ہوسکتا ہے کیونکہ بچے ہر وقت کچھ نہ کچھ بناتے بگاڑتے رہتے ہیں۔ فرصت کی اوقات کے لیے اگر مناسب مصروفیات کا بندوسبت نہ ہو تو بیکاری کی وجہ سے اکثر بگاڑ پیدا ہوجاتا ہے۔
(۷) اہم جبلّتی تقاضوں کی عدم تکمیل جیسے کھانے کھیلنے پہننے اوڑھنے کے ضمن میں ان کی فطری خواہشات کی تکمیل میں بار بار رکاوٹ بھی بگاڑ کا سبب بن جاتی ہے۔
(۸) بڑا بننے اور خود نمائی کا شوق بھی بچوں کو غلط راستے پر لگا دیتے ہیں۔ بچے بہت سی نازیبا حرکات اس لیے کرنے لگتے ہیں کہ وہ اپنے دوستوں اور معاشرے میں نامور کہلائیں۔
(۹) غیر معمولی لاڈ و پیار بھی بگاڑ کا ایک اہم سبب ہے۔ کاہلی، سستی ، نکمّا پن خواہ خود غرضی اور لاپرواہی، لا تعلقی کی بنیاد پر ہو بگاڑ کا سبب بنتی ہے۔
(۱۰) دن بدن بڑھتی ہوئی فحاشی، بے حیائی، بے ہودہ فیشن پرستی، جاسوسی ناول، ٹی وی اخبارات میں عریاں تصاویر اور فحش لٹریچر بھی بچوں کے بگاڑ کا اہم سبب بنتے ہیں۔ تعلیم و تربیت کا مناسب اور صحت بخش ماحول نہ ہونے کی وجہ سے اکثر بگاڑ پیدا ہوجاتا ہے۔
یہ وہ اسباب ہیں جن سے ہماری نئی نسل اور ہمارے ننھے منّے بچے اکثر دوچار ہوجاتے ہیں۔ والدین کی فرماں برداری اساتذہ کا احترام اب تقریباً ختم ہوچکا ہے۔ ذوقِ سلیم اور احساسِ لطیف کی کونپل بہت مشکل سے پھوٹتی ہے۔ رحمدلی اور ہمددری کے جذبات ان کے دلوں سے بالکل ختم ہوچکے ہیں۔ وسیع القلبی، ضبطِ نفس اور رواداری کا کوسوں دور تک پتہ نہیں چلتا۔ مغربی ممالک میں نو نہالوں میں جرائم اپنے شباب پر ہیں۔ نو دس سے چودہ سال تک کے بچے بھی قتل و غارت گری، لوٹ مار، چوری، زنا، اغوا، جیب تراشی اورجنسی بے راہ روی کے شکار ہیں۔ اور اب یہ سارے جرائم ہمارے بچوں میں بھی بڑی ہی برق رفتاری کے ساتھ داخل ہورہے ہیں۔ اگر اس بگاڑ کا فوری علاج نہیں کیا گیا تو ملک و ملت مزید پریشانیوں کا شکار ہوجائیں گے۔
علاج:
بعض لوگ بچوں کے بگاڑ کا علاج سخت جسمانی سزا یا کڑی نگرانی سے کرتے ہیں۔ بلاشبہ یہ حربے بھی بسا اوقات کارگر ثابت ہوتے ہیں کیونکہ جب بچے کو نازیبا حرکات کی سزا بھگتنی پڑتی ہے تو وہ درد اور تکلیف کے تلخ تجربات سے گزرتا ہے۔ اور اپنی حرکت سے باز آجاتا ہے۔ اسی طرح جب بہت دنوں تک کسی غلط کام کا موقعہ نہیں ملتا ہے تو وہ حرکت ان کے دل و دماغ سے محو ہونے لگتی ہے اور دھیرے دھیرے ان کے اندر سے وہ عادت ختم ہوجاتی ہے۔ لیکن کبھی ایسا بھی ہوتا ہے کہ سزا اور کڑی نگرانی کی وجہ سے بچہ اور جری، نڈر اور ضدی ہوجاتا ہے اور سختی کی حدوں کو پھاند کر کھل کر سامنے آجاتا ہے۔ اس لیے ماہرین کا خیال ہے کہ بچوں کو سزا دینے یا سختی کرنے میں احتیاط لازمی ہے تاکہ وہ کسی ردِّ عمل کی کیفیت کا شکار نہ ہو۔ ان دونوں طریقوں پر مکمل بھروسہ نہیں کرنا چاہیے۔
