بچوں میں حیا کا تصور پیدا کرنا

نکہت حسین

بچوں کی تربیت کا کام والدین کی اصل ذمہ داری ہے۔ قرآن میں ارشاد ہے کہ:
یایہا الذین آمنوا قوا انفسکم و اہلیکم نارا۔ (التحریم ۶۶:۶)
’’اے ایمان والو! بچاؤ اپنے آپ کو اور اپنے اہل وعیال کو (جہنم کی) آگ سے۔‘‘
بچوں سے متعلق منصوبے بنانا اور ان کے مستقبل کے لیے تگ و دو کرنا ایک فطری عمل ہے۔ ہر ماں باپ کی خواہش ہوتی ہے کہ ان کے بچے کامیابی و کامرانی کے ساتھ نمایاں مقام حاصل کریں۔ تاہم صرف دنیاوی کامیابی کا تصور اس کوشش، جدوجہد اور ساری مساعی کو اس فانی دنیا تک محدود کردیتا ہے۔ جب کہ دنیا کی کامیابی و کامرانی بھی غیر یقینی ہوتی ہے۔
کامیابی کا یہ تصور جو قرآن میں جا بجا موجود ہے تربیت اولاد کا ایک اہم جزو ہے۔ عصرِ حاضر میں جب طاغوتی قوتوں نے ہر طرف امتِ مسلمہ کے لیے فتنہ و فساد برپا کررکھا ہے وہاں نسلِ نو کی اسلامی نہج پر تربیت ایک ایسی اہم ذمہ داری ہے جس کا احساس ہنگامی بنیادوں پر کرنا ضروری ہے۔ آج اس عمر کو کھیل کود کے دن کہہ کر ضائع کرنے کی ترغیب دی جاتی ہے اور یوں امت مسلمہ کا ایک گراں قدر سرمایہ اس مادی دنیا کی بھینٹ چڑھ جاتا ہے جس کا حاصل سوائے خسارے کے کچھ نہیں ہے۔
ابتدائی عمر اور بچے کی تربیت
بدقسمتی سے جس قدر ابتدائی عمر کو تربیتی حوالے سے اہمیت حاصل ہے اسی قدر اس عمر کو نظر انداز کیا جاتا ہے۔ جدید تحقیق کے مطابق بچوں کی شخصیت کی تعمیر کا ۸۰ فیصد ابتدائی چھے سال کی عمر میں مکمل ہوجاتا ہے۔ باقی پوری زندگی اسی چھے سالہ تربیت کے محاسن کا عکس ہوتی ہے۔ اس عمر میں مزاج، عادتیں اور ذوق و شوق کو جس طرف لے جایا جائے گا، اسی طرف بچے کا رجحان ہوجاتا ہے۔ اس عمر میں عادت بنانا آسان بھی ہے اور ضروری بھی۔ اسلام اصلاح کا جو فطری طریقہ بتاتا ہے ، وہ بھی عادت پر ہی منحصر ہے۔ اسلام میں چھوٹے بچوں کی تربیت کے لیے تلقین کے ساتھ ساتھ عادت ڈلوانے کا فطری طریقہ اختیار کرنے کو کہا گیا ہے۔ ابتدائی عمر میں بچے کی سیکھنے کی صلاحیت سب سے زیادہ ہوتی ہے۔ امام غزالی کے مطابق اس عمر کا بچہ ایک پاک و نفیس موتی کی مانند ہوتا ہے، لہٰذا اسے خیر کا عادی بنایا جائے تو وہ اسی میں نشو ونما پائے گا۔ بچہ جب پیدا ہوتا ہے تو فطرتاً سلیم الطبع اور توحید پر پیدا ہوتا ہے۔ قرآن میں ہے کہ اللہ کی اس فطرت کا اتباع کرو جس پر اس نے انسان کو پیدا کیا ہے۔ اللہ کی بنائی ہوئی فطرت میں تبدیلی نہیں۔ (الروم: ۳۰) رسول اکرم ﷺ کا ارشاد ہے کہ ’’ہر بچہ فطرتِ سلیمہ پر پیدا ہوتا ہے پھر اس کے والدین یا اسے یہودی بناتے ہیں یا نصرانی یا مجوسی بناتے ہیں۔‘‘ (مسلم) گویا ماحول بچے کی پاکیزہ فطرت کو پراگندہ کرتا ہے، لہٰذا بچے کے لیے ارد گرد کے افراد اور ماحول دونوں کا اسلامی حوالوں سے پاکیزہ ہونا بہت ضروری ہے۔ کیونکہ شخصیت پر موروثی اثرات سے زیادہ ماحول کی تربیت کا اثر پڑتا ہے۔ کہا جاتا ہے عادتیں صرف ۳۰ فی صد موروثی اور باقی ۷۰ فیصد ماحول سے بنتی ہیں۔
