آج جذباتی بیماریوں کو سمجھنے کے لیے بہت سارے نظریات پائے جاتے ہیں۔ ہم ان کو تین گروپوں میں تقسیم کر سکتے ہیں:
ماحولیاتی نظریہ
اس نظریے کے مطابق ذہنی بیماری کا سبب کوئی ایسا واقعہ ہوتا ہے جو کبھی ذہنی دباؤ کا سبب بنا ہو۔ یوں بیماری کا دباؤ سے بلا واسطہ رابطہ بنتا ہے۔ ایک عام آدمی بڑی آسانی سے یہ بات سمجھ جاتا ہے کہ بچے کے رونے کی وجہ ڈانٹ ہے یا پڑوسی کی پریشانی کا سب اس کا نوکری سے نکل جانا ہے۔ سو ایک عام آدمی اس نظریے پر یقین رکھتا ہے اور اس قسم کے جملے کہ ’’اس نے مجھے پاگل کر دیا‘‘ یا ’’فلم اتنی مزاحیہ ہے کہ بے ساختہ ہنسی نکلی جاتی ہے۔‘‘ اس بات کا ثبوت ہیں کہ روز مرہ کے واقعات کا ہمارے جذبات کے ساتھ بڑا سیدھا سیدھا رشتہ بنتا ہے۔
ایک عام آدمی کے خیال میں کسی طبعی واقعہ کے اثرات کسی نفسیاتی حادثہ کے اثرات سے مختلف نہیں ہوتے اور اس کے مطابق اگر یز چاقو جسمانی درد کا باعث بن سکتا ہے تو ایک تیز اور کاٹ دار جملہ جذباتی طور پر زخم کیوں نہیں لگا سکتا۔
لیکن اس نظریے سے یہ واضح نہیں ہوتا کہ کوئی واقعہ ایک دن تو رلاتا ہے لیکن ضروری نہیں کہ اگلے دن بھی رلائے۔ یا ایک ہی واقعہ کسی ایک آدمی کو خاموش کرا دیتا ہے اور کسی اور آدمی پر کسی اور قسم کے اثر چھوڑتا ہے۔ اس نظریے کے مطابق جذباتی تناؤ سے نکلنے کے لیے اس کے سبب پر حملہ آور ہونا ضروری ہے او رعام طور پر ایسا ہی ہوتا ہے کہ جزباتی تناؤ کی ممکنہ وجہ کو ختم کردینے سے تناؤ بھی ختم ہو جاتا ہے۔ لیکن یہ ضروری نہیں کہ سبب کا خاتمہ ایک بار پیدا ہوجانے والے شدید جذباتی ردعمل کو مکمل طور پر ختم کردے۔ مثلاً اگر کسی بچے کے ذہن میں جو ڈوبتے ڈوبتے بچا ہو پانی کا خوف بیٹھ گیا ہے تو شاید ہم اسے کسی صحرا میں لے جاکر سکون پہنچا سکتے ہیں لیکن یہ خدشہ برابر قائم رہے گا کہ اس کے ہاں ایک اور قسم کا خوف پیدا نہ ہوجائے یا کسی جھیل وگیرہ کو دیکھنے پر اس کے ہاں دوبارہ وہ خوف پیدا نہ ہوجائے۔
اس نظریے کو ماننے والے عملی طور پر اس بات پر مکمل یقین رکھتے ہیں کہ وجہ کوئی بھی کیوں نہ ہو جذباتی تناؤ کو کم کرنے کے لیے اس کو ختم کرنا ضروری ہے۔ بچہ اسی صورت میں بہتر محسوس کرے گا جب اس کا دوست ناراضگی ختم کردے گا یا جب باپ کے سر سے قرض اتر جائے گا تو وہ پریشان ہونا بند کردے گا۔
مختصر یہ کہ جذباتی تکالیف کا سبب ہمارے مسائل ہیں اور انہیں ختم کیے بغیر چین نہیں پایا جاسکتا۔