بچوں کے ماہرین اور تجربات بتاتے ہیں کہ بچوں کو مارنا پیٹنا قطعی نقصاندہ ہے۔ بچوں کے اندر بھی بڑوں کی طرح عزتِ نفس ہوتی ہے اور مارنے پیٹنے سے ان کی غیرت کو ٹھیس پہنچتی ہے۔ بچوں میں بگاڑ کے اسباب مختلف طرح کے ہوتے ہیں، اس لیے سب سے پہلے بنیادی اسباب کا پتہ لگانا چاہیے تاکہ اصل سبب کو دور کیا جائے۔ جب تک مرض باقی رہے گا ہر وقت اس کے پنپنے کا اندیشہ رہے گا۔ ذیل میں چند تدابیر درج کی جاتی ہیں۔ اگر انہیں اپنایا جائے تو ہوسکتا ہے کہ بگاڑ دور ہوجائے۔
(۱) بچے کی کوتاہی کے سبب آپ کے اندر جو تبدیلی آئی ہے اس کی اصلاح کیجیے۔ بچہ آپ کی محبت کا بھوکا ہے۔ اسے غیر مشروط محبت دیں یعنی اس کی ذات سے محبت کریںنہ کہ اس کی صفات سے۔ اپنے قول و فعل و برتاؤ سے اپنی محبت کا یقین دلائیں انشاء اللہ وہ آپ کو مایوس نہیں کرے گا۔
(۲) دلچسپی، عمر اور صلاحیت کے مطابق تعمیری مشاغل میں اور گھر کی ذمہ داری میں حصہ دیجیے۔
(۳) کوتاہی کرنے پر سب کے سامنے نہ ڈانٹ کر تنہائی میں دلسوزی سے سمجھائیے دوسروں کے سامنے ڈانٹنے سے گریز کیجیے ہمدردی شفقت و محبت سے کوتاہی پر قابو پانے کی کوشش کیجیے۔
(۴) بہت زیادہ امید نہ لگائیں حتی الامکان کچھ جیب خرچ دیجیے کیونکہ بچے نادان ہوتے ہیں۔ اور بہت سی غلط حرکتیں خواہشات کی تکمیل کے لیے کر بیٹھتے ہیں۔
(۵) کھیلنے اور دوستوں سے ملنے کا موقع دیں، البتہ دوستوں کو دیکھتے رہیں کہ وہ کیسے ہیں۔ اور اپنے برتاؤ میں توازن قائم کریں تاکہ بچہ آپ کے مزاج کو بآسانی سمجھ سکے۔
(۶) بچہ کو اعتماد میںلیں اور اس پر بھی اعتماد کریں۔ دلچسپ اور سبق آموز کہانیاں سنائیں اچھائیوں اور دوسروں کی مدد کرنے کا جذبہ پیدا کریں اور برائیوں سے نفرت دلائیں۔ بحالت مجبوری جگہ کو تبدیل کریں ایسی جگہ رکھیں جہاں اس کی برائیوں سے لوگ ناآشنا ہوں اور اس کی شخصیت کا احترام کریں۔ امید ہے کہ وہ اس نئے ماحول میں اپنی کھوئی ہوئی شخصیت کا مقام حاصل کرلے گا۔ اگر بچہ کوتاہی کرتا ہے تو پیارومحبت سے سمجھائیں۔ اس سے بچنے کی کوشش نہ کریں۔ ناراضگی کی وجہ سے اس سے قطع کلام نہ کریں بلکہ اس سے بات کریں اور سمجھائیں۔ ان باتوں پر عمل کیا جائے تو ممکن ہے کہ سرکش سے سرکش بچہ بھی سدھر جائے اور اپنے کھوئے ہوئے وقار کو دوبارہ حاصل کرلے۔