تصورِ حیا
اسلام میں تصورِ حیا شخصیت کا ایک اہم جز ہے اور بنیادی اخلاقی صفت ہے۔ ارشادِ رسولﷺ ہے کہ ’’ہر دین کا ایک اخلاق ہوتا ہے اور ہمارے دین کا ممتاز اخلاق شرم و حیا ہے۔‘‘ بچے کی اخلاقی تربیت کا ایک اہم عنصر تصورِ حیا ہے۔ معاشرے کی مضبوطی ایسے اخلاق و کردار کے لوگوں سے وابستہ ہے، جن کا کردار شرم و حیا کا پیکر ہو۔ جب پورا معاشرہ بے حیائی اور فحش مناظر سے بھرا پڑا ہو، چاروں طرف بے ہودہ ہورڈنگز، فحش رسالوں، اخبارات، پوسٹروں کی بھرمار ہو اور سڑکوں، گھروں، مجالس اور محافل پر شیطانیت کی یلغار ہو، لوگوں کی گفتگو حتیٰ کہ موبائل فون پر بھیجے جانے والے پیغامات تک بھی فحش گوئی کے چنگل میں گرفتار ہوں… ایسے میں بچوں میں تصورِ حیا پیدا کرنا اور ابتدا ہی سے بچوں کے مزاج کا حصہ بنادینا والدین و مربی کا اہم فرض ہے۔ حیا کے تصور کو مزاج کا حصہ بنانے کے لیے ضروری ہے کہ ’احتیاطی تدابیر‘ اور پرہیزگاری کا اصول اپنایا جائے تاکہ بے حیائی کے قریب پائی جانے والی چیزوں سے بھی بچا جاسکے۔ بچوں کو ابتدائی عمر ہی سے حیا کا احساس دیں۔
گفتگو میں حیا
بچہ جب پیارے اور اچھے الفاظ بولتا ہے تو کتنا پیارا لگتا ہے۔ اگر اسے صاف ستھرے اور بھلے الفاظ سکھائے جائیں تو کتنا بھلا معلوم ہوگا۔ لیکن یہی ننھی ننھی زبانیں گالم گلوچ، بے ہودہ گانے، ٹی وی اور فلموں کے لچر مکالموں کو ادا کرنے لگیں تو کتنی نقصان دہ بات ہوگی۔ رفتہ رفتہ یہ الفاظ جو معصومیت اور ناسمجھی میں ادا ہوتے ہیں بچوں کی گفتگو کا حصہ بن جاتے ہیں، اور ان کو ایسی بے ہودہ گفتگو میں لطف آنے لگتا ہے۔ عام طور پر نومولود سے پانچ سال تک کے بچوں کے بارے میں یہ سوچ کر کہ یہ بچے ناسمجھ ہیں ہر طرح کی بات، فحش گوئی، لچر مذاق، اور دوسری بداخلاقیاں بغیر کسی شرم و حیا کے کرنا عار نہیں سمجھا جاتا ہے۔ حالانکہ یہ تمام باتیں ننھے سے ذہن میں بیٹھ جاتی ہیں اور رفتہ رفتہ شخصیت کا حصہ بن جاتی ہیں۔ یوں تصورِ حیا پرجو کاری ضرب پڑتی ہے وہ ابتدا ہی سے بچے کو بے حیائی کی ترغیب دے کر بے باک بننے پر اکساتی ہے۔
زبان کو پاکیزہ رکھنے کے لیے غیر اخلاقی گفتگو، ناشائستہ الفاظ، گالی گلوچ، غیبت و جھوٹ سے بچنا بہت اہم ہے۔ حدیث ہے کہ ’’انسان کوئی بات کرتا ہے اور اسے اتنا معمولی سمجھتا ہے کہ اسے کہنے میں کوئی حرج نظر نہیں آتا مگر درحقیقت وہ بدی ہوتی ہے، جس کے بدلے وہ ۷۰؍ برس کی راہ تک آگ میں گرجائے گا۔ (ترمذی) فضول گوئی کے علاوہ بچوں کو زبان کی آلودگی سے بچانا ہی دراصل زبان کو پاکیزہ بنانا ہے۔ زبان زد عام الفاظ بچہ سیکھتا ہی اپنے ماحول سے ہے۔ گھر کے بڑوں کی زبانوں پر بداخلاقی، بے ہودگی اور فحش گوئی بچے کو اس گندگی سے بے نیاز کردے گی۔ یوں بچہ ایسی ہی زبان کا عادی ہوجائے گا۔