ذہنی عارضوں کے بارے میں سب سے عام پایا جانے والا نظریہ یہ ہے کہ بچے کے لاشعور میںپائے جانے والے ان جذباتی تجربات کا سراغ لگایا جائے جب سے وہ گزرا ہے اور یوں بھولے ہوئے ماضی کو شعور کی سطح پر لایا جائے تاکہ وہ اسے حقیقت کی روشنی میں دیکھ سکے۔ اگر یہ خوف شعوری سطح پر نہ آئیں تو بچے کے لاشعور میںیہ کسی آتشیں مواد کی مانند ہمیشہ زندہ رہیں گے۔ ہوسکتا ہے کہ وہ اپنے باپ سے حسد یا نفرت کرتا ہو اور ڈرتا ہو کہ ان گندے خیالات کی وجہ سے اسے سزا ملے گی لیکن وہ ان احساسات کی حقیقت کو ماننے سے انکاری ہوگا۔ اس نفرت کی وجہ سے ذہنی طور پہ اپنے آپ کو مجرم تصور کرتے ہوئے اپنی ساری عیاری کی سزا کا خواہش مند ہوسکتا ہے اور کیوں کہ شعوری طور پر وہ اپنی اس نفرت سے واقف نہیں اس لیے ہوسکتا ہے کہ اس کے ساتھ پیش آنے والے بے سر و پا حادثات اس کے لیے اپنے آپ کو سزا دینے کا ہی طریقہ ہوں۔
اس نظریے کے مطابق عارضے کا سبب ماحول نہیں بلکہ بچے کے اپنے لاشعوری میں پائے جانے والے احساسات ہیں اور اس صورت میں عارضے سے چھٹکارا حاصل کرنے کا طریقہ یہ ہے کہ اس کے احساسات کو سمجھا جائے اور اس فرد کے ساتھ دوبارہ رہا جائے جو اسے اس کی بے ضرر خواہشات پر سزا نہیں دے گا۔
ایک اچھا ماہر نفسیات ایسی صورت میں بچے کی حوصلہ افزائی کرے گا کہ وہ اپنے ذاتی احساسات کا اظہار کرے یا وہ کھیل ہی کھیل میں اس سے اظہا رکروائے گا۔ یوں اس حوصلہ افزائی کی وجہ سے بچہ اپنے دبائے ہوئے جذبات کو خود بخود سامنے لائے گا اور اپنے لاشعور میں پائی جانے والی خواہشات کو آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر دیکھے گا۔ ماہر نفسیات کے لیے ضروری ہے کہ وہ بچے کے اقرار کے بعد اس سے پیارے پیش آئے۔ جب بچہ یہ دیکھے گا کہ ان خیالات کے اظہار پر اسے کوئی سزا یا تکلیف نہیں ملی تو وہ اطمینان اور جذباتی سکون محسوس کرے گا۔
عقلی جذباتی نظریہ
اس نظریے کے مطابق ذہنی تکلیف کا سبب ہمارے مسائل یا لاشعور میں پائے جانے والے احساسات نہیں بلکہ ان کے بارے میں پائے جانے والے مغالطے ہیں۔ جذباتی توازن بحال کرنے کے لیے ضروری ہے کہ بچے کے ان عقلی مغالطوں کا سراغ لگایا جائے اور خود منطقی رویوں کو اپنا کر اسے باور کرایا جائے کہ اس کے خیالات کتنے غیر عقلی ہیں اور آخر میں اس علم کی روشنی میں بچے کے بدلتے ہوئے کردار کی حوصلہ افزائی کی جائے۔ ذہنی خلفشار کو ختم کرنے کا یہی ایک طریقہ ہے۔ اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا کہ بچہ باپ سے نفرت کرتا ہے۔ اس معاملے میں ذہنی طور پر وہ جس تکلیف میں مبتلا رہا ہے اس کی وجہ اس کے ذہن میں پائے جانے والے غلط خیالات ہیں۔ اگر اس کا احساس ہوجائے تو تکلیف ختم ہوجاتی ہے۔