شعور کی عمر آنے پر لڑکوں اور لڑکیوں کو یہ بتانا بھی بہت ضروری ہے کہ خواتین مردوں سے اور مرد خواتین سے میٹھے، پیارے، لوچ دار لہجے میں بات نہ کریں۔ جب بچے اپنے ماں، باپ، یا دیگر رشتہ داروں کو دیکھتے ہیں کہ خواہ مخواہ ہی امی کی آواز بازار میں دکان دار کے ساتھ انتہائی مٹھاس والی ہوجاتی ہے یا ابو جان ضرورتاً بھی کسی خاتون سے بات کرتے وقت بناوٹی تمیز اور شائستگی کی مٹھاس گھول لیتے ہیں، تو عمر و ذہن اس تبدیلیِ لہجہ اور الفاظ کو اپنانا دوسروں کو متوجہ کرنے کے ساتھ ساتھ اخلاق کا حصہ بھی سمجھتا ہے۔ اسی لیے جب کبھی کوئی ایسا موقع آئے تو بچوں کو اس بات تاکید کردی جائے کہ دکان دار کو اپنے مطلب کی چیزنکلوانے کے لیے اٹھلانا اور لاڈ دکھانا کسی طور بھی قابلِ قبول نہیں ہے۔ ڈرائیور، ملازم، دکان دار، اساتذہ سے بات کرنے کا شائستہ طریقہ سکھانا اور مناسب لہجہ جس سے کسی بھی قسم کی دلی بیماری اور بدنیتی کا شائبہ نہ رہے، حیا کا اہم جز ہے جس کی تاکید قرآن میں سورئہ احزاب میں کی گئی ہے: ’’اگر تم اللہ سے ڈرنے والی ہو تو دبی زبان سے بات نہ کیا کرو کہ دل کی خرابی میں مبتلا کوئی شخص لالچ میں پڑجائے، بلکہ صاف سیدھی بات کرو۔‘‘
لباس میں حیا
لباس اللہ کی نعمتوں میں سے ایک نعمت ہے اور حیا کے مظاہر میں سے ایک مظاہرہ لباس سے بھی ہوتا ہے۔ اس ضمن میں چھوٹے بچوں کے ساتھ عام طور پر بے حد لاپروائی اختیار کی جاتی ہے۔ بچوں کے کپڑے تبدیل کرنا، نہلانا، ڈائپر بدلنا جیسے تمام کام بعض اوقات دوسرے لوگوں کی موجودگی میں کیے جاتے ہیں، اس میں بڑوں کے ساتھ ساتھ بچوں کی موجودگی بھی نظر انداز کردی جاتی ہے۔ بعض گھرانوں میں بچوں کو کپڑوں سے بے نیاز کرکے آزادانہ گھومنے پھرنے کی اجازت ہوتی ہے۔ اسی طرح چھوٹے بچوں کو مکمل برہنہ کرکے ایک ساتھ غسل کرنے کو بھی عار نہیں سمجھا جاتا۔ بچیوں کو بچپن میں بغیر آستین اور کھلے گلے کے فراک و قمیص یا ٹانگیں کھلی رکھنے کو ایک عام فعل خیال کیا جاتا ہے۔ فقہا لکھتے ہیں کہ ’’چار سال سے کم عمر کا بچہ چاہے وہ لڑکا ہو یا لڑکی، اس کا جسم ستر کے حکم میں نہیں۔پھر جب وہ چار سال سے زیادہ کا ہوجائے تو اس کا مستور جسم کا ستر اور اس کے ستر بالغ افراد کی طرح ہوگا۔ تاہم بچے کو بچپن ہی سے پردے کا جتنا عادی بنایا جائے اتنا ہی اچھا ہے۔ (اسلام اور تربیتِ اولاد، شیخ عبداللہ ناصح علوان،ص ۷۱۵)
لہٰذا کپڑے تبدیل کرتے وقت ایسی جگہ کا انتخاب کرنا چاہیے، جہاں کوئی نہ دیکھ رہا ہو۔ بعد ازاں جب بچے اپنا لباس خود تبدیل کرنے کے عادی ہوجائیں تو ان کو بھی یہی ہدایت کرنی چاہیے۔ نبی کریم ﷺ نے فرمایا: ستر دکھانے والے اور دیکھنے والے کو اللہ اپنی رحمت سے دور رکھتے ہیں۔‘‘ (شعب الایمان ۶/۲۶۱، سنن بیہقی ۸/۹۹)
روز مرہ زندگی میں حیا
حاکم اور ابوداؤد نبی کریم ﷺ سے روایت کرتے ہیں کہ آپؐ نے ارشاد فرمایا: ’’تمہارے بچے سات سال کے ہوجائیں تو انھیں نماز کا حکم دو اور جب دس سال کے ہوجائیں تو ان کو مارو، اور ان کے بستر علاحدہ کردو۔ اس نص سے یہ نتیجہ نکلتا ہے کہ والدین شرعاً اس بات پر مامور ہیں کہ بچے جب دس سال کے ہوجائیں تو ان کے بستر الگ کردیے جائیں تاکہ ایک ساتھ لیٹنے کی وجہ سے کہیں ایسا نہ ہو کہ بلوغت کی عمر تک پہنچنے پر کبھی شیطان غالب آجائے اور ان کے جذبات کو شیطانی رنگ دے دے۔ اسی طرح خلوت کا ماحول فراہم کرنا جس میں کزن آپس میں بے تکلفانہ ماحول میں موجود ہوں، یا ایسے انداز و اطوار کا خیال نہ کرنا، جس میں نامحرم رشتہ دار بچوں سے زیادہ بے تکلف نہ ہوں، مستقبل کے مفاسد کا راستہ آسان کرتا ہے۔ احتیاط علاج سے بہتر ہے کا اصول اپنایا جائے تو ابتدا ہی سے ایک ایسا مزاج ڈھالا جاسکتا ہے جو اسلامی حدود کی پابندی کرنے والا ہوگا۔ ورنہ ایک خاص عمر میں پہنچ کر زور زبردستی کرنے سے بچے میں بغاوت، چڑچڑاپن پیدا ہوجاتا ہے اور وہ اپنے آپ کو قیدی تصور کرتا ہے۔
بے حیائی کے محرکات
بچے کی نیک صالح تربیت کے لیے اسلام ان تمام محرکات کا بھی قلع قمع کرتا ہے جو جذبات کو مشتعل کرنے اور نفس کو غالب کرنے کا سبب بنتے ہیں۔
ٹیلی ویژن
دورِ حاضر میں بے حیائی کا ایک بڑا محرک ٹیلی ویژن ہے۔ مادیت پرستی، نفسانیت، اور بے مقصد زندگی کی طرف مائل کرنے والا یہ ایک اہم ذریعہ ہے جس کے ابتدائی عمر سے ایسے زہریلے اثرات ہوتے ہیں کہ وہ پوری زندگی کا احاطہ کرلیتے ہیں۔ بچے کا ذہن ابتدائی عمر سے ہی ٹی وی کی سحر انگیزیوں میں اس طرح جکڑ گیا ہوتا ہے کہ اس کے لیے زندگی کا مثالی نمونہ صرف اور صرف ٹی وی میں دکھائی جانے والی زندگی ہوتی ہے۔ گانے بجانے سے رغبت، بے حیائی کے مناظر سے لطف اندوزی، فحش مذاق شخصیت کا حصہ بننے لگتا ہے اور سنجیدگی، متانت، غوروفکر جیسی عادتیں کبھی پروان نہیں چڑھتی ہیں۔ غوروفکر اور تدبر سے خالی اذہان کس طرح اپنے رب کی کبریائی بیان کرسکتے ہیں؟ اسی وجہ سے ایسے بچوں کے لیے اسلام ہمیشہ ان کا احساس کمتری بنا رہتا ہے۔
اس کے علاوہ کارٹون فلمیں انھیں ایک غیر عملی اور خیالی دنیا کے تصور کو ان کے ذہنوں میں پختہ کردیتی ہیں۔
انٹرنیٹ