بقول شیکسپیئر: ’’ہمیں اشیاء نہیں بلکہ اشیا کے بارے میں اپنی آراء تکلیف پہنچاتی ہیں۔‘‘
اس سارے عمل کو وضع کرنے کے لیے ایک مثال دیکھئے:
ایک بچہ اپنی ماں سے جھگڑتا ہے کہ اس سے اس کے بھائی کی نسبت زیادہ کام لیا جاتا ہیـ۔ ماحولیاتی نظریے کو ماننے والے بچے کی ذہنی تکلیف کی وضاحت پر قانع رہیں گے۔ جب کہ جذباتی عقلی نظریے کو ماننے والے بچے کو یہ باور کروانے کی کوشش کریں گے کہ وہ بھائی سے نہیں بلکہ شروع بچپن سے ہی اپنے والد سے حسد کرت اہے۔ سو ان کی تمام کوششیں باپ کے بارے میں اس کے حاسدانہ جذبات ختم کرنے پر لگیں گے۔ عقلی جذباتی نظریے کے حامی لوگوں کا مقصد یہ ہوگا کہ بچہ ان باتوں پر غور کرے، جن پر وہ یقین رکھتا ہے۔ تاکہ اپنے غلط نظریے کو پہچان سکے اور دوبارہ ان باتوں پر غصہ نہ کھائے۔
اوپر دی گئی مثال میں بچہ شاید یہ سمجھتا ہے کہ:
(۱) میری ماں میرے بھائی کو مجھ سے زیادہ پیار کرتی ہے۔
(۲) اسے میرے بھائی سے وہی سلوک کرنا چاہیے جو وہ مجھ سے کرتی ہے۔
(۳) بھائی کی طرف داری کرنا زیادتی ہے۔
(۴) اسے یہ سب کچھ نہیں کرنا چاہیے کیوںکہ میں ایسا نہیں چاہتا۔ غور کرنے سے آپ بھی اس نتیجے پر پہنچیں گے کہ آخری یعنی چوتھی بات پاگل پن سے ہٹ کر کچھ نہیں کیوںکہ اس بات کا کیا ثبوت ہے کہ جو وہ چاہتا ہے ٹھیک ہے یقینا اس کا جواب یہ ہوگا کہ اچھی مائیں بیٹوں میں سے کسی کی طرف داری نہیں کرتیں۔ ہم کہہ سکتے ہیں کہ اسے کیا ضرورت ہے کہ وہ اچھی ماں بنے۔ وہ کہہ سکتا ہے کہ ماں کا اپنے بیٹوں کے ساتھ یکساں سلوک ہونا چاہیے۔ ہم اس کے جواب میں پوچھ سکتے ہیں: ’’کیوںَ‘‘ یقیناماں بھی انسان ہے وہ غلطی سے مبرا نہیں ہوسکتی سو عام آدمیوں کی طرح وہ بھی غلطی کرسکتی ہے اور کرے گی۔ علاوہ ازیں وہ نہیں چاہتا کہ اس کی ماں اس کے بھائی کو اس سے بڑھ کے چاہے تو اس کا مطلب یہ کیسے ہوا کہ ماں اس کے نظریے پر عمل بھی کرے۔ وہ جلد ہی جان جائے گا کہ اس کی ماں کوئی بھی رویہ اختیار کرنے کے لیے آزاد ہے۔
اب آئیے تینوں نظریات کو جاننے کے بعد اس کی بنیاد پر بچوں کو درج ذیل باتیں اچھی طرح ذہن نشین کرادیں تاکہ وہ عملی زندگی میں کہیں بھی جذباتی و ذہنی خلفشار اور عدم توازن کا شکار نہ ہوں۔
ہماری خواہش یہ ہوتی ہے کہ ہرکوئی ہم سے پیا رکرے لیکن ضروری نہیں کہ ہر کوئی ہم سے پیار کرے لیکن پیار اس کو باوجود زندہ ہرنے کے لیے ہر کسی کو مناسب تعاون حاصل رہتا ہے۔حقیقت یہ ہے کہ ہمیںہر کسی کی حمایت کی ضرورت نہیں ہوتی ہاں خواہش ضرور ہوتی ہے۔
(۲) یہ خیال کہ انسان کو ہر لحاظ سے مکمل ہونا چاہیے اور ہر میدان میں جس میں بھی وہ کودے اسے کامیاب ہونا چاہیے۔ یہ باتیں انسان میں کامل ہونے کی خواہش پیدا کرتی ہیں، جو تقریبا ناممکن ہے۔ ہم بار بار غلطیاں کرنے اور پھر ان کی اصلاح کرنے سے ہی کامیابی حاصل کرتے ہیں۔
(۳) یہ خیال کہ بعض لوگ عیار اور مکار ہوتے ہیں اور انہیں اس کی شدید سزا ملنی چاہیے … آدمی کا آدمی ہوئے بغیر کوئی چارہ نہیں۔ ایک غیر کامل فانی انسان جو اکثر غیر مکمل طریقے سے پیش آتا ہے کسی جذباتی خلفشار یا جہالت یا کسی ذہنی خرابی سے ایسا کرتا ہے۔ لوگوں کو قابل افسوس رویے پر سرزنش یا سزا دینے سے اکثر اوقات وہ اور زیادہ خراب ہو جاتے ہیں۔ تاریخ اور ہمارا سزاؤں کا نظام اس کی تصدیق کرتے ہیں۔
(۴) یہ خیال کہ آپ کوئی کام جس طرح کرنا چاہتے ہیں، ویسے نہ ہو پایا تو شاید قیامت آجائے گی۔ اس بات پر شدید پریشان رہنا کہ ظالم سماج بہت سی معاشرتی بیماریوں کو ٹھیک نہیں ہونے دیتا۔ حقیقت میں کوئی زندگی کے المیوں پر جتنا زیادہ سوچتا اور پریشان ہوتا ہے زندگی کو اتنا ہی زیادہ رنجیدہ بناتا ہے۔
(۵) یہ خیال کہ انسانی ناخوشی کا سرچشمہ کہیں باہر ہے اور انسان دکھ اور تکلیف پر قطعا قدر نہیں ہے۔ حتمی تجزیہ یہ بات بتاتا ہے کہ بیرونی ماحول ہمیں جسمانی درد تو دے سکتا ہے جذباتی نہیں۔ جذباتی تکلیف ہمارے اپنے اندر سے پھوٹتی ہے جب ہم غیر عملی باتوں پر نہ صرف یقین لے آتے ہیں بلکہ ان پر ردعمل کرنا شروع کردیتے ہیں۔
(۶) یہ خیال کہ اگر کوئی خطرناک یا دہشت ناک واقعہ پیش آیا ہے یا آسکتا ہے تو اس کے بارے میں بہت زیادہ محتاج اور اس کا منتظر رہا جائے۔ لگاتار پریشان رہنے سے کمہی وہنتائج اخذ ہوتے ہیں جن تک غور و خوض اور مطالعہ سے پہنچا جاسکتا ہے۔ حقیقت میں شدید پریشانی سے واقعے کے بارے میں آگاہ نہیں کرتی بلکہ اس کی جانب لاتی ہے۔