انٹرنیٹ دورِ حاضر کی اہم ترین ضرورت ہونے کے ساتھ ساتھ سب سے بڑا فتنہ بھی ہے۔ عام طور پر گھروں میں ٹی وی تو کسی نمایاں او رکھلے مقام پر رکھا ہوتا ہے لیکن کمپیوٹر ہمیشہ گھر کے کسی کونے کھدرے اور خلوت کے ماحول میں رکھا جاتا ہے۔ یہ خلوت دراصل شیطان کا ہتھیار ثابت ہوتی ہے۔ کوشش کریں کہ کمپیوٹرگھر کے نمایاں مقام پر رکھیں جہاں ہمہ وقت کسی نہ کسی کی آمد ورفت ہوتی رہے۔ بچوں کے ساتھ اعتماد کا رشتہ قائم کریں اور ان سے کمپیوٹر و انٹرنیٹ پر کی جانے والی سرگرمیوں پر تبادلہ خیال کے ذریعے ایک دوسرے کو آگاہ کریں۔ انٹرنیٹ کے اوقات کار کو متعین کریں، ساتھ ہی ساتھ اس کے استعمال کو کسی اچھی کتاب کے مطالعے کی شرط سے بھی منسلک کردیں تاکہ مطالعے کی عادت بہرصورت برقرار رہے۔ انٹرنیٹ و کمپیوٹر کی سرگرمیوں میں والدین جاسوس بننے کے بجائے دوست بن کر بچوں پر نگاہ رکھیں، تاہم جن امور پر سختی سے نمٹنے کی ضرورت ہو وہاں بے جا نرمی، معاملے کو بگاڑدے گی، اس کا فوری حل بھی کیا جائے اور توجہ بھی دی جائے۔
مخلوط محافل
مخلوط محفل سے مراد ایسی تقاریب یا مہمان داریاں ہیں جہاں مرد و عورت ایک ہی نشست میں گفت و شنید کرتے ہوں، اور ان میں آپس میں بے تکلفی اور بے پردگی کا عام مظاہرہ ہو۔ ایسی محفل بچے کو ابتدا ہی سے بے حیا بنانے میں مدد دیتی ہے۔ خاندان کے جن افراد سے پردے کا حکم قرآن وحدیث کی رو سے موجود ہے اس کا بھر پور اہتمام کرنا، محرم نامحرم کی حدود کا قائم کرنا اور میل ملاقات میں پردے کے اصولوں و ضوابط کا احترام کرنا ضروری ہے۔ کزنز کے نام پر بچوں کو بہن، بھائی بتاکر اس حد تک بے تکلف کردیا جاتا ہے کہ ساری اسلامی حدود پامال ہوتی ہیں۔ ایسے میں بچوں کو اسلامی اخلاقی حدودکا پابند کرنا اور ان کو پردے کی اہمیت، غرض وغایت اور اس کے معاشرتی فوائد سے عقلی طور پر بھی قائل کرنا ضروری ہے تاکہ حجاب و ستر کے ایمانی تقاضے پورے ہوسکیں۔
موسیقی و فحش رسائل سے اجتناب
مطالعے کا شوق ذہنی نشوونما، سنجیدگی، فکر و تدبر کی گہرائی کے لیے ازحد ضروری ہے۔ اس شوق کو پروان چڑھانے کے لیے ضروری ہے کہ بچوں کو ان کی ذہنی سطح کے لحاظ سے کتابیں اور رسائل کا مطالعہ کرنے کو کہا جائے۔ مطالعہ کی عادت ہوجانے کے بعد بچوں کو مطالعے کا ذوق پیدا کرنے کے لیے تربیت دی جائے اور مفید، بامقصد کتابوں کا انتخاب کرنے کو کہا جائے تاکہ مطالعے کا مقصد حاصل ہوسکے اور یہ صرف ایک ذہنی لذت نہ بن جائے۔اکثر بچوں میں یہ رجحان پیدا ہوجاتا ہے کہ وہ بغیر کسی رہنمائی کے مطالعے کا شوق اختیار تو کرلیتے ہیں، تاہم بعد ازاں یہ شوق انتہائی گھٹیا ذوق کے مظاہر میں تبدیل ہوجاتا ہے۔ فحش رسائل، بے مقصد کتابیں اور لایعنی قصے کہانیاں جن میں اخلاق سوز باتیں بھری ہوتی ہیں، ان سے ذہنوں کو پراگندہ کیا جارہا ہوتا ہے اور ساری شخصیت اسی گندگی کے ارد گرد گھومتی رہتی ہے۔
اچھی صحبت
اچھے دوستوں کا انتخاب کرنا اور ان کی صحبت اختیار کرنا اپنے آپ کو درست رکھنے کاایک اہم ذریعہ ہے۔ دوستوں کا اثر انسان کی شخصیت پر ضرور پڑتا ہے۔ اسی لیے حدیث میں دوستوں کا انتخاب کرنے کے سلسلے میں بھی ہدایات ہیں کہ ’’انسان اپنے دوست کے دین پر ہوتا ہے۔‘‘ اچھی صحبت کی اجتماعیت ہی وہ بنیاد ہے جس کو اختیار کرنے کی دین اسلام نے تاکید کی ہے۔ بچوں کو اچھے دوست بنانے کی ترغیب دیں ان کے سامنے اچھے دوست کون سے ہوتے ہیں، ان کا کردار کیسا ہونا چاہیے اور وہ کیا کرتے ہیں کی تفصیل بتائیں کہ وہ اپنی پسند کو اسلامی معیار کے مطابق بنائیں اور جو دوست بن چکے ہیں ان کا جائزہ بھی لیں۔ والدین اس ضمن میں بچوں کے دوستوں سے میل ملاقات، ان کے گھروں میں آنا جانا ضرور رکھیں تاکہ دوستوں کے گھر کے ماحول اور ان کی عادت و خصلت سے واقفیت رہے۔ دوستوں کو اپنے گھر میں بھی جمع ہونے کا موقع دیں اور ان سے دوستانہ رویہ اپنائیں تاکہ دوستوں کی اخلاقی حالت بھی درست رہے اور آپ کے بچے کا بھی بھلا ہو۔
مفید مشغلے اور دلچسپ سرگرمیاں
کہتے ہیںکہ فارغ دماغ شیطان کا گھر ہوتا ہے۔ جب کرنے کو کوئی مفید کام نہ ہو تو انسان اپنی توانائیاں بے کار کاموں میں صرف کرکے اپنی صلاحیتوں کو ضائع کرتا ہے۔ بچوں کو فارغ اوقات میں دل چسپ اور مفید سرگرمیوں کی طرف مائل کریں اور سہولیات فراہم کریں۔ باغبانی، کہانی لکھنا، مختلف مقامات کی تصاویر جمع کرکے البم تیار کرنا، اہم تاریخوں کے اخبارات کا ریکارڈ رکھنا، کسی خاص موضوع پر تحریریں جمع کرنا، پینٹنگ کرنا، ٹکٹ جمع کرنا، بیت بازی کا مقابلہ کرنا، تقریریں کرنا، بچوں کا مشاعرہ منعقد کرنا، احادیث اور آیات سنانا، کہانی سنانے کا مقابلہ کروانا، صاف ستھرے لطیفے سنانا مفید مشغلے ہیں۔ لڑکیوں کو مختلف ہنر جس میں سلائی کڑھائی، بنائی وغیرہ سکھانا تاکہ وہ ان کی اگلی زندگی میں بھی کام آئے۔ غرض یہ کہ بچوں کو بہت سی ایسی سرگرمیوں کے ذریعے وقت کا استعمال سکھایا جاسکتا ہے کہ جس سے وہ ٹی وی، کارٹون اور فلموں سے دور رہیں۔ اس طرح بچوں کو ذہنی نشو ونما بھی ہوتی ہے اور ان کا ذوق بھی نکھرتا ہے۔ جسمانی سرگرمیوں کا انتخاب بھی اسی لحاظ سے موسم، جگہ اور جنس کو دیکھتے ہوئے کیا جاسکتا ہے۔ لڑکوں کو خاص طور پر کراٹے، تیراکی، گھڑ سواری کے مواقع ضرور دیے جائیں۔
بچوں سے حقیقی تعلق
مندرجہ بالا امور ایسے ہیں کہ اگر وہ اختیار کرلیے جائیں تو بھی اگر والدین کا اپنے بچوں کے ساتھ ربط دوستانہ نہیں ہے تو یہ ساری کوششیں رائیگاں چلی جائیں گی۔ والدین کی کوشش یہ ہوتی ہے کہ تربیت کے سارے کام کوئی دوسرا انجام دے اور وہ بالکل فارغ ہوجائیں۔ ایسے میں اگر بچہ اللہ کی رحمت سے نیک و صالح ہوگیا تو اس کو تمغہ بھی والدین کے سینے پر ہی سج جاتا ہے، اور بدقسمتی سے معاملہ اس کے برعکس ہوگیا تو والدین روتے رہتے ہیں کہ ہم نے تو بڑی کوششیں کی تھیں، لیکن ہائے ہماری قسمت!
——

مزید

حالیہ شمارے

ماہنامہ حجاب اسلامی شمارہ ستمبر 2023

شمارہ پڑھیں

ماہنامہ حجاب اسلامی شمارہ اگست 2023

شمارہ پڑھیں