(۷) یہ خیال کہ زندگی کی پریشانیوں اور ذمہ داریوں سے پہلو تہی برتنا ان کا سامنا کرنے سے آسان ہے۔ آسان کام کے بعد فوری حاصل ہونے والی مسرت یا سکون کی نسبت کسی سخت کام اور انتظار کے بعد آنے والے پھل کی خوشی کہیں زیادہ ہوتی ہے۔
(۸) یہ خیال کہ آدمی کو کوئی سہارا چاہیے اور یہ کہ اس اعتماد کے لیے اپنے سے طاقت ور ساتھی کی ضرورت ہوتی ہے۔
خود اعتمادی کا اصل احساس اپنے لیے گئے کسی دوسرے کے اعمال سے نہیں بلکہ ان اعمال کی بدولت ہوتا ہے جو ہم دوسروں کے لیے اور اپنے لیے کرتے ہیں۔ کسی کام میں مہارت بھی اسی وقت آتی ہے جب ہم ان کاموں کے لیے دوسروں کا سہارا چھوڑ کو خود کرنے لگیں۔
(۹) یہ خیال کہ کسی شخص کا حال تشکیل دینے میں ماضی بہت اہم کردار سر انجام دیتا ہے اور یہ کہ کسی بات نے کبھی زندگی پر بہت شدید اثر ڈالا ہے تو دوبارہ وہ اسی طرح متاثر کرتے گی۔
اگر کوئی شخص ان غیر عقلی اعتقادات کا تجزیہ شروع کردے جو اس کی موجودگی کے رہ نما ہیں تو وہ اپنی شخصیت کو تبدیل کرسکتا ہے۔ آدمی میں سب کچھ سیکھنے کی صلاحیت پائی جاتی ہے یہاں تک کہ وہ سیکھے ہوئے کو بھلانا بھی سیکھ سکتا ہے۔
(۱۰) یہ خیال کہ آدمی کو کسی دوسرے کی تکالیف اور مسائل پر پریشان ہونا چاہیے۔ لیکن کسی دوسرے شخص کے جذبات اور طرزِ عمل کو بدلنے کے لیے ہم قابل افسوس حد تک کم کردار سر انجام دے سکنے کے اہل ہیں۔ لیکن اپنے جذبات اور طرزِ عمل پر قابو پانے میںہم ضرور کامیاب ہوسکتے ہیں۔ اگرچہ ہم کسی دوسرے شخص کے لیے کچھ کرناچاہتے ہیں اور کچھ کر بھی سکتے ہیں لیکن اس کے باوجود ہمیں کسی دوسرے کے مسائل پر پریشان ہونے کی ضرورت نہیں۔
کسی دوسرے کے مسائل ہمارے پریشان ہونے سے نہیںبلکہ اس کے لیے سنجیدگی سے کچھ کرنے سے کم ہوسکتے ہیں۔
(۱۱) یہ خیال کہ انسانی مشکلات کا کوئی مطلق حل موجود ہے اور نہ مل سکا تو قیامت آجائے گی۔ بہتر یہ ہے کہ مسائل کے جو بھی حل ذہن میں ہوں انہیں بار بار آزمایا جائے تاکہ اس مطلق علاج کی تلاش میں عمر گزار دی جائے۔
سو یہ ایسے توہمات ہیں جن میں ہماری پرورش ہوتی ہے۔ عملی طور پر کسی بھی جذباتی پریشانی کا رشتہ ان میں سے کسی بھی وہم کے ساتھ جوڑا جاسکتا ہے۔ کسی بچے کی جذباتی حالت کے بارے میں اس کی مدد کے لیے کسی بالغ کو بچے کی توجہ اس کے نظریے یا نظریات پر مبذول کروانے کی کوشش کرنی چاہیے اور دلیل کے ذریعے اسے بتانا چاہیے کہ اس کا کوئی خیال غلط کیوں ہے۔ بعض اوقات ایک ہی کوشش میں ایسا کیا جاسکتا ہے اور کبھی اس کے لیے کافی تگ و دو کی ضرورت ہوتی ہے۔ کسی بالغ کو چاہیے کہ بچے کو صاف ستھرے طریقے سے سوچنا سکھائے چاہے کتنی ہی کوشش کیوں نہ کرنی پڑے۔ اگر والدین بچے کے غلط نظریات پر اس کے ساتھ گفتگو کر چکے ہوں تو آئندہ سے بچہ خود بھی ان پر غور و فکر کرے گا۔ اور اگر ایک بار بچے نے ایسا کرنا شروع کردیا تو اس کا ہر قدم مضبوط و مستحکم جذباتی زندگی کی جانب اٹھے گا۔ جب بچہ اپنے جذبات پر قابو پانا سیکھ لے تو اسے سکھایا جاسکتا ہے کہ اس کے کسی مسئلے کو کیسے حل کیا جاسکتا ہے۔ اس مقام پر اسے ایسا کرنے میں زیادہ دقت نہیں ہوگی کیوںکہ اب کوئی خوف، حسد، غصہ یا احساس مایوسی وغیرہ اس کے راستے کا پتھر نہیں بنے گا۔ وہ کسی ایسے مسئلے پر جو وقتی طور پر حل نہ ہوسکا ہو پریشان نہیں ہوگا۔
یہ ایک نیا نظریہ ہے ۔ نیا اس لیے کہ ذہنی توازن قائم رکھنے کے سلسلے میں دلیل پر اعتماد نہیں کیا گیا۔ اس کے باوجود وہ قدیمیونانی حکماء کا ایک تحفہ ہے جو سینکڑوں سال سے نوع انسان کو سمجھتے چلے آرہے ہیں کہ ہمارے جذباتی خلل کا سبب ہماری پریشانی خیالی ہوتی ہے۔
اس نظریے پر یہ اعتراض کیا جاسکتا ہے کہ چھوٹے بچوں کو استدلال سے کیسے سمجھایا جاسکتا ہے۔ یہ بات سچ ہے کہ ایک خاص حد سے آگے استدلال بے کار ہو جاتا ہے۔ بہرحال پانچ سال کے ایک بچے کے ساتھ میری اپنی گفتگو ثمر آور رہی۔لیکن اگر ایسی گفتگو بچے کے پلے نہ پڑ رہی ہو تو حالات میں تبدیلی لانا ضروری ہو جائے گی۔ جیسے دو سال کا بچہ کتے سے خوف کا اظہار نہیں کرسکتا لیکن کتے یا بچے کو منظر سے ہٹانا سود مند ثابت ہوگا۔
(۱۲) یہ خیال کہ دوسروں کے اعمال ہمارے لیے انتہائی اہم ہوتے ہیں اور ہمیں ان کے اندر اپنی پسند کی تبدیلی لانے کی کوشش کرنی چاہیے۔
عام آدمی کے لیے یہ بات سمجھنا خاصہ مشکل ہوتا ہے کہ اگر کسی شخص کو (اور خصوصاً بچے کو) بزور ہوش مندی سے پیش آنے پر مجبور کرنے کی کوشش کی جائے تو وہ ایسی نصیحت کا باغی ہوجائے گا۔ آخر کار لوگ اپنے رویے ویسے ہی رکھیں گے جیسے وہ چاہیں گے۔ سوائے اسی صورت حال کے کہ جہان کوئی بہت بری طرح کسی دوسرے کے اثر میں ہو۔ جیسے قیدی وارڈن یا سنتری کے! لیکن کوئی ماں یا کوئی باپ چاہے وہ لاکھ کہے کہ اسے اپنی اولاد پر ایسا قابو حاصل ہے جھوٹا ہے۔ بچے قیدی نہیں ہوتے اور وہ ایسے سخت گیر والدین پر اپنی مرضی اتنے مختلف طریقوں سے ٹھونسیں گے کہ والدین اشتعال میں آجائیں گے اور ان کے اور بچے کے درمیان شدید جذباتی جنگ شروع ہوجائے گی